وَنَادَيْنٰهُ اَنْ يّـٰٓاِبْرٰهِيْمُ : جب ان دونوں نے حکم مان لیا اور اس نے اسے پیشانی کی ایک جانب پر گرا دیا ( تو ہوا جو ہوا) اور ہم نے اسے آواز دی کہ اے ابراہیم یقیناً تو نے خواب سچا کر دکھایا۔ مفسر سلیمان الجمل نے فرمایا : ” اگر تم کہو کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو کیسے فرمایا کہ تو نے خواب سچا کر دکھایا، حالانکہ انھوں نے خواب دیکھا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں، خواب سچا تو اسی صورت میں ہونا تھا کہ اسے ذبح کردیتے ؟ تو میں کہوں گا کہ اللہ تعالیٰ نے خواب سچا کر دکھانے والا اس لیے فرمایا کہ انھوں نے اپنی پوری کوشش اور طاقت صرف کردی، جو کچھ کرسکتے تھے کیا، ذبح کرنے والا جو کچھ کرتا ہے وہ سب کیا، تو اللہ تعالیٰ کو جو مطلوب تھا وہ انھوں نے ادا کردیا اور وہ تھا اللہ تعالیٰ کے حکم کے لیے پوری طرح مطیع اور فرماں بردار ہوجانا۔ “ بقاعی نے اس سوال کے جواب میں فرمایا : ” قَال اللّٰہُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا فِيْ أَنَّکَ تَذْبَحُہُ فَإِنَّکَ قَدْ عَلَجْتَ وَ بَذَلْتَ الْوُسْعَ فِیْہِ وَ فَعَلْتَ مَا رَأَیْتَ فِي الْمَنَامِ فَمَا انْذَبَحَ لِأَنَّکَ مَا رَأَیْتَ أَنَّکَ ذَبَحْتَہُ فَاکْفُفْ عَنْ مُعَالَجَۃِ الذِّبْحِ بِأَزْیَدَ مِنْ ھٰذَا “ ” اللہ تعالیٰ نے فرمایا، تو نے اپنا خواب سچا کردیا کہ تو اسے ذبح کر رہا ہے، کیونکہ تو نے کوشش کی اور اپنی پوری طاقت اس میں صرف کی اور جو کچھ خواب میں دیکھا تھا وہ کیا، مگر وہ ذبح نہیں ہوا، کیونکہ تو نے یہ نہیں دیکھا تھا کہ تو نے اسے ذبح کردیا ہے (بلکہ یہ دیکھا تھا کہ ذبح کر رہے ہو) اس لیے اس سے زیادہ ذبح کی کوشش سے رک جا۔ “ بقاعی کے علاوہ اور کئی مفسرین نے یہی توجیہ فرمائی ہے کہ خواب ” اَنِّىْٓ اَذْبَحُكَ “ تھا، ” أَنِّيْ ذَبَحْتُکَ “ نہیں تھا اور ابراہیم (علیہ السلام) نے جو کچھ کیا اس کے ساتھ وہ خواب سچا ہوگیا۔- اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ : یعنی ہمارا دستور ہے کہ ہم نیکو کاروں کو ایسے مشکل حکم کر کے آزماتے ہیں، پھر انھیں ثابت قدم رکھتے ہیں۔ جب وہ اس آزمائش میں پورے اترتے ہیں تو ان کے درجات بلند کرتے ہیں اور جس آزمائش میں ہم انھیں ڈالتے ہیں اس سے نکلوا بھی دیتے ہیں، جیسے ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ کی آزمائش میں ڈالا اور وہاں سے سلامت نکال بھی لائے اور ان کا درجہ بلند کردیا۔ اسی طرح بیٹے کی قربانی کی آزمائش میں بیٹے کو بچا لیا اور درجات بھی بلند کردیے۔
وَنَادَيْنٰهُ اَنْ يّـٰٓاِبْرٰهِيْمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْيَ آ (اور ہم نے انہیں آواز دی کہ اے ابراہیم تم نے خواب سچ کر دکھایا) یعنی اللہ کے حکم کی تعمیل میں جو کام تمہارے کرنے کا تھا اس میں تم نے اپنی طرف سے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ (خواب میں بھی غالباً صرف یہی دکھایا گیا تھا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) انہیں ذبح کرنے کے لئے چھری چلا رہے ہیں) اب یہ آزمائش پوری ہوچکی اس لئے اب انہیں چھوڑ دو ۔
وَنَادَيْنٰہُ اَنْ يّٰٓــاِبْرٰہِيْمُ ١٠٤ۙ- ندا - النِّدَاءُ : رفْعُ الصَّوت وظُهُورُهُ ، وقد يقال ذلک للصَّوْت المجرَّد، وإيّاه قَصَدَ بقوله : وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] أي : لا يعرف إلّا الصَّوْت المجرَّد دون المعنی الذي يقتضيه تركيبُ الکلام . ويقال للمرکَّب الذي يُفْهَم منه المعنی ذلك، قال تعالی: وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء 10] وقوله : وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة 58] ، أي : دَعَوْتُمْ ، وکذلك : إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ- [ الجمعة 9] ونِدَاءُ الصلاة مخصوصٌ في الشَّرع بالألفاظ المعروفة، وقوله : أُولئِكَ يُنادَوْنَمِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] فاستعمال النّداء فيهم تنبيها علی بُعْدهم عن الحقّ في قوله : وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق 41] ، وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم 52] ، وقال : فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل 8] ، وقوله : إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم 3] فإنه أشار بِالنِّدَاء إلى اللہ تعالی، لأنّه تَصَوَّرَ نفسَهُ بعیدا منه بذنوبه، وأحواله السَّيِّئة كما يكون حال من يَخاف عذابَه، وقوله : رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ- [ آل عمران 193] فالإشارة بالمنادي إلى العقل، والکتاب المنزَّل، والرّسول المُرْسَل، وسائر الآیات الدَّالَّة علی وجوب الإيمان بالله تعالی. وجعله منادیا إلى الإيمان لظهوره ظهورَ النّداء، وحثّه علی ذلك كحثّ المنادي . وأصل النِّداء من النَّدَى. أي : الرُّطُوبة، يقال : صوت نَدِيٌّ رفیع، واستعارة النِّداء للصَّوْت من حيث إنّ من يَكْثُرُ رطوبةُ فَمِهِ حَسُنَ کلامُه، ولهذا يُوصَفُ الفصیح بکثرة الرِّيق، ويقال : نَدًى وأَنْدَاءٌ وأَنْدِيَةٌ ، ويسمّى الشَّجَر نَدًى لکونه منه، وذلک لتسمية المسبَّب باسم سببِهِ وقول الشاعر :- 435-- كَالْكَرْمِ إذ نَادَى مِنَ الكَافُورِ- «1» أي : ظهر ظهورَ صوتِ المُنادي، وعُبِّرَ عن المجالسة بالنِّدَاء حتی قيل للمجلس : النَّادِي، والْمُنْتَدَى، والنَّدِيُّ ، وقیل ذلک للجلیس، قال تعالی: فَلْيَدْعُ نادِيَهُ- [ العلق 17] ومنه سمّيت دار النَّدْوَة بمكَّةَ ، وهو المکان الذي کانوا يجتمعون فيه . ويُعَبَّر عن السَّخاء بالنَّدَى، فيقال :- فلان أَنْدَى كفّاً من فلان، وهو يَتَنَدَّى علی أصحابه . أي : يَتَسَخَّى، وما نَدِيتُ بشیءٍ من فلان أي : ما نِلْتُ منه نَدًى، ومُنْدِيَاتُ الكَلِم : المُخْزِيَات التي تُعْرَف .- ( ن د ی ) الندآ ء - کے معنی آواز بلند کرنے کے ہیں اور کبھی نفس آواز پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] جو لوگ کافر ہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ میں اندر سے مراد آواز و پکار ہے یعنی وہ چو پائے صرف آواز کو سنتے ہیں اور اس کلام سے جو مفہوم مستناد ہوتا ہے اسے ہر گز نہیں سمجھتے ۔ اور کبھی اس کلام کو جس سے کوئی معنی مفہوم ہوتا ہو اسے ندآء کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے ۔ وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء 10] اور جب تمہارے پروردگار نے موسیٰ کو پکارا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة 58] اور جب تم لوگ نماز کے لئے اذان دیتے ہو ۔ میں نماز کے لئے اذان دینا مراد ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة 9] جب جمعے کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے ۔ میں بھی نداء کے معنی نماز کی اذان دینے کے ہیں اور شریعت میں ند اء الصلوۃ ( اذان ) کے لئے مخصوص اور مشہور کلمات ہیں اور آیت کریمہ : ۔ أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] ان کو گویا دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے : ۔ میں ان کے متعلق نداء کا لفظ استعمال کر کے متنبہ کیا ہے کہ وہ حق سے بہت دور جا چکے ہیں ۔ نیز فرمایا ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق 41] اور سنو جس دن پکارنے والا نزدیک کی جگہ سے پکارے گا ۔ وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم 52] اور ہم نے ان کو طور کے ذہنی جانب سے پکارا فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل 8] جب موسیٰ ان ان کے پاس آئے تو ندار آئی ۔ ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم 3] جب انہوں نے اپنے پروردگار کو دبی آواز سے پکارا میں اللہ تعالیٰ کے متعلق نادی کا لفظ استعمال کرنے سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے گناہ اور احوال سینہ کے باعث اس وقت اپنے آپ کو حق اللہ تعالیٰ سے تصور کیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنے والے کی حالت ہوتی ہے اور آیت کریمہ ؛ ۔ رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران 193] اے پروردگار ہم نے ایک ندا کرنے والے کو سنا ۔ جو ایمان کے لئے پکاررہا تھا ۔ میں منادیٰ کا لفظ عقل کتاب منزل رسول مرسل اور ان آیات الہیہ کو شامل ہے جو ایمان باللہ کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں اور ان چیزوں کو منادی للا یمان اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ ندا کی طرح ظاہر ہوتی ہیں اور وہ پکارنے والے کی طرح ایمان لانے کی طرف دعوت دے رہی ہیں ۔ اصل میں نداء ندی سے ہے جس کے معنی رطوبت نمی کے ہیں اور صوت ندی کے معنی بلند آواز کے ہیں ۔ اور آواز کے لئے نداء کا استعارہ اس بنا پر ہے کہ جس کے منہ میں رطوبت زیادہ ہوگی اس کی آواز بھی بلند اور حسین ہوگی اسی سے فصیح شخص کو کثرت ریق کے ساتھ متصف کرتے ہیں اور ندی کے معنی مجلس کے بھی آتے ہیں اس کی جمع انداء واندید آتی ہے ۔ اور در خت کو بھی ندی کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ نمی سے پیدا ہوتا ہے اور یہ تسمیۃ المسبب با سم السبب کے قبیل سے ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 420 ) کالکرم اذا نادٰی من الکافور جیسا کہ انگور کا خوشہ غلاف ( پردہ ) سے ظاہر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ منادی کرنے والے کی آواز ہوتی ہے ۔ کبھی نداء سے مراد مجالست بھی ہوتی ہے ۔ اس لئے مجلس کو النادی والمسدیوالندی کہا جاتا ہے اور نادیٰ کے معنی ہم مجلس کے بھی آتے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلْيَدْعُ نادِيَهُ [ العلق 17] تو وہ اپنے یاران مجلس کو بلالے ۔ اور اسی سے شہر میں ایک مقام کا نام درا لندوۃ ہے ۔ کیونکہ اس میں مکہ کے لوگ جمع ہو کر باہم مشورہ کیا کرتے تھے ۔ اور کبھی ندی سے مراد مخاوت بھی ہوتی ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ فلان اندیٰ کفا من فلان وپ فلاں سے زیادہ سخی ہے ۔ ھو یتندٰی علیٰ اصحابہ ۔ وہ اپنے ساتھیوں پر بڑا فیاض ہے ۔ ما ندیت بشئی من فلان میں نے فلاں سے کچھ سخاوت حاصل نہ کی ۔ مندیات الکلم رسوا کن باتیں مشہور ہوجائیں
آیت ١٠٤ وَنَادَیْنٰہُ اَنْ یّٰٓاِبْرٰہِیْمُ ” اور ہم نے اسے پکارا کہ اے ابراہیم (علیہ السلام) “
سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :62 نحویوں کا ایک گروہ کہتا ہے کہ یہاں اور بمعنی تو ہے یعنی فقرہ یوں ہے کہ جب ان دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور ابراہیم علیہ السلام نے بیٹے کو ماتھے کے بل گرا دیا تو ہم نے ندا دی ۔ لیکن ایک دوسرا گروہ کہتا ہے کہ یہاں لفظ جب کا جواب محذوف ہے اور اس کو ذہن سامع پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔ کیونکہ بات اتنی بڑی تھی کہ اسے الفاظ میں بیان کرنے کے بجائے تصور ہی کے لیے چھوڑ دینا زیادہ مناسب تھا ۔ جب اللہ تعالیٰ نے دیکھا ہو گا کہ بوڑھا باپ اپنے ارمانوں سے مانگے ہوئے بیٹے کو محض ہماری خوشنودی پر قربان کر دینے کے لیے تیار ہو گیا ہے اور بیٹا بھی گلے پر چھری چلوانے کے لیے راضی ہے ، تو یہ منظر دیکھ کر کیسا کچھ دریائے رحمت نے جوش مارا ہو گا ، اور مالک کو ان باپ بیٹوں پر کیسا کچھ پیار آیا ہو گا ، اس کا بس تصور ہی کیا جا سکتا ہے ۔ الفاظ میں اس کی کیفیت جتنی کچھ بھی بیان کی جائے گی وہ اس کو ادا نہیں کرے گی بلکہ اس کی اصلی شان سے کچھ گھٹ کر ہی ہو گی ۔