شب ہجرت اور کفار کے سرخاک ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان بدنصیبوں کا ہدایت تک پہنچنا بہت مشکل بلکہ محال ہے ۔ یہ تو ان لوگوں کی طرح ہیں جن کے ہاتھ گردن پر باندھ دیئے جائیں اور ان کا سر اونچا جا رہا ہو ۔ گردن کے ذکر کے بعد ہاتھ کا ذکر چھوڑ دیا لیکن مراد یہی ہے کہ گردن سے ملا کر ہاتھ باندھ دیئے گئے ہیں اور سر اونچے ہیں اور ایسا ہوتا ہے کہ بولنے میں ایک چیز کا ذکر کر کے دوسری چیز کو جو اسی سے سمجھ لی جاتی ہے اس کا ذکر چھوڑ دیتے ہیں عرب شاعروں کے شعر میں بھی یہ بات موجود ہے ۔ غل کہتے ہی ہیں دونوں ہاتھوں کو گردن تک پہنچا کر گردن کے ساتھ جکڑ بند کر دینے کو ۔ اسی لئے گردن کا ذکر کیا اور ہاتھوں کا ذکر چھوڑ دیا ۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے ان کے ہاتھ ان کی گردنوں سے باندھ دیئے ہیں اس لئے وہ کسی کار خیر کی طرف ہاتھ بڑھا نہیں سکتے ان کے سر اونچے ہیں ان کے ہاتھ ان کے منہ پر ہیں وہ ہر بھلائی کرنے سے قاصر ہیں ، گردنوں کے اس طوق کے ساتھ ہی ان کے آگے دیوار ہے جو حق تسلیم کرنے میں مائع ہے ۔ پیچھے بھی دیوار ہے یعنی حق کو ماننے میں رکاوٹ ہے یعنی حق سے روک ہے ۔ اس وجہ سے تردد میں پڑے ہوتے ہیں حق کے پاس آنہیں سکتے ۔ گمراہیوں میں گھرے ہوئے ہیں ۔ آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں ۔ حق کو دیکھ ہی نہیں سکتے ۔ نہ حق کی طرف راہ پائیں ۔ نہ حق سے فائدہ اٹھائیں ۔ ابن عباس کی قرأت میں فاعشیاناھم عین سے ہے ۔ یہ ایک قسم کی آنکھ کی بیماری ہے جو انسان کو نابینا کر دیتی ہے ۔ پس اسلام و ایمان کے اور ان کے درمیان چو طرفہ رکاوٹ ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ جن پر تیرے رب کا کلمہ حق ہو چکا ہے وہ تو ایمان لانے کے ہی نہیں اگرچہ تو انہیں سب آیتیں بتا دے یہاں تک کہ وہ درد ناک عذابوں کو خود دیکھ لیں ۔ جسے اللہ روک دے وہ کہاں سے روکنا ہٹا سکے ۔ ایک مرتبہ ابو جہل ملعون نے کہا کہ اگر میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو دیکھ لوں گا تو یوں کروں گا اور یوں کروں گا اس پر یہ آیتیں اتریں ۔ لوگ اسے کہتے تھے یہ ہیں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) لیکن اسے آپ دکھائی نہیں دیتے تھے اور پوچھتا تھا کہاں ہیں؟ کہاں ہیں؟ ایک مرتبہ اسی ملعون نے ایک مجمع میں کہا تھا کہ یہ دیکھو کہتا ہے کہ اگر تم اس کی تابعداری کرو گے تو تم بادشاہ بن جاؤ گے اور مرنے کے بعد خلد نشین ہو جاؤ گے اور اگر تم اس کا خلاف کرو گے تو یہاں ذلت کی موت مارے جاؤ گے اور وہاں عذابوں میں گرفتار ہو گے ۔ آج آنے تو دو ۔ اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے آپ کی مٹھی میں خاک تھی آپ ابتداء سورہ یٰسین سے لایبصرون تک پڑھتے ہوئے آ رہے تھے ۔ اللہ نے ان سب کو اندھا کر دیا اور آپ ان کے سروں پر خاک ڈالتے ہوئے تشریف لے گئے ۔ ان بدبختوں کا گروہ کا گروہ آپ کے گھر کو گھیرے ہوئے تھا اس کے بعد ایک صاحب گھر سے نکلے ان سے پوچھا کہ تم یہاں کیسے گھیرا ڈالے کھڑے ہو انہوں نے کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے انتظار میں آج اسے زندہ نہیں چھوڑیں گے اس نے کہا واہ واہ وہ تو گئے بھی اور تم سب کے سروں پر خاک ڈالتے ہوئے نکل گئے ہیں ۔ یقین نہ ہو تو اپنے سر جھاڑو اب جو سر جھاڑے تو واقعی خاک نکلی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب ابو جہل کی یہ بات دوہرائی گئی تو آپ نے فرمایا اس نے ٹھیک کہا فی الواقع میری تابعداری ان کے لئے دونوں جہاں کی عزت کا باعث ہے اور میری نافرمانی ان کے لئے ذلت کا موجب ہے اور یہی ہو گا ، ان پر مہر اللہ کی لگ چکی ہے یہ نیک بات کا اثر نہیں لیتے ۔ سورہ بقرہ میں بھی اس مضمون کی ایک آیت گذر چکی ہے اور آیت میں ہے ( اِنَّ الَّذِيْنَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ 96ۙ ) 10- یونس:96 ) ، یعنی جن پر کلمہ عذاب ثابت ہوگیا ہے انہیں ایمان نصیب نہیں ہونے کا گو تو انہیں تمام نشانیاں دکھادے یہاں تک کہ وہ خود اللہ کے عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں ، ہاں تیری نصیحت ان پر اثر کر سکتی ہے جو بھلی بات کی تابعداری کرنے والے ہیں ۔ قرآن کو ماننے والے ہیں دین دیکھنے والے اللہ سے ڈرنے والے ہیں اور ایسی جگہ بھی اللہ کا خوف رکھتے ہیں جہاں کوئی اور دیکھنے والا نہ ہو ۔ وہ جانتے ہیں کہ اللہ ہمارے حال پر مطلع ہے اور ہمارے افعال کو دیکھ رہا ہے ہے ایسے لوگوں کو تو گناہوں کی معافی کی اور اجر عظیم و جمیل کی خوشخبری پہنچا دے ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ جو لوگ پوشیدگی میں بھی اللہ کا خوف رکھتے ہیں ان کیلئے مغفرت اور ثواب کبیر ہے ، ہم ہی ہیں جو مردوں کو زندگی دیتے ہیں ہم قیامت کے دن انہیں نئی زندگی میں پیدا کرنے پر قادر ہیں اور اس میں اشارہ ہے کہ مردہ دلوں کے زندہ کرنے پر بھی اس اللہ کو قدرت ہے وہ گمراہوں کو بھی راہ راست پر ڈال دیتا ہے ۔ جیسے اور مقام پر مردہ دلوں کا ذکر کر کے قرآن حکیم نے فرمایا ( اِعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يُـحْيِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۭ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ 17 ) 57- الحديد:17 ) ، جان لو کہ اللہ تعالیٰ زمین کو اسکی موت کے بعد زندہ کر دیتا ہے ہم نے تمہاری سمجھ بوجھ کے لئے بہت کچھ بیان فرما دیا اور ہم ان کے پہلے بھیجے ہوئے اعمال لکھ لیتے ہیں اور ان کے آثار بھی یعنی جو یہ اپنے بعد باقی چھوڑ آئے ۔ اگر خیر باقی چھوڑ آئے ہیں تو جزا اور سزا نہ پائیں گے ۔ حضور علیہ السلام کا فرمان ہے جو شخص اسلام میں نیک طریقہ جاری کرے اسے اس کا اور اس طریقہ کو جو کریں ان سب کا بدلہ ملتا ہے ۔ لیکن ان کے بدلے کم ہو کر نہیں ۔ اور جو شخص کسی برے طریقے کو جاری کرے اس کا بوجھ اس پر ہے اور اس کا بھی جو اس پر اس کے بعد کاربند ہوں ۔ لیکن ان کا بوجھ گھٹا کر نہیں ۔ ( مسلم ) ایک لمبی حدیث میں اس کے ساتھ ہی قبیلہ مضر کے چادر پوش لوگوں کا واقعہ بھی ہے اور آخر میں ( اِنَّا نَحْنُ نُـحْيِ الْمَوْتٰى وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَاٰثَارَهُمْ ڳ وَكُلَّ شَيْءٍ اَحْصَيْنٰهُ فِيْٓ اِمَامٍ مُّبِيْنٍ 12ۧ ) 36-يس:12 ) پڑھنے کا ذکر بھی ہے ۔ صحیح مسلم شریف کی ایک اور حدیث میں ہے جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے تمام عمل کٹ جاتے ہیں مگر تین عمل ۔ علم جس سے نفع حاصل کیا جائے اور نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرے اور وہ صدقہ جاریہ جو اس کے بعد بھی باقی رہے ۔ مجاہد سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ وہ گمراہ لوگ جو اپنی گمراہی باقی چھوڑ جائیں ۔ سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ ہر وہ نیکی بدی جیسے اس نے جاری کیا اور اپنے بعد چھوڑ گیا ۔ بغوی بھی اسی قول کو پسند فرماتے ہیں ۔ اس جملے کی تفسیر میں دوسرا قول یہ ہے کہ مراد آثار سے نشان قدم ہیں جو اطاعت یا معصیت کی طرف اٹھیں ۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اے ابن آدم اگر اللہ تعالیٰ تیرے کسی فعل سے غافل ہوتا تو تیرے نشان قدم سے غافل ہوتا جنہیں ہوا مٹا دیتی ہے ۔ لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ اس سے اور تیرے کسی عمل سے غافل نہیں ۔ تیرے جتنے قدم اس کی اطاعت میں اٹھتے ہیں اور جتنے قدم تو اس کی معصیت میں اٹھاتا ہے سب اس کے ہاں لکھے ہوئے ہیں ۔ تم میں سے جس سے ہو سکے وہ اللہ کی فرماں برداری کے قدم بڑھا لے ۔ اسی معنی کی بہت سی حدیثیں بھی ہیں ۔ پہلی حدیث مسند احمد میں ہے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مسجد نبوی کے آس پاس کچھ مکانات خالی ہوئے تو قبیلہ بنو سلمہ نے ارادہ کیا کہ وہ اپنے محلے سے اٹھ کر یہیں قرب مسجد کے مکانات میں آبسیں جب اس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ نے فرمایا مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے؟ کیا ٹھیک ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہا ہاں آپ نے دو مرتبہ فرمایا اے بنو مسلمہ اپنے مکانات میں ہی رہو تمہارے قدم اللہ کے ہاں لکھے جاتے ہیں ۔ دوسری حدیث ابن ابی حاتم کی اسی روایت میں ہے کہ اسی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور اس قبیلے نے اپنا ارادہ بدل دیا ۔ بزار کی اسی روایت میں ہے کہ بنو سلمہ نے مسجد سے اپنے گھر دور ہونے کی شکایت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کی اس پر یہ آیت اتری اور پھر وہ وہیں رہتے رہے ۔ لیکن اس میں غرابت ہے کیونکہ اس میں اس آیت کا اس بارے میں نازل ہونا بیان ہوا ہے اور یہ پوری سورت مکی ہے ۔ فاللہ اعلم ۔ تیسری حدیث ابن جریر میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جن بعض انصار کے گھر مسجد سے دور تھے انہوں نے مسجد کے قریب کے گھروں میں آنا چاہا اس پر یہ آیت اتری تو انہوں نے کہا اب ہم ان گھروں کو نہیں چھوڑیں گے ۔ یہ حدیث موقوف ہے ۔ چوتھی حدیث مسند احمد میں ہے کہ ایک مدنی صحابی کا مدینہ شریف میں انتقال ہوا تو آپ نے اس کے جنازے کی نماز پڑھا کر فرمایا کاش کہ یہ اپنے وطن کے سوا کسی اور جگہ فوت ہوتا کسی نے کہا یہ کیوں؟ فرمایا اس لئے کہ جب کوئی مسلمان غیر وطن میں فوت ہوتا ہے تو اس کے وطن سے لے کر وہاں تک کی زمین تک کاناپ کر کے اسے جنت میں جگہ ملتی ہے ۔ ابن جریر میں حضرت ثابت سے روایت ہے کہ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز کے لئے مسجد کیطرف چلا میں جلدی جلدی بڑے قدموں سے چلنے لگا تو آپ نے میرا ہاتھ تھام لیا اور اپنے ساتھ آہستہ آہستہ ہلکے ہلکے قدموں سے لے جانے لگے جب ہم نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا میں حضرت زید بن ثابت کے ساتھ مسجد کو جا رہا تھا اور تیز تیز قدم چل رہا تھا تو آپ نے مجھ سے فرمایا اے انس کیا تہیں معلوم نہیں کہ یہ نشانات قدم لکھے جاتے ہیں؟ اس قول سے پہلے قول کی مزید تائید ہوتی ہے کیونکہ جب نشان قدم تک لکھے جاتے ہیں تو پھیلائی ہوئی بھلائی کیوں نہ لکھی جاتی ہو گی؟ واللہ اعلم ۔ پھر فرمایا کل کائنات جمیع موجودات مضبوط کتاب لوح محفوظ میں درج ہے ۔ جو ام الکتاب ہے یہی تفسیر بزرگوں سے آیت یوم ندعوا کی تفسیر میں بھی مروی ہے کہ ان کا نامہ اعمال جس میں خیر و شر درج ہے ۔ جیسے آیت ( وَوُضِـعَ الْكِتٰبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِيْنَ 49ۧ ) 18- الكهف:49 ) ، اور آیت ( وَوُضِعَ الْكِتٰبُ وَجِايْۗءَ بِالنَّـبِيّٖنَ 69 ) 39- الزمر:69 ) ، میں ہے ۔
8۔ 1 جس کی وجہ سے وہ ادھر ادھر دیکھ سکتے ہیں۔ نہ سر جھکا سکتے ہیں، بلکہ وہ سر اوپر اٹھائے اور نگاہیں نیچے کئے ہوئے ہیں۔ یہ ان کے عدم قبول حق کی اور عدم انفاق کی تمثیل ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ ان کی سزا جہنم کی کیفیت کا بیان ہو۔ (ایسر التفاسیر)
[ ٨] تقلید آباء اور رسم و رواج کے طوق :۔ یہ طوق ان کی تقلید آباء کے طوق تھے، ان کی جاہلانہ اور مشرکانہ رسوم کے طوق تھے، ان کے کبرونخوت کے طوق تھے جنہوں نے ان کے گلوں کو اس حد تک دبا رکھا تھا اور ان کے سر اس قدر جکڑے ہوئے تھے کہ وہ کسی دوسری طرف دیکھ ہی نہ سکتے تھے۔ نہ ہی ان کی نگاہیں نیچے اپنی طرف دیکھ سکتی تھیں کہ وہ کم از کم اپنے اندر ہی موجود اللہ کی نشانیوں اور قدرتوں کو دیکھ کر کچھ سبق حاصل کرسکیں۔
اِنَّا جَعَلْنَا فِيْٓ اَعْنَاقِهِمْ اَغْلٰلًا : ” اَغْلٰلًا “ ” غُلٌّ“ (غین کے ضمّہ کے ساتھ) کی جمع ہے، لوہے کا کڑا یا زنجیر جو مجرم کے گلے میں ڈال کر اسے باندھا جاتا ہے، بعض اوقات اس کے ساتھ ہی اس کے ہاتھ بھی گردن کے ساتھ باندھ دیے جاتے ہیں۔ یہ قید کی سخت ترین صورت ہے۔ ” الْاَذْقَانِ “ ” ذَقَنٌ“ کی جمع ہے، ٹھوڑیاں۔ ” مُّقْمَحُوْنَ “ ” قَمَحَ الْبَعِیْرُ “ جب اونٹ حوض سے سر اٹھائے اور پانی نہ پیے۔ ” فُلَانٌ أَقْمَحَ الْبَعِیْرَ “ ” فلاں نے اونٹ کا سر اٹھا دیا۔ “ ” مُقْمَحٌ“ اسم مفعول، جس کا سر اوپر اٹھا دیا گیا ہو اور وہ اسے نیچے نہ جھکا سکتا ہو۔ اس آیت میں ان کے کفر پر اصرار اور اڑے رہنے کی نہایت مؤثر تصویر کشی فرمائی ہے، یعنی ہم نے ان انکار کرنے والوں کی گردنوں میں بھاری طوق ڈال دیے ہیں، جو ایک دوسرے کے اوپر اس طرح تہ بہ تہ ہیں کہ ٹھوڑیوں تک پہنچ گئے ہیں۔ جن کی وجہ سے ان کے سر اوپر اٹھا دیے گئے ہیں۔
اِنَّا جَعَلْنَا فِيْٓ اَعْنَاقِہِمْ اَغْلٰلًا فَہِىَ اِلَى الْاَذْقَانِ فَہُمْ مُّقْمَحُوْنَ ٨- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- عنق - العُنُقُ : الجارحة، وجمعه أَعْنَاقٌ. قال تعالی: وَكُلَّ إِنسانٍ أَلْزَمْناهُ طائِرَهُ فِي عُنُقِهِ- ( ع ن ق ) العنق - ۔ گردن جمع اعناق ۔ قرآن میں ہے : وَكُلَّ إِنسانٍ أَلْزَمْناهُ طائِرَهُ فِي عُنُقِهِ [ الإسراء اور ہم نے پر انسان کے اعمال کو ( یہ صورت کتاب ) اس کے گلے میں لٹکا دیا ہے ۔ - غل - الغَلَلُ أصله : تدرّع الشیء وتوسّطه، ومنه : الغَلَلُ للماء الجاري بين الشّجر، وقد يقال له :- الغیل، وانْغَلَّ فيما بين الشّجر : دخل فيه، فَالْغُلُّ مختصّ بما يقيّد به فيجعل الأعضاء وسطه، وجمعه أَغْلَالٌ ، وغُلَّ فلان : قيّد به . قال تعالی: خُذُوهُ فَغُلُّوهُ [ الحاقة 30] ، وقال : إِذِ الْأَغْلالُ فِي أَعْناقِهِمْ [ غافر 71] - ( غ ل ل ) الغلل - کے اصل معنی کسی چیز کو اوپر اوڑھنے یا اس کے درمیان میں چلے جانے کے ہیں اسی سے غلل اس پانی کو کہا جاتا ہے جو درختوں کے درمیان سے بہہ رہا ہو اور کبھی ایسے پانی کو غیل بھی کہہ دیتے ہیں اور الغل کے معنی درختوں کے درمیان میں داخل ہونے کے ہیں لہذا غل ( طوق ) خاص کر اس چیز کو کہا جاتا ہے ۔ جس سے کسی کے اعضار کو جکڑ کر اس کے دسط میں باندھ دیا جاتا ہے اس کی جمع اغلال اتی ہے اور غل فلان کے معنی ہیں اے طوق سے باندھ دیا گیا قرآن میں ہے : خُذُوهُ فَغُلُّوهُ [ الحاقة 30] اسے پکڑ لو اور طوق پہنادو ۔ إِذِ الْأَغْلالُ فِي أَعْناقِهِمْ [ غافر 71] جب کہ ان لی گردنوں میں طوق ہوں گے ۔- ذقن - قوله تعالی: وَيَخِرُّونَ لِلْأَذْقانِ يَبْكُونَ [ الإسراء 109] ، الواحد : ذَقَنٌ ، وقد ذَقَنْتُهُ :- ضربت ذقنه، وناقة ذَقُونٌ: تستعین بذقنها في سيرها، ودلو ذَقُونٌ: ضخمة مائلة تشبيها بذلک .- ذ ق ن ) ذقن - ۔ ( تھوڑی ) اس کی جمع اذقان ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَيَخِرُّونَ لِلْأَذْقانِ يَبْكُونَ [ الإسراء 109] اور - ٹھوڑیوں کے بل گرنے پڑتے ہیں ( اور ) روتے جاتے ہیں ۔ ذقنتہ ۔ میں نے اس کی ٹھوڑی پر مارا ۔ ناقۃ ذقون وہ اونٹنی جو ٹھوڑی کے سہارے پر چلتی ہو ۔ پھر تشبیہ کے طور بڑے ڈول کو جو ایک جانب سے مائل ہوا سے دلو ذقوق کہ دیتے ہیں - قمح - قال الخلیل : الْقَمْحُ : البرّ إذا جری في السّنبل من لدن الإنضاج إلى حين الاکتناز، ويسمّى السّويق المتّخذ منه قَمِيحَةً ، والقَمْحُ : رفع الرأس لسفّ الشیء، ثم يقال لرفع الرأس كيفما کان : قَمْحٌ ، وقَمَحَ البعیر : رفع رأسه، وأَقْمَحْتُ البعیر : شددت رأسه إلى خلف .- وقوله : مُقْمَحُونَ [يس 8] تشبيه بذلک، ومثل لهم، وقصد إلى وصفهم بالتّأبّي عن الانقیاد للحقّ ، وعن الإذعان لقبول الرّشد، والتأبّي عن الإنفاق في سبیل الله، وقیل : إشارة إلى حالهم في القیامة إِذِ الْأَغْلالُ فِي أَعْناقِهِمْ وَالسَّلاسِلُ [ غافر 71] .- ( ق م ح ) القمح ۔ خلیل نے کہا ہے کہ قمح اس گہیوں کو کہتے ہیں جو پکنے کے وقت سے لے کر ذخیرہ اندوزی تک بالی کے اندر ہی رکھا جائے اور اس گہیوں سے جو ستو بنایا جاتا ہے اسے قمیحہ کہا جاتا ہے ۔ اور ستو کی مناسبت سے کوئی چیز پھابکنے کے لئے سراوپر اٹھانے کو القمح ( ف ) کہتے ہیں پھر محض سر اٹھانے پر ( خواہ کسی وجہ سے ہو قمح کہا جانے لگا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے قمح البعیر اونٹ نے ( سیر کے بعد حوض سے ) سر اٹھالیا اقمحت البعیر میں نے اونٹ کا سر اونچا کر کے پچھلی جانب باندھ دیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ مُقْمَحُونَ [يس 8] تو انکے سر الٹ رہے ہیں ۔ میں تشبیہ اور تمثیل کے طور پر ان کو مقمحون کہا گیا ہے ۔ اور اس سے مقصود قبول حق سے ان کی سر تابی اور سرکشی اور راہ خدا میں خرچ کرنے سے ان کے انکار کو بیان کرنا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ قیامت کے دن ان کی اس حالت کی طرف اشارہ ہے جس کا تذکرہ آیت : ۔ إِذِ الْأَغْلالُ فِي أَعْناقِهِمْ وَالسَّلاسِلُ [ غافر 71] جب کہ ان کی گردنوں میں طوق اور زنجیریں ہوں گی ۔ میں پایا جاتا ہے ۔
ہم نے ان کی گردنوں میں لوہے کے طوق ڈال دیے ہیں، پھر وہ ان کی ٹھوڑیوں تک اڑ گئے ہیں جس سے ان کے سر اوپر ہی کو اٹھے رہ گئے۔
آیت ٨ اِنَّا جَعَلْنَا فِیْٓ اَعْنَاقِہِمْ اَغْلٰلاً فَہِیَ اِلَی الْاَذْقَانِ فَہُمْ مُّقْمَحُوْنَ ” ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیے ہیں اور وہ ان کی ٹھوڑیوں تک ہیں ‘ پس ان کے سر اونچے اٹھے رہ گئے ہیں۔ “- یعنی ان کی کیفیت اس شخص کی سی ہے جس کی گردن میں طوق پڑا ہو اور وہ طوق اس کی ٹھوڑی کے نیچے جاپھنسا ہو۔ ایسے شخص کے چہرے کا رخ مستقل طور پر اوپر کی طرف ہوجاتا ہے اور وہ اپنے سامنے کی چیزوں کو نہیں دیکھ سکتا۔ مطلب یہ کہ تعصب اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ لوگ واضح حقائق کو بھی دیکھنے اور سمجھنے سے قاصر ہیں۔
سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :6 اس آیت میں طوق سے مراد ان کی اپنی ہٹ دھرمی ہے جو ان کے لیے قبول حق میں مانع ہو رہی تھی ۔ ٹھوڑیوں تک جکڑے جانے اور سر اٹھائے کھڑے ہونے سے مراد وہ گردن کی اکڑ ہے جو تکبر اور نخوت کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ یہ فرما رہا ہے کہ ہم نے ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کو ان کی گردن کا طوق بنا دیا ہے ، اور جس کبر و نخوت میں یہ مبتلا ہیں اس کی وجہ سے ان کی گردنیں اس طرح اکڑ گئی ہیں کہ اب خواہ کوئی روشن حقیقت بھی ان کے سامنے آ جائے ، یہ اس کی طرف التفات کر کے نہ دیں گے ۔
3: یہ ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کو بیان کرنے کے لئے ایک استعارہ اور مجازی تعبیر ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ حق کے صاف صاف ظاہر ہونے کے باوجود ان لوگوں نے اس طرح ہٹ دھرمی کی روش اختیار کی ہے کہ اپنے آپ کو حق کے دیکھنے سے محروم کرلیا ہے، جیسے ان کے گلوں میں طوق پڑے ہوئے ہوں، اور ان کے ہر طرف ایسی دیوریں کھڑی ہوں کہ ان کو کچھ سمجھائی نہ دے۔