Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

72۔ 1 یعنی ان جانوروں سے وہ جس طرح کا بھی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، وہ انکار نہیں کرتے، حتٰی کہ وہ انہیں ذبح بھی کردیتے ہیں اور چھوٹے بچے انہیں کھینچے پھرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٦٥] مویشیوں سے حاصل ہونے والے فوائد :۔ انسان کی سرشت اللہ تعالیٰ نے یہ بنائی کہ اپنی عقل سے کام لے کر ہر قسم کے جانوروں کو اپنے قابو میں لائے اور چوپایوں کی سرشت یہ بنادی کہ انسان کے مطیع فرمان بن جائیں ورنہ ان چوپایوں میں اکثر ایسے ہیں جو انسان سے بہت زیادہ طاقتور ہیں۔ ایک گھوڑا انسان کو دولتی مار کر اسے موت کے گھاٹ اتار سکتا ہے۔ ایک اونٹ انسان کی کھوپڑی میں اپنے دانت گاڑ کر اور ایک ہاتھی اسے اپنے پاؤں تلے مسل کر انسان کو فنا کرکے اس سے نجات حاصل کرسکتا ہے۔ مگر انسان پر اللہ تعالیٰ کی یہ خاص مہربانی ہے کہ اونٹوں کی ایک لمبی قطار کو ایک کم عمر بچہ نکیل پکڑ کر جدھر چاہے لے جاسکتا ہے۔ پھر وہ بےجان چیزوں کی طرح اپنے سے بہت عظیم الجثہ اور طاقتور جانداروں کو بھی مطیع بنا کر ان سے کئی طرح کے فوائد حاصل کرتا ہے۔ یہ چوپائے انسان کی سواری کے کام بھی آتے ہیں اور اس کی خوراک بھی بنتے ہیں۔ ان کے بالوں سے وہ لباس بھی تیار کرتا ہے۔ ان سے دودھ بھی حاصل کرتا ہے۔ جس سے دہی، مکھن، بالائی، گھی وغیرہ بنتے ہیں۔ حتیٰ کہ ان چوپایوں کے مرنے یا ذبح ہونے کے بعد بھی ان کی کھالوں، ہڈیوں اور دانتوں کو اپنے کام میں لاتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَذَلَّــلْنٰهَا لَهُمْ فَمِنْهَا رَكُوْبُهُمْ : یعنی ان چوپاؤں کو ہم نے ان کے تابع کر رکھا ہے، اگر ہم دوسرے جنگلی جانوروں کی طرح ان کی طبیعت میں بھی وحشت رکھ دیتے تو وہ کبھی ان کے قابو میں نہ آتے، کجا یہ کہ ان کے مالک بنتے۔ ہمارے تابع کرنے کا نتیجہ ہے کہ ایک چھوٹا سا بچہ بھی اونٹ کی نکیل تھام لے تو اونٹ جیسا قوی اور بڑا جانور اس کے ساتھ چل پڑتا ہے اور اگر اس کے ساتھ سو اونٹوں کی قطار ہو تو وہ بھی ایک بچے کے ہانکنے سے سیدھی چلتی رہتی ہے۔ اس ماتحتی کے علاوہ ان پر سوار ہو کر لمبے لمبے سفر آسانی سے طے کرتے ہیں۔ خود سوار ہوتے ہیں، سامان لادتے ہیں اور بوجھ ڈھونے کا کام لیتے ہیں، حتیٰ کہ بعض کو ذبح کر کے ان کا گوشت بھی کھاتے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) وذللناھا لہم، اس میں ایک اور احسان و انعام کی طرف اشارہ فرمایا کہ اکثر جانور اونٹ، گھوڑا، ہاتھی، بیل وغیرہ اگر دیکھو تو طاقت میں انسان سے بہت زیادہ ہیں، انسان ان کے مقابلہ میں کمزور ہے۔ اس کا اثر یہ ہونا چاہئے تھا کہ ان جانوروں پر قابو نہ پاسکتا، مگر حق تعالیٰ نے جیسا ان جانوروں کی تخلیق کا انعام انسان کو بخشا اس طرح یہ بھی فطرت بنادی کہ ان مست جانوروں کو انسان کے سامنے مسخر اور تابع بنادیا۔ ایک لڑکا ایک قوی گھوڑے کے منہ میں لگام ڈال دیتا ہے اور پھر اس کی پشت پر سوار ہو کر جہاں چاہے لئے پھرتا ہے۔ یہ بات بھی انسان کو کوئی اپنا کمال نہیں، صرف حق تعالیٰ کی عطا اور بخشش ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَذَلَّــلْنٰہَا لَہُمْ فَمِنْہَا رَكُوْبُہُمْ وَمِنْہَا يَاْكُلُوْنَ۝ ٧٢- ذُّلُّ ( محمود)- متی کان من جهة الإنسان نفسه لنفسه فمحمود، نحو قوله تعالی: أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ المائدة 54] ، وقال : وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ [ آل عمران 123] ، وقال : فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا [ النحل 69] ، أي : منقادة غير متصعّبة، قال تعالی: وَذُلِّلَتْ قُطُوفُها تَذْلِيلًا[ الإنسان 14] ، أي : سهّلت، وقیل : الأمور تجري علی أذلالها «1» ، أي : مسالکها وطرقها .- پھر اگر انسان کی ذلت خود اس کے اپنے اختیار وار اور سے ہو تو وہ محمود سمجھی جاتی ہے جیسا کہ قرآن نے مومنین کی مدح کرتے ہوئے فرمایا : : أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ المائدة 54] جو مومنوں کے حق میں نرمی کریں ۔ وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ [ آل عمران 123] اور خدا نے جنگ بدر میں بھی تمہاری مدد کی تھی اور اس وقت بھی تو تم بےسرو سامان تھے ۔ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا[ النحل 69] يعنی بغیر کسی قسم سر کشی کے نہایت مطیع اور منقاد ہوکر اپنے پر وردگاڑ کے صرف راستوں پر چلی جا اور آیت کریمہ : وَذُلِّلَتْ قُطُوفُها تَذْلِيلًا[ الإنسان 14] کے معنی یہ ہیں کہ وہ گچھے اس طرح جھکے ہوئے ہوں گے کہ ان کو نہایت آسانی سے توڑ سکیں گے محاورہ ہے ۔ ( مثل ) کہ تمام امور اپنے راستوں پر اور حسب مواقع جاری ہیں ۔- ركب - الرُّكُوبُ في الأصل : كون الإنسان علی ظهر حيوان، وقد يستعمل في السّفينة، والرَّاكِبُ اختصّ في التّعارف بممتطي البعیر، وجمعه رَكْبٌ ، ورُكْبَانٌ ، ورُكُوبٌ ، واختصّ الرِّكَابُ بالمرکوب، قال تعالی: وَالْخَيْلَ وَالْبِغالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوها وَزِينَةً [ النحل 8] ، فَإِذا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ- ) رک ب ) الرکوب - کے اصل معنی حیوان کی پیٹھ پر سوار ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ لِتَرْكَبُوها وَزِينَةً [ النحل 8] تاکہ ان سے سواری کا کام لو اور ( سواری کے علاوہ یہ چیزیں ) موجب زینت ( بھی ) ہیں ۔ مگر کبھی کشتی وغیرہ سواری ہونے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَإِذا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ [ العنکبوت 65] پھر جب لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں ۔ - أكل - الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد 35] - ( ا ک ل ) الاکل - کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے أُكُلُهَا دَائِمٌ ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور ہم نے ان مویشی کو ان کے تابع بنا دیا سو بعض سے تو یہ سواری کا کام لیتے ہیں اور بعض کا گوشت کھاتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧٢ وَذَلَّلْنٰہَا لَہُمْ فَمِنْہَا رَکُوْبُہُمْ وَمِنْہَا یَاْکُلُوْنَ ” اور ہم نے ان (مویشیوں) کو ان کا مطیع کردیا ہے تو ان میں سے بعض پر وہ سوار ہوتے ہیں اور بعض کا گوشت کھاتے ہیں۔ “- انسان سے کئی کئی گنا زیادہ طاقتور جانوروں کو اللہ تعالیٰ نے فطری طور پر اس کے تابع کردیا ہے۔ چناچہ کئی جانور تو ایسے ہیں جن کو انسان سواری اور باربرداری کے کام میں لاتا ہے اور کئی وہ ہیں جن کے گوشت سے اس کی غذائی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani