Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

70۔ 1 یعنی جس کا دل صحیح ہے، حق کو قبول کرتا اور باطل سے انکار کرتا ہے۔ 70۔ 2 یعنی جو کفر پر مصر ہو، اس پر عذاب والی بات ثابت ہوجائے۔ لِیُنْذِرَ میں ضمیر کا مرجع قرآن ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٦٣] یعنی جس شخص کا ضمیر ابھی مردہ نہیں ہوا اور وہ ہدایت کا طالب ہے آپ اسے اس کے انجام سے آگاہ کریں۔ تاکہ ضدی اور ہٹ دھرم لوگوں پر حجت پوری ہوسکے اور یہ کام تب ہی ممکن ہے کہ قرآن اور حامل قرآن کا مزاج شاعرانہ نہیں بلکہ حکیمانہ اور ناصحانہ ہو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لِّيُنْذِرَ مَنْ كَانَ حَيًّا : تاکہ یہ اس آدمی کو ڈرائے جس کا دل اور جس کی بصیرت زندہ ہے، جس نے اپنے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو معطل نہیں کر رکھا اور نہ ہی اس کا دل پتھر کی طرح مردہ ہوچکا ہے کہ اسے کتنی ہی نصیحت کی جائے اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا، کیونکہ زندہ دل والا آدمی ہی اس کے ڈرانے سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (اِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بالْغَيْبِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ ۭ وَمَنْ تَزَكّٰى فَاِنَّمَا يَتَزَكّٰى لِنَفْسِهٖ ۭ وَاِلَى اللّٰهِ الْمَصِيْرُ ۔ وَمَا يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَالْبَصِيْرُ ۔ وَلَا الظُّلُمٰتُ وَلَا النُّوْرُ ۔ وَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَــرُوْرُ ۔ وَمَا يَسْتَوِي الْاَحْيَاۗءُ وَلَا الْاَمْوَاتُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُسْمِعُ مَنْ يَّشَاۗءُ ۚ وَمَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِي الْقُبُوْرِ ۔ اِنْ اَنْتَ اِلَّا نَذِيْرٌ۔ اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ بالْحَقِّ بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا ۭ وَاِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ) [ فاطر : ١٨ تا ٢٤ ] ” تو صرف ان لوگوں کو ڈراتا ہے جو دیکھے بغیر اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو پاک ہوتا ہے تو وہ صرف اپنے لیے پاک ہوتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ اور اندھا اور دیکھنے والا برابر نہیں۔ اور نہ اندھیرے اور نہ روشنی۔ اور نہ سایہ اور نہ لُو۔ اور نہ زندے برابر ہیں اور نہ مردے۔ بیشک اللہ سنا دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور تو ہرگز اسے سنانے والا نہیں جو قبروں میں ہے۔ توُ تو محض ایک ڈرانے والا ہے۔ بیشک ہم نے تجھے حق کے ساتھ خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے اور کوئی امت نہیں مگر اس میں ایک ڈرانے والا گزرا ہے۔ “ اور فرمایا : (اِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّـبَعَ الذِّكْرَ وَخَشِيَ الرَّحْمٰنَ بالْغَيْبِ ۚ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَّاَجْرٍ كَرِيْمٍ ) [ یٰسٓ : ١١ ] ” توُ تو صرف اسی کو ڈراتا ہے جو نصیحت کی پیروی کرے اور رحمٰن سے بِن دیکھے ڈرے۔ سو اسے بڑی بخشش اور باعزت اجر کی خوش خبری دے۔ “ اور فرمایا : (فَاِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاۗءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِيْنَ ۔ وَمَآ اَنْتَ بِهٰدِي الْعُمْىِ عَنْ ضَلٰلَتِهِمْ ۭ اِنْ تُسْمِعُ اِلَّا مَنْ يُّؤْمِنُ بِاٰيٰتِنَا فَهُمْ مُّسْلِمُوْنَ ) [ الروم : ٥٢، ٥٣ ] ” پس بیشک تو نہ مردوں کو سناتا ہے اور نہ بہروں کو پکار سناتا ہے، جب وہ پیٹھ پھیر کر لوٹ جائیں۔ اور نہ تو کبھی اندھوں کو ان کی گمراہی سے راہ پر لانے والا ہے۔ تو نہیں سناتا مگر انھی کو جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں، پھر وہ فرماں بردار ہیں۔ “- وَّيَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ : اور تاکہ جو کفر پر ڈٹے رہیں ان پر اللہ کی طرف سے حجت پوری ہوجائے اور ان کے پاس کوئی ایسا عذر نہ رہے جس کی بنا پر وہ قیامت کے دن اپنے آپ کو بےقصور اور مظلوم تصور کرسکیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لِّيُنْذِرَ مَنْ كَانَ حَيًّا وَّيَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ۝ ٧٠- نذر - وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14]- والنَّذِيرُ :- المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذر - الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔- النذ یر - کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔- حيى- الحیاة تستعمل علی أوجه :- الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] ، - الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا،- قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] ،- الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی:- أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] - والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ،- وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء - والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة،- وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] - والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري،- فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ.- ( ح ی ی ) الحیاۃ )- زندگی ، جینا یہ اصل میں - حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔- ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے - ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ - ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں - اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ - ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے - چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔- ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے - ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ - ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے - ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔- ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے - ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

تاکہ رسول اکرم اس کے ذریعے سے ایسے شخص کو ڈرائیں جس کو عقل و شعور ہو اور تاکہ کفار مکہ پر عذاب اور ناراضگی کی بات ثابت ہوجائے کیونکہ یہ رسول اکرم اور قرآن حکیم پر ایمان نہیں لاتے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧٠ لِّیُنْذِرَ مَنْ کَانَ حَیًّا ” تاکہ وہ خبردار کر دے اس کو جو زندہ ہو “- یہاں ” زندہ ہونے “ سے مراد روح کا زندہ ہونا ہے۔ یہ مضمون اگرچہ قبل ازیں بھی متعدد مقامات پر بیان ہوچکا ہے ‘ لیکن اس آیت میں یہ واضح ترا نداز میں آیا ہے۔ گویا کچھ انسان جیتے جی مردہ ہوتے ہیں ‘ جیسے ابوجہل اور ابو لہب بحیثیت انسان زندہ نہیں تھے ‘ وہ صرف حیوانی سطح پر زندہ تھے ‘ جبکہ ان کے اندر ان کی روحوں کی موت واقع ہوچکی تھی۔ چناچہ قرآن کا انذار صرف اسی انسان کے لیے فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے جس کے اندر اس کی روح زندہ ہو اور اس کی فطرت مسنح نہ ہوچکی ہو۔ - یہاں پر یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ ہمارے ہاں عام طور پر لفظ ” فطرت “ کے مترادف کے طور پر ” خلقت “ کا لفظ استعمال کرلیا جاتا ہے اور اسی کو فارسی زبان میں ” سرشت “ بھی کہتے ہیں۔ لیکن زیر بحث مضمون کی وضاحت کے لیے جس سیاق وسباق میں لفظ ” فطرت “ کا حوالہ آیا ہے اس کا مفہوم لفظ ِ ” خلقت “ سے یکسر مختلف ہے۔ اس کو یوں سمجھئے کہ ” خلقت “ کا تعلق عالم ِخلق یعنی مٹی اور زمین سے ہے ‘ اس لیے یہ ضعف اور خامیوں سے عبارت ہے۔ مثلاً قرآن کے مطابق انسان کمزور ( النساء : ٢٨) بھی ہے اور جلد باز (بنی اسرائیل : ١١) بھی۔ گویا انسانی خلقت میں بہت سی کمزوریاں اور کوتاہیاں پائی جاتی ہیں۔ اس کے برعکس انسانی ” فطرت “ کا تعلق ” روح “ سے ہے جو اللہ کی طرف سے انسان میں پھونکی گئی ہے۔ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَاط ( الروم : ٣٠) ” یہ اللہ کی بنائی ہوئی فطرت ہے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے “۔ چناچہ فطرت کمزوریوں اور خامیوں سے پاک ہے ‘ کیونکہ اس کا تعلق عالم امر یا عالم ِبالا سے ہے۔- وَّیَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ ” اور کافروں پر قول واقع ہوجائے۔ “- یعنی ان پر حجت تمام ہوجائے اور وہ عذاب کے مستحق ہوجائیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :59 زندہ سے مراد سوچنے اور سمجھنے والا انسان ہے جس کی حالت پتھر کی سی نہ ہو کہ آپ اس کے سامنے خواہ کتنی ہی معقولیت کے ساتھ حق اور باطل کا فرق بیان کریں اور کتنی ہی درد مندی کے ساتھ اس کو نصیحت کریں ، وہ نہ کچھ سنے ، نہ سمجھے اور نہ اپنی جگہ سے سرکے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

22: یعنی جس کا دل زندہ ہو، اور وہ حقیقت تک پہنچنا چاہتا ہو۔ ایسے شخص کو زندہ فرما کر اشارہ کیا گیا ہے کہ جو شخص حق کا طلب گار نہ ہو، اور غفلت میں زندگی گذار رہا ہو، وہ زندہ کہلانے کا مستحق نہیں ہے۔