73۔ 1 یعنی سواری اور کھانے کے علاوہ بھی ان سے بہت سے فوائد حاصل کئے جاتے ہیں مثلًا اون اور بالوں سے کئی چیزیں بنتی ہیں، ان کی چربی سے تیل حاصل ہوتا ہے اور یہ باربرداری اور کھیتی باڑی کے کام بھی آتے ہیں۔
[ ٦٦] یہ سب قسم کے احسانات تو انسان پر اللہ تعالیٰ نے کئے۔ اب بجائے اس کے کہ وہ اللہ کا شکر ادا کرتا اس نے انہیں جانوروں کی قربانیاں بتوں کے نام پر کیں اور استھانوں میں کیں۔ بتوں کے نام پر جانور آزاد چھوڑے۔ جن کا ان جانوروں کی پیدائش میں اور ان کو انسان کے مطیع فرمان بنانے میں کچھ بھی عمل دخل نہ تھا۔ کیا اس سے بڑھ کر بھی کفران نعمت اور نمک حرامی ہوسکتی ہے ؟
وَلَهُمْ فِيْهَا مَنَافِعُ وَمَشَارِبُ : سواری اور گوشت کے علاوہ انسان کے لیے ان جانوروں میں بہت سے فوائد ہیں، مثلاً ان کی کھال، چربی، سینگوں، بالوں اور آنتوں وغیرہ سے سیکڑوں چیزیں بناتے ہیں۔ ان کے ساتھ کھیتی باڑی کرتے ہیں، ان کے گوبر کی کھاد بناتے ہیں اور ان کی خریدو فروخت کے ساتھ زندگی کی ہر ضرورت پوری کرتے ہیں۔ جانوروں کے ذریعے سے آدمی کو پینے کی بھی بہت سی چیزیں مہیا ہوتی ہیں، مثلاً ان کا دودھ اور بیشمار وہ چیزیں جو دودھ سے بنتی ہیں۔ مزید دیکھیے سورة نحل (٥ تا ٨) اور سورة زخرف (١٢ تا ١٤) ۔- اَفَلَا يَشْكُرُوْنَ : یعنی یہ سب قسم کے احسانات تو انسان پر اللہ تعالیٰ نے کیے، اب بجائے اس کے کہ وہ اللہ کا شکر ادا کرتا، اس نے انھی جانوروں کی قربانیاں غیر اللہ کے آستانوں پر اور ان کے نام پر کیں۔ ان کے نام پر جانور آزاد چھوڑے جن کا ان جانوروں کے پیدا کرنے اور انھیں انسان کا مطیع بنانے میں کچھ بھی عمل دخل نہ تھا، اس سے بڑھ کر ناشکری اور نمک حرامی کیا ہوسکتی ہے ؟
وَلَہُمْ فِيْہَا مَنَافِعُ وَمَشَارِبُ ٠ ۭ اَفَلَا يَشْكُرُوْنَ ٧٣- نفع - النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] - ( ن ف ع ) النفع - ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔- شرب - الشُّرْبُ : تناول کلّ مائع، ماء کان أو غيره . قال تعالیٰ في صفة أهل الجنّة : وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان 21] ، وقال في صفة أهل النّار : لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [يونس 4] ، وجمع الشَّرَابُ أَشْرِبَةٌ ، يقال : شَرِبْتُهُ شَرْباً وشُرْباً. قال عزّ وجلّ : فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي - إلى قوله۔ فَشَرِبُوا مِنْهُ«4» ، وقال : فَشارِبُونَ شُرْبَ الْهِيمِ [ الواقعة 55] ، والشِّرْبُ : النّصيب منه «5» قال تعالی: هذِهِ ناقَةٌ لَها شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَعْلُومٍ [ الشعراء 155] ، وقال : كُلُّ شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر 28] . والْمَشْرَبُ المصدر، واسم زمان الشّرب، ومکانه . قال تعالی: قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُناسٍ مَشْرَبَهُمْ [ البقرة 60] . والشَّرِيبُ : الْمُشَارِبُ والشَّرَابُ ، وسمّي الشّعر الذي علی الشّفة العلیا، والعرق الذي في باطن الحلق شاربا، وجمعه : شَوَارِبُ ، لتصوّرهما بصورة الشّاربین، قال الهذليّ في صفة عير :- صخب الشّوارب لا يزال كأنه«1» وقوله تعالی: وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ- [ البقرة 93] ، قيل : هو من قولهم : أَشْرَبْتُ البعیر أي : شددت حبلا في عنقه، قال الشاعر : فأشربتها الأقران حتی وقصتها ... بقرح وقد ألقین کلّ جنین - «2» فكأنّما شدّ في قلوبهم العجل لشغفهم، وقال بعضهم «3» : معناه : أُشْرِبَ في قلوبهم حبّ العجل، وذلک أنّ من عادتهم إذا أرادوا العبارة عن مخامرة حبّ ، أو بغض، استعاروا له اسم الشّراب، إذ هو أبلغ إنجاع في البدن «4» ، ولذلک قال الشاعر :- تغلغل حيث لم يبلغ شَرَابٌ ... ولا حزن ولم يبلغ سرور - «5» ولو قيل : حبّ العجل لم يكن له المبالغة، [ فإنّ في ذکر العجل تنبيها أنّ لفرط شغفهم به صارت صورة العجل في قلوبهم لا تنمحي ] «6» وفي مثل : أَشْرَبْتَنِي ما لم أشرب «7»- ، أي : ادّعيت عليّ ما لم أفعل .- ( ش ر ب ) الشراب - کے معنی پانی یا کسی اور مائع چیز کو نوش کرنے کے ہیں ۔ قرآن نے ہی جنت کے متعلق فرمایا : ۔ وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان 21] اور ان کا پروردگار انہیں نہایت پاکیزہ شراب پلائیگا ۔ اور اہل دوزخ کے متعلق فرمایا : ۔ لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [يونس 4] ان کے لئے پینے کو کھولتا ہوا پانی ۔ شراب کی جمع اشربۃ ہے اور شربتہ شربا وشربا کے معنی پینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي۔ إلى قوله۔ فَشَرِبُوا مِنْهُ«4» جو شخص اس میں سے پانی پے لے گا وہ مجھ سے نہیں ہے ۔ چناچہ انہوں نے اس سے پی لیا ۔ نیز فرمایا : ۔ فَشارِبُونَ شُرْبَ الْهِيمِ [ الواقعة 55] اور پیو گے بھی تو ایسے جیسے پیاسے اونٹ پیتے ہیں ۔ الشراب پانی کا حصہ پینے کی باری ۔ قرآن میں ہے هذِهِ ناقَةٌ لَها شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَعْلُومٍ [ الشعراء 155] یہ اونٹنی ہے ( ایک دن ) اس کی پانی پینے کی باری ہے اور ایک معین تمہاری باری كُلُّ شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر 28] ہر باری والے کو اپنی باری پر آنا چاہیئے ۔ المشرب مصدر ) پانی پینا ( ظرف زمان یا مکان ) پانی پینے کی جگہ یا زمانہ قرآن میں ہے : ۔ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُناسٍ مَشْرَبَهُمْ [ البقرة 60] . تمام لوگوں نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کرکے پانی پی لیا ۔ الشراب تم پیالہ یا شراب کو کہتے ہیں اور مونچھ کے بالوں اور حلق کی اندرونی رگ کو شارب کہا جاتا ہے گویا ان کو پینے والا تصور کیا گیا ہے اس کی جمع شوارب آتی ہے ۔ ھزلی نے گورخر کے متعلق کہا ہے ( الکامل ) ( 257 ) صخب الشوارب لا یزال کانہ اس کی مونچھیں سخت گویا وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ [ البقرة 93] اور ان ( کے کفر کے سبب ) بچھڑا ( گویا ) ان کے دلوں میں رچ گیا تھا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ اشربت البعیر کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی اونٹ کے گلے میں رسی باندھنے کے ہیں شاعر نے کہا ہے ( 258 ) واشرب تھا الاقران حتیٰ وقص تھا بقرح وقد القین کل جنین میں نے انہیں باہم باندھ لیا حتیٰ کہ قرح ( منڈی ) میں لا ڈالا اس حال میں کہ انہوں نے حمل گرا دیئے تھے ۔ تو آیت کے معنی یہ ہیں کہ گویا بچھڑا ان کے دلوں پر باندھ دیا گیا ہے ۔ اور بعض نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ بچھڑے کی محبت ان کے دلوں میں پلادی گئی ہے کیونکہ عربی محاورہ میں جب کسی کی محبت یا بغض دل کے اندر سرایت کر جائے تو اس کے لئے لفظ شراب کو بطور استعارہ بیان کرتے ہیں کیونکہ یہ بدن میں نہایت تیزی سے سرایت کرتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الوافر ) ( 259 ) تغلغل حیث لم یبلغ شرابہ ولا حزن ولم یبلغ سرور اس کی محبت وہاں تک پہنچ گئی جہاں کہ نہ شراب اور نہ ہی حزن و سرور پہنچ سکتا ہے ۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ بچھڑے کی محبت ان کے دلوں میں اس قدر زیادہ نہیں تھی تو ہم کہیں گے کیوں نہیں ؟ عجل کا لفظ بول کر ان کی فرط محبت پر تنبیہ کی ہے کہ بچھڑے کی صورت ان کے دلوں میں اس طرح نقش ہوگئی تھی کہ محو نہیں ہوسکتی تھی مثل مشہور ہے ۔ اشربتنی ما لم اشرب یعنی تونے مجھ پر جھوٹا الزام لگایا ۔- شكر - الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي :- ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . - والشُّكْرُ ثلاثة أضرب :- شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة .- وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم .- وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه .- وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] ،- ( ش ک ر ) الشکر - کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ - شکر تین قسم پر ہے - شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔
اور مکہ والوں کے لیے ان مویشیوں میں اور بھی سواری کمائی وغیرہ کے منافع ہیں اور ان کے دودھ بھی پینے کے لیے ہیں۔ سو جس ذات نے یہ تمام چیزیں پیدا کیں پھر بھی یہ اس کا شکر نہیں ادا کرتے کہ اس پر ایمان لے آئیں۔
آیت ٧٣ وَلَہُمْ فِیْہَا مَنَافِعُ وَمَشَارِبُط اَفَلَا یَشْکُرُوْنَ ” اور ان کے لیے ان میں بہت سی منفعتیں اور پینے کی جگہیں ہیں۔ تو کیا یہ لوگ شکر نہیں کرتے “- انسانی زندگی میں جانوروں کی اہمیت اور افادیت کے بہت سے دوسرے پہلو بھی ہیں۔ باربرداری کی خدمات اور غذائی ضروریات کے علاوہ ان کی اون اور کھالوں سے انسانی استعمال کی بیشمار چیزیں بنتی ہیں۔ اور اب تو ان جانوروں کی کوئی ایک چیز بھی ضائع نہیں جاتی ‘ حتیٰ کہ ان کے خون اور گوبر کو بھی مختلف طریقوں سے استعمال کرلیا جاتا ہے۔- ” مشَارِب “ جمع ہے اور اس کا واحد ” مشرب “ ہے جس کے معنی پینے کی جگہ اور گھاٹ کے ہیں۔ گویا دودھ دینے والے جانور اور ان جانوروں کے تھن انسان کے لیے ” مشرب “ یعنی دودھ کے گھاٹ ہیں۔ دودھ ایک بہترین مشروب اور انسانی زندگی کے لیے بیحد مفید غذا ہے۔ جانوروں سے حاصل ہونے والی اس ایک نعمت پر ہی انسان اللہ کا شکر ادا کرنا چاہے تو اس کا حق ادا نہیں کرسکتا۔ اسماعیل میرٹھی صاحب نے یہ انتہائی اہم اور سنجیدہ بات کتنے سادہ انداز میں بچوں کی زبان میں کہہ دی ہے : ؎- رب کا شکر ادا کر بھائی - جس نے ہماری گائے بنائی - اس مالک کو کیوں نہ پکاریں - جس نے پلائیں دودھ کی دھاریں
سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :61 نعمت کو منعم کے سوا کسی اور کا عطیہ سمجھنا ، اس پر کسی اور کا احسان مند ہونا ، اور منعم کے سوا کسی اور سے نعمت پانے کی امید رکھنا یا نعمت طلب کرنا ، یہ سب کفران نعمت ہے ۔ اسی طرح یہ بھی کفران نعمت ہے کہ آدمی منعم کی دی ہوئی نعمت کو اس کی رضا کے خلاف استعمال کرے ۔ لہٰذا ایک مشرک اور کافر اور منافق اور فاسق انسان محض زبان سے شکر کے الفاظ ادا کر کے خدا کا شاکر بندہ قرار نہیں پا سکتا ۔ کفار مکہ اس بات کے منکر نہ تھے کہ ان جانوروں کو خدا نے پیدا کیا ہے ۔ ان میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہتا تھا کہ ان کے پیدا کرنے میں دوسرے معبودوں کا کوئی دخل ہے ۔ مگر یہ سب کچھ ماننے کے باوجود جب وہ خدا کی دی ہوئی نعمتوں پر اپنے معبودوں کے شکریے بجا لاتے اور ان کے آگے نذریں اور نیازیں پیش کرتے اور ان سے مزید نعمتوں کی دعائیں مانگتے اور ان کے لیے قربانیاں کرتے تھے تو خدا کے لیے ان کا زبانی شکر بالکل بے معنی ہو جاتا تھا ۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ ان کو کافر نعمت اور احسان فراموش قرار دے رہا ہے ۔