62۔ 1 یعنی اتنی عقل بھی تمہارے اندر نہیں کہ شیطان تمہارا دشمن ہے، اس کی اطاعت نہیں کرنی چاہئے۔ اور میں تمہارا رب ہوں، میں ہی تمہیں روزی دیتا ہوں اور میں ہی تمہاری رات دن حفاظت کرتا ہوں لہذا تمہیں میری نافرمانی نہیں کرنی چاہیے۔ تم شیطان کی عداوت کو اور میرے حق عبادت کو نہ سمجھ کر نہایت بےعقلی اور نادانی کا مظاہرہ کر رہے ہو۔
[ ٥٧] باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام بنی آدم سے عہد لیا تھا، اور یہ عہد ألَسْتُ بِرَبِّکُمْتھا، پھر اللہ نے سمجھنے سوچنے کے لئے تمہیں عقل بھی دی تھی، پھر اللہ تعالیٰ اس عہد کی یاددہانی کے لئے اپنے رسول اور کتابیں بھی بھیجتا رہا پھر یہی شیطان بنی آدم کی ایک کثیر تعداد کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ لہذا اے عہد فراموش مجرمو تم نے اپنی عقل سے کچھ بھی کام نہ لیا تو اب اس کا نتیجہ تمہارے سامنے ہے۔ جہنم تمہاری منتظر ہے۔ رسولوں کی دعوت سے انکار اور ضد کی سزا یہی ہے کہ اب اس جہنم میں داخل ہوجاؤ۔
اَفَلَمْ تَكُوْنُوْا تَـعْقِلُوْنَ : یعنی کیا تم اتنی عقل نہ رکھتے تھے کہ جب شیطان تمہارا دشمن تھا تو تم اس کے بتائے ہوئے راستے پر نہ چلتے ؟
وَلَقَدْ اَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيْرًا ٠ ۭ اَفَلَمْ تَكُوْنُوْا تَـعْقِلُوْنَ ٦٢- ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔- جبلت - وجَبَلَهُ اللہ علی كذا، إشارة إلى ما رّكب فيه من الطبع الذي يأبى علی الناقل نقله، وفلان ذو جِبِلَّة، أي : غلیظ الجسم، وثوب جيد الجبلة، وتصور منه معنی العظم، فقیل للجماعة العظیمة : جِبْلٌ. قال اللہ تعالی: وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيراً [يس 62] ، أي : جماعة تشبيها بالجبل في العظم وقرئ : جِبِلًّا مثقّلا . قال التوزي : جُبْلًا وجَبْلًا وجُبُلًّا وجِبِلًّا . وقال غيره : جُبُلًّا جمع جِبِلَّة، ومنه قوله عزّ وجل : وَاتَّقُوا الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالْجِبِلَّةَ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء 184] ، أي : المجبولین علی أحوالهم التي بنوا عليها، وسبلهم التي قيّضوا لسلوکها المشار إليها بقوله تعالی: قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلى شاكِلَتِهِ [ الإسراء 84] ، وجَبِلَ : صار کالجبل في الغلظ .- اور پہاڑ کی مختلف صفات کے اعتبار سے استعارہ ہر صفت کے مطابق اشتقاق کرلیتے ہیں مثلا معنی شجاعت کے اعتبار سے کہا جاتا ہے ؟ کہ فلاں نہ ہلنے ولا پہاڑ ہی اس کی فطرت ہی ایسی ہے یعنی تبدیل نہیں ہوسکتی ۔ فلاں بھدے جسم کا ہے ۔ عمدہ اور مضبوط بنا ہوا کپڑا ۔ اور بڑئی و عظمت کے معنی کا اعتبار کرتے ہوئے بڑی جماعت کو جبل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيراً [يس 62] اور اس نے تم میں سے بہت سی خلقت کو گمراہ کردیا تھا ۔ ایک قرات میں جبلا تشدید کے ساتھ ہے توذی نے کہا ہے کہ جبلا وجبلا وجبلا وجبلا کے ایک ہی معنی ہیں ؟ اور دوسرے علماء نے کہا ہے جبلا جبلۃ کی جمع ہے اور اسی سے آیت وَاتَّقُوا الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالْجِبِلَّةَ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء 184]: میں جبلۃ سے مراد کے وہ احوال ہیں جن پر ان کو پیدا کیا تھا اور وہ راستے جن پر چلنے کے وہ فطرۃ پابند تھے جس کی طرف آیت کریمہ : ۔ قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلى شاكِلَتِهِ [ الإسراء 84] کہدو کہ ہر شخص اپنے طریق کے مطابق عمل کرتا ہے ۔ میں اشارہ پایا جاتا ہے جبل فلان پہاڑ کی طرح غلیظ الجسم ہے ۔- كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔- عقل - العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] ،- ( ع ق ل ) العقل - اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں
اور اے انسانو شیطان تم میں سے پہلے ایک بڑی مخلوق کو گمراہ کرچکا ہے تو کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ اس نے تمہارے ساتھ کیا برتاؤ کیا کہ اس کی پھر تم اقتدا نہ کرو۔
آیت ٦٢ وَلَقَدْ اَضَلَّ مِنْکُمْ جِبِلًّا کَثِیْرًاط اَفَلَمْ تَکُوْنُوْا تَعْقِلُوْنَ ” اور وہ تو تم میں سے بہت بڑی تعداد کو گمراہ کر کے لے گیا ‘ تو کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے تھے “
سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :54 یعنی اگر تم عقل سے محروم رکھے گئے ہوتے اور پھر اپنے رب کو چھوڑ کر اپنے دشمن کی بندگی کرتے تو تمہارے لیے عذر کی کوئی گنجائش تھی ۔ لیکن تمہارے پاس تو خدا کی دی ہوئی عقل موجود تھی جس سے تم اپنے دنیا کے سارے کام چلا رہے تھے ۔ اور تمہیں خدا نے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ سے متنبہ بھی کر دیا تھا ۔ اس پر بھی جب تم اپنے دشمن کے فریب میں آئے اور وہ تمہیں گمراہ کرنے میں کامیاب ہو گیا تو اپنی اس حماقت کی ذمہ داری سے تم کسی طرح بری نہیں ہو سکتے ۔