شاعری پیغمبرانہ شان کے منافی ۔ انسان کی جوانی جوں جوں ڈھلتی ہے پیری ضعیفی کمزوری اور ناتوانی آتی جاتی ہے ، جیسے سورہ روم کی آیت میں ہے ۔ ( اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ ﮨـعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ ﮨـعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ ﮨـعْفًا وَّشَيْبَةً ۭ يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ ۚ وَهُوَ الْعَلِيْمُ الْقَدِيْرُ 54 ) 30- الروم:54 ) اللہ وہ ہے جس نے تمہیں ناتوانی کی حالت میں پیدا کیا ۔ پھر ناتوانی کے بعد طاقت عطا فرمائی پھر طاقت و قوت کے بعد ضعف اور بڑھاپا کردیا ، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ خوب جاننے والا پوری قدرت رکھنے والا ہے ۔ اور آیت میں ہم تم میں سے بعض بہت بڑی عمر کی طرف لوٹائے جاتے ہیں تاکہ علم کے بعد وہ بےعلم ہوجائیں ۔ پس مطلب آیت سے یہ ہے کہ دنیا زوال اور انتقال کی جگہ ہے یہ پائیدار اور قرار گاہ نہیں ، پھر بھی کیا یہ لوگ عقل نہیں رکھتے کہ اپنے بچپن ، پھر جوانی ، پھر بڑھاپے پر غوکریں اور اس سے نتیجہ نکال لیں کہ اس دنیا کے بعد آخرت آنے والی ہے اور اس زندگی کے بعد میں دوبارہ پیدا ہونا ہے ۔ پھر فرمایا نہ تو میں نے اپنے پیغمبر کو شاعری سکھائی نہ شاعری اس کے شایان شان نہ اسے شعر گوئی سے محبت نہ شعر اشعار کی طرف اس کی طبیعت کا میلان ۔ اسی کا ثبوت آپ کی زندگی میں نمایاں طور پر ملتا ہے کہ کسی کاشعر پڑھتے تھے تو صحیح طور پر ادا نہیں ہوتا تھا یا پورا یاد نہیں نکلتا تھا ۔ حضرت شعبی فرماتے ہیں اولاد عبدالمطلب کا ہر مرد عورت شعر کہنا جانتا تھا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے کوسوں دور تھے ( ابن ابی حاتم ) دلائل بیہقی میں ہے کہ آپ نے ایک مرتبہ عباس بن مرداس سلمی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تم نے بھی تو یہ شعر کہا ہے ؟ تجعل نھبی و نھب العبید ، بین الاقرع و عینیتہ انہوں نے کہا حضور دراصل یوں ہے بین عینیتہ والا قرع آپ نے فرمایا چلو سب برابر ہے مطلب تو فوت نہیں ہوتا ؟ صلوات اللہ و سلامہ علیہ ۔ سہیلی نے روض الانف میں اس تقدیم تاخیر کی ایک عجیب توجیہ کی ہے وہ کہتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اقرع کو پہلے اور عینیہ کو بعد میں اس لیے ذکر کیا کہ عینیہ خلافت صدیقی میں مرتد ہوگیا تھا بخلاف اقرع کے کہ وہ ثابت قدم رہا تھا ۔ واللہ اعلم ۔ مغازی میں ہے کہ بدر کے مقتول کافروں کے درمیان گشت لگاتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے نکلا نفلق ھاما ( آگے کچھ نہ فرماسکے ۔ اس پر جناب ابو بکر نے پورا شعر پڑھ دیا ) ۔ من رجال اعزۃ علینا وھم کانوا اعق واظلما یہ کسی عرب شاعر کا شعر ہے جو حماسہ میں موجود ہے ۔ مسند احمد میں ہے کبھی کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طرفہ کا یہ شعر بہت پڑھتے تھے ویاتیک بالا خبار من لم تزود اس کا پہلا مصرعہ یہ ہے ستبدی لک الا یام ما کنت جاہلا یعنی زمانہ تجھ پر وہ امور ظاہر کردے گا جن سے تو بےخبر ہے اور تیرے پاس ایسا شخص خبریں لائے گا جسے تو نے توشہ نہیں دیا ، حضرت عائشہ سے سوال ہوا کہ کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم شعر پڑھتے تھے ، آپ نے جواب دیا کہ سب سے زیادہ بغض آپ کو شعروں سے تھا ہاں کبھی کبھی بنو قیس والے کا کوئی شعر پڑھتے لیکن اس میں بھی غلطی کرتے تقدیم تاخیر کردیا کرتے ۔ حضرت ابو بکر فرماتے حضور صلی اللہ علیہ وسلم یوں نہیں ہے تو آپ فرماتے نہ شاعر ہوں نہ شعر گوئی میرے شایان شان ( ابن ابی حاتم ) دوسری روایت میں شعر اور آگے پیچھے کا ذکر بھی ہے یعنی ویاتیک بالا خبار مالم تذود کو آپ نے من لم تزود الاخبار پڑھا تھا ، بہیقی کی ایک روایت میں ہے کہ پورا شعر کبھی آپ نے نہیں پڑھازیادہ سے زیادہ ایک مصرعہ پڑھ لیتے تھے ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کھودتے ہوئے حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے اشعار پڑھے ۔ سو یاد رہے کہ آپ کا یہ پڑھنا صحابہ کے ساتھ تھا ۔ وہ اشعاریہ ہیں ۔ لاھم لو لاانت ما اھتدینا ولا تصدقناولا صلینا فانذلن سکینتہ علینا وثبت الاقدام ان لا قینا ان الاولی قد بغوا علینا اذا ارادوا فتنتہ ابینا حضور لفظ ابینا کو کھینچ کر پڑھتے اور سارے ہی بلند آواز سے پڑھتے ، ترجمہ ان اشعار کا یہ ہے کوئی غم نہیں اگر تو نہ ہوتا تو ہم ہدایت یافتہ نہ ہوتے نہ صدقے دیتے اور نہ نمازیں پڑھتے ۔ اب تو ہم پر تسکین نازل فرما ۔ جب دشمنوں سے لڑائی چھڑ جائے تو ہمیں ثابت قدمی عطا فرما ، یہی لوگ ہم پر سرکشی کرتے ہیں ہاں جب کبھی فتنے کا ارادہ کرتے ہیں تو ہم انکار کرتے ہیں اسی طرح ثابت ہے کہ حنین والے دن آپ نے اپنے خچر کو دشمنوں کی طرف بڑھاتے ہوئے فرمایا ۔ انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب اس کی بابت یہ یاد رہے کہ اتفاقیہ ایک کلام آپ کی زبان سے نکل گیا جو وزن شعر پر اترا ۔ نہ کہ قصداً آپ نے شعر کہا ، حضرت جندب بن عبداللہ فرماتے ہیں ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غار میں تھے آپ کی انگلی زخمی ہوگئی تھی تو آپ نے فرمایا ۔ ھل انت الا اصبح دمیت وفی سبیل اللہ ما لقیت یعنی تو ایک انگلی ہی تو ہے ۔ اور تو راہ اللہ میں خون آلود ہوئی ہے ۔ یہ بھی اتفاقیہ ہے قصداً نہیں ۔ اسی طرح ایک حدیث الا المم کی تفسیر میں آئے گی کہ آپ نے فرمایا ۔ ان تغفر اللھم تغفر جما وای عبدلک ما الما یعنی اے اللہ تو جب بخشے تو ہمارے سبھی کے سب گناہ بخش دے ، ورنہ یوں تو تیرا کوئی بندہ نہیں جو چھوٹی چھوٹی لغزشوں سے بھی پاک ہو پس یہ سب کے سب اس آیت کے منافی نہیں کیونکہ اللہ کی تعلیم آپ کو شعر گوئی کی نہ تھی ۔ بلکہ رب العالمین نے تو آپ کو قرآن عظیم کی تعلیم دی تھی جس کے پاس بھی باطل پھٹک نہیں سکتا ۔ قرآن حکیم کی یہ پاک نظم شاعری سے منزلوں دور تھی ۔ اسی طرح کہانت سے اور گھڑ لینے سے اور جادو کے کلمات سے جیسے کہ کفار کے مختلف گروہ مختلف بولیاں بولتے تھے ۔ آپ کی تو طبیعت ان لسانی صنعتوں سے معصوم تھی ۔ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ ابو داؤد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے نزدیک یہ تینوں باتیں برابر ہیں ، تریاق کا پینا ، گنڈے کا لٹکانا اور شعر بنانا ۔ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں شعر گوئی سے آپ کو طبعاً نفرت تھی ۔ دعا میں آپ کو جامع کلمات پسند آتے تھے اور اس کے سوا چھوڑ دیتے تھے ( احمد ) ابو اداؤد میں ہے کسی کا پیٹ پیپ سے بھر جانا اس کے لیے شعروں سے بھر لینے سے بہتر ہے ۔ ( ابوداؤد ) مسند احمد کی ایک غریب حدیث میں ہے جس نے عشاء کی نماز کے بعد کسی شعر کا ایک مصرع بھی باندھا اس کی اس رات کی نماز نامقبول ہے ۔ یہ یادر ہے کہ شعر گوئی کی قسمیں ہیں ، مشرکوں کی ہجو میں شعر کہنے مشروع ہیں ۔ حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ ، حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ ، حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ ، حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ وغیرہ جیسے اکابرین صحابہ نے کفار کی ہجو میں اشعار کے کلام میں ایسے اشعار پائے جاتے ہیں ۔ چنانچہ امیہ بن صلت کے اشعار کی بابت فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ اس کے شعر تو ایمان لاچکے ہیں لیکن اس کا دل کافر ہی رہا ۔ ایک صحابی نے آپ کو امیہ کے ایک سو بیت سنائے ہر بیت کے بعد آپ فرماتے تھے اور کہو ۔ ابو داؤد میں حضور کا ارشاد ہے کہ بعض بیان مثل جادو کے ہیں اور بعض شعر سراسر حکمت والے ہیں ۔ پس فرمان ہے کہ جو کچھ ہم نے انہیں سکھایا ہے وہ سراسر ذکر و نصیحت اور واضح صاف اور روشن قرآن ہے ، جو شخص ذرا سا بھی غور کرے اس پر یہ کھل جاتا ہے ۔ تاکہ روئے زمین پر جتنے لوگ موجود ہیں یہ ان سب کو آگاہ کردے اور ڈرا دے جیسے فرمایا ( لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَمَنْۢ بَلَغَ 19ۘ ) 6- الانعام:19 ) تاکہ میں تمہیں اس کے ساتھ ڈرادوں اور جسے بھی یہ پہنچ جائے ۔ اور آیت میں ہے ( وَمَنْ يَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗ 17 ) 11-ھود:17 ) یعنی جماعتوں میں سے جو بھی اسے نہ مانے وہ سزاوار دوزخی ہے ۔ ہاں اس قرآن سے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے اثر وہی لیتا ہے ۔ جو زندہ دل اور اندرونی نور والا ہو ۔ عقل و بصیرت رکھتا ہو اور عذاب کا قول تو کافروں پر ثابت ہے ہی ۔ پس قرآن مومنوں کے لیے رحمت اور کافروں پر اتمام حجت ہے ۔
68۔ 1 یعنی جس کو ہم لمبی عمر دیتے ہیں، ان کی پیدائش کو بدل کر برعکس حالت میں کردیتے ہیں۔ یعنی جب وہ بچہ ہوتا ہے تو اس کی نشو و نما جاری رہتی ہے اور اس کی عقلی اور بدنی قوتوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے حتٰی کہ وہ جوانی اور بڑھاپے کو پہنچ جاتا ہے۔ اس کے برعکس اس کے قوائے عقلیہ و بدنیہ میں ضعف و گھٹاؤ کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ حتٰی کہ وہ ایک بچے کی طرح ہوجاتا ہے۔ 68۔ 2 کہ جو اللہ اس طرح کرسکتا ہے، کیا وہ دوبارہ انسانوں کو زندہ کرنے پر قادر نہیں۔
[ ٦٠] بڑھاپے میں بچپنے کی حالت :۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو اس کی تمام تر قوتیں ترقی پذیر ہوتی ہیں۔ لیکن جب جوانی سے ڈھل جاتا ہے تو ان تمام قوتوں میں انحطاط آنا شروع ہوجاتا ہے۔ بچپن میں وہ چلنے میں سہارے کا محتاج تھا تو بڑھاپے میں بھی محتاج ہوجاتا ہے۔ اس کی طاقت، اس کی ہمت، اس کا عزم، اس کی عقل غرضیکہ ہر چیز میں اس قدرزوال آجاتا ہے کہ وہ بچوں جیسا ہوجاتا ہے۔ اور اس سارے عمل میں انسان خود مجبور محض ہوتا ہے۔ کیا پھر بھی اسے سمجھ نہیں آتی کہ اگر ہم چاہیں تو اسے اندھا بھی کرسکتے ہیں۔ اسے اپاہج بھی بنا سکتے ہیں اس کا حلیہ بھی بگاڑ سکتے ہیں اور وہ چاہے یا نہ چاہے ہم اسے دوبارہ زندہ کرکے اس کے گناہوں کی اسے سزا بھی دے سکتے ہیں۔
وَمَنْ نُّعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ : انسان کی جوانی جوں جوں ڈھلتی ہے، بڑھاپا، کمزوری اور ناتوانی آتی جاتی ہے، حتیٰ کہ وہ دوبارہ بچوں کی طرح کمزور اور ہر کام میں دوسروں کا محتاج ہوجاتا ہے۔ بڑے عالی دماغ کے باوجود سب کچھ بھول جاتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ ﮨـعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ ﮨـعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ ﮨـعْفًا وَّشَيْبَةً ۭ يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ ۚ وَهُوَ الْعَلِيْمُ الْقَدِيْرُ ) [ الروم : ٥٤ ] ” اللہ وہ ہے جس نے تمہیں کمزوری سے پیدا کیا، پھر کمزوری کے بعد قوت بنائی، پھر قوت کے بعد کمزوری اور بڑھاپا بنادیا، وہ پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے اور وہی سب کچھ جاننے والا ہے، ہر چیز پر قادر ہے۔ “ اور فرمایا : (ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْٓا اَشُدَّكُمْ ۚ وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّتَوَفّٰى وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّرَدُّ اِلٰٓى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِنْۢ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْــــًٔا ) [ الحج : ٥ ] ” پھر ہم تمہیں ایک بچے کی صورت میں نکالتے ہیں، پھر تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچو اور تم میں سے کوئی وہ ہے جو قبض کرلیا جاتا ہے اور تم میں سے کوئی وہ ہے جو سب سے نکمّی عمر کی طرف لوٹایا جاتا ہے، تاکہ وہ جاننے کے بعد کچھ نہ جانے۔ “- اَفَلَا يَعْقِلُوْنَ : مفسرین نے پچھلی آیات کی مناسبت سے اس کی تفسیر دو طرح سے کی ہے، ایک یہ کہ زندگی کے ان انقلابات کو دیکھ کر بھی یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ یہ انقلابات لانے والی ہستی کے لیے انسان کو دوبارہ زندہ کرنا اور قیامت برپا کرنا کچھ مشکل نہیں، بلکہ آخرت اور جزائے اعمال حق ہے۔ شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں : ” یعنی جیسے لڑکا سست تھا، بوڑھا بھی ویسا ہی ہوا، یہ بھی نشان ہے پھر پیدا ہونے کا۔ “ (موضح) دوسری تفسیر یہ کہ پھر بھی کیا یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ جو پروردگار عمر دے کر بناوٹ میں الٹا کردیتا ہے، وہ اس پر بھی قادر ہے کہ آنکھیں دینے کے بعد انھیں مٹا دے اور اچھی صورتیں عطا کرنے کے بعد انھیں مسخ کر دے۔
(آیت) ومن نعمرہ ننکسہ فی الخلق افلا یعقلون، نعمر، تعمیر سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں عمر دراز دینے کے، اور ننکسہ، تنکیس سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں اوندھا الٹا کردینے کے۔ اس آیت میں حق تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کے ایک اور مظہر کا بیان فرمایا ہے کہ ہر انسان و حیوان ہر وقت اللہ تعالیٰ کے زیر تصرف ہے، قدرت کا عمل اس میں مسلسل جاری ہے، ایک گندے اور بےجان قطرہ سے اس کا وجود شروع ہوا، بطن مادر کے تین اندھیریوں میں اس خلاصہ کائنات اور عالم اصغر کی تخلیق ہوئی، کیسی کیسی نازک مشینیں اس کے وجود میں پیوست کی گئیں پھر روح ڈال کر زندہ کیا گیا، نو مہینے بطن مادر کے اندر اس کی تربیت اور نشوونما ہو کر ایک مکمل انسان بنا اور اس دنیا میں آیا۔ تو مکمل ہونے کے باوجود اس کی ہر چیز ضعیف و کمزور ہے۔ قدرت نے اس کے مزاج کے مناسب غذا ماں کی چھاتیوں میں پیدا کردی جس سے اس کو تاریجی توانائی ملی، اور اس وقت سے جوانی تک کتنے مراحل سے گزر کر اس کے سب قوی مضبوط ہوئے، قوت و شوکت کے دعوے ہونے لگے، ہر مقابل کو شکست دینے کے حوصلے پیدا ہوئے۔- پھر جب خالق ومالک کو منظور ہوا تو اب ان سب طاقتوں قوتوں میں کمی شروع ہوئی، کمی بھی بیشمار مراحل سے گزرتے ہوئے بالآخر بڑھاپے کی آخری عمر تک پہنچی۔ جہاں پہنچ کر غور کیا جائے تو پھر وہ اس منزل میں پہنچ گیا جس سے بچپن میں گزرا تھا۔ ساری عادتیں خصلتیں بدلنے لگیں، جو چیزیں سب سے زیادہ محبوب تھیں وہ مبغوض نظر آنے لگیں، جن سے راحت ملتی تھی اب وہ موجب کلفت بن گئی ہیں۔ اسی کو قرآن کریم نے تنکیس یعنی اوندھا کردینے سے تعبیر فرمایا ہے۔ و نعم قال - من عاش اخلقت الایام حدتہ - وخانہ ثقتاہ السمع والبصر - ” یعنی جو شخص زندہ رہے گا تو زمانہ اس کی حدت و شدت کو بوسیدہ اور پرانا کر دے گا، اور اس کے سب سے بڑے دو ثقہ دوست یعنی شنوائی اور بینائی کی طاقتیں بھی اس سے خیانت کر کے الگ ہوجائیں گی “- یعنی انسان کو دنیا میں سب سے زیادہ اعتماد اپنی آنکھ سے دیکھی یا کان سے سنی ہوئی چیز پر ہوتا ہے۔ بڑھاپے کے آخر عمر میں یہ بھی قابل اعتماد نہیں، گراں گوشی کے سبب بات پوری سمجھنا مشکل، ضعف بینائی کے سبب صحیح صحیح دیکھنا مشکل۔ متنبی نے اسی مضمون کو کہا ہے - ومن صحب الدنیا طویلا تقلبت - علیٰ عینہ حتی یری صدقہا کذبا - ” یعنی جو شخص دنیا میں زیادہ زندہ رہے گا دنیا اس کی آنکھوں کے سامنے ہی پلٹ جائے گی یہاں تک کہ جس چیز کو پہلے سچ جانتا تھا وہ جھوٹ معلوم ہونے لگے گی “- انسان کے وجود میں یہ انقلابات قدرت حق تعالیٰ شانہ، کا عجیب و غریب مظہر تو ہے ہی، اس میں انسان پر ایک عظیم احسان بھی ہے، کہ خالق کائنات نے جتنی طاقتیں انسان کے وجود میں ودیعت فرمائی ہیں، وہ درحقیقت سرکاری مشینیں ہیں، جو اس کو دے دی گئی ہیں، اور یہ بھی بتلا دیا گیا ہے کہ یہ تیری ملک نہیں اور دائمی بھی نہیں، بالآخر تجھ سے واپس لی جائیں گی۔ اس کا تقاضا ظاہری یہ تھا کہ جب وقت مقدر آجاتا سب طاقتیں بیک وقت واپس لے لی جاتیں مگر مولائے کریم نے ان کی واپسی کی بھی بڑی طویل قسطیں کردی ہیں اور تدریجی طور پر واپس لیا ہے تاکہ انسان متنبہ ہو کر سفر آخرت کا سامان کرلے۔ واللہ اعلم
وَمَنْ نُّعَمِّرْہُ نُنَكِّسْہُ فِي الْخَلْقِ ٠ ۭ اَفَلَا يَعْقِلُوْنَ ٦٨- عمر ( زندگی)- والْعَمْرُ والْعُمُرُ : اسم لمدّة عمارة البدن بالحیاة، فهو دون البقاء، فإذا قيل : طال عُمُرُهُ ، فمعناه : عِمَارَةُ بدنِهِ بروحه، وإذا قيل : بقاؤه فلیس يقتضي ذلك، فإنّ البقاء ضدّ الفناء، ولفضل البقاء علی العمر وصف اللہ به، وقلّما وصف بالعمر . والتَّعْمِيرُ : إعطاء العمر بالفعل، أو بالقول علی سبیل الدّعاء . قال : أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ ما يَتَذَكَّرُ فِيهِ [ فاطر 37] ، وَما يُعَمَّرُ مِنْ مُعَمَّرٍ وَلا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهِ [ فاطر 11] ، وَما هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذابِ أَنْ يُعَمَّرَ- [ البقرة 96] ، وقوله تعالی: وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ [يس 68] ، قال تعالی: فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص 45] ، وَلَبِثْتَ فِينا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ [ الشعراء 18] . والعُمُرُ والْعَمْرُ واحد لکن خُصَّ القَسَمُ بِالْعَمْرِ دون العُمُرِ «3» ، نحو : لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ [ الحجر 72] ، وعمّرک الله، أي : سألت اللہ عمرک، وخصّ هاهنا لفظ عمر لما قصد به قصد القسم،- ( ع م ر ) العمارۃ - اور العمر والعمر اس مدت کو کہتے میں جس میں بدن زندگی کے ساتھ آباد رہتا ہے اور یہ بقا سے فرو تر ہے چنناچہ طال عمر ہ کے معنی تو یہ ہوتے ہیں کہ اس کا بدن روح سے آباد رہے لیکن طال بقاء ہ اس مفہوم کا مقتضی نہیں ہے کیونکہ البقاء تو فناء کی ضد ہے اور چونکہ بقاء کو عمر پر فضیلت ہے اس لئے حق تعالیٰ بقاء کے ساتھ تو موصؤف ہوتا ہے مگر عمر کے ساتھ بہت کم متصف ہوتا ہے ۔ التعمیر کے معنی ہیں بالفعل عمر بڑھانا نا یا زبان کے ساتھ عمر ک اللہ کہنا یعنی خدا تیری عمر دراز کرے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ ما يَتَذَكَّرُ فِيهِ [ فاطر 37] کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی تھی کہ اس میں جو سوچنا چاہتا سوچ لیتا ۔ وَما يُعَمَّرُ مِنْ مُعَمَّرٍ وَلا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهِ [ فاطر 11] اور نہ کسی بڑی عمر والے کو عمر زیادہ دی جاتی ہے اور نہ اس کی عمر کم کی جاتی ہے ۔ وَما هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذابِ أَنْ يُعَمَّرَ [ البقرة 96] اگر اتنی لمبی عمر اس کو مل بھی جائے تو اسے عذاب سے تو نہیں چھڑا سکتی ۔ اور آیت : ۔ وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ [يس 68] اور جس کو بڑی عمر دیتے ہیں اسے خلقت میں اوندھا کردیتے ہیں ۔ فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص 45] یہاں تک کہ ( اسی حالت میں ) ان کی عمر ین بسر ہوگئیں ۔ وَلَبِثْتَ فِينا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ [ الشعراء 18] اور تم نے برسوں ہمارے عمر بسر کی ۔ العمر والعمر کے ایک ہی معنی ہیں لیکن قسم کے موقعہ پر خاص کر العمر کا لفظ ہی استعمال ہوتا ہے ۔ عمر کا لفظ نہیں بولا جاتا جیسے فرمایا : ۔ لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ [ الحجر 72] تمہاری زندگی کی قسم وہ اپنی مستی میں عمرک اللہ خدا تمہاری عمر دارز کرے یہاں بھی چونکہ قسم کی طرح تاکید مراد ہے اس لئے لفظ عمر کو خاص کیا ہے ۔ - نكس - النَّكْسُ : قَلْبُ الشیءِ عَلَى رَأْسِهِ ، ومنه : نُكِسَ الوَلَدُ : إذا خَرَجَ رِجْلُهُ قَبْلَ رَأْسِهِ ، قال تعالی: ثُمَّ نُكِسُوا عَلى رُؤُسِهِمْ [ الأنبیاء 65] والنُّكْسُ في المَرَضِ أن يَعُودَ في مَرَضِهِ بعد إِفَاقَتِهِ ، ومن النَّكْسِ في العُمُرِ قال تعالی: وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ [يس 68] وذلک مثل قوله : وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلى أَرْذَلِ الْعُمُرِ [ النحل 70] وقرئ : ننكسه «3» ، قال الأخفش : لا يكاد يقال نَكَّسْتُهُ بالتَّشْدِيدِ إلّا لما يُقْلَبُ فيُجْعَلُ رأسُهُ أسْفَلَهُ «4» . والنِّكْسُ :- السَّهْمُ الذي انكَسَرَ فوقُه، فجُعِلَ أَعْلَاهُ أسْفَلُه فيكون رديئاً ، ولِرَدَاءَتِهِ يُشَبَّهُ به الرَّجُلُ الدَّنِيءُ.- ( ن ک س ) النکس ( ن ) کے معنی کسی چیز کو الٹا کردینے کے ہیں اور اسی سے نکس الولد ہے ۔۔ یعنی ولات کے وقت بچے کے پاؤں کا سر سے پہلے باہر نکلنا ۔ ثُمَّ نُكِسُوا عَلى رُؤُسِهِمْ [ الأنبیاء 65] پھر شرمندہ ہوکرسر نیچا کرلیا ۔ النکس صحت یابی کے بعد مرض کا عود کر آنا۔ اور نکس فی العسر العمر کے متعلق فرمایا : وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ [يس 68] اور جس کو ہم بڑی عمر دیتے ہیں ۔ اسے خلقت میں اوندھا کردیتے ہیں ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلى أَرْذَلِ الْعُمُرِ [ النحل 70] اور تم میں بعض ایسے ہوتے ہیں کہ نہایت خراب عمر کو پہنچ جاتے ہیں ۔ اور ایک قرات میں ننکسہ ہے ۔ اخفش کا قول ہے ۔ کہ ننکسہ وبتشدید الکاف ) کے معنی کسی چیز کو سرنگوں کردینے کے ہوتے ہیں ۔ اور نکس اس تیرے کو کہتے ہیں جس کا فوتہ ٹوٹ گیا ہو اور اس کے اوپر کے حصہ کو نیچے لگا دیا گیا ہو ۔ ایسا تیر چونکہ روی ہوجاتا ہے ۔ اس لئے تشبیہ کے طور پر کمینے آدمی کو بھی نکس کہاجاتا ہے ۔ ( ن ک ص )- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - عقل - العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] ،- ( ع ق ل ) العقل - اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں
جوانی کے بعد بڑھاپا لازمی ہے - قول باری ہے (ومن نعمرہ ننکسہ فی الخلق۔ اور ہم جس کی عمر (بہت زیادہ) کردیتے ہیں اسے اس کی خلقت میں الٹا کردیتے ہیں) قتادہ کا قول ہے۔ ہم اسے ہرم یعنی بہت بڑھاپے کی منزل پر پہنچا دیتے ہیں جس کی بنا پر اس کی حالت قویٰ کی کمزوری اور بیخبر ی کے لحاظ سے بچے کی حالت کے مشابہ ہوجاتی ہے۔ دوسرے حضرات کا قول ہے کہ ہم اسے قوت وطاقت دینے کے بعد کمزوری اور ضعف سے، نیز جسم کی فربہی کے بعد لاغری سے اور تروتازگی ونشاط کے بعد خشکی اور سستی سے دو چار کردیتے ہیں۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس کی نظیر یہ قول باری ہے (ومنکم من یرد الی ارذلی العمر اور تم میں سے وہ بھی ہیں جنہیں نکمی عمر تک پہنچا دیا جاتا ہے) انتہائی بڑھاپے کی عمر کو نکمی عمر اس لئے کہا گیا ہے کہ اس میں کمی کے بعد اضافے اور لاعلمی کے بعد علم کی طرف رجوع کرنے کی کوئی توقع اور آس نہیں ہوتی۔ جس طرح بچے کے بارے میں یہ توقعات ہوتی ہیں کہ ابھی اگرچہ وہ کمزور ہے لیکن اس کے جسم میں قوت آجائے گی اور ابھی اگرچہ اسے کچھ خبر نہیں لیکن آگے چل کر باخبر ہوجائے گا۔ اس نظریہ قول جاری ہے (ثم جعل من بعد قوۃ ضعفا وشیبۃ ۔ پھر اللہ نے قوت وطاقت دینے کے بعد کمزوری اور بڑھاپا دیا) ۔
اور جس کو ہم زیادہ عمر کردیتے ہیں تو اسے طبعی حالت میں الٹا کردیتے ہیں تو وہ بچہ کی طرح ہوجاتی ہے نہ اس کی داڑھی رہتی ہے اور نہ دانت اور بول و براز سے بھی محتاج ہوجاتا ہے تو کیا پھر بھی یہ لوگ تصدیق نہیں کرتے۔
آیت ٦٨ وَمَنْ نُّـعَمِّرْہُ نُـنَـکِّسْہُ فِی الْْخَلْقِ ” اور جس کو ہم زیادہ عمر دیتے ہیں اس کی ِخلقت میں ضعف پیدا کردیتے ہیں۔ “- ظاہر ہے جب بڑھاپا آتا ہے تو انسان کے قویٰ کمزور ہوجاتے ہیں۔ ؎- مضمحل ہوگئے قویٰ غالبؔ- وہ عناصر میں اعتدال کہاں ؟- اَفَلَا یَعْقِلُوْنَ ” تو کیا یہ لوگ عقل سے کام نہیں لیتے ؟ “
سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :57 ساخت الٹ دینے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑھاپے میں آدمی کی حالت بچوں جیسی کر دیتا ہے ۔ اسی طرح وہ چلنے پھرنے سے معذور ہوتا ہے ۔ اسی طرح دوسرے اسے اٹھاتے بٹھاتے اور سہارا دے کر چلاتے ہیں ۔ اسی طرح دوسرے اس کو کھلاتے پلاتے ہیں ۔ اسی طرح وہ اپنے کپڑوں میں اور اپنے بستر پر رفع حاجت کرنے لگتا ہے ۔ اسی طرح وہ ناسمجھی کی باتیں کرتا ہے جس پر لوگ ہنستے ہیں ۔ غرض جس کمزوری کی حالت سے اس نے دنیا میں اپنی زندگی کا آغاز کیا تھا اختتام زندگی پر وہ اسی حالت کو پہنچ جاتا ہے ۔
20: جب انسان بہت بوڑھا ہوجاتا ہے تو اس کے قویٰ جواب دے جاتے ہیں، اس کے دیکھنے، سننے، بولنے اور سمجھنے کی طاقت ختم ہوجاتی ہے، یا کمزور پڑجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ یہ لوگ انسانوں کو پیش آنے والے ان تغیرات کو دیکھتے ہیں، اس سے انہیں یہ سبق لینا چاہئے کہ جب اللہ تعالیٰ انسانوں کے جسم میں یہ تغیرات پیدا کرسکتا ہے تو وہ ان کی نافرمانیوں کی بنا پر ان کی بینائی بالکل ختم بھی کرسکتا ہے، اور ان کی صورتیں بھی بالکلیہ مسخ کرسکتا ہے۔