9۔ 1 یعنی دنیا کی زندگی ان کے لئے مزین کردی گئی، یہ گویا ان کے سامنے کی آڑ ہے، جس کی وجہ سے وہ لذائذ دنیا کے علاوہ کچھ نہیں دیکھتے اور یہی چیز ان کے اور ایمان کے درمیان مانع اور حجاب ہے اور آخرت کا تصور ان کے ذہنوں میں ناممکن الواقع کردیا گیا، یہ گویا ان کے پیچھے کی آڑ ہے جس کی وجہ سے وہ توبہ کرتے ہیں نہ نصیحت حاصل کرتے ہیں کیونکہ آخرت کا کوئی خوف ہی ان کے دلوں میں نہیں ہے۔ 9۔ 2 یا ان کی آنکھوں کو ڈھانک دیا یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عداوت اور اس کی دعوت حق سے نفرت نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ گی، یا انہیں اندھا کردیا ہے جس سے وہ دیکھ نہیں سکتے یہ ان کے حال کی دوسری تمثیل ہے۔
[ ٩] آگے بھی دیوار ہو، پیچھے بھی دیوار ہو اور جس جس طرف دیوار نہ ہو، وہاں کوئی پردہ ڈال کر ڈھانپ دیا جائے تو کوئی شخص دیکھ بھی کیسے سکتا ہے۔ ان کی یہ حالت اس لئے ہوگئی ہے کہ وہ اپنی ان جاہلانہ اور مشرکانہ رسوم ہی سے چمٹا رہنا پسند کرتے ہیں۔ اور ان باتوں کے باطل ہونے پر جو دلیل بھی پیش کی جائے اس پر غور کرنا تو درکنار اسے سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔- اس مقام پر مختصراً یہ اشارہ کردینا ضروری ہے کہ اسباب کو اختیار کرنا انسان کے اپنے بس میں ہوتا ہے بالفاظ دیگر حق کو قبول نہ کرنے یا سرکشی کی راہ اختیار کرنے کی ابتدا ہمیشہ انسان کی طرف سے ہوتی ہے۔ پھر جو راہ انسان اختیار کرتا ہے اسے اللہ کی طرف سے اسی راہ کی توفیق و تائید ملتی جاتی ہے۔ پھر ان اسباب کے اختیار کرنے کی بنا پر جو نتیجہ مترتب ہوتا ہے اس کی نسبت کبھی تو اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتی ہے، جیسے اس مقام پر ہے، کیونکہ نتائج مترتب کرنا اللہ کا کام ہے بندے کا نہیں اور کبھی اس کی نسبت بندے کی طرف ہوتی ہے کیونکہ اسباب بندے نے ہی اختیار کئے تھے۔
وَجَعَلْنَا مِنْۢ بَيْنِ اَيْدِيْهِمْ سَدًّا : یعنی ہم نے ان کی گردنوں میں بھاری طوق ڈالنے کے علاوہ ان کے آگے ایک دیوار اور ان کے پیچھے ایک دیوار کردی ہے، پھر انھیں اوپر سے پردے کے ساتھ ڈھانک دیا ہے، جس کے نتیجے میں انھیں کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ یہ مثال ہے ان لوگوں کی جو اپنی جاہلانہ اور مشرکانہ رسوم پر اڑے ہوئے ہیں۔ ان کے غلط ہونے کی کھلی سے کھلی دلیل بھی نہ انھیں دکھائی دیتی ہے نہ اسے سنتے ہیں۔ اب یہ لوگ حق پر ایمان لائیں تو کیسے لائیں ؟
وَجَعَلْنَا مِنْۢ بَيْنِ اَيْدِيْہِمْ سَدًّا وَّمِنْ خَلْفِہِمْ سَدًّا فَاَغْشَيْنٰہُمْ فَہُمْ لَا يُبْصِرُوْنَ ٩- سد - السَّدُّ والسُّدُّ قيل هما واحد، وقیل : السُّدُّ : ما کان خلقة، والسَّدُّ : ما کان صنعة «1» ، وأصل السَّدِّ مصدر سَدَدْتُهُ ، قال تعالی: بَيْنَنا وَبَيْنَهُمْ سَدًّا، [ الكهف 94] ، وشبّه به الموانع، نحو : وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس 9] ، وقرئ سدا «2» السُّدَّةُ : کا لظُّلَّة علی الباب تقية من المطر، وقد يعبّر بها عن الباب، كما قيل :- ( الفقیر الذي لا يفتح له سُدَدُ السّلطان) «3» ، والسَّدَادُ والسَّدَدُ : الاستقامة، والسِّدَادُ : ما يُسَدُّ به الثّلمة والثّغر، واستعیر لما يسدّ به الفقر .- ( س د د ) السد :- ( دیوار ، آڑ ) بعض نے کہا ہے سد اور سد کے ایک ہی معنی ہیں اور بعض دونوں میں فرق کرتے ہیں کہ سد ( بضمہ سین ) اس آڑ کو کہا جاتا ہے جو قدرتی ہو اور سد ( بفتحہ سین ) مصنوعی اور بنائی ہوئی روک کو کہتے ہیں ۔ اصل میں یہ سددتہ ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی رخنہ کو بند کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَيْنَنا وَبَيْنَهُمْ سَدًّا، [ الكهف 94] کہ ( آپ ) ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار کھینچ دیں ۔ اور تشبیہ کے طور پر ہر قسم کے موانع کو سد کہہ دیا جاتا ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس 9] اور ہم نے ان کے آگے بھی دیوار بنا دی اور ان کے پیچھے بھی ایک قراءت میں سدا بھی ہے ۔ السدۃ برآمدہ جو دروازے کے سامنے بنایا جائے تاکہ بارش سے بچاؤ ہوجائے ۔ کبھی دروازے کو بھی سدۃ کہہ دیتے ہیں جیسا کہ مشہور ہے : ۔ ( الفقیر الذي لا يفتح له سُدَدُ السّلطان) یعنی وہ فقیر جن کے لئے بادشاہ کے دروازے نہ کھولے جائیں ۔ السداد والسدد کے معنی استقامت کے ہیں اور السداد اسے کہتے ہیں جس سے رخنہ اور شگاف کو بھرا جائے ۔ اور استعارہ کے طور پر ہر اس چیز کو سداد کہا جاتا ہے جس سے فقر کو روکا جائے ۔- خلف ( پیچھے )- خَلْفُ : ضدّ القُدَّام، قال تعالی: يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة 255] ، وقال تعالی: لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد 11]- ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے )- یہ قدام کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة 255] جو کچھ ان کے روبرو ہو راہا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہوچکا ہے اسے سب معلوم ہے ۔ لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد 11] اس کے آگے پیچھے خدا کے جو کیدار ہیں ۔- غشي - غَشِيَهُ غِشَاوَةً وغِشَاءً : أتاه إتيان ما قد غَشِيَهُ ، أي : ستره . والْغِشَاوَةُ : ما يغطّى به الشیء، قال : وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية 23] - ( غ ش و ) غشیۃ غشاوۃ وغشاء - اس کے پاس اس چیز کی طرح آیا جو اسے چھپائے غشاوۃ ( اسم ) پر دہ جس سے کوئی چیز ڈھانپ دی جائے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية 23] اور اس کی آنکھوں پر پر دہ ڈال دیا ۔ - بصر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔- وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔
یا یہ کہ جب انہوں نے رسول اکرم کو پتھر مار کر حالت نماز میں تکلیف پہچانی چاہی تو ہم نے ان کی گردنوں کو ٹھوڑیوں تک کردیا اور یہ ہر ایک خیر و بھلائی سے محروم کے محروم رہ گئے اور ہم نے امور آخرت کے بارے میں ایک پردہ ان کے آگے ڈال دیا اور امور دنیا کے متعلق ایک پردہ ان کے پیچھے ڈال دیا اور ہم نے ان کے دلوں کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا جس سے وہ حق و ہدایت کو نہیں دیکھ سکتے۔- یا یہ کہ جس وقت انہوں نے رسول اکرم کو حالت نماز میں پتھر سے تکلیف پہچانی چاہی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے ایک پردہ کی آڑ کردی کہ آپ کے اصحاب ان کو نظر نہ آئے غرض کہ ہم نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا کہ نبی اکرم ان کو نظر ہی نہ آئیں کہ پھر یہ آپ کو تکلیف پہنچائیں۔- شان نزول : وَجَعَلْنَا مِنْۢ بَيْنِ اَيْدِيْهِمْ سَدًّا وَّمِنْ خَلْفِهِمْ (الخ)- اور ابن جریر نے عکرمہ سے روایت کیا ہے کہ ابو جہل نے کہا کہ اگر میں محمد کو دیکھ لوں تو آپ کے ساتھ ایسا ایسا کروں اس پر اللہ تعالیٰ انا جعلنا فی اعناقھم سے لایبصرون تک یہ آیات نازل ہوئیں۔ چناچہ اس کے بعد کفار اس سے کہتے تھے کہ یہ محإد ہیں اور وہ کہتا تھا کہ کہاں ہیں اور آپ کو نہیں سکتا تھا۔
آیت ٩ وَجَعَلْنَا مِنْم بَیْنِ اَیْدِیْہِمْ سَدًّا وَّمِنْ خَلْفِہِمْ سَدًّا فَاَغْشَیْنٰہُمْ فَہُمْ لاَ یُبْصِرُوْنَ ” اور ہم نے ایک دیوار کھڑی کردی ہے ان کے آگے اور ایک ان کے پیچھے ‘ اس طرح ہم نے انہیں ڈھانپ دیا ہے ‘ پس اب وہ دیکھ نہیں سکتے۔ “- یہ مضمون آگے چل کر آیت ٤٥ میں پھر آئے گا ۔ - ۔ اللہ تعالیٰ کی معرفت اور حق کی پہچان کے لیے اگر انسان کو راہنمائی چاہیے تو اس مقصد کے لیے بیشمار آفاقی آیات (آلاء اللہ) ہر وقت ہر جگہ اس کے سامنے ہیں۔ قرآن حکیم بار بار انسان کو ان آیات کے مشاہدے کی دعوت دیتا ہے۔ جیسے سورة البقرۃ کی آیت ١٦٤ میں بہت سی آفاقی نشانیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ہر انسان اپنی ذہنی سطح کے مطابق ان ” آیات “ کے مشاہدے سے ان کے خالق کو پہچان سکتا ہے۔ اس کے علاوہ تاریخی آیات (ایام اللہ) سے بھی انسان کو راہنمائی مل سکتی ہے۔ یعنی اگر کوئی انسان چاہے تو اقوامِ سابقہ کے حالات سے بھی اسے سبق اور عبرت کا وافر سامان حاصل ہوسکتا ہے۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ کا مفہوم یہ ہے کہ یہ ایسے بد بخت لوگ ہیں جو نہ تو التذکیر بآلاء للہ سے استفادہ کرسکتے ہیں اور نہ ہی وہ التذکیر بایام اللہ سے کچھ سبق حاصل کرنے کے اہل ہیں۔ گویا یہ وہ لوگ ہیں جن کی آنکھوں کے سامنے دیوار حائل ہوچکی ہے کہ وہ اللہ کی کسی بڑی سے بڑی نشانی کو بھی نہیں دیکھ سکتے۔ اسی طرح ان کے پیچھے بھی دیوار کھڑی کردی گئی ہے اور یوں وہ تاریخ اوراقوام ماضی کے حالات سے بھی کسی قسم کا سبق حاصل کرنے سے قاصر و معذور ہیں۔
سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :7 ایک دیوار آگے اور ایک پیچھے کھڑی کر دینے سے مراد یہ ہے کہ اسی ہٹ دھرمی اور استکبار کا فطری نتیجہ یہ ہوا ہے کہ یہ لوگ نہ پچھلی تاریخ سے کوئی سبق لیتے ہیں ، اور نہ مستقبل کے نتائج پر کبھی غور کرتے ہیں ۔ ان کے تعصبات نے ان کو ہر طرف سے اس طرح ڈھانک لیا ہے اور ان کی غلط فہمیوں نے ان کی آنکھوں پر ایسے پردے ڈال دیے ہیں کہ انہیں وہ کھلے کھلے حقائق نظر نہیں آتے جو ہر سلیم الطبع اور بے تعصب انسان کو نظر آ رہے ہیں ۔