Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

چوپائیوں کے فوائد ۔ اللہ تعالیٰ اپنے انعام و احسان کا ذکر فرما رہا ہے ۔ کہ اس نے خود ہی یہ چوپائے پیدا کئے اور انسان کی ملکیت میں دے دئیے ، ایک چھوٹا سا بچہ بھی اونٹ کی نکیل تھام لے اونٹ جیساقوی اور بڑا جانور اس کے ساتھ ساتھ ہی سو اونٹوں کی ایک قطار ہو ایک بچے کے ہانکنے سے سیدھے چلتی رہتی ہے ۔ اس ماتحتی کے علاوہ بعض لمبے لمبے مشقت والے سفر بآسانی جلدی جلدی طے ہوتے ہیں خود سوار ہوتے ہیں اسباب لادتے ہیں بوجھ ڈھونے کے کام آتے ہیں ۔ اور بعض کے گوشت کھائے جاتے ہیں ، پھر صوف اور ان کے بالوں کھالوں وغیرہ سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ دودھ پیتے ہیں ، بطور علاج پیشاب کام میں آتے ہیں اور بھی طرح طرح کے فوائد حاصل کئے جاتے ہیں ۔ کیا پھر ان کو نہ چاہے کہ ان نعمتوں کے منعم حقیقی ، ان احسانوں کے محسن ، ان چیزوں کے خالق ، ان کے حقیقی مالک کا شکر بجا لائیں ؟ صرف اسی کی عبادت کریں؟ اس کی توحید کو مانیں اور اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کریں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

71۔ 1 اس سے غیروں کی شرکت کی نفی ہے، ان کو ہم نے اپنے ہاتھوں سے بنایا، کسی اور کا ان کے بناننے میں حصہ نہیں ہے۔ 71۔ 2 اَنْعَام نَعَم کی جمع ہے۔ اس سے مراد چوپائے یعنی اونٹ، گائے، بکری اور بھیڑ دنبہ وغیرہ ہیں۔ 71۔ 3 یعنی جس طرح چاہتے ہیں ان میں تصرف کرتے ہیں، اگر ہم ان کے اندر وحشی پن رکھ دیتے (جیسا کہ بعض جانوروں میں ہے) تو یہ چوپائے ان سے دور بھاگتے اور وہ ان کی ملکیت اور قبضے میں ہی نہ آسکتے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٦٤] مثلاً گائے، بیل، بھیڑ، بکری، اونٹ، گھوڑے، گدھے یہ سب قسم کے جانور الگ الگ انواع ہیں۔ اور سب انسان کے فائدے کے لئے اللہ نے بنائی ہیں ان کی نسل بھی ایسے ہی نطفہ سے چلتی ہے جیسے انسان کی چلتی ہے۔ اور نطفہ بےجان مادوں سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ چیزیں انسان کی مملوک نہیں تھیں۔ اللہ نے انسان کو عقل دی۔ عقل کے ذریعہ اس نے چوپایوں کو اپنے قابو میں کیا۔ پھر ان میں اپنے لئے فوائد دیکھے تو انہیں اپنے گھروں میں پالنا شروع کردیا اور آپس میں ان کی خریدو فروخت شروع کردی اور ان کے مالک بن بیٹھے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا خَلَقْنَا لَهُمْ : یہاں سے پھر توحید اور اس کے بعد آخرت کے دلائل کا بیان ہے۔” اَنْعَامًا “ ” نَعَمٌ“ کی جمع ہے، یعنی کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ یہ جانور جن کے یہ مالک بنے ہوئے ہیں، یہ سب ہم نے پیدا کیے ہیں۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں کا ذکر قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر بھی ہے اور ان پر ایمان رکھنا اور ان کی کیفیت اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنا واجب ہے، تاہم یہاں اہل علم نے ” اپنے ہاتھوں سے “ بنانے کا مطلب یہ بیان فرمایا ہے کہ ہم نے انھیں کسی کی شرکت یا واسطے کے بغیر خود بنایا ہے۔ ان کے پیدا کرنے میں کسی دوسرے کا ذرہ برابر دخل نہیں ہے۔ (فتح البیان)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) اولم یروا انا خلقنا لہم مما عملت ایدینا انعاماً فہم لہا مالکون۔- اس آیت میں چوپائے جانوروں کی تخلیق میں انسانی منافع اور ان میں قدرت کی عجیب و غریب صنعت کاری کا ذکر فرمانے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ایک اور احسان عظیم کو بتلایا گیا ہے کہ یہ چوپائے جانور جن کی تخلیق میں کسی انسان کا کوئی دخل نہیں، خالص دست قدرت کے بنائے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے صرف یہی نہیں کیا کہ انسان کو ان چوپاؤں سے نفع اٹھانے کا موقع ملا اور اجازت دے دی بلکہ اس کو ان کا مالک بنادیا کہ وہ ان میں ہر طرح کے مالکانہ تصرفات کرسکتے ہیں، خود نفع اٹھائیں یا ان کو فروخت کر کے ان کی قیمت سے فائدہ اٹھائیں۔- ملکیت اشیاء کی اصل علت عطاء حق ہے، نہ سرمایہ محنت :- آج کل نئے نئے معاشی ازموں اور نظریات میں یہ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ تخلیق اشیاء اور ان کی ملکیت میں سرمایہ اور دولت اصل ہے، یا محنت ؟ سرمایہ دارانہ نظام معیشت کے قائل دولت وسرمایہ کو اصل قرار دیتے ہیں اور سوشلزم اور کمیونزم والے محنت کو اصل علت تخلیق و ملکیت کی قرار دیتے ہیں۔ قرآن مجید کے اس فیصلے نے بتلا دیا کہ تخلیق اشیاء اور ان کی ملکیت میں دونوں کا کوئی دخل نہیں، تخلیق کسی چیز کی انسان کے قبضہ میں نہیں، وہ براہ راست حق تعالیٰ کا فعل ہے۔ اور عقل کا تقاضا ہے کہ جو کسی چیز کو پیدا کرے وہی اس کا مالک بھی ہو۔ اس طرح اصل اور حقیقی ملکیت اشیائے عالم میں حق تعالیٰ کی ہے، انسان کی ملکیت کسی بھی چیز میں صرف اللہ تعالیٰ کے عطا کرنے سے ہو سکتی ہے، اللہ تعالیٰ نے اشیاء کی اثبات ملکیت اور انتقال ملکیت کا قانون اپنے پیغمبروں کے ذریعہ نازل فرما دیا ہے۔ اس قانون کے خلاف کوئی کسی چیز کا مالک نہیں ہو سکتا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا خَلَقْنَا لَہُمْ مِّمَّا عَمِلَتْ اَيْدِيْنَآ اَنْعَامًا فَہُمْ لَہَا مٰلِكُوْنَ۝ ٧١- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - يد - الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] ،- ( ی د ی ) الید - کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان - اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ - نعم - النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] - ( ن ع م ) النعمۃ - اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔- ملك ( مالک)- فالمُلْك ضبط الشیء المتصرّف فيه بالحکم، والمِلْكُ کالجنس للمُلْكِ ، فكلّ مُلْك مِلْك، ولیس کلّ مِلْك مُلْكا . قال : قُلِ اللَّهُمَّ مالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشاءُ [ آل عمران 26] ، وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان 3] ، وقال :- أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس 31] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا[ الأعراف 188] وفي غيرها من الآیات - ملک کے معنی زیر تصرف چیز پر بذیعہ حکم کنٹرول کرنے کے ہیں اور ملک بمنزلہ جنس کے ہیں لہذا ہر ملک کو ملک تو کہہ سکتے ہیں لیکن ہر ملک ملک نہیں کہہ سکتے قرآن میں ہے : ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان 3] اور نہ نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں اور نہ مرنا ان کے اختیار میں ہے اور نہ جینا اور نہ مر کر اٹھ کھڑے ہونا ۔ اور فرمایا : ۔ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس 31] یا تمہارے کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا[ الأعراف 188] کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ اختیار نہیں رکھتا علی بذلقیاس بہت سی آیات ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

کیا یہ مکہ والے اس چیز پر نظر نہیں کرتے کہ ہم نے اپنی قدرت سے کن فرما کر ان کے لیے مویشی پیدا کیے کہ یہ لوگ ان کے مالک بن رہے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧١ اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا خَلَقْنَا لَہُمْ مِّمَّا عَمِلَتْ اَیْدِیْنَآ اَنْعَامًا فَہُمْ لَہَا مٰـلِکُوْنَ ” کیا انہوں نے غور نہیں کیا کہ ہم نے اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی چیزوں میں سے ان کے لیے چوپائے پیدا کردیے ‘ جن کے اب یہ مالک بنے پھرتے ہیں۔ “- یہ میری بھینس ہے ‘ میں اس کا مالک ہوں یہ اس کی گائے ہے یہ فلاں کا گھوڑا ہے بکریوں کے ریوڑ کا مالک فلاں ہے گویا یہ لوگ بڑے فخر سے ان مویشیوں اور چوپایوں پر اپنا حق ملکیت جتاتے ہیں ‘ لیکن یہ حقیقت وہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ انہیں تخلیق تو اللہ نے ہی کیا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :60 ہاتھوں کا لفظ اللہ تعالیٰ کے لیے بطور استعارہ استعمال ہوا ہے ۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ معاذاللہ وہ ذات پاک جسم رکھتی ہے اور انسانوں کی طرح ہاتھوں سے کام کرتی ہے ۔ بلکہ اس سے یہ احساس دلانا مقصود ہے کہ ان چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے خود بنایا ہے ، ان کی تخلیق میں کسی دوسرے کا ذرہ برابر دخل نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani