Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 جیسے ابو جہل، عتبہ، شیبہ وغیرہ۔ بات ثابت ہونے کا مطلب، اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سے بھر دوں گا (وَلَوْ شِئْنَا لَاٰتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدٰىهَا وَلٰكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّيْ لَاَمْلَئَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ ) 32 ۔ السجدہ :13) شیطان سے بھی خطاب کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا تھا میں جہنم کو تجھ سے اور تیرے پیروکاروں سے بھر دونگا۔ یہ اس وجہ سے نہیں کہ اللہ نے جبرا ان کو ایمان سے محروم رکھا کیونکہ جبر کی صورت میں تو وہ عذاب کے مستحق قرار نہ پاتے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٦] قرآن کریم نے جہاں بھی حق القول کا لفظ استعمال فرمایا تو اس کے مخاطب عموماً وہ لوگ ہوتے ہیں جو یا تو آخرت پر ایمان ہی نہ رکھتے ہوں۔ جیسے کفار مکہ یا ان جیسی دوسری قومیں جو پہلے گزر چکیں یا بعد میں آنے والی ہیں۔ یا پھر وہ لوگ ہوتے ہیں جو آخرت کو مانتے تو ہیں مگر ساتھ ہی انہوں نے کچھ ایسے سستی نجات کے عقیدے گھڑ رکھے ہوتے ہیں کہ آخرت پر ایمان لانے کے اصل مقصد کو فوت کردیتے ہیں۔ جیسے یہود کا یہ عقیدہ کہ انہیں چند دنوں کے سوا جہنم کی آگ چھوئے گی ہی نہیں۔ یا جیسے یہود و نصاریٰ کا یہ عقیدہ کہ وہ اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں۔ اللہ انہیں کیوں عذاب کرے گا ؟ یا مسلمانوں کا یہ عقیدہ کہ سید قوم کی پشت ہی پاک ہوتی ہے۔ وہ جو کام بھی کرتے رہیں وہ پاک ہی رہتی ہے۔ یا یہ عقیدہ کہ فلاں حضرت صاحب کی بیعت کرلی جائے یا دامن پکڑ لیا جائے تو وہ اپنے ساتھ ہی انہیں جنت میں لے جائیں گے۔ پیچھے نہیں رہنے دیں گے یا یہ کہ وہ اللہ سے سفارش کرکے انہیں بخشوا کے چھوڑیں گے وغیرذلک ایسے تمام تر عقیدے فی الحقیقت آخرت کے عقیدہ کی نفی کردیتے ہیں۔- [ ٧] اس جملہ کی تکمیل یوں ہوتی ہے کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ اور جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ یہاں ایمان سے مراد ایمان بالآخرت ہے۔ ورنہ اللہ کی ہستی کو تو کفار مکہ بھی تسلیم کرتے تھے۔ البتہ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے تھے اور اسی وجہ سے آپ کی رسالت کا بھی انکار کردیتے تھے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلٰٓي اَكْثَرِهِمْ :” حَقَّ الْقَوْلُ “ (بات ثابت ہوچکی) سے مراد ان پر عذاب کا فیصلہ ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَلَوْ شِئْنَا لَاٰتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدٰىهَا وَلٰكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّيْ لَاَمْلَئَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ ) [ السجدۃ : ١٣ ] ” اور اگر ہم چاہتے تو ہر نفس کو اس کی ہدایت دے دیتے اور لیکن میری طرف سے بات پکی ہوچکی کہ یقیناً میں جہنم کو جنوں اور انسانوں، سب سے ضرور بھروں گا۔ “ یہ ان لوگوں کا ذکر ہے جو پیغمبر کی آمد اور حق واضح ہونے کے بعد بھی اپنے کفر پر اڑے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو ازل ہی میں ان کے بارے میں علم تھا کہ وہ اپنے عناد اور سرکشی کی وجہ سے ایمان نہیں لائیں گے اور اس نے اپنے اس علم کی بنا پر لکھ دیا تھا کہ وہ جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ یہ اس وجہ سے نہیں کہ اللہ نے جبراً انھیں ایمان سے محروم رکھا، کیونکہ جبر کی صورت میں تو وہ عذاب کے مستحق قرار نہ پاتے۔ یہ بات کہ ان کی گمراہی کا باعث خود ان کی ضد اور ان کا عناد ہے، کئی آیات میں بیان ہوئی ہے۔ دیکھیے سورة بقرہ (٢٦، ٢٧) ، زخرف (٣٦، ٣٧) ، صف (٥) ، انعام (١١٠) ، حم السجدہ (٢٥) اور احقاف (١٧، ١٨) اس آیت کی ہم معنی یہ آیت ہے : (اِنَّ الَّذِيْنَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ ۔ وَلَوْ جَاۗءَتْھُمْ كُلُّ اٰيَةٍ حَتّٰى يَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِيْمَ ) [ یونس : ٩٦، ٩٧ ] ” بیشک وہ لوگ جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہوچکی، وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ خواہ ان کے پاس ہر نشانی آجائے، یہاں تک کہ دردناک عذاب دیکھ لیں۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) لقد حق القول علیٰ اکثرہم فہم لا یومنون، انا جعلنا فی اعنا قہم اغلاً الایة، مراد یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے کفر و ایمان اور جنت و دوزخ کے دونوں راستے انسان کے سامنے کردیئے، اور ایمان کی دعوت کے لئے انبیاء اور کتابیں بھی بھیج دیں، پھر انسان کو اتنا اختیار بھی دے دیا کہ وہ اپنے بھلے برے کو پہچان کر کوئی رستہ اختیار کرے۔ جو بدنصیب نہ غور و فکر سے کام لے نہ دلائل قدرت میں غور کرے، نہ انبیاء کی دعوت پر کان دھرے نہ اللہ کی کتاب میں غور و تدبر کرے تو اس نے اپنے اختیار سے جو راہ اختیار کرلی تو حق تعالیٰ .... اسی کے سامان اس کے لئے جمع فرما دیتے ہیں، جو کفر میں لگ گیا پھر اس کے واسطے کفر بڑھانے ہی کے سامان ہوتے رہتے ہیں، یعنی ان میں سے بیشتر لوگوں پر تو ان کے سوء اختیار کی بنا پر یہ قول حق جاری ہوچکا ہے کہ یہ ایمان نہ لائیں گے۔- آگے ان کے حال کی ایک تمثیل بیان فرمائی ہے، کہ ان کی مثال ایسی ہے کہ جس کی گردن میں ایسے طوق ڈال دیئے گئے ہوں گے کہ اس کا چہرہ اور آنکھیں اوپر اٹھ جائیں، نیچے راستہ کی طرف دیکھ ہی نہ سکے۔ تو ظاہر ہے کہ اپنے آپ کو کسی کھڈ میں گرنے سے نہیں بچا سکتا۔- دوسری مثال یہ دی کہ جیسے کسی شخص کے چاروں طرف دیوار حائل کردی گئی ہو وہ اس چار دیواری میں محصور ہو کر باہر کی چیزوں سے بیخبر ہوجاتا ہے، ان کافروں کے گرد بھی ان کی جہالت اور اس پر عناد وہٹ دھرمی نے محاصرہ کرلیا ہے کہ باہر کی حق باتیں ان تک گویا پہنچتی ہی نہیں۔- امام رازی نے فرمایا کہ نظر سے مانع دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک مانع تو ایسا ہوتا ہے کہ خود اپنے وجود کو بھی نہ دیکھ سکے، دوسرا یہ کہ اپنے گرد و پیش کو نہ دیکھ سکے۔ ان کفار کے لئے حق بینی سے دونوں قسم کے مانع موجود تھے، اس لئے پہلی مثال پہلے مانع کی ہے کہ جس کی گردن نیچے کو جھک نہ سکے وہ اپنے وجود کو بھی نہیں دیکھ سکتا اور دوسری مثال دوسرے مانع کی ہے کہ گردو پیش کو نہیں دیکھ سکتا۔ (روح)- جمہور مفسرین نے آیت مذکورہ کو ان کے کفر وعناد کی تمثیل ہی قرار دیا ہے۔ اور بعض حضرات مفسرین نے اس کو بعض روایات کی بنا پر ایک واقعہ کا بیان قرار دیا ہے، کہ ابوجہل اور بعض دوسرے لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنے یا ایذاء پہنچانے کا پختہ عزم کر کے آپ کی طرف بڑھے، مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا، عاجز ہو کر واپس آگئے۔ اسی طرح کے متعدد واقعات کتب تفسیر ابن کثیر، روح المعانی، قرطبی، مظہری وغیرہ میں منقول ہیں، مگر وہ بیشتر روایات ضعیفہ ہیں اس پر مدار آیت کی تفسیر کا نہیں رکھا جاسکتا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلٰٓي اَكْثَرِہِمْ فَہُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ۝ ٧- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

ان مکہ والوں میں سے اکثر پر عذاب کی بات ثابت ہوچکی ہے سو یہ لوگ علم خداوندی کے مطابق ایمان نہیں لائیں گے اور نہ ایمان لانے کا ارادہ ہی کریں گے چناچہ ایسا ہی ہوا اور بدر کے دن یہ ابو جہل وغیرہ سب حالت کفر میں مارے گئے۔- شان نزول : لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلٰٓي اَكْثَرِهِمْ (الخ)- ابو نعیم نے دلائل میں حضرت ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اکرم سجدہ میں اونچی آواز سے قرآن کریم کی تلاوت فرمایا کرتے تھے جس سے بعض قریشیوں کو اذیت پہنچتی تھی۔- تاآنکہ وہ سب آپ کو پکڑنے کے لیے کھڑے ہوئے تھے تو ان کے ہاتھ ان کی گردنوں سے جا ملے اور وہ اندھے ہوگئے کہ کچھ بھی نہ دیکھتے تھے چناچہ وہ سب رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور عض کیا کہ اے محمد ہم آپ کو اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر رحم کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔ چناچہ آپ نے دعا فرمائی یہاں تک کہ ان سے یہ تکلیف دور ہوئی اس پر یس سے لیکر لا یومنون تک یہ آیات نازل ہوئیں۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ ان لوگوں میں سے کوئی بھی ایمان نہیں لایا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧ لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلٰٓی اَکْثَرِہِمْ فَہُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ ” ان کی اکثریت پر ہمارا قول (قانونِ عذاب) سچ ثابت ہوچکا ہے تو اب وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ “- گویا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کا مسلسل انکار کر کے یہ لوگ قانونِ الٰہی کی عذاب سے متعلق ” شق “ کی زد میں آچکے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :5 یہ ان لوگوں کو ذکر ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مقابلے میں ضد اور ہٹ دھرمی سے کام لے رہے تھے اور جنہوں نے طے کر لیا تھا کہ آپ کی بات بہرحال مان کر نہیں دینی ہے ۔ ان کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ فیصلۂ عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں اس لیے یہ ایمان نہیں لاتے اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ نصیحت پر کان نہیں دھرتے اور خدا کی طرف سے پیغمبروں کے ذریعہ اتمام حجت ہو جانے پر بھی انکار اور حق دشمنی کی روش ہی اختیار کیے چلے جاتے ہیں ان پر خود ان کی اپنی شامت اعمال مسلط کر دی جاتی ہے اور پھر انہیں توفیق ایمان نصیب نہیں ہوتی ۔ اسی مضمون کو آگے چل کر اس فقرے میں کھول دیا گیا ہے کہ تم تو اسی شخص کو خبردار کر سکتے ہو جو نصیحت کی پیروی کرے اور بے دیکھے خدائے رحمان سے ڈرے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

2: مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کے بارے میں تقدیر میں جو بات لکھی تھی کہ یہ ایمان نہیں لائیں گے، وہ بات پوری ہورہی ہے ؛ لیکن یہ واضح رہے کہ تقدیر میں لکھا ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ کفر پر مجبور ہوگئے ہیں، کیونکہ تقدیر میں یہ لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ایمان لانے کا موقع بھی دے گا اور اختیار بھی دے گا ؛ لیکن یہ لوگ اپنے اختیار اور اپنی خوشی سے ضد پر اڑے رہیں گے اور ایمان نہیں لائیں گے۔