Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

69۔ 1 مشرکین مکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلانے کے لئے مختلف قسم کی باتیں کہتے رہتے تھے۔ ان میں ایک بات یہ بھی تھی کہ آپ شاعر ہیں اور یہ قرآن پاک آپ کی شاعرانہ تک بندی ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی نفی فرمائی۔ کہ آپ شاعر ہیں اور نہ قرآن شعری کلام کا مجموعہ ہے بلکہ یہ تو صرف نصیحت و موعظت ہے۔ شاعری میں بالعموم مبالغہ، افراط وتفریط اور محض تخیلات کی ندرت کاری ہوتی ہے، یوں گویا اسکی بنیاد جھوٹ پر ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں شاعر محض گفتار کے غازی ہوتے ہیں، کردار کے نہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے نہ صرف یہ کہ اپنے پیغمبر کو شعر نہیں سکھلائے، نہ اشعار کی اس پر وحی کی، بلکہ اس کے مزاج و طبیعت کو ایسا بنایا کہ شعر سے اسکو کوئی مناسبت ہی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کبھی کسی کا شعر پڑھتے تو اکثر صحیح نہ پڑھ پاتے اور اسکا وزن ٹوٹ جاتا۔ جس کی مثالیں احادیث میں موجود ہیں۔ یہ احتیاط اس لیے کی گئی کہ منکرین پر اتمام حجت اور انکے شبہات کا خاتمہ کردیا جائے۔ اور وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ یہ قرآن کی شاعرانہ تک بندی کا نتیجہ ہے، جس طرح آپ کی امیت بھی قطع شبہات کے لیے تھی تاکہ لوگ قرآن کی بابت یہ نہ کہہ سکیں کہ یہ تو اس نے فلاں سے سیکھ پڑھ کر اس کو مرتب کرلیا ہے۔ البتہ بعض مواقع پر آپ کی زبان مبارک سے ایسے الفاظ کا نکل جانا، دو مصرعوں کی طرح ہوتے اور شعری اوزان و بحور کے بھی مطابق ہوتے، آپ کے شاعر ہونے کی دلیل نہیں بن سکتے۔ کیونکہ ایسا آپ کے قصدو ارادہ کے بغیر ہوا اور ان کا شعری قالب میں ڈھل جانا ایک اتفاق تھا، جس طرح حنین والے دن آپ کی زبان پر بےاختیار یہ رجز جاری ہوگیا۔ انا النبی لا کذب۔ انا ابن عبد المطلب ایک اور موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انگلی زخمی ہوگئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ھل أنت الا اصبع دمیت۔ وفی سبیل اللہ ما لقیت

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٦١] آپ کے لئے شاعری اس لئے مناسب نہیں کہ شاعروں کے کلام میں جب تک جھوٹ اور مبالغہ کی آمیزش نہ ہو اس کے کلام میں نہ حسن پیدا ہوتا ہے اور نہ دلکشی اور نہ ہی کوئی ان کے اشعار کو پسند کرتا ہے۔- (مزید برآں ان کے تخیلات خواہ کتنے ہی بلند ہوں ان کا عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ شاعروں کی عملی زندگی عموماً ان کے اقوال کے برعکس ہوتی ہے اور تیسری وجہ یہ ہے کہ ان کے انداز فکر کے لئے کوئی متعین راہ نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک بےلگام گھوڑے کی طرح ہر میدان میں ہرزہ سرائی کرتے نظر آتے ہیں۔ شعر میں اگر کوئی چیز پسندیدہ ہوسکتی ہے تو وہ اس کی تاثیر اور دل نشینی ہے اور یہ چیز قرآن میں نثر ہونے کے باوجود بدرجہ اتم پائی جاتی ہے گویا شعر میں جو چیز کام کی تھی یا اس کی روح تھی وہ پوری طرح قرآن میں موجود ہے اور غالباً یہی وجہ ہے کہ عرب جنہیں اپنی فصاحت و بلاغت پر ناز تھا۔ اور اسی وجہ سے وہ غیر عرب کو عجمی کہتے تھے۔ قرآن کو شعر یا سحر کہنے لگتے تھے اور حامل قرآن کو شاعر اور ساحر۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ شعر اور سحر کو قرآن سے کوئی نسبت نہیں کیا کبھی شاعری یا جادو کی بنیاد پر دنیا میں قومیت و روحانیت کی ایسی عظیم الشان اور لازوال عمارت کھڑی ہوسکتی ہے جو قرآنی تعلیم کی اساس پر قائم ہوئی اور آج تک قائم ہے۔- خ آپ کا وزن توڑ کر شعر پڑھنا :۔ آپ کی اللہ تعالیٰ نے طبیعت ہی ایسی بنائی تھی کہ آپ شعر کو موزوں نہیں کرسکتے تھے اور اگر کبھی کسی دوسرے شاعر کا کوئی شعر پڑھتے تو اس کا وزن توڑ دیتے تھے۔ چناچہ سیدنا رافع بن خدیج کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے جنگ ہوازن کے اموال غنیمت میں سے ابو سفیان بن حرب اور صفوان بن امیہ، عیینہ بن حصین اوراقرع بن حابس کو سو سو اونٹ دیئے اور عباس بن مرداس (انصاری) کو کچھ کم دیئے تو اس نے چند شعر کہے جن کا پہلا شعر یہ تھا۔- اتجعل نھبی و نھب العبید بین العیینہ والاقرع (یعنی کیا آپ میرا اور میرے گھوڑے عبید کا حصہ عیینہ اوراقرع کو دے رہے ہیں) جب آپ کو اس شکوہ کی خبر ملی تو آپ نے صرف انصار کو ایک خیمہ کے نیچے اکٹھا کیا پھر ان سے پوچھا کہ تم میں سے کسی نے یہ شعر کہا ہے اور جب آپ نے مندرجہ بالا شعر پڑھا تو اسے یوں پڑھا۔ اتجعل نھبی ونھب العبید بین الاقرع والعیینۃ گویا آپ نے دوسرے مصرعہ کا وزن توڑ دیا تو یہ سن کر ایک صحابی کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے کہ (وَمَا عَلَّمْنٰہُ الشِّعْرَ وَمَا یَنْبَغِیْ لَہ، ) (مسلم۔ کتاب الجہاد وا لسیر۔ باب فتح مکۃ عن ابی ہریرہ)- آپ نے زندگی بھر میں دو تین شعر کہے جنہیں اگر شعر کے بجائے منظوم کلام کہا جائے تو مناسب ہوگا۔ وہ دراصل نثر کے ٹکڑے ہوتے جو بےساختہ منظوم بن جاتے تھے اور وہ یہ ہیں۔- ١۔ آپ کے اشعار :۔ سیدنا جندب بن عبداللہ بجلی فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ جہاد کے دوران آپ کو ٹھوکر لگی جس سے آپ کے پاؤں کے انگلی خون آلود ہوگئی اس وقت آپ نے اس انگلی کو مخاطب کرکے یہ شعر پڑھا :- ھَلْ أنْتِ اِلَّا اِصْبَعٌ دَمِیْتِ ۔۔ وَ فِی سَبِیْلِ اللّٰہ مَا لَقِیْتِ- تو ایک انگلی ہی تو ہے جو خون آلود ہوگئی۔ اگر تو اللہ کی راہ میں زخمی ہوگئی تو کیا ہوا (بخاری کتاب الادب۔ باب مایجوز من الشعر)- ٢۔ جنگ حنین میں ایک موقعہ ایسا آیا جب بہت سے صحابہ میدان سے بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔ اس وقت آپ ایک سفید خچر پر سوار بڑے جوش سے دشمن کی طرف بڑھ رہے تھے اور ساتھ ہی یہ شعر پڑھ رہے تھے۔- اَنَا النَّبِیُّ لَاکَذِبْ ۔۔ اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ- اس میں کوئی جھوٹ نہیں کہ میں نبی ہوں۔ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب قولہ تعالیٰ یوم حنین اذ أعجبتکم کثرتکم)- [ ٦٢] آپ کو شعر کیوں نہیں سکھایا گیا ؟ ہم نے آپ کی طبیعت شاعرانہ اس لئے نہیں بنائی کہ یہ قرآن کتاب ہدایت ہے۔ جس میں دنیا و آخرت کی زندگی کے ٹھوس حقائق مذکور ہیں۔ جبکہ شاعری نری طبع آزمائی اور خیالی تک بندیاں ہوتی ہیں تو جب قرآن کی شاعری سے کوئی نسبت نہیں تو حامل قرآن کی طبیعت قرآن کے مزاج کے موافق ہونی چاہئے۔ نہ کہ شاعر کے موافق۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمَا عَلَّمْنٰهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنْۢبَغِيْ لَهٗ : پچھلی آیات سے اس کی مناسبت یہ ہے کہ کفار توحید و آخرت اور زندگی کے بعد موت اور جنت و دوزخ کے متعلق نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتوں کو محض شاعری قرار دے کر اپنے خیال میں بےوزن ٹھہرانے کی کوشش کرتے تھے، یہ ان کے اس الزام کا رد ہے۔ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبوت و رسالت کے جس مقام پر فائز ہیں شاعری کو اس سے کوئی مناسبت نہیں۔ شاعری کا حسن اور کمال تو جھوٹ، مبالغہ آرائی، خیالی بلند پروازی اور فرضی نکتہ آفرینی ہے، جب کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان ان چیزوں سے بلندوبالا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طبیعت ایسی رکھی کہ باوجود خاندان عبدالمطلب سے ہونے کے، جس کا ہر فرد فطرتاً شاعر ہوتا تھا، پوری عمر میں کوئی شعر نہیں کہا۔ یوں جنگ وغیرہ کے موقع پر زبان مبارک سے کبھی کوئی مقفّٰی عبارت ایسی نکل گئی جو شعر کا سا وزن رکھتی تھی تو وہ الگ بات ہے، اسے شعر و شاعری نہیں کہا جاسکتا۔ شعر اور شعراء پر مفصل کلام کے لیے دیکھیے سورة شعراء کی آیات (٢٤ ٢ تا ٢٢٧) کی تفسیر۔- ” وَمَا عَلَّمْنٰهُ الشِّعْرَ “ کے الفاظ پر ان لوگوں کو غور کرنا چاہیے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” عَالِمُ مَا کَانَ وَمَا یَکُوْنُ “ قرار دیتے ہیں۔- اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ وَّقُرْاٰنٌ مُّبِيْنٌ : یعنی یہ تو نصیحت اور یاد دہانی ہے اور واضح پڑھی جانے والی آسمانی کتاب ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - (اور یہ کفار جو نبوت کی نفی کرنے کے لئے آپ کو شاعر کہتے ہیں یہ محض باطل ہے کیونکہ) ہم نے آپ کو شاعری (یعنی خیالی مضامین مرتب کرنے کا) علم نہیں دیا اور وہ (شاعری) آپ کے شایان شان بھی نہیں وہ (یعنی آپ کو عطا کیا ہوا علم جس کو یہ لوگ شاعری کہتے ہیں وہ) تو محض نصیحت (کا مضمون) اور ایک آسمانی کتاب ہے جو احکام کی ظاہر کرنے والی ہے تاکہ (بیان احکام کے اثر سے) ایسے شخص کو (نافع ڈرانا) ڈرا دے جو (حیات قلبیہ کے اعتبار سے) زندہ ہو اور تاکہ کافروں پر (عذاب کی) حجت ثابت ہوجاوے۔ کیا ان (مشرک) لوگوں نے اس پر نظر نہیں کی کہ ہم نے ان کے (نفع کے) لئے اپنے ہاتھ کی سوختہ چیزوں میں سے مواشی پیدا کئے اور (ہمارے مالک بنانے سے) یہ لوگ ان کے مالک بن رہے ہیں اور (آگے اس نفع کی کچھ تفصیل ہے کہ) ہم نے ان مواشی کو ان کا تابع بنادیا سو (وہ ان کے کام میں لانے سے کام دیتے ہیں چناچہ) ان میں بعض تو ان کی سواریاں ہیں اور بعض کو وہ کھاتے ہیں اور ان میں ان لوگوں کے لئے اور بھی نفع ہیں (جیسے بال، کھال، ہڈی وغیرہ مختلف طریقوں سے استعمال میں آتے ہیں) اور (ان میں ان لوگوں کے) پینے کی چیزیں بھی ہیں (یعنی دودھ) سو کیا (اس پر بھی) یہ لوگ شکر نہیں کرتے (اور شکر کا سب سے مقدم اور اہم درجہ توحید پر ایمان ہے) اور انہوں نے (بجائے شکر اور توحید کے کفر اور شرک اختیار کر رکھا ہے چنانچہ) خدا کے سوا اور معبود قرار دے رکھے ہیں اس امید پر کہ ان کو (ان معبودین کی طرف سے) مدد ملے (لیکن) وہ ان کی کچھ مدد کر ہی نہیں سکتے اور (مدد تو کیا کرتے اور الٹے) وہ (معبودین) ان لوگوں کے حق میں ایک فریق (مخالف) ہوجاویں گے جو (موقف حساب میں بالا) حاضر کئے جائیں گے (اور وہاں حاضر ہو کر ان کی مخالفت کا اظہار کریں گے کماقال تعالیٰ فی سورة مریم (آیت) ویکونون علیہم ضداً وقال تعالیٰ فی سورة یونس (آیت) قال شرکاءھم ماکنتم ایانا تعبدون وغیر ذلک من الآیت)- معارف ومسائل - (آیت) وما علمناہ الشعر وما ینبغی لہ، چونکہ منکرین نبوت و رسالت قرآن کی تاثیرات عجیبہ اور دلوں پر اثر انداز ہونے کی کیفیت کا جو عام مشاہدہ میں تھی انکار نہیں کرسکتے تھے، اس لئے کبھی تو اس کلام الٰہی کو سحر اور آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ساحر کہتے تھے اور کبھی اس کلام کو شعر اور آپ کو شاعر کہہ کر یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ یہ تاثرات عجیبہ کلام الہٰی ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ یا تو یہ جادو کے کلمات ہیں جو دلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں یا شاعرانہ کلام ہے وہ بھی عام دلوں پر اثر انداز ہوا کرتا ہے۔- حق تعالیٰ نے آیت مذکورہ میں فرمایا کہ ہم نے نبی کو شعر و شاعری نہیں سکھلائی اور ان کی شان کے مناسب تھی، آپ کو شاعر کہنا باطل اور غلط ہے۔- یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عرب تو وہ قوم ہے جس کی فطرت میں شعر و شاعری پڑی ہوئی ہے، عورتیں بچے بےساختہ شعر کہتے ہیں، وہ شعر کی حقیقت سے پوری طرح واقف ہیں، انہوں نے قرآن کو شعر اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شاعر کس اعتبار سے کہا ؟ کیونکہ نہ تو قرآن وزن شعری کا پابند ہے نہ کہیں ردیف قافیہ کا، اس کو تو جاہل شعر و شاعری سے ناواقف بھی شعر نہیں کہہ سکتا۔- اس کا جواب یہ ہے کہ شعر دراصل خیالی خود ساختہ مضامین کو کہا جاتا ہے خواہ نظم میں ہوں یا نثر میں۔ ان کا مقصد قرآن کو شعر اور آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شاعر کہنے سے یہ تھا کہ آپ جو کلام لائے ہیں وہ محض خیالی افسانے ہیں یا پھر شعر کے معنی معروف کے اعتبار سے شاعر کہا تو اس مناسبت سے کہ جس طرح نظم اور شعر خاص اثر رکھتا ہے اس کا اثر بھی ایسا ہی ہے۔- امام جصاص نے اپنی سند سے روایت کیا ہے کہ حضرت عائشہ سے کسی نے سوال کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کبھی کوئی شعر پڑھتے تھے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ نہیں، البتہ ایک شعر ابن طرفہ کا آپ نے پڑھا تھا - ستبدی لک الایام ماکنت جاھلاً- ویاتیک بالاخبار من لم تزود - اس کو آپ نے وزن شعری کو توڑ کر من لم تزود بالاخبار پڑھا۔ حضرت ابوبکر نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ شعر اس طرح نہیں، تو آپ نے فرمایا کہ میں شاعر نہیں اور نہ میرے لئے شعر و شاعری مناسب ہے۔- یہی روایت ابن کثیر نے بھی اپنی تفسیر میں نقل کی ہے اور ترمذی، نسائی، امام احمد نے بھی اس کو روایت کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ خود کوئی شعر تصنیف کرنا تو کیا آپ دوسروں کے اشعار بھی پڑھنے کو اپنے لئے مناسب نہ سمجھتے تھے۔ اور بعض روایات میں جو خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وزن شعری کے مطابق کچھ کلمات منقول ہیں وہ بقصد شعر نہیں، اتفاقی ہیں اور ایسے اتفاقی کوئی ایک دو شعر موزوں ہوجانے سے کوئی آدمی شاعر نہیں کہلاتا۔ مگر آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس فطری حال سے جو بڑی حکمتوں پر مبنی تھا یہ لازم نہیں آتا کہ مطلقاً شعر گوئی مذموم ہے جیسا کہ شعر و شاعری کے احکام کی تفصیل سورة شعراء کے آخری رکوع میں گزر چکی ہے وہاں دیکھ لیا جائے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَا عَلَّمْنٰہُ الشِّعْرَ وَمَا يَنْۢبَغِيْ لَہٗ۝ ٠ ۭ اِنْ ہُوَاِلَّا ذِكْرٌ وَّقُرْاٰنٌ مُّبِيْنٌ۝ ٦٩ۙ- علم ( تعلیم)- اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] ، فمن التَّعْلِيمُ قوله : الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] ، عَلَّمَ بِالْقَلَمِ [ العلق 4] ، وَعُلِّمْتُمْ ما لَمْ تَعْلَمُوا[ الأنعام 91] ، عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل 16] ، وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ البقرة 129] ، ونحو ذلك . وقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31]- تعلیم - کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛ وَعُلِّمْتُمْ ما لَمْ تَعْلَمُوا[ الأنعام 91] اور تم کو وہ باتیں سکھائی گئیں جن کو نہ تم جانتے تھے عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل 16] ہمیں خدا کی طرف ست جانوروں کی بولی سکھائی گئی ہے ۔ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ البقرة 129] اور خدا کی کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ۔ وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] اور اس نے ادم کو سب چیزوں کے نام سکھائے ۔ میں آدم (علیہ السلام) کو اسماء کی تعلیم دینے کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کے اندر بولنے کی صلاحیت اور استعدادرکھ دی جس کے ذریعہ اس نے ہر چیز کے لئے ایک نام وضع کرلیا یعنی اس کے دل میں القا کردیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حیوانات کو ان کے کام سکھا دیئے ہیں جسے وہ سر انجام دیتے رہتے ہیں اور آواز دی ہے جسے وہ نکالتے رہتے ہیٰ - شعر ( شاعر)- الشَّعْرُ معروف، وجمعه أَشْعَارٌ قال اللہ تعالی: وَمِنْ أَصْوافِها وَأَوْبارِها وَأَشْعارِها [ النحل 80] ، وشَعَرْتُ : أصبت الشَّعْرَ ، ومنه استعیر : شَعَرْتُ كذا، أي علمت علما في الدّقّة كإصابة الشَّعر،- وسمّي الشَّاعِرُ شاعرا لفطنته ودقّة معرفته، فَالشِّعْرُ في الأصل اسم للعلم الدّقيق في قولهم : ليت شعري، وصار في التّعارف اسما للموزون المقفّى من الکلام، والشَّاعِرُ للمختصّ بصناعته، وقوله تعالیٰ حكاية عن الکفّار : بَلِ افْتَراهُ بَلْ هُوَ شاعِرٌ [ الأنبیاء 5] ، وقوله : لِشاعِرٍ مَجْنُونٍ [ الصافات 36] ، شاعِرٌ نَتَرَبَّصُ بِهِ [ الطور 30] ، وكثير من المفسّرين حملوه علی أنهم رموه بکونه آتیا بشعر منظوم مقفّى، حتی تأوّلوا ما جاء في القرآن من کلّ لفظ يشبه الموزون من نحو : وَجِفانٍ كَالْجَوابِ وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ 13] ، وقوله : تَبَّتْ يَدا أَبِي لَهَبٍ [ المسد 1] . وقال بعض المحصّلين : لم يقصدوا هذا المقصد فيما رموه به، وذلک أنه ظاهر من الکلام أنّه ليس علی أسالیب الشّعر، ولا يخفی ذلک علی الأغتام من العجم فضلا عن بلغاء العرب، وإنما رموه بالکذب، فإنّ الشعر يعبّر به عن الکذب، والشَّاعِرُ : الکاذب حتی سمّى قوم الأدلة الکاذبة الشّعريّة، ولهذا قال تعالیٰ في وصف عامّة الشّعراء : وَالشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ [ الشعراء 224] ، إلى آخر السّورة، ولکون الشِّعْرِ مقرّ الکذب قيل : أحسن الشّعر أكذبه . وقال بعض الحکماء : لم ير متديّن صادق اللهجة مفلقا في شعره . - ( ش ع ر )- الشعر بال اس کی جمع اشعار آتی ہے قرآن میں ہے ۔ وَمِنْ أَصْوافِها وَأَوْبارِها وَأَشْعارِها [ النحل 80] اون اور ریشم اور بالوں سے شعرت کے معنی بالوں پر مارنے کے ہیں ۔ اور اسی سے شعرت کذا مستعار ہے جس کے معنی بال کی طرح باریک علم حاصل کرلینے کے ہیں اور شاعر کو بھی اس کی فطانت اور لطافت نظر کی وجہ سے ہی شاعر کہا جاتا ہے تو لیت شعری کذا کے محاورہ میں شعر اصل میں علم لطیف کا نام ہے پھر عرف میں موزوں اور مقفیٰ کلام کو شعر کہا جانے لگا ہے اور شعر کہنے والے کو شاعر کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلِ افْتَراهُ بَلْ هُوَ شاعِرٌ [ الأنبیاء 5] بلکہ اس نے اس کو اپنی طرف سے بنا لیا ہے ۔ نہیں بلکہ ( یہ شعر ہے جو اس ) شاعر کا نتیجہ طبع ہے ۔ نیز آیت کریمہ : ۔ لِشاعِرٍ مَجْنُونٍ [ الصافات 36] ایک دیوانے شاعر کے کہنے سے ۔ اور آیت شاعِرٌ نَتَرَبَّصُ بِهِ [ الطور 30] شاعر ہے اور ہم اس کے حق میں ۔۔۔ انتظار کر رہے ہیں ۔ بہت سے مفسرین نے یہ سمجھا ہے کہ انہوں نے آنحضرت پر شعر بمعنی منظوم اور مقفیٰ کلام بنانے کی تہمت لگائی تھی ۔ حتی کہ وہ قران میں ہر اس آیت کی تاویل کرنے لگے جس میں وزن پایا جاتا ہے جیسے وَجِفانٍ كَالْجَوابِ وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ 13] لیکن بعض حقیقت شناس لوگوں نے کہا ہے کہ اس سے ان کا مقصد منظوم اور مقفیٰ کلام بنانے تہمت لگانا نہیں تھا ۔ کیونکہ یہ ظاہر ہے کہ قرآن اسلوب شعری سے مبرا ہے اور اس حقیقت کو عوام عجمی بھی سمجھ سکتے ہیں پھر فصحاء عرب کا کیا ذکر ہے ۔ بلکہ وہ آپ پر ( نعوذ باللہ ) جھوٹ کی تہمت لگاتے تھے کیونکہ عربی زبان میں شعر بمعنی کذب اور شاعر بمعنی کاذب استعمال ہوتا ہے ۔ حتی کہ جھوٹے دلائل کو ادلۃ شعریۃ کہا جاتا ہے اسی لئے قرآن نے شعراء کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے :۔ وَالشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ [ الشعراء 224] اور شاعروں کی پیروی گمراہ لوگ کیا کرتے ہیں ۔ اور شعر چونکہ جھوٹ کا پلندہ ہوتا ہے ۔ اس لیے مقولہ مشہور ہے کہ احسن الشعر اکذبہ سب سے بہتر شعروہ ہے جو سب سے زیادہ جھوٹ پر مشتمل ہوا اور کسی حکیم نے کہا ہے کہ میں نے کوئی متدین اور راست گو انسان ایسا نہیں دیکھا جو شعر گوئی میں ماہر ہو ۔ المشاعر حواس کو کہتے ہیں لہذا آیت کریمہ ؛ وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات 2] اور تم کو خبر بھی نہ ہو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم حواس سے اس کا ادرک نہیں کرسکتے ۔ اور اکثر مقامات میں جہاں لایشعرون کا صیغہ آیا ہے اس کی بجائے ۔ لایعقلون کہنا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو محسوس تو نہیں ہوسکتی لیکن عقل سے ان کا ادراک ہوسکتا ہے - ابتغاء (ينبغي)- البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى، تجاوزه أم لم يتجاوزه، فتارة يعتبر في القدر الذي هو الكمية، وتارة يعتبر في الوصف الذي هو الكيفية، يقال : بَغَيْتُ الشیء : إذا طلبت أكثر ما يجب، وابْتَغَيْتُ كذلك، قال اللہ عزّ وجل : لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة 48] ، - وأمّا الابتغاء - فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] ، الابتغاء فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] ، وقولهم : يَنْبغي مطاوع بغی. فإذا قيل : ينبغي أن يكون کذا ؟- فيقال علی وجهين : أحدهما ما يكون مسخّرا للفعل، نحو : النار ينبغي أن تحرق الثوب، والثاني : علی معنی الاستئهال، نحو : فلان ينبغي أن يعطی لکرمه، وقوله تعالی: وَما عَلَّمْناهُ الشِّعْرَ وَما يَنْبَغِي لَهُ [يس 69] ، علی الأول، فإنّ معناه لا يتسخّر ولا يتسهّل له، ألا تری أنّ لسانه لم يكن يجري به، وقوله تعالی: وَهَبْ لِي مُلْكاً لا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي [ ص 35] .- ( ب غ ی ) البغی - کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ ردی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ خواہ تجاوز کرسکے یا نہ اور بغی کا استعمال کیت اور کیفیت یعنی قدر وو صف دونوں کے متعلق ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ۔ کسی چیز کے حاصل کرنے میں جائز حد سے تجاوز ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة 48 پہلے بھی طالب فسادر ہے ہیں ۔- الا بتغاء - یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔- اور ینبغی ( انفعال ) بغی کا مطاوع آتا ہے اور ینبغی ایکون کذا کا محاورہ طرح استعمال ہوتا ہے ( 1) اس شے کے متعلق جو کسی فعل کے لئے مسخر ہو جیسے یعنی کپڑے کو جلا ڈالنا آگ کا خاصہ ہے ۔ ( 2) یہ کہ وہ اس کا اہل ہے یعنی اس کے لئے ایسا کرنا مناسب اور زیبا ہے جیسے کہ فلان کے لئے اپنی کرم کی وجہ سے بخشش کرنا زیبا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَما عَلَّمْناهُ الشِّعْرَ وَما يَنْبَغِي لَهُ [يس 69] اور ہم نے ان ( پیغمبر ) کو شعر گوئی نہیں سکھلائی اور نہ وہ ان کو شایاں ہے ۔ پہلے معنی پر محمول ہے ۔ یعنی نہ تو آنحضرت فطر تا شاعر ہیں ۔ اور نہ ہی سہولت کے ساتھ شعر کہہ سکتے ہیں اور یہ معلوم کہ آپ کی زبان پر شعر جاری نہ ہوتا تھا ۔ اور آیت کریمہ : وَهَبْ لِي مُلْكاً لا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي [ ص 35] اور مجھ کو ایسی بادشاہ ہی عطا فرما کر میرے بعد کیسی کو شایاں نہ ہو ۔ ( دوسرے معنی پر محمول ہے ۔ یعنی میرے بعد وہ سلطنت کسی کو میسر نہ ہو )- ذكر - الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل :- الذّكر ذکران :- ذكر بالقلب .- وذکر باللّسان .- وكلّ واحد منهما ضربان :- ذكر عن نسیان .- وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ، - ( ذک ر ) الذکر - ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔- قرآن - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ؂[ الإسراء 78] أي :- قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77]- ( ق ر ء) قرآن - القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔- مبینبَيَان - والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : - البیان يكون علی ضربین :- أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة .- والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم 10] .- وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 43- 44] ، وسمّي الکلام بيانا لکشفه عن المعنی المقصود إظهاره نحو : هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران 138] .- وسمي ما يشرح به المجمل والمبهم من الکلام بيانا، نحو قوله : ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة 19] ، ويقال : بَيَّنْتُهُ وأَبَنْتُهُ : إذا جعلت له بيانا تکشفه، نحو : لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] ، وقال : نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص 70] ، وإِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات 106] ، وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف 52] ، أي : يبيّن، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] .- البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر ( بھیجا تھا ۔ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 43- 44] اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادات ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ اور کلام کو بیان کہا جاتا ہے کیونکہ انسان اس کے ذریعہ اپنے مافی الضمیر کو ظاہر کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران 138] ( قرآن لوگوں کے لئے بیان صریح ہو ۔ اور مجمل مہیم کلام کی تشریح کو بھی بیان کہا جاتا ہے جیسے ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة 19] پھر اس ( کے معافی ) کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے ۔ بینہ وابنتہ کسی چیز کی شروع کرنا ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] تاکہ جو ارشادت لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص 70] کھول کر ڈرانے والا ہوں ۔إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات 106] شیہ یہ صریح آزمائش تھی ۔ وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف 52] اور صاف گفتگو بھی نہیں کرسکتا ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] . اور جگڑے کے وقت بات نہ کرسکے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

شعر گوئی نبی کے شایان شان نہیں - قول باری ہے : (وما علمناہ الشعروما ینبغی لہ۔ اور ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شعر وشاعری نہیں سکھائی اور نہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شایاں ہے) ہمیں عبداللہ بن محمد بن اسحق نے روایت بیان کی ، انہیں حسن بن ابی الربیع نے، انہیں عبدالرزاق نے معمر سے اس قول بای کی تفسیر میں بیان کیا کہ معمہ کہتے ہیں۔ کہ مجھے حضرت عائشہ (رض) سے یہ روایت پہنچی ہے کہ ان سے جب پوچھا گیا کہ آیا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کبھی موقع ومحل کی مناسبت سے کوئی شعر پڑھتے تھے تو انہوں نے جواب میں فرمایا کہ نہیں، بنو قیس بن طرفہ کے شاعر کے ، اس شعر کے سوا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی کوئی شعر نہیں پڑھا :- ستبدی لک الایام ماکنت جاھلا - ویاتیک بالاخبار من لم ترود - زمانہ تمہارے سامنے وہ باتیں ظاہر کردے گا جن سے تم ابھی تک ناواقف ہو اور تمہیں وہ شخص خبریں سنائے گا جسے تم نے اس کام کے لئے کوئی تو یہ وغیرہ نہیں دیا ہے۔- معمر کہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس شعر کے آخری مصرعے کی ترتیب بدل کر یوں پڑھتے :- ع ” یاتیک من لم تزود بالاخبار “- اس موقعہ پر حضرت ابوبکر (رض) عرض کرتے ہیں ” اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ مصرعہ اس طرح نہیں ہے۔ “ آپ جواب میں فرماتے ۔” میں نہ تو شاعر ہوں اور نہ ہو شعروں سے میری مناسبت ہے۔ “- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شعر گوئی کا علم نہیں دیا تھا۔ اس لئے اس نے آپ کو شعر پڑھنا بھی نہیں سکھایا تھا کیونکہ یہ ایک ایسا ذوق ہے جس کو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے عطا کردیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو شاعری کا ذوق اس لئے عطا نہیں کیا کہ کہیں اس سے بعض لوگوں کو یہ شبہ نہ پیدا ہوجائے کہ شاعرانہ ذوق کی بنا پر نعوذ باللہ آپ نے قرآن بھی اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے۔- جب درج بالا آیت کی یہ تاویل کی جائے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سرے سے شعر گوئی کا ذوق عطا نہیں کیا تھا تو اس صورت میں کسی اور شاعر کا شعر پڑھنے میں کوئی امتناع نہیں تاہم کسی صحیح روایت سے یہ بات ثابت نہیں کہ آپ نے کبھی کسی شاعر کا کوئی شعر پڑھا ہو اگرچہ یہ مروی ہے کہ آپ نے یہ شعر کہا تھا :- ھل انت الا اصبع دمیت - وفی سبیل اللہ ما لقیت - اے نیری انگلی، تو اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ یہ ایک انگلی ہے جو خون آلود ہوگئی ہے لیکن تجھے جو کچھ برداشت کرنا پڑا ہے وہ اللہ کی راہ میں برداشت کرنا پڑا ہے۔ ایک روایت کے مطابق یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا شعر نہیں ہے بلکہ کسی صحابی کا شعر ہے نیز جو شخص ایک آدھ شعر کہہ لیتا ہے یا کسی اور شاعر کے ایک دو شعر پڑھ لیتا ہے وہ شاعر نہیں کہلاتا اور نہ ہی اس پر اس امر کا اطلاق ہوتا ہے کہ اسے شاعری آگئی ہے یا اس نے شاعری سیکھ لی ہے۔- آپ نہیں دیکھتے کہ جس شخص کو تیراندازی اچھی طرح نہیں آتی بعض دفعہ اس کا تیر نشانے پر جالگتا ہے لیکن اس کی بنا پر وہ تیرانداز نہیں کہلاتا۔ اور نہ ہی اس کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ اسے تیراندازی کا فن آگیا ہے۔ اسی طرح جو شخص ایک آدھ شعر کہہ لیتا ہے یا کسی اور شاعر کے ایک دو شعر پڑھ لیتا ہے وہ شاعر نہیں کہلاتا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور ہم نے رسول اکرم کو شاعری کا علم نہیں سکھایا اور یہ آپ کے لیے شان شایان بھی نہیں یہ قرآن حکیم تو صرف نصیحت کا مضمون ہے اور حلال و حرام اور اوامرو نواہی کو ظاہر کرنے والی کتاب ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٩ وَمَا عَلَّمْنٰـہُ الشِّعْرَ وَمَا یَنْبَغِیْ لَہٗ ” اور ہم نے ان کو شعر نہیں سکھایا اور نہ ہی یہ ان کے شایانِ شان ہے۔ “ - اس سے پہلے سورة الشعراء میں شعراء کے بارے میں یہ حکم ہم پڑھ آئے ہیں : وَالشُّعَرَآئُ یَتَّبِعُہُمُ الْغَاوٗنَ اَلَمْ تَرَ اَنَّہُمْ فِیْ کُلِّ وَادٍ یَّہِیْمُوْنَ وَاَنَّہُمْ یَقُوْلُوْنَ مَا لَا یَفْعَلُوْنَ ” اور شعراء کی پیروی تو گمراہ لوگ ہی کرتے ہیں۔ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ وہ ہر وادی میں سرگرداں رہتے ہیں۔ اور یہ کہ وہ جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں “۔ سورة الشعراء کی ان آیات کے بعد اگرچہ اللہ تعالیٰ نے اس حوالے سے استثناء کا ذکر بھی فرمایا ہے ‘ لیکن شعراء اور شاعری کے بارے میں عام قاعدہ کلیہ بہر حال یہی ہے جو ان آیات میں ارشاد فرمایا گیا ہے۔ - چناچہ آیت زیر مطالعہ میں اس حقیقت کا اعلان فرمادیا گیا کہ شاعری کے ساتھ ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طبیعت کی مناسبت ہی نہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طبیعت میں شعر فہمی اور شعر شناسی کا ملکہ تو تھا لیکن شعر پڑھنے کا ذوق نہیں تھا ‘ اس لیے اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کبھی کوئی شعر پڑھتے بھی تو اس کے الفاظ آگے پیچھے ہوجاتے اور شعر کا وزن خراب ہوجاتا۔ ایک دفعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شعر پڑھا اور پڑھتے ہوئے حسب معمول شعر بےوزن ہوگیا۔ حضرت ابوبکر (رض) پاس تھے ‘ آپ (رض) سن کر مسکرائے اور عرض کیا : اِنِّی اَشْھَدُ اَنَّکَ رَسُوْلُ اللّٰہ ” میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں “۔ یعنی جب اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شعر کی تعلیم نہیں دی تو پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) درست شعر کیونکر پڑھیں گے گویا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے بےوزن شعر سن کر حضرت ابوبکر (رض) کو ثبوت مل گیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں شعر کے فنی رموز اور وزن وغیرہ کا ذوق پیدا ہی نہیں فرمایا۔ البتہ معنوی اعتبار سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شعر کو خوب سمجھتے تھے۔ اس سلسلے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے : (اِنَّ مِنَ الشِّعْرِ لَحِکْمَۃً (١)… اِنَّ مِنَ الْبَیَانِ لَسِحْرًا) (٢) کہ بہت سے اشعار حکمت پر مبنی ہوتے ہیں اور بہت سے خطبات جادو کا سا اثر رکھتے ہیں۔- اِنْ ہُوَ اِلَّا ذِکْرٌ وَّقُرْاٰنٌ مُّبِیْنٌ ” یہ تو بس ایک یاد دہانی اور نہایت واضح قرآن ہے۔ “- یہ ایک صاف واضح اور روشن کلام ہے جو اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :58 یہ اس بات کا جواب ہے کہ کفار توحید و آخرت اور زندگی بعد موت اور جنت و دوزخ کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو محض شاعری قرار دے کر اپنے نزدیک بے وزن ٹھہرانے کی کوشش کرتے تھے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم ، ص 546 تا 549 )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

21: بعض مشرکین کہا کرتے تھے کہ (معاذ اللہ) حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شاعر ہیں، اور قرآن کریم آپ کی شاعری کی کتاب ہے۔ یہ آیت اس کی تردید کر رہی ہے۔