75۔ 1 مطلب یہ ہے کہ جن بتوں کو معبود سمجھتے ہیں، وہ ان کی مدد کیا کریں گے ؟ وہ خود اپنی مدد کرنے سے قاصر ہیں انہیں کوئی برا کہے ان کی ندامت کرے، تو یہی ان کی حمایت و مدافت میں سرگرم ہوتے ہیں، نہ کہ خود ان کے وہ معبود
[ ٦٧] معبودان باطل کی دنیا اور آخرت میں بےبسی :۔ انسان نے جس چیز کی بھی عبادت کی ہے۔ یا فریاد کی ہے یا اس کے آگے نذریں نیازیں پیش کی ہیں تو اس لئے کہ وہ معبود ان کی مشکل دور کریں گے یا کوئی حاجت پوری کردیں گے۔ یا اگر وہ روز آخرت پر بھی ایمان رکھتا ہے تو اس لئے کرتا ہے کہ وہ قیامت کو سفارش کردیں گے یا عذاب سے بچا لیں گے اور ان سب باتوں میں مدد کا پہلو شامل ہے۔ اور مدد کے لفظ میں یہ سب باتیں آجاتی ہیں۔ اب اس مدد کے دو پہلو ہیں ایک دنیا میں، دوسرے آخرت میں۔ دنیا میں ان کی مدد کا یہ حال ہے کہ وہ اپنے عابدوں کی مدد تو کیا کریں گے وہ تو اپنی بقاء اپنی حفاظت اور اپنی ضروریات کے لئے ان کے محتاج ہیں کہ وہ ان کے آستانوں میں اور قبروں پر جھاڑو دیں۔ ان کو چمکا کر رکھیں، روشنی کا انتظام کریں۔ اگر ان عابدوں کے یہ لشکر نہ ہوں تو ان کی خدائی ایک دن بھی نہیں چل سکتی۔ یہ خود ان کے حاضر باش غلام بنے ہوئے ہیں۔ ان کے آستانے اور بارگاہیں تعمیر کرتے اور سجاتے ہیں۔ ان کے لئے پروپیگنڈا کرتے ہیں تاکہ خلق خدا کو ان کا گرویدہ بنائیں۔ یہ خود تو ان کی حمایت میں لڑتے اور جھگڑے ہیں۔ تب کہیں جاکر ان کی خدائی چلتی ہے۔ ان معبودوں کے عابدوں کا لشکر اگر ان کی یہ خدمات سرانجام نہ دیں تو ان کی خدائی ایک دن بھی نہ چلے۔ اور آخرت میں ان کی مدد کا یہ حال ہوگا کہ جب اللہ تعالیٰ ان عابدوں کو ان معبودوں کے ساتھ اپنے سامنے لاکھڑا کریں گے تو یہی معبود ان کے دشمن بن جائیں گے اور ایسے دلائل دیں گے کہ خود تو بچ جائیں مگر انہیں گرفتار کرا کے چھوڑیں گے۔ اس وقت ان عابدوں کو پتہ چل جائے گا کہ جن معبودوں کی حمایت میں وہ زندگی بھر لڑتے بھڑتے رہے وہ آج کس طرح انہیں آنکھیں دکھا رہے ہیں اور ڈٹ کر ان کے خلاف گواہی دے رہے ہیں۔
لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ نَصْرَهُمْ : فرمایا، وہ ان کی مدد کی طاقت نہیں رکھتے، نہ دنیا میں نہ آخرت میں۔ دنیا میں ان کی مدد کا یہ حال ہے کہ وہ اپنے عابدوں کی مدد تو کیا کریں گے وہ اپنی بقا، حفاظت اور دوسری ضروریات کے لیے اپنی عبادت کرنے والوں کے محتاج ہیں اور آخرت میں وہ ان کے دشمن بن جائیں گے اور ان کی عبادت کا انکار کردیں گے۔ دیکھیے سورة احقاف (٦) ۔ - وَهُمْ لَهُمْ جُنْدٌ مُّحْضَرُوْنَ : اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں، پہلا یہ کہ ” هُمْ “ سے مراد مشرکین اور ” لَهُمْ “ سے مراد ان کے معبود ہوں، یعنی بجائے اس کے کہ ان کے معبود ان کی مدد کریں یہ عبادت کرنے والے ہر وقت ان کے مددگار اور خدمت گار فوج بنے ہوئے ہیں، ان کے آستانے تعمیر کرتے ہیں، ان کے آستانوں اور قبروں پر جھاڑو دیتے ہیں، انھیں چمکا کر رکھتے ہیں، وہاں لنگر کا انتظام کرتے ہیں، ان کی حمایت میں لڑتے جھگڑتے ہیں اور ان کی مشکل کشائی اور حاجت روائی کے جھوٹے قصّے بیان کر کے لوگوں کو ان کا گرویدہ بناتے ہیں۔ اگر عبادت کرنے والوں کے یہ لشکر نہ ہوں تو ان کی خدائی ایک لمحہ نہیں چل سکتی۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ ” هُمْ “ سے مراد باطل معبود اور ” لَهُمْ “ سے مراد مشرکین ہوں، یعنی وہ جھوٹے معبود قیامت کے دن ان کفار کی عبادت کا انکار کر کے انھیں عذاب دینے دلوانے والے لشکر بن جائیں گے۔
(آیت) وھم لہم جند محضرون۔ اس آیت کا ایک مفہوم تو وہ ہے جو اوپر خلاصہ تفسیر میں بیان ہوا ہے کہ جند سے مراد فریق مخالف لیا جائے، اور مطلب آیت کا یہ ہو کہ جن چیزوں کو انہوں نے دنیا میں معبود بنا رکھا ہے، یہی قیامت کے روز ان کے مخالف ہو کر ان کے خلاف گواہی دیں گے۔ اور حضرت حسن و قتادہ سے اس کی تفسیر یہ منقول ہے کہ ان لوگوں نے بتوں کو خدا تو اس لئے بنایا تھا کہ یہ ان کی مدد کریں گے اور ہو یہ رہا ہے کہ وہ تو ان کی مدد کرنے کے قابل نہیں خود یہی لوگ جو ان کی عبادت کرتے ہیں ان کے خدام اور ان کے سپاہی بنے ہوئے ہیں ان کی حفاظت کرتے ہیں کوئی ان کے خلاف کام کرے تو یہ ان کی طرف سے لڑتے ہیں۔ (قرطبی)
لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ نَصْرَہُمْ ٠ ۙ وَہُمْ لَہُمْ جُنْدٌ مُّحْضَرُوْنَ ٧٥- الاستطاعۃ - . وَالاسْتِطَاعَةُ : استفالة من الطَّوْعِ ، وذلک وجود ما يصير به الفعل متأتّيا، الاسْتِطَاعَةُ أخصّ من القدرة . قال تعالی: لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء 43] - ( ط و ع ) الطوع - الاستطاعۃ ( استفعال )- یہ طوع سے استفعال کے وزن پر ہے اور اس کے معنی ہیں کسی کام کو سر انجام دینے کے لئے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا موجہ ہونا ۔ اور استطاعت قدرت سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء 43] وہ نہ تو آپ اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔ - نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ- [ الصف 13] - ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی - إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی - جند - يقال للعسکر الجُنْد اعتبارا بالغلظة، من الجند، أي : الأرض الغلیظة التي فيها حجارة ثم يقال لكلّ مجتمع جند، نحو : «الأرواح جُنُودٌ مُجَنَّدَة» «2» . قال تعالی: إِنَّ جُنْدَنا لَهُمُ الْغالِبُونَ [ الصافات 173] - ( ج ن د ) الجند - کے اصل معنی سنگستان کے ہیں معنی غفلت اور شدت کے اعتبار سے لشکر کو جند کہا جانے لگا ہے ۔ اور مجازا ہر گروہ اور جماعت پر جند پر لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے ( حدیث میں ہے ) کہ ارواح کئ بھی گروہ اور جماعتیں ہیں قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ جُنْدَنا لَهُمُ الْغالِبُونَ [ الصافات 173] اور ہمارا لشکر غالب رہے گا ۔- حضر - الحَضَر : خلاف البدو، والحَضَارة والحِضَارَة : السکون بالحضر، کالبداوة والبداوة، ثمّ جعل ذلک اسما لشهادة مکان أو إنسان أو غيره، فقال تعالی: كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة 180] ، نحو : حَتَّى إِذا جاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ الأنعام 61] ، وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء 8] ، وقال تعالی: وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء 128] ، عَلِمَتْ نَفْسٌ ما أَحْضَرَتْ [ التکوير 14] ، وقال : وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ [ المؤمنون 98] ، وذلک من باب الکناية، أي : أن يحضرني الجن، وكني عن المجنون بالمحتضر وعمّن حضره الموت بذلک، وذلک لما نبّه عليه قوله عزّ وجل : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق 16] ، وقوله تعالی: يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آياتِ رَبِّكَ [ الأنعام 158] ، وقال تعالی: ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً [ آل عمران 30] ، أي : مشاهدا معاینا في حکم الحاضر عنده، وقوله عزّ وجلّ : وَسْئَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كانَتْ حاضِرَةَ الْبَحْرِ [ الأعراف 163] ، أي : قربه، وقوله : تِجارَةً حاضِرَةً [ البقرة 282] ، أي : نقدا، وقوله تعالی: وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِيعٌ لَدَيْنا مُحْضَرُونَ [يس 32] ، وفِي الْعَذابِ مُحْضَرُونَ [ سبأ 38] ، شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر 28] ، أي :- يحضره أصحابه، والحُضْر : خصّ بما يحضر به الفرس إذا طلب جريه، يقال : أَحْضَرَ الفرس، واستحضرته : طلبت ما عنده من الحضر، وحاضرته مُحَاضَرَة وحِضَارا : إذا حاججته، من الحضور، كأنه يحضر کلّ واحد حجّته، أو من الحضر کقولک : جاریته، والحضیرة : جماعة من الناس يحضر بهم الغزو، وعبّر به عن حضور الماء، والمَحْضَر يكون مصدر حضرت، وموضع الحضور .- ( ح ض ر ) الحضر - یہ البدو کی ضد ہے اور الحضارۃ حاد کو فتحہ اور کسرہ دونوں کے ساتھ آتا ہے جیسا کہ بداوۃ وبداوۃ اس کے اصل شہر میں اقامت کے ہیں ۔ پھر کسی جگہ پر یا انسان وگیرہ کے پاس موجود ہونے پر حضارۃ کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة 180] تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آجائے ۔ وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء 8] اور جب تم میراث کی تقسیم کے وقت ۔۔۔ آمو جود ہوں ۔ وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء 128] اور طبائع میں بخل ودیعت کردیا گیا ہے ۔ عَلِمَتْ نَفْسٌ ما أَحْضَرَتْ [ التکوير 14] تب ہر شخص معلوم کرلے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے اور آیت کریمہ : وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ [ المؤمنون 98] میں کنایہ کہ اے پروردگار میں پناہ مانگتا ہوں کہ جن و شیاطین میرے پاس آھاضر ہوں ۔ اور بطور کنایہ مجنون اور قریب المرگ شخص کو محتضر کہا جاتا ہے جیسا کہ آیت : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق 16] اور آیت کریمہ : یوم یاتی بعض ایات ربک میں اس معنی پر متنبہ کیا گیا ہے اور آیت کریمہ ۔ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً [ آل عمران 30] کے معنی یہ ہیں کہ انسان جو نیکی بھی کرے گا ۔ قیامت کے دن اس کا اس طرح مشاہدہ اور معاینہ کرلے گا جیسا کہ کوئی شخص سامنے آموجود ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَسْئَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كانَتْ حاضِرَةَ الْبَحْرِ [ الأعراف 163] اور ان سے اس گاؤں کا حال پوچھ جواب دریا پر واقع تھا ۔ میں حاضرۃ البحر کے معنی دریا کے قریب یعنی ساحل کے ہیں اور آیت کریمہ : تِجارَةً حاضِرَةً [ البقرة 282] میں حاضرۃ کے معنی نقد کے ہیں ۔ نیز فرمایا : وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِيعٌ لَدَيْنا مُحْضَرُونَ [يس 32] اور سب کے سب ہمارے روبرو حاضر کئے جائیں گے ۔ وفِي الْعَذابِ مُحْضَرُونَ [ سبأ 38] وی عذاب میں ڈالے جائیں گے ۔ اور آیت کریمہ : شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر 28] ، ہر باری والے کو اپنی باری پر آنا چاہئے میں بانی کی باری کے محتضر ہونے کے معنی یہ ہیں کہ باڑی والے اس گھاٹ پر موجود ہوں ۔ الحضر ۔ خاص کر گھوڑے کی تیز دوڑے کو کہتے ہیں کہا جاتا ہے : احضر الفرس گھوڑا دوڑا استحضرتُ الفرس میں نے گھوڑے کو سرپٹ دوڑایا ۔ حاضرتہ محاضرۃ وحضارا باہم جھگڑنا ۔ مباحثہ کرنا ۔ یہ یا تو حضور سے ہے گویا ہر فریق اپنی دلیل حاضر کرتا ہے اور یا حضر سے ہے جس کے معنی تیز دوڑ کے ہوتے ہیں جیسا کہ ۔۔۔۔۔۔ جاریتہ کہا جاتا ہے ۔ الحضیرۃ ُ لوگوں کی جماعت جو جنگ میں حاضر کی جائے اور کبھی اس سے پانی پر حاضر ہونے والے لوگ بھی مراہ لئے جاتے ہیں ۔ المحضرُ ( اسم مکان ) حاضر ہونے کی جگہ اور حضرت ُ ( فعل ) کا مصدر بھی بن سکتا ہے ۔
وہ جھوٹے معبود ان کی عذاب خداوندی سے کچھ بھی حفاظت نہیں کرسکتے۔
آیت ٧٥ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ نَصْرَہُمْ ” وہ ہرگز کوئی استطاعت نہیں رکھتے ان کی مدد کی “- وَہُمْ لَہُمْ جُنْدٌ مُّحْضَرُوْنَ ” بلکہ یہ تو خود ہوں گے ان کے پکڑے ہوئے قیدی۔ “- یعنی جنہیں یہ لوگ پوجتے تھے وہی انہیں پکڑ پکڑ کر اللہ کے حضور پیش کریں گے اور کہیں گے : اے اللہ یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے دنیا میں ہمارے ساتھ یہ ظلم کیا تھا کہ ہمیں تیرا شریک ٹھہراتے رہے۔
سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :62 یعنی وہ جھوٹے معبود بے چارے خود اپنے بقا اور اپنی حفاظت اور اپنی ضروریات کے لیے ان عبادت گزاروں کے محتاج ہیں ۔ ان کے لشکر نہ ہوں تو ان غریبوں کی خدائی ایک دن نہ چلے ۔ یہ ان کے حاضر باش غلام بنے ہوئے ہیں ۔ یہ ان کی بارگاہیں بنا اور سجا رہے ہیں ۔ یہ ان کے لیے پروپیگنڈا کرتے پھرتے ہیں ۔ یہ خلق خدا کو ان کا گرویدہ بناتے ہیں ۔ یہ ان کی حمایت میں لڑتے اور جھگڑتے ہیں تب کہیں ان کا خدائی چلتی ہے ۔ ورنہ ان کا کوئی پوچھنے والا بھی نہ ہو ۔ وہ اصلی خدا نہیں ہیں کہ کوئی اس کو مانے یا نہ مانے ، وہ اپنے زور پر آپ ساری کائنات کی فرماں روائی کر رہا ہے ۔
23: یعنی جن من گھڑت خداؤں سے یہ مدد کی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں، وہ ان کی مدد تو کیا کرتے؟ قیامت کے دن ان کا پورا لشکر ان کے خلاف گواہی دے گا، جیسا کہ قرآن کریم نے سورۂ سبا اور سورۃ قصص میں بتلایا ہے۔