10۔ 1 یعنی جو اپنے کرتوتوں کی وجہ سے گمراہی کے اس مقام تک پہنچ جائیں، ان کے لئے اندازہ بےفائدہ رہتا ہے۔
[ ١٠] یہ حالت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کوئی شخص اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ وہ کوئی معقول سے معقول دلیل سننے کے لئے تیار نہیں ہوتا اور میں نہ مانوں کی خصلت اس میں پختہ ہوجاتی ہے لیکن وہ دل میں حقیقت کو تسلیم کرلینے کے باوجود زبان سے انکار کردیتا ہے۔ یہی کیفیت ہوتی ہے جب اس پر کوئی نصیحت اور ہدایت کی بات کارگر ثابت نہیں ہوتی۔ اور اسی کیفیت کو اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر دلوں پر مہر لگا دینے سے تعبیر فرمایا ہے۔
وَسَوَاۗءٌ عَلَيْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ : اس کا مطلب یہ نہیں کہ انھیں سمجھانا اور تبلیغ کرنا چھوڑ دیں، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جب آپ لوگوں کو سمجھائیں گے اور عام تبلیغ کریں گے تو آپ کو دو قسم کے لوگوں سے سابقہ پیش آئے گا، ایک وہ لوگ جن پر آپ کی تبلیغ کوئی اثر نہیں کرے گی اور وہ اپنے کفر و شرک پر بضد رہیں گے۔ اس آیت میں انھی لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ مزید دیکھیے سورة بقرہ (٦) ۔
وَسَوَاۗءٌ عَلَيْہِمْ ءَ اَنْذَرْتَہُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْہُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ ١٠- سواء - ومکان سُوىً ، وسَوَاءٌ: وسط . ويقال : سَوَاءٌ ، وسِوىً ، وسُوىً أي : يستوي طرفاه، ويستعمل ذلک وصفا وظرفا، وأصل ذلک مصدر، وقال :- فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات 55] ، وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص 22] ، فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال 58] ، أي : عدل من الحکم، وکذا قوله : إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران 64] ، وقوله : سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة 6] ،- سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون 6] ، - ( س و ی ) المسا واۃ - مکان سوی وسواء کے معنی وسط کے ہیں اور سواء وسوی وسوی اسے کہا جاتا ہے جس کی نسبت دونوں طرف مساوی ہوں اور یہ یعنی سواء وصف بن کر بھی استعمال ہوتا ہے اور ظرف بھی لیکن اصل میں یہ مصدر ہے قرآن میں ہے ۔ فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات 55] تو اس کو ) وسط دوزخ میں ۔ وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص 22] تو وہ ) سیدھے راستے سے ۔ فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال 58] تو ان کا عہد ) انہیں کی طرف پھینک دو اور برابر کا جواب دو ۔ تو یہاں علی سواء سے عاولا نہ حکم مراد ہے جیسے فرمایا : ۔ إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران 64] اے اہل کتاب ) جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں ( تسلیم کی گئی ) ہے اس کی طرف آؤ ۔ اور آیات : ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة 6] انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون 6] تم ان کے لئے مغفرت مانگو یا نہ مانگوں ان کے حق میں برابر ہے ۔- نذر - وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14]- والنَّذِيرُ :- المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذر - الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔- النذ یر - کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔
سو بنی مخزوم یعنی ابوجہل وغیرہ کے حق میں آپ کا ڈرانا یا نہ ڈرانا دونوں کام برابر ہیں یہ کسی بھی صورت میں ایمان لانے کا ارادہ نہیں کریں گے۔ چناچہ یہ بدر کے دن کفر ہی کی حالت میں مارے گئے۔
آیت ١٠ وَسَوَآئٌ عَلَیْہِمْ ئَ اَنْذَرْتَہُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْہُمْ لاَ یُؤْمِنُوْنَ ” اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ان کے حق میں برابر ہے ‘ خواہ آپ انہیں خبردار کریں یا نہ کریں ‘ یہ ایمان نہیں لائیں گے۔ “- سورة البقرۃ کی آیت ٦ میں بھی ہو بہو یہی الفاظ آئے ہیں۔
سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :8 اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس حالت میں تبلیغ کرنا بےکار ہے ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری تبلیغ عام ہر طرح کے انسانوں تک پہنچتی ہے ۔ ان میں سے کچھ لوگ وہ ہیں جن کا ذکر اوپر ہوا ہے ۔ اور کچھ دوسرے لوگ وہ ہیں جن کا ذکر آگے کی آیت میں آ رہا ہے ۔ پہلی قسم کے لوگوں سے جب سابقہ پیش آئے اور تم دیکھ لو کہ وہ انکار و استکبار اور عناد و مخالفت پر جمے ہوئے ہیں تو ان کے پیچھے نہ پڑو ۔ مگر ان کی روش سے دل شکستہ و مایوس ہو کر کام چھوڑ بھی نہ بیٹھو ، کیونکہ تمہیں نہیں معلوم کہ اسی ہجوم خلق کے درمیان وہ خدا کے بندے کہاں ہیں جو نصیحت قبول کرنے والے اور خدا سے ڈر کر راہ راست پر آجانے والے ہیں ۔ تمہاری تبلیغ کا اصل مقصود اسی دوسری قسم کے انسانوں کو تلاش کرنا اور انہیں چھانٹ کر نکال لینا ہے ۔ ہٹ دھرموں کو چھوڑتے جاؤ ، اور اس قیمتی متاع کو سمیٹتے چلے جاؤ ۔