Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

102۔ 1 یعنی دوڑ دھوپ کے لائق ہوگیا یا بلوغت کے قریب پہنچ گیا، بعض کہتے ہیں کہ اس وقت یہ بچہ 13 سال کا تھا۔ 102۔ 2 پیغمبر کا خواب، وحی اور حکم الٰہی ہی ہوتا ہے۔ جس پر عمل ضروری ہوتا ہے۔ بیٹے سے مشورے کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ بیٹا بھی امر الٰہی کے لئے کس حد تک تیار ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٦] بیٹے کو ذبح کرنے کے متعلق خواب :۔ سیدنا اسماعیل جب اس عمر کو پہنچے جب وہ اپنے باپ کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹاسکتے تھے تو سیدنا ابراہیم کو ایک اور بہت بڑی آزمائش میں ڈالا گیا۔ آپ کو تین راتیں مسلسل خواب آتا رہا جس میں آپ دیکھتے تھے کہ آپ اسی بیٹے کو جسے آپ نے اللہ سے دعا کرکے لیا تھا اور جو آپ کے بڑھاپے میں آپ کا سہارا بن رہا تھا، ذبح کررہے ہیں چناچہ آپ نے سمجھ لیا کہ یہ اللہ کی طرف سے حکم ہے۔- [٥٧] بیٹے سے سوال :۔ چناچہ سیدنا ابراہیم نے اپنے نوجوان بیٹے کو یہ خواب بتا کر ان کی رائے دریافت کی۔ آپ نے یہ رائے اس لئے دریافت نہیں کی تھی کہ اگر بیٹا اس بات پر آمادہ نہ ہو یا وہ انکار کردے تو آپ اللہ کے اس کے حکم کی تعمیل سے باز رہیں گے بلکہ اس لئے پوچھا تھا کہ آیا یہ فی الواقع صالح بیٹا ثابت ہوتا ہے یا نہیں ؟ کیونکہ آپ نے جو دعا کی تھی وہ صالح بیٹے کے لئے کی تھی۔- [٥٨] خنبی کا خواب وحی ہوتا ہے :۔ اس سے معلوم ہوا کہ خواب سن کر سیدنا اسماعیل بھی اسی نتیجہ پر پہنچے تھے کہ اللہ کا حکم ہے جس سے یہ نتیجہ مستنبط ہوتا ہے کہ نبی کا خواب بھی وحی ہوتا ہے اور اس کی تائید بعض دوسری آیات اور احادیث سے بھی ہوجاتی ہے۔- [٥٩] بیٹے کی بےمثال فرمانبرداری :۔ سیدنا اسماعیل اس قدر خندہ پیشانی اور فراخ دلی سے قربان ہونے کو تیار ہوگئے جس کی دوسری کوئی مثال دنیا میں مل نہیں سکتی وہ ایک نہایت صالح اور انتہائی فرمانبردار بیٹے ثابت ہوئے۔ کیونکہ بیٹے کی قربانی دینے کا حکم تو باپ کو ہوا تھا۔ بیٹے کو قربان ہوجانے کا حکم نہیں ہوا تھا۔ بیٹے نے اپنے والد کا فرمان بلاچون وچرا تسلیم کرکے اپنے والد کی بھی انتہائی خوشنودی حاصل کرلی اور اپنے پروردگار کی بھی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَلَمَّا بَلَــغَ مَعَهُ السَّعْيَ : ” يٰبُنَيَّ “ ” اِبْنٌ“ کی تصغیر ہے، اے میرے چھوٹے بیٹے مراد ہے اے میرے پیارے بیٹے ابراہیم (علیہ السلام) وقتاً فوقتاً شام سے اسماعیل (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کی خبر گیری کے لیے آتے رہتے تھے۔ جب بیٹا اس کے ساتھ دوڑ دھوپ کی عمر کو پہنچ گیا، یعنی اس قابل ہوگیا کہ باپ کا ہاتھ بٹا سکے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابراہیم (علیہ السلام) کو ایک نیا امتحان پیش آیا۔ وہ یہ کہ انھوں نے خواب میں دیکھا کہ وہ بڑی دعاؤں اور آرزؤوں کے بعد بڑھاپے میں ملنے والے نہایت عزیز بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں۔ نبی کا خواب بھی وحی ہوتا ہے، اس لیے انھوں نے اسے اللہ کا حکم سمجھ کر کسی بھی تردّد کے بغیر اس پر عمل کا پکا ارادہ کرلیا اور بیٹے سے کہا، اے میرے پیارے بیٹے میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، سو دیکھ، تو کیا خیال کرتا ہے۔ - فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰى : بیٹے کی رائے پوچھنے کا مطلب یہ نہ تھا کہ اگر وہ نہ مانتا تو وہ اللہ کے حکم پر عمل نہ کرتے، بلکہ وہ اپنے ساتھ بیٹے کو اللہ کے حکم کی اطاعت میں شریک کرنا چاہتے تھے اور انھیں امید تھی کہ بیٹا اللہ کے حکم کی تعمیل کے لیے ضرور آمادگی کا اظہار کرے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں حلیم لڑکے کی بشارت دی تھی اور واقعی بیٹے نے یہ کہہ کر حلیم ہونے کا ثبوت دیا جو اگلے جملے میں مذکور ہے۔- قَالَ يٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُــؤْمَرُ :” يٰٓاَبَتِ “ کی وضاحت کے لیے دیکھیے سورة یوسف (٤) اس سے معلوم ہوا کہ اسماعیل (علیہ السلام) نے اسے محض خواب نہیں بلکہ اللہ کا حکم سمجھا اور کہا اے میرے باپ آپ کو جو حکم دیا جا رہا ہے وہ کیجیے۔ یہ صاف دلیل ہے کہ انبیاء کا خواب وحی ہوتا ہے۔ ابراہیم اور اسماعیل (علیہ السلام) دونوں نے یہی سمجھا اور دونوں اسے اللہ کا حکم سمجھ کر اس کی تعمیل کے لیے تیار ہوگئے۔- سَتَجِدُنِيْٓ اِنْ شَاۗءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِيْنَ : اس میں اسماعیل (علیہ السلام) کی کمال اطاعت کے ساتھ ان کا کمال صبر ظاہر ہو رہا ہے، جو ان کے ” غُلَامٌ حَلِیْمٌ“ ہونے کا نتیجہ تھا۔ اطاعت اور صبر کے ساتھ ان کا اللہ تعالیٰ کے لیے حسن ادب بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ انھوں نے اپنی اطاعت اور قربانی کو اللہ تعالیٰ کی مشیّت کے تابع قرار دیا کہ اگر اس نے چاہا تو میں اس آزمائش پر صبر کروں گا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

فَلَمَّا بَلَــغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يٰبُنَيَّ اِنِّىْٓ اَرٰى فِي الْمَنَامِ اَنِّىْٓ اَذْبَحُكَ (سو جب وہ فرزند ایسی عمر کو پہنچا کہ ابراہیم کے ساتھ چلنے پھرنے لگا تو ابراہیم نے فرمایا : برخوردار میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تم کو ذبح کر رہا ہوں) بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خواب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو تین روز متواتر دکھایا گیا (قرطبی) اور یہ بات طے شدہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کا خواب وحی ہوتا ہے، اس لئے اس خواب کا مطلب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حکم ہوا ہے کہ اپنے اکلوتے بیٹے کو ذبح کردو۔ یوں یہ حکم براہ راست کسی فرشتے وغیرہ کے ذریعہ بھی نازل کیا جاسکتا تھا، لیکن خواب میں دکھانے کی حکمت بظاہر یہ تھی کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اطاعت شعاری اپنے کمال کے ساتھ ظاہر ہو، خواب کے ذریعہ دیئے ہوئے حکم میں انسانی نفس کے لئے تاویلات کی بڑی گنجائش تھی، لیکن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تاویلات کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے اللہ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کردیا۔ (تفسیر کبیر)- اس کے علاوہ یہاں باری تعالیٰ کا اصل مقصد نہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو ذبح کرانا تھا، نہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ حکم دینا کہ انہیں ذبح کر ہی ڈالو، بلکہ منشاء یہ حکم دینا تھا کہ اپنی طرف سے انہیں ذبح کرنے کے سارے سامان کر کے ان کے ذبح کا اقدام کر گزرو۔ اب یہ حکم اگر زبانی دیا جاتا تو اس میں آزمائش نہ ہوتی، اس لئے انہیں خواب میں دکھلایا کہ وہ بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں، اس سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یہ سمجھے کہ ذبح کا حکم ہوا ہے، اور وہ پوری طرح ذبح کرنے پر آمادہ ہوگئے، اس طرح آزمائش بھی پوری ہوگئی اور خواب بھی سچا ہوگیا، یہ بات زبانی حکم کے ذریعہ آتی تو یا آزمائش نہ ہوتی، یا حکم کو بعد میں منسوخ کرنا پڑتا یہ امتحان کس قدر سخت تھا ؟ اس کی طرف اشارہ کرنے کے لئے یہاں اللہ تعالیٰ نے فَلَمَّا بَلَــغَ مَعَهُ السَّعْيَ کے الفاظ بڑھائے ہیں، یعنی ارمانوں سے مانگے ہوئے اس بیٹے کو قربان کرنے کا حکم اس وقت دیا گیا تھا جب یہ بیٹا اپنے باپ کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہوگیا تھا، اور پرورش کی مشقتیں برداشت کرنے کے بعد اب وقت آیا تھا کہ وہ قوت بازو بن کر باپ کا سہارا ثابت ہو۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ اس وقت حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی عمر تیرہ سال تھی اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ بالغ ہوچکے تھے۔ (تفسیر مظہری)- فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰى ۭ (سو تم بھی سوچ لو کہ تمہاری کیا رائے ہے ؟ ) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ بات حضرت اسماعیل (علیہ السلام) سے اس لئے نہیں پوچھی کہ آپ کو حکم الٰہی کی تعمیل میں کوئی تردد تھا، بلکہ ایک تو وہ اپنے بیٹے کا امتحان لینا چاہتے تھے کہ وہ اس آزمائش میں کس حد تک پورا اترتا ہے ؟ دوسرے انبیاء (علیہم السلام) کا طرز ہمیشہ یہ رہا ہے کہ وہ احکام الٰہی کی اطاعت کے لئے تو ہر وقت تیار رہتے ہیں لیکن اطاعت کے لئے ہمیشہ راستہ وہ اختیار کرتے ہیں جو حکمت اور حتی المقدور سہولت پر مبنی ہو۔ اگر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پہلے سے کچھ کہے بغیر بیٹے کو ذبح کرنے لگتے، تو یہ دونوں کے لئے مشکل کا سبب ہوتا، اب یہ بات آپ نے مشورہ کے انداز میں بیٹے سے اس لئے ذکر کی کہ بیٹے کو پہلے سے اللہ کا یہ حکم معلوم ہوجائے گا تو وہ ذبح ہونے کی اذیت سہنے کے لئے پہلے سے تیار ہو سکے گا، نیز اگر بیٹے کے دل میں کچھ تذبذب ہوا بھی تو اسے سمجھایا جاسکے گا۔ (روح المعانی وبیان القرآن) لیکن وہ بیٹا بھی اللہ کے خلیل کا بیٹا تھا اور اسے خود منصب رسالت پر فائز ہونا تھا، اس نے جواب میں کہا :- يٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُــؤْمَرُ ۡ (اباجان جس بات کا آپ کو حکم دیا گیا ہے اسے کر گزریئے) ۔ اس سے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بےمثال جذبہ جاں سپاری کی تو شہادت ملتی ہی ہے، اس کے علاوہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کم سنی ہی میں اللہ نے انہیں کیسی ذہانت اور کیسا علم عطا فرمایا تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کے سامنے اللہ کے کسی حکم کا حوالہ نہیں دیا تھا، بلکہ محض ایک خواب کا تذکرہ فرمایا تھا، لیکن حضرت اسماعیل (علیہ السلام) سمجھ گئے کہ انبیاء (علیہم السلام) کا خواب وحی ہوتا ہے، اور یہ خواب بھی درحقیقت حکم الٰہی کی ہی ایک شکل ہے، چناچہ انہوں نے جواب میں خواب کے بجائے حکم الٰہی کا تذکرہ فرمایا۔- وحی غیر متلو کا ثبوت :- یہیں سے ان منکرین حدیث کی واضح تردید ہوجاتی ہے جو وحی غیر متلو کے وجود کو نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ وحی صرف وہ ہے جو آسمانی کتاب میں نازل ہوگئی، اس کے علاوہ وحی کی کوئی دوسری قسم موجود نہیں ہے۔ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بیٹے کی قربانی کا حکم خواب کے ذریعہ دیا گیا، اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) نے صریح الفاظ میں اسے اللہ کا حکم قرار دیا، اگر وحی غیر متلو کوئی چیز نہیں ہے تو یہ حکم کون سی آسمانی کتاب میں اترا تھا ؟- حضرت اسماعیل (علیہ السلام) نے اپنی طرف سے اپنے والد بزرگوار کو یہ یقین بھی دلایا کہ :- سَتَجِدُنِيْٓ اِنْ شَاۗءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِيْنَ (انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے) اس جملے میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی غایت ادب اور غایت تواضع کو دیکھئے۔ ایک تو انشاء اللہ کہہ کر معاملہ اللہ کے حوالہ کردیا اور اس وعدے میں دعوے کی جو ظاہری صورت پیدا ہو سکتی تھی اسے ختم فرما دیا۔ دوسرے آپ یہ بھی فرما سکتے تھے کہ ” آپ انشاء اللہ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے “ لیکن اس کے بجائے آپ نے فرمایا کہ ” آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے “ جس سے اس بات کی طرف اشارہ فرما دیا کہ یہ صبر و ضبط تنہا میرا کمال نہیں ہے بلکہ دنیا میں اور بھی بہت سے صبر کرنے والے ہوئے ہیں، انشاء اللہ میں بھی ان میں شامل ہوجاؤں گا۔ اس طرح آپ نے اس جملے میں فخر وتکبر، خودپسندی اور پندار کے ہر ادنیٰ شائبے کو ختم کر کے اس میں انتہا درجے کی تواضع اور انکسار کا اظہار فرما دیا (روح المعانی) اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ انسان کو کسی معاملے میں اپنے اوپر کتنا ہی اعتماد ہو لیکن اسے ایسے بلند بانگ دعوے نہیں کرنے چاہئیں جن سے غرور وتکبر ٹپکتا ہوا، اگر کہیں ایسی کوئی بات کہنے کی ضرورت ہو تو الفاظ میں اس کی رعایت ہونی چاہئے، کہ ان میں اپنے بجائے اللہ پر بھروسہ کا اظہار ہو، اور جس حد تک ممکن ہو تواضع کے دامن کو نہ چھوڑا جائے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَلَمَّا بَلَــغَ مَعَہُ السَّعْيَ قَالَ يٰبُنَيَّ اِنِّىْٓ اَرٰى فِي الْمَنَامِ اَنِّىْٓ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰى۝ ٠ ۭ قَالَ يٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُــؤْمَرُ۝ ٠ ۡسَتَجِدُنِيْٓ اِنْ شَاۗءَ اللہُ مِنَ الصّٰبِرِيْنَ۝ ١٠٢- بلغ - البُلُوغ والبَلَاغ : الانتهاء إلى أقصی المقصد والمنتهى، مکانا کان أو زمانا، أو أمرا من الأمور المقدّرة، وربما يعبّر به عن المشارفة عليه وإن لم ينته إليه، فمن الانتهاء : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف 15]- ( ب ل غ ) البلوغ - والبلاغ ( ن ) کے معنی مقصد اور متبٰی کے آخری حد تک پہنچے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ یا اندازہ کئے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو ۔ مگر کبھی محض قریب تک پہنچ جانے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چناچہ انتہاتک پہنچے کے معنی میں فرمایا : - بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف 15] یہاں تک کہ جب خوب جو ان ہوتا ہے اور چالس برس کو پہنچ جاتا ہے ۔ - سعی - السَّعْيُ : المشي السّريع، وهو دون العدو، ويستعمل للجدّ في الأمر، خيرا کان أو شرّا، قال تعالی: وَسَعى فِي خَرابِها[ البقرة 114] ، وقال : نُورُهُمْ يَسْعى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ [ التحریم 8] ، وقال : وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَساداً [ المائدة 64] ، وَإِذا تَوَلَّى سَعى فِي الْأَرْضِ [ البقرة 205] ، وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرى [ النجم 39- 40] ، إِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتَّى [ اللیل 4] ، وقال تعالی: وَسَعى لَها سَعْيَها [ الإسراء 19] ، كانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُوراً [ الإسراء 19] ، وقال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] .- وأكثر ما يستعمل السَّعْيُ في الأفعال المحمودة، قال الشاعر :- 234-- إن أجز علقمة بن سعد سعيه ... لا أجزه ببلاء يوم واحد - «3» وقال تعالی: فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ [ الصافات 102] ، أي : أدرک ما سعی في طلبه، وخصّ المشي فيما بين الصّفا والمروة بالسعي، وخصّت السّعاية بالنمیمة، وبأخذ الصّدقة، وبکسب المکاتب لعتق رقبته، والمساعاة بالفجور، والمسعاة بطلب المکرمة، قال تعالی: وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ سبأ 5] ، أي : اجتهدوا في أن يظهروا لنا عجزا فيما أنزلناه من الآیات .- ( س ع ی ) السعی - تیز چلنے کو کہتے ہیں اور یہ عدو ( سرپٹ دوڑ ) سے کم درجہ ( کی رفتار ) ہے ( مجازا ) کسی اچھے یا برے کام کے لئے کوشش کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَسَعى فِي خَرابِها[ البقرة 114] اور ان کی ویرانی میں ساعی ہو ۔ نُورُهُمْ يَسْعى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ [ التحریم 8]( بلکہ ) ان کا نور ( ایمان ) ان کے آگے ۔۔۔۔۔۔ چل رہا ہوگا ۔ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَساداً [ المائدة 64] اور ملک میں فساد کرنے کو ڈوڑتے بھریں ۔ وَإِذا تَوَلَّى سَعى فِي الْأَرْضِ [ البقرة 205] اور جب پیٹھ پھیر کر چلا جاتا ہے تو زمین میں ( فتنہ انگریزی کرنے کے لئے ) دوڑتا پھرتا ہے ۔ وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرى [ النجم 39- 40] اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے اور یہ کہ اس کی کوشش دیکھی جائے گی ۔ إِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتَّى [ اللیل 4] تم لوگوں کی کوشش طرح طرح کی ہے ۔ وَسَعى لَها سَعْيَها [ الإسراء 19] اور اس میں اتنی کوشش کرے جتنی اسے لائق ہے اور وہ مومن بھی ہو تو ایسے ہی لوگوں کی کوشش ٹھکانے لگتی ہے ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] تو اس کی کوشش رائگاں نی جائے گی لیکن اکثر طور پر سعی کا لفظ افعال محمود میں استعمال ہوتا ہے کسی شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) 228 ) ان جز علقمہ بن سیف سعیہ لا اجزہ ببلاء یوم واحد اگر میں علقمہ بن سیف کو اس کی مساعی کا بدلہ دوں تو ایک دن کے حسن کردار کا بدلہ نہیں دے سکتا اور قرآن میں ہے : ۔ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ [ الصافات 102] جب ان کے ساتھ دوڑ نے کی عمر کو پہنچا ۔ یعنی اس عمر کو پہنچ گیا کہ کام کاج میں باپ کا ہاتھ بٹا سکے اور مناسب حج میں سعی کا لفظ صفا اور مردہ کے درمیان چلنے کے لئے مخصوص ہوچکا ہے اور سعاد یۃ کے معنی خاص کر چغلی کھانے اور صد قہ وصول کرنے کے آتے ہیں اور مکاتب غلام کے اپنے آپ کو آزاد کردانے کے لئے مال کمائے پر بھی سعایۃ کا لفظ بولا جاتا ہے مسا عا ۃ کا لفظ فسق و محور اور مسعادۃ کا لفظ اچھے کاموں کے لئے کوشش کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ سبأ 5] اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں میں اپنے زعم باطل میں ہمیں عاجز کرنے کے لئے سعی کی میں سعی کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے ہماری نازل کر آیات میں ہمارے عجز کو ظاہر کرنے کے لئے پوری طاقت صرف کر دالی ۔- ( ابْنُ )- أصله : بنو، لقولهم في الجمع :- أَبْنَاء، وفي التصغیر : بُنَيّ ، قال تعالی: يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف 5] ، يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات 102] ، يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان 13] ، يا بنيّ لا تعبد الشیطان، وسماه بذلک لکونه بناء للأب، فإنّ الأب هو الذي بناه وجعله اللہ بناء في إيجاده، ويقال لكلّ ما يحصل من جهة شيء أو من تربیته، أو بتفقده أو كثرة خدمته له أو قيامه بأمره : هو ابنه، نحو : فلان ابن الحرب، وابن السبیل للمسافر، وابن اللیل، وابن العلم، قال الشاعر - أولاک بنو خير وشرّ كليهما - وفلان ابن بطنه وابن فرجه : إذا کان همّه مصروفا إليهما، وابن يومه : إذا لم يتفكّر في غده . قال تعالی: وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة 30] - وقال تعالی: إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود 45] ، إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف 81] ، وجمع ابْن : أَبْنَاء وبَنُون، قال عزّ وجل : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل 72] ، وقال عزّ وجلّ : يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف 67] ، يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف 31] ، يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] ، ويقال في مؤنث ابن : ابْنَة وبِنْت، وقوله تعالی: هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود 78] ، وقوله : لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود 79] ، فقد قيل : خاطب بذلک أکابر القوم وعرض عليهم بناته «1» لا أهل قریته كلهم، فإنه محال أن يعرض بنات له قلیلة علی الجمّ الغفیر، وقیل : بل أشار بالبنات إلى نساء أمته، وسماهنّ بنات له لکون کلّ نبيّ بمنزلة الأب لأمته، بل لکونه أكبر وأجل الأبوین لهم كما تقدّم في ذکر الأب، وقوله تعالی: وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل 57] ، هو قولهم عن اللہ : إنّ الملائكة بنات اللہ .- الابن ۔- یہ اصل میں بنو ہے کیونکہ اس کی جمع ابناء اور تصغیر بنی آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف 5] کہ بیٹا اپنے خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا ۔ يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات 102] کہ بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ ( گویا ) تم کو ذبح کررہاہوں ۔ يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان 13] کہ بیٹا خدا کے ساتھ شریک نہ کرنا ۔ يا بنيّ لا تعبد الشیطانبیٹا شیطان کی عبادت نہ کرنا ۔ اور بیٹا بھی چونکہ اپنے باپ کی عمارت ہوتا ہے اس لئے اسے ابن کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ باپ کو اللہ تعالٰٰ نے اس کا بانی بنایا ہے اور بیٹے کی تکلیف میں باپ بمنزلہ معمار کے ہوتا ہے اور ہر وہ چیز جو دوسرے کے سبب اس کی تربیت دیکھ بھال اور نگرانی سے حاصل ہو اسے اس کا ابن کہا جاتا ہے ۔ نیز جسے کسی چیز سے لگاؤ ہوا است بھی اس کا بن کہا جاتا جسے : فلان ابن حرب ۔ فلان جنگ جو ہے ۔ ابن السبیل مسافر ابن اللیل چور ۔ ابن العلم پروردگار وہ علم ۔ شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) یہ لوگ خیر وزر یعنی ہر حالت میں اچھے ہیں ۔ فلان ابن بطنہ پیٹ پرست فلان ابن فرجہ شہوت پرست ۔ ابن یومہ جو کل کی فکر نہ کرے ۔ قرآن میں ہے : وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة 30] اور یہود کہتے ہیں کہ عزیز خدا کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے میں کہ مسیح خدا کے بیٹے ہیں ۔ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود 45] میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں میں ہے ۔ إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف 81] کہ اب آپکے صاحبزادے نے ( وہاں جاکر ) چوری کی ۔ ابن کی جمع ابناء اور بنون آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل 72] اور عورتوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف 67] کہ بیٹا ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا ۔ يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف 31] ( 3 ) اے نبی آدم ہر نماز کے وقت اپنے تیئں مزین کیا کرو ۔ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] اے نبی آدم ( دیکھنا کہیں ) شیطان تمہیں بہکانہ دے ۔ اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع بنات آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود 78] ( جو ) میری ) قوم کی ) لڑکیاں ہیں تمہارے لئے جائز اور ) پاک ہیں ۔ لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود 79] تمہاری ۃ قوم کی ) بیٹیوں کی ہمیں کچھ حاجت نہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اکابر قوم خطاب کیا تھا اور ان کے سامنے اپنی بیٹیاں پیش کی تھیں ۔ مگر یہ ناممکن سی بات ہے کیونکہ نبی کی شان سے بعید ہے کہ وہ اپنی چند لڑکیاں مجمع کثیر کے سامنے پیش کرے اور بعض نے کہا ہے کہ بنات سے ان کی قوم کی عورتیں مراد ہیں اور ان کو بناتی اس لئے کہا ہے کہ ہر نبی اپنی قوم کے لئے بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے بلکہ والدین سے بھی اس کا مرتبہ بڑا ہوتا ہے جیسا کہ اب کی تشریح میں گزر چکا ہے اور آیت کریمہ : وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل 57] اور یہ لوگ خدا کے لئے تو بیٹیاں تجویز کرتے ہیں ۔ کے مونی یہ ہیں کہ وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتی ہیں ۔- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - نوم - النّوم : فسّر علی أوجه كلّها صحیح بنظرات مختلفة، قيل : هو استرخاء أعصاب الدّماغ برطوبات البخار الصاعد إليه، وقیل : هو أن يتوفّى اللہ النّفس من غير موت . قال تعالی:- اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ الآية [ الزمر 42] . وقیل : النّوم موت خفیف، والموت نوم ثقیل، ورجل نؤوم ونُوَمَة : كثير النّوم، والمَنَام : النّوم . قال تعالی: وَمِنْ آياتِهِ مَنامُكُمْ بِاللَّيْلِ [ الروم 23] ، وَجَعَلْنا نَوْمَكُمْ سُباتاً [ النبأ 9] ، لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] والنُّوَمَة أيضا : خامل الذّكر، واستنام فلان إلى كذا : اطمأنّ إليه، والمنامة : الثّوب الذي ينام فيه، ونامت السّوق : کسدت، ونام الثّوب : أخلق، أو خلق معا، واستعمال النّوم فيهما علی التّشبيه .- ( ن و م ) النوم ۔ اس کی تفسیر گئی ہے اور مختلف اعتبارات سے تمام وجوہ صحیح ہوسکتی ہیں ۔ بعض نے کہا نے کہ بخارات کی رطوبت سی اعصاب دماغ کے ڈھیلا ہونے کا نام نوم ہے ۔ اور بعض کے نزدیک اللہ تعالیٰ کا بغیر موت کے روح کو قبض کرلینے کا نام نوم ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ الآية [ الزمر 42] خدا لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے اور جو مرے نہیں ان کی ( روحیں ) سوتے میں ( قبض کرلیتا ہے ) اور بعض نوم کو موت خفیف اور موت کو نوم ثقیل کہتے ہیں رجل نووم ونومۃ بہت زیادہ سونے والا اور منام بمعنی نوم آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَمِنْ آياتِهِ مَنامُكُمْ بِاللَّيْلِ [ الروم 23] اور اسی کے نشانات ( اور تصرفات ) میں سے ہے تمہارا رات میں ۔۔۔ سونا ۔ وَجَعَلْنا نَوْمَكُمْ سُباتاً [ النبأ 9] تمہارے لئے موجب آرام بنایا ۔ لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] اسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند ۔ نیز النومۃ کے معنی خامل لذکر یعني گم نام بھی آتے ہیں ۔ کہاجاتا ہے ۔ استنام فلان الی ٰکذا ۔ کسی چیز سے اطمینان حاصل کرنا ۔ منامۃ ۔ لباس خواب ۔ نامت السوق کساد بازاری ہونا ۔ نام الثوب ( لازم ومتعدی ) کپڑے کا پرانا ہونا یا کرنا ۔ ان دونون معنی میں نام کا لفظ تشبیہ کے طور مجازا استعمال ہوتا ہے ۔- ذبح - أصل الذَّبْح : شقّ حلق الحیوانات . والذِّبْح : المذبوح، قال تعالی: وَفَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [ الصافات 107] ، وقال : إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً [ البقرة 67] ، وذَبَحْتُ الفارة - شققتها، تشبيها بذبح الحیوان، وکذلك : ذبح الدّنّ «3» ، وقوله : يُذَبِّحُونَ أَبْناءَكُمْ- [ البقرة 49] ، علی التّكثير، أي : يذبح بعضهم إثر بعض . وسعد الذّابح اسم نجم، وتسمّى الأخادید من السّيل مذابح .- ( ذ ب ح ) الذبح - ( ف ) اصل میں اس کے معنی حیوانات کے حلق کو قطع کرنے کے ہیں اور ذبح بمعنی مذبوح آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَفَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [ الصافات 107] اور ہم نے ایک بڑی قربانی کو ان کا فدیہ دیا إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً [ البقرة 67] کہ خدا تم کو حکم دیتا ہے کہ ایک بیل ذبح کرو ۔ ذبحت الفارۃ ۔ میں نے نافہ مشک کو کو چیرا ۔ یہ حیوان کے ذبح کے ساتھ تشبیہ کے طور پر بولا جاتا ہے ۔ اسی طرح ذبح الدن کا محاورہ ہے جس کے معنی مٹکے میں شگاف کرنے کسے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يُذَبِّحُونَ أَبْناءَكُمْ [ البقرة 49] تمہارے بیٹوں کو تو قتل کر ڈالتے تھے ۔ میں صیغہ تفعیل برائے تکثیر ہے یعنی وہ کثرت کے ساتھ یکے بعد دیگرے تمہارے لڑکوں کو ذبح کررہے تھے ۔ سعد الدابح ( برج جدی کے ایک ) ستارے کا نام ہے اور سیلاب کے گڑھوں کو مذابح کہا جاتا ہے ۔ - نظر - النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب 53] أي :- منتظرین،- ( ن ظ ر ) النظر - کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔- اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں - ( ماذا)- يستعمل علی وجهين :- أحدهما .- أن يكون ( ما) مع ( ذا) بمنزلة اسم واحد، والآخر : أن يكون ( ذا) بمنزلة ( الذي) ، فالأوّل نحو قولهم : عمّا ذا تسأل ؟ فلم تحذف الألف منه لمّا لم يكن ما بنفسه للاستفهام، بل کان مع ذا اسما واحدا، وعلی هذا قول الشاعر : دعي ماذا علمت سأتّقيه أي : دعي شيئا علمته . وقوله تعالی:- وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ [ البقرة 219] ، فإنّ من قرأ : قُلِ الْعَفْوَ بالنّصب فإنّه جعل الاسمین بمنزلة اسم واحد، كأنّه قال : أيّ شيء ينفقون ؟ ومن قرأ : قُلِ الْعَفْوَ بالرّفع، فإنّ ( ذا) بمنزلة الذي، وما للاستفهام أي : ما الذي ينفقون ؟ وعلی هذا قوله تعالی: ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ ؟ قالُوا : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل 24] ، و (أساطیر) بالرّفع والنصب - ( ماذا ) اور ماذا ، ، بھی دو طرح استعمال ہوتا ہے ۔ اول یہ کہ ، ، مازا کے ساتھ مل کر بمنزلہ ایک اسم کے ہو ۔ دوم یہ کہ ذا لذی کے ہو ( ما بمعنی اول یہ کہ ماذا ، ، کے ساتھ مل کر بمنزلہ ایک اسم کے ہو ۔ دوم یہ کہ ذا بمنزلہ الذی کے ہو ( ما بمعنی ای شئی کے ہو پہلی قسم کی مثال جیسے : عما ذا تسال کہ کسی چیز کے بارے میں سوال کرتے ہو اس صورت میں چونکہ ، ، ماذا اکیلا ، ، استفہام کے لئے نہیں ہے بلکہ ، ، ذا کے ساتھ مل کر ایک اسم بنتا ہے اس لئے ، ، ما ، ، کے الف کو حزف نہیں کیا گیا ۔ اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے یعنی جو چیز تجھے معلوم ہے اسے چھوڑ دے میں اس سے بچنے کی کوشش کرونگا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ [ البقرة 219] اور یہ بھی تم سے پوچھتے ہیں کہ کہ ( خدا کی راہ میں ) کونسا مال خرچ مال کریں ۔ میں جو لوگ کو منصوب پڑھتے ہیں ۔ وہ ماذا کو بمنزلہ ایک اسم کے مانتے ہیں کونسی چیز صرف کریں مگر جن کے نزدیک ہے اور ما استفہا میہ ہے یعنی وہ کونسی چیز ہے جسے خرچ کریں ۔ اس بنا پر آیت کریمہ : ۔ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ ؟ قالُوا : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل 24] کہ تمہارے پروردگار نے کیا اتارا ہی تو کہتے ہیں کہ ( وہ تو ) پہلے لوگوں کی حکایتیں ہیں ۔ میں اساطیر رفع اور نصب دونوں جائز ہیں ۔- أب - الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب 6]- ( اب و ) الاب - ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے ۔- أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - وجد - الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه .- ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] . - ( و ج د ) الو جود - ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔- شاء - والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] .- ( ش ی ء ) الشیئ - المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔- صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

ابراہیم کے بیٹے کی قربانی - قول باری ہے (انی اری فی المنام انی اذ بحک فانظرما ذا تری قال یا ابت افعل ماتومر۔ میں نے خوب دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کررہا ہوں سو تم بھی سوچ لو کہ تمہاری کیا رائے ہے۔ وہ بولے، اے میرے باپ آپ کو ڈالیے جو کچھ آپ کو حکم ملا ہے) تاقول باری (وفدیناہ بذبح عظیم اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے عوض میں دیا)- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ظاہر آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم ملا تھا اور وہ اس پر مامور تھے۔ یہ ممکن ہے کہ ذبح کا حکم، ذبح کے عمل کو متضمن تھا، اس ذبح کو متضمن نہیں تھا جس سے موت واقع ہوجاتی ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ ذبح کا حکم اس صورت کے ساتھ ہی پورا ہوگیا تھا کہ حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے کو بیابان میں لے جاکر انہیں ذبح کرنے کے لئے لٹا دیا تھا۔ نیز انہوں نے اس کو فدیہ کے طور پر کوئی چیز پیش نہیں کی تھی۔ حالانکہ اگر وہ فدیہ کے طور پر کوئی چیز دینا چاہتے تو یہ فدیہ بیٹے کے قائم مقام بن جاتا۔- ظاہر آیت امر کا مقتضی تھا اس پر قول باری (افعل ماتومر) نیز (وفدیناہ بذبح عظیم) دلالت کرتا ہے۔ اگر ظاہر آیت ذبح کے حکم کا مقتضی نہ ہوتا تو فرماں بردار بیٹا اپنے والدمحترم سے یہ نہ کہنا کہ آپ کو جو حکم ملا ہے اس کر ڈالیے اور اس ذبح کے فدیہ کے طور پر ایک متوقع ذبیحہ نہ دیا جاتا۔- ایک روایت کے مطابق حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ انہیں بیٹا عطا کرے گا تو وہ اسے اللہ کے نام پر ذبح کردیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی نذر کو پورا کرنے کا حکم دیا تھا۔- ایک اور روایت کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ذبح کے حکم کی ابتداء اس طور پر کی تھی جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم وارد ہوا تھا۔ آپ نے اسے ذبح بھی کردیا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کی روح نکلنے سے پہلے ہی شاہ رگ کو جو ڑدیا اور بیٹے کی زندگی کی بقاء کے لئے فدیہ دے دیا گیا۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ آیت کی جس طرح بھی تاویل کی جائے بہرحال یہ بات واضح ہے کہ بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم انجام کار ایک بکری ذبح کرنے کے ایجاب کو متضمن تھا، جب اس امر کا موجب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شریعت میں ایک بکری کے ذبح کے ایجاب پر منتج ہو اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی پیروی کا حکم دیا۔ (ثم اوحینا الیک ان اتبع ملۃ ابراھیم حنیفا۔ پھر ہم نے آپ کو وحی بھیجی کہ ابراہیم کی ملت کی پیروی کرو جو حنیف تھا) ۔- نیز فرمایا (اولئک الذین ھدی اللہ فبھداھم اقتدہ۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی ہے پس ان کی ہدایت کی پیروی کرو) تو اس سے یہ بات ضروری ہوگئی کہ جو شخص اپنے بیٹے کے ذبح کی نذر مانے گا اس پر ایک بکری کی قربانی واجب ہوجائے گی۔- بیٹے کی نذر کیسے پوری کی جائے ؟- اس مسئلے میں سلف کے مابین اور ان کے بعد آنے والے فقہاء امصار کے مابین اختلاف رائے ہے۔ عکرمہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ اگر کوئی اپنے بیٹے کے متعلق یہ کہے کہ وہ اسے نحر (ذبح) کردے گا تو اس پر ایک مینڈھے کی قربانی واجب ہوگی جس طرح حضرت ابواہیم نے حضرت اسحق (علیہ السلام) کا فدیہ دیا تھا۔- سفیان نے منصور سے انہوں نے حکم سے اور انہوں نے حضرت علی (رض) سے اس شخص کے متعلق روایت کی ہے جو اپنے بیٹے کے نحر کی نذر مان لیتا ہے کہ وہ ایک بدنہ (قربانی کا اونٹ وغیرہ) بطور ہدی لے جائے گا یا اس کی دیت دے گا۔ راوی کو اس میں شک ہوگیا ہے۔ مسروق سے حضرت ابن عباس (رض) کے قول کی طرح روایت منقول ہے۔- شعبہ نے حکم سے اور انہوں نے ابراہیم نخعی سے روایت کی ہے کہ یہ شخص حج کرے گا اور اپنے ساتھ بدنہ لے جائے گا جسے حرم میں جاکر ذبح کرے گا۔ دائود بن ابی ہند نے عامر سے اس شخص کے متعلق روایت کی ہے جو اپنے بیٹے کو نحر کرنے کی قسم کھا لیتا ہے کہ بعض حضرات کے قول کے مطابق وہ سو اونٹ قربان کرے گا اور بعض کے قول کے مطابق ایک مینڈھا دے گا۔ جیسا کہ حضرت اسحق (علیہ السلام) کے فدیہ میں مینڈھا ذبح کیا گیا تھا۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ اور امام محمد کا قول ہے کہ ایسے شخص پر ایک بکری ذبح کرنا واجب ہوگا۔ امام ابویوسف کا قول ہے کہ اس پر کوئی چیز واجب نہیں ہوگی۔ امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ اگر اس نے اپنا غلام ذبح کرنے کی نذر مانی ہے تو اس پر کوئی چیز واجب نہ ہوگی۔ جبکہ امام محمد کا قول ہے اس پر ایک بکری ذبح کرنی واجب ہوگی۔- ظاہر آیت بیٹے کے ذبح کے مسئلے میں امام ابوحنیفہ کے قول پر دلالت کرتا ہے کیونکہ یہ فقرہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شریعت میں بکری کے ایجاب سے عبارت ہے۔ اس لئے اس کے حکم کا اس وقت تک باقی رہناواجب ہے جب تک اس کے نسخ کا ثبوت نہ مل جائے۔ امام ابویوسف نے اس روایت سے استدلال کیا ہے جس کے راوی ابوقلایہ ہیں، انہوں نے ابوالمہلب سے اس کی روایت کی ہے اور انہوں نے حضرت عمر ان بن حسین (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (لا وفاء لنذر فی معصیۃ اللہ ولا فیما لا یملک ابن ادم۔ ایسی نذر کا پورا کرنا ضروری نہیں جس سے اللہ کی معصیت لازم آتی ہو یا جو ابن آدم کے قبضے میں نہ ہو)- حسن نے عمران بن حصین (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (لا نذر فی معصیۃ وکفارتہ کفارۃ یمین اللہ کی نافرمانی میں کوئی نذر نہیں اور اس کا کفارہ قسم کے کفارہ کی طرح ہے) ۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہ بات قول کے قائلین پر لازم نہیں آتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نذر ماننے والے کا یہ قول کہ ” مجھ پر اپنے بیٹے کی ذبح لازم ہے۔ “ جب ایک بکری کے ذبح کے ایجاب سے عبارت تسلیم کرلیا گیا تو اس کی حیثیت نذر ماننے والے کے اس قول جیسی ہوگئی کہ ” مجھ پر ایک بکری کا ذبح کرنا لازم ہے۔ “ اس کا یہ قول کسی معصیت کو مستلزم نہیں ہے۔ امام ابوحنیفہ نے غلام کو ذبح کرنے کی نذر کی صورت میں نذر ماننے والے پر کوئی چیز لازم نہیں کی کیونکہ یہ فقرہ ظاہری طور پر معصیت کو مستلزم ہے اور شریعت میں یہ فقرہ بکری کے ذبح کے ایجاب سے عبارت تسلیم نہیں کیا گیا۔ اس لئے اس فقرے کو نذر معصیت قرار دیا جائے گا۔- دوسری طرف سب کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے بیٹے کو قتل کرنے کی نذر مانتا ہے تو اس پر کوئی چیز لازم نہیں آئے گی کیونکہ ظاہری طور پر یہ فقرہ ایک معصیت کو مستلزم ہے اور شریعت میں اس بکری کے ذبح سے عبارت تسلیم کرنا ثابت نہیں ہے۔- یزید ہارون نے یحییٰ بن سعید سے، انہوں نے قاسم بن محمد سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں حضرت ابن عباس (رض) کے پاس بیٹھا تھا اتنے میں ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے اپنے بیٹے کو نحر کرنے کی نذر مانی ہے، حضرت ابن عباس (رض) نے اس عورت سے فرمایا کہ اپنے بیٹے کو نحر نہ کرو بلکہ اپنی قسم کا کفارہ ادا کردو۔ پاس بیٹھے ہوئے ایک شخص نے یہ سن کر عرض کیا، حضرت معصیت والی نذر کو پورا کرنا ضروری نہیں ہوتا۔ “ حضرت ابن عباس (رض) نے یہ سن کر فرمایا۔” ٹھہرو اللہ تعالیٰ نے ظہار میں جو حکم دیا ہے وہ تم نے سن لیا ہے اور اس میں وہ کفارہ واجب کردیا ہے جس کا اس نے ذکر فرمایا ہے۔ “- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت ابن عباس (رض) کا جو قول پہلے نقل کیا ہے یہ قول اس کے مخالف نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) کے پہلے قول کے مطابق ایسی نذر میں ایک مینڈھا ذبح کرنا واجب ہے۔ ان دونوں اقوال میں اختلاف نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ممکن ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) کا مسلک یہ ہو کہ اگر نذر ماننے والے نے قسم کا ارادہ کیا ہو تو اس پر کفارہ یمین اور مینڈھے کی ذبح دونوں لازم ہیں جس طرح امام ابوحنیفہ اور امام محمد کا قول ہے کہ ایک شخص اگر یہ کہتا ہے کہ ” مجھ پر اللہ کے لئے کل روزہ رکھنا لازم ہے۔ “ پھر وہ اگلے دن روزہ نہیں رکھتا اور اس نے اس فقرے سے قسم کا ارادہ کیا ہو تو اس صورت میں اس پر قسم کا کفارہ اور روزے کی قضاء دونوں چیزیں لازم ہوں گی۔- اسماعیل (علیہ السلام) اور اسحاق (علیہ السلام) میں سے ذبیح اللہ کون تھے ؟- حضرات ابراہیم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) اور حضرت اسحق میں سے ذبیح کون تھا اس بارے میں اختلاف رائے ہے۔ حضرت علی (رض) ، حضرت ابن مسعود (رض) ، حضرت کعب (رض) ، حسن اور قتادہ سے مروی ہے کہ یہ حضرت اسحاق تھے۔ حضرت ابن عباس (رض) ، حضرت ابن عمر (رض) ، سعید بن المسیب اور محمد بن کعب القرظی سے مروی ہے کہ یہ حضرت اسماعیل تھے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دونوں قول مروی ہیں۔- جو لوگ حضرت اسماعیل کو ذبیح کہتے ہیں وہ اس قول باری سے استدلال کرتے ہیں جو ذبح کے ذکر کے بعد وارد ہوا ہے (وبشرنا ہ باسحق نبیا۔ اور ہم نے اسے اسحق (علیہ السلام) نبی کی بشارت دی) جب یہ بشارت ذبح کے بعد دی گئی تھی تو اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ حضرت اسماعیل ذبیح تھے۔- دوسرے حضرات نے یہ استدلال کیا ہے کہ آیت میں حضرت اسحق کی ولادت کی بشارت نہیں دی گئی ہے بلکہ ان کی نبوت کی بشارت دی گئی ہے کیونکہ ارشاد باری ہے (وبشرناہ باسحق نبیا)

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

پھر جب وہ لڑکا ایسی عمر کو پہنچا کہ ابراہیم کے ساتھ وہ عبادت میں یا یہ کہ پہاڑ وغیرہ کی طرف جانے میں چلنے پھرنے لگا تو حضرت ابراہیم نے اپنے صاحبزادے حضرت اسماعیل سے فرمایا بیٹے مجھے خواب میں تمہیں ذبح کرنے کا حکم ہوا ہے سو تم بھی سوچ لو کہ تمہاری کیا رائے ہے۔- وہ بولے ابا جان آپ کو جو حکم ہوا ہے آپ بےفکر ہو کر کیجیے۔ آپ انشاء اللہ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٢ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ ” پھر جب وہ پہنچا اس کے ساتھ بھاگ دوڑ کرنے کی عمر کو “- قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیْٓ اَرٰی فِی الْْمَنَامِ اَنِّیْٓ اَذْبَحُکَ ” اس نے کہا : اے میرے بیٹے میں دیکھ رہا ہوں خواب میں کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں “- اَرٰی فعل مضارع ہے جس میں استمرار کے معنی بھی پائے جاتے ہیں ‘ یعنی میں بار بار خواب میں یہ منظر دیکھ رہا ہوں۔ بعض روایات میں ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مسلسل تین راتیں یہ خواب دیکھا تھا۔- فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰی ” تو دیکھو تمہاری کیا رائے ہے ؟ “- قَالَ یٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ” اس نے کہا : ابا جان آپ کر گزرئیے جس کا آپ کو حکم ہو رہا ہے۔ “- یہ جواب حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے ” حلم “ کی عکاسی کرتا ہے اور آپ (علیہ السلام) کی اسی طبیعت کی وجہ سے آپ ( علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ” حلیم “ کا خطاب ملا ہے۔ آپ ( علیہ السلام) جانتے تھے کہ میرے والد نبی ہیں اور ان کا خواب کسی شیطانی وسوسے کا نتیجہ نہیں بلکہ وحی کا حصہ ہے۔ اس لیے آپ ( علیہ السلام) نے یہ نہیں کہا کہ یہ تو خواب ہے اور خواب کا کیا ہے ‘ یا یہ کہ آپ (علیہ السلام) کوئی قدم اٹھانے سے پہلے اچھی طرح سوچ سمجھ لیجیے ‘ بلکہ آپ ( علیہ السلام) نے بغیر کسی تردد اور حیل و حجت کے اس ” حکم “ کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہوئے اپنے والد محترم کو اس پر عمل کرنے کا مشورہ دیا ‘ اور آپ ( علیہ السلام) کو یقین دلایا کہ :- سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ ” اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔ “- یہاں پر ایک بات یہ بھی نوٹ کر لیجیے کہ یہودیوں نے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بجائے حضرت اسحاق (علیہ السلام) کو ” ذبیح اللہ “ ثابت کرنے کی بہت کوشش کی ہے۔ اس کے لیے انہوں نے تورات میں جا بجا تحریف بھی کی ہے اور مختلف جگہوں کے نام بھی بدل ڈالے ہیں۔ مثلاً ” مروہ “ کی قربان گاہ کے مقابلے میں انہوں نے فلسطین میں ایک جگہ کا نام ” موریاہ “ رکھ دیا اور وہیں پر ایک وادی کو ” وادیٔ مکا “ کے نام سے موسوم کردیا ‘ تاکہ کسی طرح یہ ثابت کیا جاسکے کہ ” قربانی “ کا یہ واقعہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے ساتھ وادی مکہ میں پیش نہیں آیا تھا بلکہ فلسطین میں حضرت اسحاق ( علیہ السلام) کے ساتھ پیش آیا تھا۔ ان کا یہ پروپیگنڈا اس قدرموثر ثابت ہوا کہ ہمارے ہاں کے کئی مفسرین بھی اس مغالطے میں مبتلا ہوگئے کہ ذبیح اللہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) نہیں بلکہ حضرت اسحاق ( علیہ السلام) تھے۔ مثلاً ابن جریر طبری ایک بہت بڑے مفسر ہونے کے باوجود ان اسرائیلی روایات سے متاثر ہیں۔ چناچہ مولانا حمید الدین فراہی (رح) نے اس موضوع پر ” الرای الصحیح فی من ھو الذبیح “ کے عنوان سے ایک معرکۃ الآرا کتاب لکھی اور ّمدلل انداز میں ثابت کیا کہ ذبیح اللہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ہی تھے۔ مولانا فراہی (رح) کی اصل کتاب عربی میں ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے اس کا اردو ترجمہ کیا تھا ‘ جسے ” ذبیح کون ؟ “ کے نام سے مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کے تحت شائع کیا گیا ‘ مگر کتاب اس قدر دقیق ہے کہ ترجمے کے باوجود بھی اسے زیادہ پڑھنے والے دستیاب نہ ہو سکے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :58 یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں یہ نہیں دیکھا تھا کہ انہوں نے بیٹے کو ذبح کر دیا ہے ، بلکہ یہ دیکھا تھا کہ وہ اسے ذبح کر رہے ہیں ۔ اگرچہ اس وقت وہ خواب کا مطلب یہی سمجھے تھے کہ وہ صاحبزادے کو ذبح کر دیں ۔ اسی بنا پر وہ ٹھنڈے دل سے بیٹا قربان کر دینے کے لیے بالکل تیار ہو گئے تھے ۔ مگر خواب دکھانے میں جو باریک نکتہ اللہ تعالیٰ نے ملحوظ رکھا تھا اسے آگے کی آیت نمبر 105 میں اس نے خود کھول دیا ہے ۔ سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :59 صاحبزادے سے یہ بات پوچھنے کا مدعا یہ نہ تھا کہ تو راضی ہو تو خدا کے فرمان کی تعمیل کروں ۔ بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام دراصل یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ جس صالح اولاد کی انہوں نے دعا مانگی تھی ، وہ فی الواقع کس قدر صالح ہے ۔ اگر وہ خود بھی اللہ کی خوشنودی پر جان قربان کر دینے کے لیے تیار ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ دعا مکمل طور پر قبول ہوئی ہے اور بیٹا محض جسمانی حیثیت ہی سے ان کی اولاد نہیں ہے بلکہ اخلاقی و روحانی حیثیت سے بھی ان کا سپوت ہے ۔ سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :60 یہ الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ پیغمبر باپ کے خواب کو بیٹے نے محض خواب نہیں بلکہ خدا کا حکم سمجھا تھا ۔ اب اگر یہ فی الواقع حکم نہ ہوتا تو ضروری تھا کہ اللہ تعالیٰ صراحۃً یا اشارۃً اس امر کی تصریح فرما دیتا کہ فرزند ابراہیم نے غلط فہمی سے اس کو حکم سمجھ لیا ۔ لیکن پورا سیاق و سباق ایسے کسی اشارے سے خالی ہے ۔ اسی بنا پر اسلام میں یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ انبیاء کا خواب محض خواب نہیں ہوتا بلکہ وہ بھی وحی کی اقسام میں سے ایک قسم ہے ۔ ظاہر ہے کہ جس بات سے ایک اتنا بڑا قاعدہ خدا کی شریعت میں شامل ہو سکتا ہو ، وہ اگر مبنی بر حقیقت نہ ہوتی بلکہ محض ایک غلط فہمی ہوتی تو ممکن نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اس کی تردید نہ فرماتا ۔ قرآن کو کلام الہٰی ماننے والے کے لیے یہ تسلیم کرنا محال ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ایسی بھول چوک بھی صادر ہو سکتی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

20: یہ اگرچہ ایک خواب تھا، لیکن انبیائے کرام علیہم السلام کا خواب بھی وحی ہوتا ہے، اس لیے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) نے اسے اللہ تعالیٰ کا حکم قرار دیا۔