Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

67۔ 1 یعنی نہ آگے جاسکتے، نہ پیچھے لوٹ سکتے، بلکہ پتھر کی طرح ایک جگہ پڑے رہتے۔ مسخہ کے معنی پیدائش میں تبدیلی کے ہیں، یعنی انسان سے پتھر یا جانور کی شکل میں تبدیل کردینا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَوْ نَشَاۗءُ لَمَسَخْنٰهُمْ عَلٰي مَكَانَـتِهِمْ : مسخ کا معنی ہے انسان کی شکل اس کے علاوہ کسی اور شکل میں بدل دینا، مثلاً اسے بندر یا خنزیر یا پتھر بنادینا۔ ” مَکَانَۃٌ“ ” مَکَانٌ“ (جگہ) کی مؤنث ہے (بُقْعَۃٌ کی تاویل کے ساتھ) ، یعنی اور اگر ہم چاہیں تو (جب وہ کفر و شرک کا ارتکاب کریں) انھیں زمین کے عین اسی ٹکڑے پر مسخ کردیں، پھر نہ وہ آگے جاسکیں اور نہ گھر واپس جاسکیں (مگر ہم نے یہ نہیں چاہا ۔۔ ) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَوْ نَشَاۗءُ لَمَسَخْنٰہُمْ عَلٰي مَكَانَـتِہِمْ فَمَا اسْـتَــطَاعُوْا مُضِيًّا وَّلَا يَرْجِعُوْنَ۝ ٦٧ۧ- مسخ - المسخ : تشويه الخلق والخلق وتحویلهما من صورة إلى صورة . قال بعض الحکماء : المسخ ضربان : مسخ خاصّ يحصل في الفینة بعد الفینة وهو مسخ الخَلْقِ ، ومسخ قد يحصل في كلّ زمان وهو مسخ الخُلُقِ ، وذلک أن يصير الإنسان متخلقا بخلق ذمیم من أخلاق بعض الحیوانات . نحو أن يصير في شدّة الحرص کالکلب، وفي الشّره کالخنزیر، وفي الغمارة کا لثّور، قال : وعلی هذا أحد الوجهين في قوله تعالی: وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنازِيرَ [ المائدة 60] ، وقوله : لَمَسَخْناهُمْ عَلى مَكانَتِهِمْ [يس 67] ، يتضمّن الأمرین وإن کان في الأوّل أظهر، والمسیخ من الطعام ما لا طعم له . قال الشاعر : وأنت مسیخ کلحم الحوار - ومسخت الناقة : أنضیتها وأزلتها حتی أزلت خلقتها عن حالها، والماسخيّ : القوّاس، وأصله کان قوّاس منسوبا إلى ماسخةَ ، وهي قبیلة فسمّي كلّ قوّاس به، كما سمّي كلّ حدّاد بالهالكيّ.- ( م س خ ) المسخ : کے معنی شکل و صورت بگاڑ دینا اور اخلاق و عادات خراب کردینا کے ہیں بعض حکماء نے کہا ہے کہ مسخ دو قسم پر ہے ایک مسخ خاص یعنی شکل و صورت وصورت بگاڑ نا یہ خاص قوم کے ساتھ خاص دور میں ہوا تھا دوم مسخ عام یعنی اخلاق و عادت کا بگاڑنا یہ ہر دور میں ہوسکتا ہے کہ انسان جانوروں کے سے اخلاق اختیار کرلے مثلا اس کے اندر کتے کی سی شدت حر ص پیدا ہوجائے یا خنزیر کی طرح جنسی خواہش میں اندھا ہوجائے یا بیل کی سی حماقت اختیار کرلے چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنازِيرَ [ المائدة 60] اور ان میں سے بند اور سو ر بنا دیئے ۔ کی تفسیر میں ایک قول یہ بھی ہے ۔ کہ یہاں بندر اور خنزیر پر بنا دینے سے ان کے اخلاق و عادت بگاڑ دینا مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لَمَسَخْناهُمْ عَلى مَكانَتِهِمْ [يس 67] تو ان کی جگہ ان کی صورتیں بدل دیں ۔ میں مسخ کے دونوں معنی ہوسکتے ہیں ۔ اگر چہ پہلے معنی زیادہ واضح ہیں اور المسیخ وہ کھانا جو بےمزہ ہو چناچہ شاعر نے کہا ہے ( 408 ) وانت مسیخ کلحم الحوار اور تو حوار یعنی اونٹ کے نوز ائید ہ بچے کے گوشت کی طرح بےمزہ ہے ۔ مسخت الناقۃ میں نے ناقہ کو دبلا کر کے اس کی شکل بگاڑ دی ۔ الماء سخی کے معنی کہ ان ساز کے ہیں یہ ما سخۃ قبیلہ کی طرف منسوب ہے جو کما نیں بنایا کرتا تھا پھر ہر کمان ساز کو ما سخی ( منسو با ) کہا جانے لگا ہے ۔ جیسا کہ ہر آہنگری کو ھا لکی کہا جاتا ہے ۔- «مَكَانُ»( استکان)- قيل أصله من : كَانَ يَكُونُ ، فلمّا كثر في کلامهم توهّمت المیم أصليّة فقیل :- تمكّن كما قيل في المسکين : تمسکن، واسْتَكانَ فلان : تضرّع وكأنه سکن وترک الدّعة لضراعته . قال تعالی: فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون 76] .- المکان ۔ بعض کے نزدیک یہ دراصل کان یکون ( ک و ن ) سے ہے مگر کثرت استعمال کے سبب میم کو اصلی تصور کر کے اس سے تملن وغیرہ مشتقات استعمال ہونے لگے ہیں جیسا کہ مسکین سے تمسکن بنا لیتے ہیں حالانکہ یہ ( ص ک ن ) سے ہے ۔ استکان فلان فلاں نے عاجز ی کا اظہار کیا ۔ گو یا وہ ٹہھر گیا اور ذلت کی وجہ سے سکون وطما نینت کو چھوڑدیا قرآن میں ہے : ۔ فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون 76] تو بھی انہوں نے خدا کے آگے عاجزی نہ کی ۔- الاستطاعۃ - . وَالاسْتِطَاعَةُ : استفالة من الطَّوْعِ ، وذلک وجود ما يصير به الفعل متأتّيا، الاسْتِطَاعَةُ أخصّ من القدرة . قال تعالی: لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء 43] - ( ط و ع ) الطوع - الاستطاعۃ ( استفعال )- یہ طوع سے استفعال کے وزن پر ہے اور اس کے معنی ہیں کسی کام کو سر انجام دینے کے لئے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا موجہ ہونا ۔ اور استطاعت قدرت سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء 43] وہ نہ تو آپ اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔ - مضی - المُضِيُّ والمَضَاءُ : النّفاذ، ويقال ذلک في الأعيان والأحداث . قال تعالی: وَمَضى مَثَلُ الْأَوَّلِينَ- [ الزخرف 8] ، فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْأَوَّلِينَ [ الأنفال 38] .- ( م ض ی ) المضی - والمضاء کسی چیز کا گذر جانا اور چلے جانا یہ اعیان واحد اث دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَمَضى مَثَلُ الْأَوَّلِينَ [ الزخرف 8] اور اگلے لوگوں کی مثال گذر گئی ۔ فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْأَوَّلِينَ [ الأنفال 38] رو اگلے لوگوں کی سنت گذر چکی ہے ( وہی ان کے حق میں برقی جائے گی ۔- رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور اگر ہم چاہتے تو ان کی صورتیں بدل ڈالتے کہ یہ بندر اور سور ہوجاتے اس حال میں کہ یہ اپنے مکانوں اور منزلوں ہی میں پڑے رہ جاتے یعنی اپاہج ہونے کی وجہ سے کہیں آنے جانے کی طاقت ہی باقی نہ رہتی اور نہ اپنی سابقہ حالت پر آنے کی طاقت رہتی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٧ وَلَوْ نَشَآئُ لَمَسَخْنٰـہُمْ عَلٰی مَکَانَتِہِمْ ” اور اگر ہم چاہیں تو ان کی صورتیں مسنح کردیں ان کے اپنے مقام پر “- یعنی اگر اللہ چاہے تو وہ جہاں ‘ جس حالت میں ہوں وہیں پر ان کی صورتیں مسنح ہوجائیں۔- فَمَا اسْتَطَاعُوْا مُضِیًّا وَّلَا یَرْجِعُوْنَ ” تو نہ وہ آگے چل سکیں اور نہ پیچھے لوٹ سکیں ۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :56 قیامت کا نقشہ کھینچنے کے بعد اب انہیں بتایا جا رہا ہے کہ یہ قیامت تو خیر تمہیں دور کی چیز نظر آتی ہے ، مگر ذرا ہوش میں آ کر دیکھو کہ خود اس دنیا میں ، جس کی زندگی پر تم پھولے ہوئے ہو ، تم کس طرح اللہ کے دست قدرت میں بے بس ہو ۔ یہ آنکھیں جن کی بینائی کے طفیل تم اپنی دنیا کے سارے کام چلا رہے ہو ، اللہ کے ایک اشارے سے اندھی ہو سکتی ہیں ۔ یہ ٹانگیں جن کے بل پر تم یہ ساری دوڑ دھوپ دکھا رہے ہو ، اللہ کے ایک حکم سے ان پر اچانک فالج گر سکتا ہے ۔ جب تک اللہ کی دی ہوئی یہ طاقتیں کام کرتی رہتی ہیں ، تم اپنی خودی کے زعم میں مدہوش رہتے ہو ، مگر جب ان میں سے کوئی ایک طاقت بھی جواب دے جاتی ہے تو تمہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ تمہاری بساط کتنی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani