[ ٦٨] اگر یہ لوگ اپنے پروردگار اور منعم حقیقی کے معاملہ میں اس قدر ناانصاف اور ظالم واقع ہوئے ہیں تو آپ کو بھی ان کے اس معاندانہ رویہ پر غمزدہ نہ ہونا چاہئے۔ یہ لوگ ظاہر تو یہ کرتے ہیں کہ آپ کاہن ہیں، دیوانہ ہیں، جادوگر ہیں، اللہ پر افترا باندھتے ہیں۔ اور دوسرے لوگوں کو یہ باتیں اس لئے کہتے ہیں کہ جیسے بھی بن پڑے اسلام کو اور آپ کو دبا سکیں۔ لیکن یہی لوگ اپنی نجی محفلوں میں اس بات کا اعتراف کرتے تھے اور پوری طرح سمجھتے تھے کہ جو الزامات یہ رسول اللہ صلی اللہ پر لگا رہے ہیں وہ سراسر غلط اور بےبنیاد ہیں۔ لہذا آپ کو پریشان اور غمزدہ نہ ہونا چاہئے۔ حق کے مقابلہ میں ان کا یہ جھوٹا پروپیگنڈہ زیادہ دیر نہ چل سکے گا۔
فَلَا يَحْزُنْكَ قَوْلُهُمْ : اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے کہ جب ہمارے متعلق ان مشرکین کے جہل اور عناد کا یہ حال ہے تو آپ بھی ان کی باتوں سے غم زدہ نہ ہوں۔- اِنَّا نَعْلَمُ مَا يُسِرُّوْنَ وَمَا يُعْلِنُوْنَ : (إِنَّ تعلیل کے لیے ہوتا ہے) کیونکہ آپ غم زدہ تو تب ہوں جب انھیں کوئی پوچھنے والا نہ ہو، ہم تو ان کی وہ باتیں بھی جانتے ہیں جو وہ چھپاتے ہیں اور وہ بھی جو ظاہر کرتے تھے۔ ہمیں معلوم ہے کہ آپس میں وہ آپ کے سچا ہونے کا اقرار کرتے ہیں اور لوگوں کے سامنے آپ کو شاعر، ساحر اور کاہن وغیرہ کہتے ہیں۔ اسی طرح ہمیں ان کی خفیہ سازشوں کا بھی علم ہے اور علانیہ دشمنی کا بھی، آپ فکر نہ کریں، ہم سارا حساب برابر کردیں گے۔
خلاصہ تفسیر - (جب یہ لوگ ایسے واضح اور کھلے ہوئے امور میں بھی خلاف ہی کرتے ہیں) تو ان لوگوں کی باتیں (انکار توحید و رسالت سے متعلق) آپ کے لئے آزردگی کا باعث نہ ہونا چاہئے (کیونکہ آزردگی ہوتی ہے امید سے، اور امید ہوتی ہے مخاطب کے عقل و انصاف سے اور ان لوگوں میں نہ عقل ہے نہ انصاف تو ان سے کسی چیز کی امید ہی نہیں ہو سکتی، پھر غم کیوں ہو۔ آگے دوسرے طریقہ سے آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی ہے) بیشک ہم سب جانتے ہیں جو کچھ یہ دل میں رکھتے ہیں اور جو کچھ (زبان سے) ظاہر کرتے ہیں (اس لئے وقت مقرر پر ان کو ان کے عمل کی سزا ملے گی) کیا (اس) آدمی کو (جو قیامت کا انکار کرتا ہے) یہ معلوم نہیں کہ ہم نے اس کو (ایک حقیر) نطفہ سے پیدا کیا (جس کا تقاضا یہ تھا کہ اپنی ابتدائی حالت کو یاد کر کے اپنی حقارت اور خالق کی عظمت کو دیکھ کر خود شرماتا کہ گستاخی کی جرأت نہ کرتا دوسرے خود اپنے حالات سے اس پر استدلال کرتا کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کردینا اس کی قدرت سے کیا بعید ہے) سو (اس نے ایسا نہ کیا بلکہ اقتضائے مذکور کے خلاف) وہ علانیہ اعتراض کرنے لگا اور (وہ اعتراض یہ کہ) اس نے ہماری شان میں ایک عجیب مضمون بیان کیا (عجیب اس لئے کہ اس سے انکار قدرت لازم آتا ہے) اور اپنی اصل کو بھول گیا (کہ ہم نے اس کو نطفہ حقیر سے ایک کامل انسان بنایا) کہتا ہے کہ ہڈیوں کو جبکہ وہ بوسیدہ ہوگئی ہوں کون زندہ کر دے گا۔ آپ جواب دے دیجئے کہ ان کو وہ زندہ کرے گا جس نے پہلی مرتبہ ان کو پیدا کیا ہے (کہ پہلی تخلیق کے وقت ان ہڈیوں کا زندگی سے کوئی تعلق ہی نہ تھا اور اب تو ایک مرتبہ ان میں حیات پیدا ہو کر ایک قسم کا تعلق حیات سے ہوچکا ہے اب ان میں حیات پیدا کرنا کیا مشکل ہے) اور وہ ہر طرح کا پیدا کرنا جانتا ہے (یعنی ابتداً کسی چیز کو پیدا کردینا یا پیدا شدہ کو فنا کر کے دوبارہ پیدا کردینا) وہ ایسا (قادر مطلق) ہے کہ (بعض) ہرے درخت سے تمہارے لئے آگ پیدا کردیتا ہے، پھر تم اس سے اور آگ سلگا لیتے ہو (جیسا کہ عرب میں ایک درخت تھا، مرخ دوسرا عفار، ان دونوں درختوں سے چقماق کا کام لیتے تھے، دونوں کے ملانے سے آگ پیدا ہوجاتی تھی، تو جس قادر نے ہرے درخت کے پانی میں آگ پیدا فرما دی تو دوسرے جمادات میں حیات پیدا کردینا اس کے لئے کیا مشکل ہے) اور جس نے آسمان اور زمین پیدا کئے ہیں کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ ان جیسے آدمیوں کو (دوبارہ) پیدا کر دے، ضرور قادر ہے اور وہ بڑا پیدا کرنے والا خوب جاننے والا ہے (اور اس کی قدرت ایسی ہے کہ) جب وہ کسی چیز (کے پیدا کرنے) کا ارادہ کرتا ہے تو بس اس کا معمول تو یہ ہے کہ اس چیز کو کہہ دیتا ہے کہ ہوجا بس وہ ہوجاتی ہے تو (ان سب مقدمات سے ثابت ہوگیا کہ) اس کی پاک ذات ہے جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا پورا اختیار ہے اور (یہ بات سب شبہات سے سالم رہ گئی کہ) تم سب کو اسی کے پاس لوٹ کر جانا ہے (یعنی قیامت کے روز) ۔
فَلَا يَحْزُنْكَ قَوْلُہُمْ ٠ ۘ اِنَّا نَعْلَمُ مَا يُسِرُّوْنَ وَمَا يُعْلِنُوْنَ ٧٦- حزن - الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] - ( ح ز ن ) الحزن والحزن - کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ۔۔۔۔۔ اس سے تم اندو ہناک نہ ہو - قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - سرر (كتم)- والسِّرُّ هو الحدیث المکتم في النّفس . قال تعالی: يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه 7] ، وقال تعالی: أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْواهُمْ [ التوبة 78] - ( س ر ر ) الاسرار - السر ۔ اس بات کو کہتے ہیں جو دل میں پوشیدہ ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه 7] وہ چھپے بھید اور نہایت پوشیدہ بات تک کو جانتا ہے ۔ - علن - العَلَانِيَةُ : ضدّ السّرّ ، وأكثر ما يقال ذلک في المعاني دون الأعيان، يقال : عَلَنَ كذا، وأَعْلَنْتُهُ أنا . قال تعالی: أَعْلَنْتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْراراً [ نوح 9] ، أي : سرّا وعلانية . وقال :- ما تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَما يُعْلِنُونَ [ القصص 69] . وعِلْوَانُ الکتابِ يصحّ أن يكون من : عَلَنَ اعتبارا بظهور المعنی الذي فيه لا بظهور ذاته .- ( ع ل ن ) العلانیہ - ظاہر اور آشکار ایہ سر کی ضد ہے اور عام طور پر اس کا استعمال معانی یعنی کیس بات ظاہر ہونے پر ہوتا ہے اور اجسام کے متعلق بہت کم آتا ہے علن کذا کے معنی میں فلاں بات ظاہر اور آشکار ہوگئی اور اعلنتہ انا میں نے اسے آشکار کردیا قرآن میں ہے : ۔ أَعْلَنْتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْراراً [ نوح 9] میں انہیں بر ملا اور پوشیدہ ہر طرح سمجھا تا رہا ۔ ما تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَما يُعْلِنُونَ [ القصص 69] جو کچھ ان کے سینوں میں مخفی ہے اور جو یہ ظاہر کرتے ہیں علوان الکتاب جس کے معنی کتاب کے عنوان اور سر نامہ کے ہیں ہوسکتا ہے کہ یہ علن سے مشتق ہو اور عنوان سے چونکہ کتاب کے مشمو لات ظاہر ہوتے ہیں اس لئے اسے علوان کہہ دیا گیا ہو ۔
اور یہ کفار مکہ تو غلاموں کی طرح ان جھوٹے معبودوں کے دست بستہ کھڑے ہوئے ہیں محمد ان لوگوں کی تکذیب آپ کے لیے دکھ کا سبب نہیں ہونا چاہیے۔ بیشک ہم سب جانتے ہیں جو یہ مکر و خیانت دل میں رکھتے ہیں اور جس عداوت و دشمنی کو یہ ظاہر کرتے ہیں۔
آیت ٧٦ فَلَا یَحْزُنْکَ قَوْلُہُمْ ” تو (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ان کی بات آپ کو رنجیدہ نہ کرے۔ “- آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی باتوں سے رنجیدہ اور دل گرفتہ نہ ہوں۔- اِنَّا نَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَمَا یُعْلِنُوْنَ ” ہم خوب جانتے ہیں جو کچھ یہ لوگ چھپا رہے ہیں اور جو کچھ ظاہر کر رہے ہیں۔ “
سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :63 خطاب ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ۔ اور کھلی اور چھپی باتوں کا اشارہ اس طرف ہے کہ کفار مکہ کے وہ بڑے بڑے سردار جو آپ کے خلاف جھوٹ کے طوفان اٹھا رہے تھے ، وہ اپنے دلوں میں جانتے ، اور اپنی نجی محفلوں میں مانتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جو الزامات وہ لگا رہے ہیں وہ سراسر بے اصل ہیں ۔ وہ لوگوں کو آپ کے خلاف بد گمان کرنے کے لیے آپ کو شاعر ، کاہن ، ساحر ، مجون اور نہ معلوم کیا کیا کہتے تھے ، مگر خود ان کے ضمیر اس بات کے قائل تھے ، اور آپس میں وہ ایک دوسرے کے سامنے اقرار کرتے تھے کہ سب جھوٹی باتیں ہیں جو محض آپ کی دعوت کو نیچا دکھانے کے لیے وہ گھڑ رہے ہیں ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے فرماتا ہے کہ ان لوگوں کی بیہودہ باتوں پر رنجیدہ نہ ہو ۔ سچائی کا مقابلہ جھوٹ سے کرنے والے آخر کار اس دنیا میں بھی ناکام ہوں گے اور آخرت میں بھی اپنا برا انجام دیکھ لیں گے ۔