101۔ 1 حَلِیْمٍ کہہ کر اشارہ فرما دیا کہ بچہ بڑا ہو کر بردبار ہوگا۔
[٥٥] سیدنا اسماعیل کی بشارت :۔ آپ گھر بار اور عزیز و اقارب چھوڑ کر شام کے علاقہ میں آئے۔ کافی عمر ہونے کے باوجود ابھی تک اولاد نہ تھی لہذا اللہ سے دعا کی کہ مجھے ایک صالح بیٹا عطا فرما جو میرے گھر کی رونق بنے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جس بیٹے کی بشارت دی اس کی نمایاں صفت حلیم تھی اور اس صفت میں سیدنا اسماعیل کے قربانی کے واقعہ اور اس موقع پر ان کے بردبار ہونے کی طرف لطیف اشارہ پایا جاتا ہے۔
فَبَشَّرْنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِـيْمٍ : یعنی ہم نے ان کی دعا قبول کی اور انھیں ایک بہت حلم والے لڑکے کی بشارت دی۔ حلم میں صبر، حسن خلق، حوصلے کی وسعت اور زیادتی کرنے والوں سے درگزر شامل ہے۔ عموماً اس کا ترجمہ بردباری کیا جاتا ہے۔ یہ بیٹا اسماعیل (علیہ السلام) تھا۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے یا تو یہ دعا کافی عمر ہونے کے بعد کی، یا ان کی دعا اور اس کی قبولیت میں کئی سال کا وقفہ ہوا، کیونکہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا : (اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ وَهَبَ لِيْ عَلَي الْكِبَرِ اِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ ) [ إبراہیم : ٣٩ ] ” سب تعریف اس اللہ کی ہے جس نے مجھے بڑھاپے کے باوجود اسماعیل اور اسحاق عطا کیے۔ “ ابراہیم (علیہ السلام) نے اسماعیل (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کو وادی غیر ذی زرع (مکہ) میں چھوڑا، جہاں اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے آب زم زم مہیا فرمایا اور قبیلہ بنو جرہم کو لابسایا۔
فَبَشَّرْنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِـيْمٍ (پس ہم نے ان کو ایک حلیم المزاج فرزند کی بشارت دی) - ” حلیم المزاج “ فرما کر اشارہ کردیا گیا کہ یہ نومولود اپنی زندگی میں ایسے صبر وضبط اور بردباری کا مظاہرہ کرے گا کہ دنیا اس کی مثال نہیں پیش کرسکتی۔ اس فرزند کی ولادت کا واقعہ یہ ہوا کہ جب حضرت سارہ نے یہ دیکھا کہ مجھ سے کوئی اولاد نہیں ہو رہی تو وہ سمجھیں کہ میں بانجھ ہوچکی ہوں ادھر فرعون مصر نے حضرت سارہ کو اپنی بیٹی جن کا نام ہاجرہ تھا، خدمت گزاری کے لئے دے دی تھی، حضرت سارہ نے یہی ہاجرہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو عطا کردیں اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان سے نکاح کرلیا، انہی ہاجرہ کے بطن سے یہ صاحبزادے پیدا ہوئے اور ان کا نام اسماعیل (علیہ السلام) رکھا گیا۔
فَبَشَّرْنٰہُ بِغُلٰمٍ حَلِـيْمٍ ١٠١- بشر - واستبشر :- إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] .- ( ب ش ر ) البشر - التبشیر - کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ فَبَشِّرْ عِبَادِ ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔- لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔- وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا - غلم - الْغُلَامُ الطّارّ «3» الشّارب . يقال : غُلَامٌ بيّن الغُلُومَةِ والغُلُومِيَّةِ. قال تعالی: أَنَّى يَكُونُ لِي غُلامٌ [ آل عمران 40] ، وَأَمَّا الْغُلامُ فَكانَ أَبَواهُ مُؤْمِنَيْنِ [ الكهف 80] ، وقال : وَأَمَّا الْجِدارُ فَكانَ لِغُلامَيْنِ [يوسف 19] ، وقال في قصة يوسف : هذا غُلامٌ [يوسف 19] ، والجمع : غِلْمَةٌ وغِلْمَانٌ ، واغْتَلَمَ الْغُلَامُ :إذا بلغ حدّ الغلومة، ولمّا کان من بلغ هذا الحدّ كثيرا ما يغلب عليه الشّبق قيل للشّبق : غِلْمَةٌ ، واغْتَلَمَ الفحلُ.- ( غ ل م ) الغلام - اس لڑکے کو کہتے ہیں جس کی مسیں بھیگ چکی ہوں محاورہ ہے غلام بین الغلومۃ والغیو میۃ لڑکا جو بھر پور جوانی کی عمر میں ہو۔ کی عمر میں ہو قرآن پاک میں ہے : أَنَّى يَكُونُ لِي غُلامٌ [ آل عمران 40] میرے ہاں لڑکا کیونکہ ہوگا ۔ وَأَمَّا الْغُلامُ فَكانَ أَبَواهُ مُؤْمِنَيْنِ [ الكهف 80] اور وہ لڑکا تھا اس کے ماں باپ دونوں مومن تھے ۔ وَأَمَّا الْجِدارُ فَكانَ لِغُلامَيْنِ [يوسف 19] اور جو دیورار تھی سو وہ دو لڑکوں کی تھی ۔ اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کے قصہ میں فرمایا : هذا غُلامٌ [يوسف 19] یہ تو نہایت حسین ) لڑکا ہے ۔ غلام کی جمع غلمۃ وغلمان آتی ہے ۔ اور اغتلم الغلام کے معنی ہیں لڑکا بالغ ہوگیا ۔ عام طور پر چونکہ اس عمر میں جنسی خواہش کا غلبہ ہوجاتا ہے اس لئے غلمۃ کا لفظ جنسی خواہش کی شدت پر بولا جاتا ہے ۔ اور اغتلم الفحل کے معنی ہیں سانڈ جنسی خواہش سے مغلوب ہوگیا ۔- حلم - الحِلْم : ضبط النّفس والطبع عن هيجان الغضب، وجمعه أَحْلَام، قال اللہ تعالی: أَمْ تَأْمُرُهُمْ أَحْلامُهُمْ بِهذا [ الطور 32] ، قيل معناه : عقولهم «5» ، ولیس الحلم في الحقیقة هو العقل، لکن فسّروه بذلک لکونه من مسبّبات العقل «6» ، وقد حَلُمَ «7» وحَلَّمَهُ العقل وتَحَلَّمَ ، وأَحْلَمَتِ المرأة : ولدت أولادا حلماء «8» ، قال اللہ تعالی: إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ- [هود 75] ، وقوله تعالی: فَبَشَّرْناهُ بِغُلامٍ حَلِيمٍ [ الصافات 101] ، أي : وجدت فيه قوّة الحلم، وقوله عزّ وجل : وَإِذا بَلَغَ الْأَطْفالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ- [ النور 59] ، أي : زمان البلوغ، وسمي الحلم لکون صاحبه جدیرا بالحلم، ويقال : حَلَمَ «1» في نومه يَحْلُمُ حُلْماً وحُلَماً ، وقیل : حُلُماً نحو : ربع، وتَحَلَّمَ واحتلم، وحَلَمْتُ به في نومي، أي : رأيته في المنام، قال اللہ تعالی: قالُوا أَضْغاثُ أَحْلامٍ [يوسف 54] ، والحَلَمَة : القراد الکبير، قيل : سمیت بذلک لتصوّرها بصورة ذي حلم، لکثرة هدوئها، فأمّا حَلَمَة الثدي فتشبيها بالحلمة من القراد في الهيئة، بدلالة تسمیتها بالقراد في قول الشاعر :- 125-- كأنّ قرادي زوره طبعتهما ... بطین من الجولان کتّاب أعجمي - «2» وحَلِمَ الجلد : وقعت فيه الحلمة، وحَلَّمْتُ البعیر : نزعت عنه الحلمة، ثم يقال : حَلَّمْتُ فلانا : إذا داریته ليسكن وتتمکّن منه تمكّنک من البعیر إذا سكّنته بنزع القراد عنه «3» .- ( ح ل م ) الحلم کے معنی ہیں نفس وطبیعت پر ایسا ضبط رکھنا کہ غیظ وغضب کے موقع پر بھڑ کنہ اٹھے اس کی جمع احلام ہے اور آیت کریمہ : ۔ کیا عقلیں ان کو ۔۔۔ سکھاتی ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ احلام سے عقیں مراد ہیں اصل میں ھلم کے معنی متانت کے ہیں مگر چونکہ متانت بھی عقل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اس لئے حلم کا لفظ بول کر عقل مراد لے لیتے ہیں جیسا کہ مسبب بول کر سبب مراد لے لیا جاتا ہے حلم بردبار ہونا ۔ عقل نے اسے برد بار رہنا دیا ۔ عورت کا حلیم بچے جننا ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود 75] بیشک ابراہیم بڑے تحمل والے نرم دل اور رجوع کرنے والے تھے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَبَشَّرْناهُ بِغُلامٍ حَلِيمٍ [ الصافات 101] تو ہم نے ان کو ایک نرم دل لڑکے کی خوشخبری دی ۔ کے معنی یہ ہیں کہ اس غلام ہیں قوت برداشت ۔۔۔۔۔۔ تھی اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا بَلَغَ الْأَطْفالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ [ النور 59] اور جب تمہارے لڑکے بالغ ہوجائیں میں حلم کے معنی سن بلوغت کے ہیں اور سن بلوغت کو حلم اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس عمر میں طور عقل وتمیز آجاتی ہے کہا جاتا ہے ۔ حلم ( ن ) فی نومہ خواب دیکھنا مصدر حلم اور حلم مثل ربع بھی کہا گیا ہے ۔ اور ۔ یہی معنی تحلم واحتلم کے ہیں ۔ حلمت بہ فی نومی ۔ میں نے اسے خواب میں دیکھا ۔ قرآن میں ہے : ۔ قالُوا أَضْغاثُ أَحْلامٍ [يوسف 54] انہوں نے کہا یہ تو پریشان سے خواب ہیں ۔ الحلمۃ بڑی چیچڑی ۔ کیونکہ وہ ایک جگہ پر جمے رہنے کی وجہ سے حلیم نظر آتی ہے اور سر پستان کو حلمۃ الثدی کہنا محض ہیت میں چیچڑی کے مشابہ ہونے کی وجہ سے ہے ۔ اس مجاز کی دلیل یہ ہے کہ سر پستان کو قراد بھی کہہ دیتے ہیں ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) اس کے سینے پر پستانوں کے نشانات اسطرح خوشمنا نظر اتے ہیں کہ گویا کسی کاتب لے مٹی کی مہریں لگادیں ہیں چمڑے کو کیڑا الگ جانا ۔ حلمت البعیر میں نے اونٹ سے خیچڑ نکالے حلمت فلانا کسی پر قدرت حاصل کے لئے اس کے ساتھ مدارات سے پیش آنا تاکہ وہ مطمئن رہے جیسا کہ اونٹ سے چیچڑ دور کرنے سے اسے سکون اور راحت محسوس ہوتا ہے اور انسان اس پر پوری طرح قدرت پالیتا ہے
آیت ١٠١ فَـبَشَّرْنٰــہُ بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍ ” تو ہم نے اسے بشارت دی ایک حلیم الطبع لڑکے کی۔ “- اس سے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) مراد ہیں ۔ - ۔ ” حلیم “ اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے اور اس حوالے سے قرآن میں یہ لفظ بار بار آیا ہے۔ ویسے تو اللہ کی صفات کا کچھ نہ کچھ عکس انسانوں کے اندر بھی پایا جاتا ہے لیکن ” حلم “ اللہ کی وہ شان ہے جو انسانوں میں زیادہ عام نہیں ہے۔ لفظ ” حلیم “ غیر اللہ کے لیے قرآن میں صرف تین مرتبہ آیا ہے۔ دو مرتبہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے ( التوبہ : ١١٤ اور ہود : ٧٥) اور ایک مرتبہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے لیے آیت زیر مطالعہ میں۔ یہاں ایک قابل توجہ نکتہ یہ بھی ہے کہ اس آیت میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو غُلٰمٍ حَلِیْمٍ جبکہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کو سورة الحجر کی آیت ٥٣ میں غُلٰمٍ عَلِیْمٍ کے لقب سے نوازا گیا ہے۔ یعنی ایک بھائی علم میں زیادہ تھے اور ان ہی سے آگے بنی اسرائیل میں نبوت کا سلسلہ چلا اور دوسرے بھائی یعنی حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ” حلم “ میں زیادہ تھے اور ان کی اولاد میں نبی آخر الزماں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہوئی۔
سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :57 اس سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ دعا کرتے ہی یہ بشارت دے دی گئی ۔ قرآن مجید ہی میں ایک دوسرے مقام پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ وَھَبَ لِیْ عَلَی الْکِبَرِ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ شکر ہے اس خدا کا جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق عطا فرمائے ( سورہ ابراہیم ، آیت 39 ) ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور اس بشارت کے درمیان سالہا سال کا فصل تھا ۔ بائیبل کا بیان ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر 86 برس کی تھی ( پیدائش 16:16 ) ، اور حضرت اسحاق علیہ السلام کی پیدائش کے وقت سو برس کی ( 61:5 )
19: اس سے مراد حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ہیں۔