103۔ 1 ہر انسان کے منہ (چہرے) پر دو جبین (دائیں اور بائیں) ہوتی ہیں اور درمیان میں پیشانی اس لئے لِلْجَبِیْنِ کا صحیح ترجمہ (کروٹ پر) ہے یعنی اس طرح کروٹ پر لٹا لیا، جس طرح جانور کو ذبح کرتے وقت قبلہ رخ کروٹ پر لٹا یا جاتا ہے، مشہور ہے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) نے وصیت کی کہ انہیں اس طرح لٹایا جائے کہ چہرہ سامنے نہ رہے جس سے پیار اور شفقت کا جذبہ امر الٰہی پر غالب آنے کا امکان نہ رہے۔
[٦٠] قربانی کا منظر :۔ سیدنا ابراہیم نے اپنے بیٹے کو پیشانی کے بل اس لئے لٹایا کہ کہیں پدرانہ شفقت تعمیل حکم الٰہی میں آڑے نہ آجائے۔ اور چھری چلاتے وقت ہاتھ میں لغزش نہ واقع ہو۔ منہ کے بل لٹانے سے نہ بیٹے کا چہرہ نظر آئے گا نہ پدرانہ جذبات برانگیختہ ہوں گے۔ کہتے ہیں کہ سیدنا اسماعیل نے اسی مصلحت کے پیش نظر خود اپنے والد محترم کو ایسا مشورہ دیا۔
فَلَمَّآ اَسْلَمَا وَتَلَّهٗ لِلْجَبِيْنِ : عام طور پر مفسرین نے ” اَلْجَبِیْنُ “ کا ترجمہ پیشانی یا ماتھا کیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے بیٹے کو اوندھا اس لیے لٹایا کہ ذبح کرتے وقت اس کا چہرہ دیکھ کر کہیں دل میں رِقّت اور ہاتھ میں لرزش پیدا نہ ہوجائے۔ بعض نے کچھ آثار بھی نقل کیے ہیں کہ اسماعیل (علیہ السلام) نے خود ابراہیم (علیہ السلام) کو ایسا کرنے کی وصیت کی۔ بعض نے لکھا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے بیٹے کے کہنے پر اس کے دونوں ہاتھ گردن کے ساتھ باندھ دیے اور اسے الٹا لٹا لیا اور چاہتے تھے کہ نیچے سے گردن پر چھری پھیریں۔ مگر یہ سب اسرائیلیات ہیں اور ان میں سے کوئی بات بھی ثابت نہیں۔ اس مقام پر جبین سے مراد ماتھا لینا بہت بعید ہے، کیونکہ جبین کا معنی ” جَبْھَۃٌ“ (ماتھے) کی ایک جانب ہے۔ ہر آدمی کی دو جبینیں ہوتی ہیں۔ طبری نے اس قسم کی روایتیں نقل کرنے کے باوجود خود ” وَتَلَّهٗ لِلْجَبِيْنِ “ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے : ” وَ صَرَعَہُ لِلْجَبِیْنِ وَالْجَبِیْنَانِ مَا عَنْ یَمِیْنِ الْجَبْھَۃِ وَ عَنْ شِمَالِھَا وَلِلْوَجْہِ جَبِیْنَانِ وَالْجَبْھَۃُ بَیْنَھُمَا “ یعنی ابراہیم (علیہ السلام) نے اسے جبین پر گرا لیا اور دو جبینیں وہ ہیں جو ” جَبْھَۃٌ“ (پیشانی) کے دائیں اور بائیں طرف ہوتی ہیں اور چہرے کی دو جبینیں ہوتی ہیں اور ” جَبْھَۃٌ“ (پیشانی) ان دونوں کے درمیان ہوتی ہے۔ “ قاموس میں ہے : ” اَلْجَبِیْنَانِ حَرْفَانِ مَکْتَنِفَا الْجَبْھَۃِ مِنْ جَانِبَیْھَا “” یعنی ماتھے کے دونوں جانبوں والے کناروں کو دو جبینیں کہتے ہیں۔ “ اس لیے میں نے اس کا ترجمہ کیا ہے کہ ” اس نے اسے پیشانی کی ایک جانب پر گرا دیا۔ “ ذبح کرتے وقت کسی بھی جانور کو اسی طرح گرایا جاتا ہے، تاکہ حلق پر چھری پھر سکے۔- ” فَلَمَّآ اَسْلَمَا وَتَلَّهٗ لِلْجَبِيْنِ “ (تو جب دونوں نے حکم مان لیا اور اس نے اسے پیشانی کی ایک جانب پر گرا دیا) تو پھر کیا ہوا ؟ صاحب کشف نے فرمایا : ” جواب یہ ہے کہ (کَانَ مَا کَانَ ) یعنی پھر ہوا جو ہوا۔ “ اس سوال کا جواب یہاں ذکر نہیں کیا گیا، کیونکہ یہ بات بیان میں آنا مشکل ہے کہ اس وقت باپ کے دل پر کیا گزری تھی، فرشتوں کی حیرانی کا کیا عالم تھا اور اللہ تعالیٰ ، جس کے حکم پر وہ عزیز بیٹے کو ذبح کر رہے تھے، کس قدر خوش اور مہربان ہو رہا تھا۔ - اس مقام پر مفسرین نے بعض صحابہ اور تابعین سے مختلف آثار نقل کیے ہیں، جن میں سے اکثر کی تو سند ہی صحیح نہیں۔ اگر صحیح ہو بھی تو ظاہر ہے وہ حضرات واقعہ کے وقت موجود نہیں تھے، نہ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وہ باتیں روایت کی ہیں اور نہ ہی اپنی معلومات کا کوئی اور معتبر ذریعہ بتایا ہے۔ حافظ ابن کثیر (رض) نے ” البدایۃ والنہایۃ “ میں اسماعیل (علیہ السلام) کے قصے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے : ” غَالِبُ مَا ھٰھُنَا مِنَ الْآثَارِ مَأْخُوْذٌ مِنَ الْإِسْرَاءِیْلِیَاتِ وَفِي الْقُرْآنِ کِفَایَۃٌ عَمَّا جَرٰی مِنَ الْأَمْرِ الْعَظِیْمِ وَالْاِخْتِبَارِ الْبَاھِرِ وَأَنَّہُ فُدِيَ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ وَ قَدْ وَرَدَ فِي الْحَدِیْثِ أَنَّہُ کَانَ کَبَشًا “ ” یعنی یہاں ذکر کیے جانے والے اکثر آثار اسرائیلیات سے لیے گئے ہیں اور قرآن مجید میں جو کچھ مذکور ہے وہ اس عظیم الشان معاملے اور طاقت سے اونچے امتحان کے بیان کے لیے کافی ہے اور یہ کہ ان کا فدیہ عظیم ذبیحے کے ساتھ دیا گیا اور حدیث میں آیا ہے کہ وہ ایک مینڈھا تھا۔ “
فَلَمَّآ اَسْلَمَا (پس جب وہ دونوں جھک گئے) اسلمہ کے معنی ہیں جھک جانا، مطیع ہوجانا، رام ہوجانا۔ مطلب یہ ہے کہ جب وہ اللہ کے حکم کے آگے جھک گئے، یعنی باپ نے بیٹے کو ذبح کرنے کا اور بیٹے نے ذبح ہوجانے کا ارادہ کرلیا، یہاں لما (جب) کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، لیکن اس کا جواب مذکور نہیں ہے، یعنی آگے یہ نہیں بتایا گیا کہ جب یہ واقعات پیش آ چکے تو کیا ہوا ؟ اس سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ باپ بیٹے کا یہ اقدام فداکاری اس قدر عجیب و غریب تھا کہ الفاظ اس کی پوری کیفیت کو بیان کر ہی نہیں سکتے۔- بعض تاریخی اور تفسیری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان نے تین مرتبہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بہکانے کی کوشش کی، ہر بار حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اسے سات کنکریاں مار کر بھگا دیا۔ آج تک منیٰ کے تین جمرات پر اسی محبوب عمل کی یاد کنکریاں مار کر منائی جاتی ہے، بالآخر جب دونوں باپ بیٹے یہ انوکھی عبادت انجام دینے کے لئے قربان گاہ پر پہنچے تو حضرت اسماعیل (علیہ السلام) نے اپنے والد سے کہا کہ ابا جان مجھے خوب اچھی طرح باندھ دیجئے، تاکہ میں زیادہ تڑپ نہ سکوں اور اپنے کپڑوں کو بھی مجھ سے بچائیے، ایسا نہ ہو کہ ان پر میرے خون کی چھینٹیں پڑیں، تو میرا ثواب گھٹ جائے، اس کے علاوہ میری والدہ خون دیکھیں گی تو انہیں غم زیادہ ہوگا، اور اپنی چھری کو بھی تیز کرلیجئے، اور اسے میرے حلق پر ذرا جلدی جلدی پھیریئے گا، تاکہ آسانی سے میرا دم نکل سکے، کیونکہ موت بڑی سخت چیز ہے، اور جب آپ میری والدہ کے پاس جائیں تو ان سے میرا سلام کہہ دیجئے گا، اور اگر آپ میری قمیض والدہ کے پاس لے جانا چاہیں تو لے جائیں، شاید اس سے انہیں کچھ تسلی ہو۔ اکلوتے بیٹے کی زبان سے یہ الفاظ سن کر ایک باپ کے دل پر کیا گزر سکتی ہے ؟ لیکن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) استقامت کے پہاڑ بن کر جواب یہ دیتے ہیں کہ : ” بیٹے تم اللہ کا حکم پورا کرنے کے لئے میرے کتنے اچھے مددگار ہو۔ “ یہ کہہ کر انہوں نے بیٹے کو بوسہ دیا، پر نم آنکھوں سے انہیں باندھا۔ (مظہری) اور - وَتَلَّهٗ لِلْجَبِيْنِ (انہیں پیشانی کے بل خاک پر لٹا دیا) حضرت ابن عباس سے اس کا مطلب یہ منقول ہے کہ انہیں اس طرح کروٹ پر لٹا دیا کہ پیشانی کا ایک کنارہ زمین سے چھونے لگا، (مظہری) لغت کے اعتبار سے یہ تفسیر راجح ہے۔ اس لئے کہ جبین عربی زبان میں پیشانی کی دونوں کروٹوں کو کہتے ہیں، اور پیشانی کا درمیانی حصہ جبہتہ کہلاتا ہے۔ اسی لئے حکیم الامت حضرت تھانوی نے اس کا ترجمہ کروٹ پر لٹانے سے کیا ہے لیکن بعض دوسرے حضرات مفسرین نے اس کا مطلب یہ بتایا ہے کہ اوندھے منہ زمین پر لٹا دیا۔ بہرصورت تاریخی روایات میں اس طرح لٹانے کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ شروع میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے انہیں سیدھا لٹایا تھا، لیکن جب چھری چلانے لگے تو بار بار چلانے کے باوجود گلا کٹتا نہیں تھا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے پیتل کا ایک ٹکڑا بیچ میں حائل کردیا تھا، اس موقع پر بیٹے نے خود یہ فرمائش کی کہ ابا جان : مجھے چہرے کے بل کروٹ سے لٹا دیجئے، اس لئے کہ جب آپ کو میرا چہرہ نظر آتا ہے تو شفقت پدری جوش مارنے لگتی ہے، اور گلا پوری طرح کٹ نہیں پاتا، اس کے علاوہ چھری مجھے نظر آتی ہے تو مجھے بھی گھبراہٹ ہونے لگتی ہے۔ چناچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے انہیں اسی طرح لٹا کر چھری چلانی شروع کی۔ (تفسیر مظہری وغیرہ) واللہ اعلم۔
فَلَمَّآ اَسْلَمَا وَتَلَّہٗ لِلْجَبِيْنِ ١٠٣ۚ- اسلما۔ ماضی تثنیہ مذکر غائب ۔ دونوں نے حکم مانا۔ دونون نے سر تسلیم خم کردیا۔ دونوں ( امر خدا وندی کے آگے ) جھک گئ - تلَ- أصل التَّلِّ : المکان المرتفع، والتَّلِيل : العنق، وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ [ الصافات 103] ، أسقطه علی التل، کقولک : ترّبه : أسقطه علی التراب، وقیل : أسقطه علی تلیله، والمِتَّل : الرمح الذي يتل به .- ( ت ل ل ) التل : اصل میں تل کے معنی بلند جگہ یعنی ٹہلہ کے ہیں اور تلیل گردن کو کہتے ہیں : وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ [ الصافات 103] کے معنی ٹیلے پر لٹا دینے کے ہیں جیسے تربہ ( کسی کو زمین پر گرانا ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی تلیل یعنی گردن اور رخسار کے بل لٹا دینا ہیں جیسا کہ جبیں ( پٹ بڑی ) کے لفظ سے مفہوم ہوتا ہے ۔ متل نیزہ وغیرہ جسے مار کر کسیء لو بچھاڑا جاتا ہے ( سیدھا اور سخت نیزہ )- جَبن - قال تعالی: وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ [ الصافات 103] ، فالجَبِينَان جانبا الجبهة، والجُبْن : ضعف القلب عمّا يحق أن يقوی عليه . ورجل جَبَان وامرأة جبان، وأَجْبَنْتُهُ : وجدته جبانا وحکمت بجبنه، والجُبْنُ : ما يؤكل . وتَجَبَّنَ اللبن : صار کالجبن .- ( ج ب ن ) الجبن پیشانی کا کنارہ ۔ اور پیشانی کے دونوں کی طرف کے کناروں کو جبیان کہا جاتا ہے قرآن میں ہے ؟ ۔ وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ [ الصافات 103] اور باپ نے بیٹے کو پٹ پڑی کے بل لٹا لیا : ۔ الجبن ( بزدلی دل ) دل کا ایسے موقع کمزور ی کا اظہار کرنا جہاں اسے قوت کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا ۔ جبان بزدل ( مذکر ومؤنث ) اجبنتہ بزدل پانا کسی پر بزدلی کا حکم لگانا ۔ الجبن ( یضا ) پنیر دودھ پنیر بن گیا یا پنیر کی طرح جم گیا ۔
(١٠٣۔ ١١١) غرض کہ جب دونوں حکم الہی کی تعمیل کے لیے تیار ہوگئے اور باپ نے بیٹے کو ذبح کرنے کے لیے کروٹ پر لٹا دیا تو ہم نے آواز دی کہ ابراہیم آپ نے خواب کو سچا اور پورا کر کے دکھایا ہم مخلصین کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں۔- حقیقت میں یہ تھا بھی بڑا امتحان اور ہم نے ایک موٹا مینڈھا اس کے بدلہ میں دیا اور ہم نے پیچھے آنے والوں میں یہ بات رہنے دی کہ ابراہیم پر سلام ہو مخلصین کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں۔- بیشک وہ ہمارے ایماندار بندوں میں سے تھے۔
آیت ١٠٣ فَلَمَّآ اَسْلَمَا وَتَلَّہٗ لِلْجَبِیْنِ ” پھر جب دونوں نے فرمانبرداری کی روش اختیار کرلی اور ابراہیم نے اس کو پیشانی کے َبل لٹا دیا۔ “- حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بیٹے کو ذبح کرنے کے لیے پیشانی کے بل لٹایا تاکہ چہرہ سامنے نہ ہو اور اسی حالت میں گدی ّپر چھری چلانے کی کوشش کی۔
سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :61 یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ذبح کرنے کے لیے بیٹے کو چِت لٹایا بلکہ اوندھے منہ لٹایا تاکہ ذبح کرتے وقت بیٹے کا چہرہ دیکھ کر کہیں محبت و شفقت ہاتھ میں لرزش پیدا نہ کر دے ۔ اس لیے وہ چاہتے تھے کہ نیچے کی طرف سے ہاتھ ڈال کر چھری چلائیں ۔
21: باپ بیٹے دونوں نے تو اپنی طرف سے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں یہی ٹھان لی تھی کہ باپ بیٹے کو ذبح کرے گا، اس لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹایا، تاکہ چھری پھیرتے وقت ان کی صورت دیکھ کر ارادے میں کوئی تزلزل نہ آجائے۔