Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

105۔ 1 یعنی دل کے پورے ارادے سے بچے کو ذبح کرنے کے لئے زمین پر لٹا دینے سے ہی تو نے اپنا خواب سچا کر دکھایا ہے کیونکہ اس سے واضح ہوگیا کہ اللہ کے حکم کے مقابلے میں تجھے کوئی چیز عزیز تر نہیں حتٰی کہ اکلوتا بیٹا بھی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦١] باپ بیٹے کا امتحان میں سرفراز ہونا :۔ جب باپ اور بیٹا دونوں نے اللہ کی فرمانبرداری کی بےنظیر مثال قائم کردی تو اس وقت رحمت الٰہی جوش میں آگئی۔ اور فوراً سیدنا ابراہیم پر وحی ہوئی کہ بس بس اس سے زیادہ کچھ نہ کرو۔ ہمیں تو صرف تمہارا امتحان لینا مقصود تھا۔ اور وہ ہوچکا جس میں تم پوری طرح کامیاب اترے ہو۔ ہمارا یہ مقصود ہرگز نہ تھا کہ تم فی الواقع بیٹے کو ذبح کر ڈالو۔ واضح رہے کہ سیدنا ابراہیم نے جو خواب دیکھا تھا وہ یہ تھا کہ میں ذبح کر رہا ہوں یہ نہیں دیکھا تھا کہ میں نے ذبح کردیا ہے اور جتنا خواب آپ نے دیکھا تھا اتنا کام ہوچکا تو آگے ذبح کردینے سے اللہ تعالیٰ نے روک دیا۔- [٦٢] یعنی ہمارا دستور ہے کہ ہم نیکو کار لوگوں کو آزمائش میں ڈالتے ہیں پھر جب وہ اس آزمائش میں پورے اترتے ہیں، تو ان کے درجات بلند کرتے ہیں۔ ان کو فضیلت عطا کردیتے ہیں۔ پھر جس آزمائش میں ہم انہیں ڈالتے ہیں اس سے نکلوا بھی دیتے ہیں۔ جیسے سیدنا ابراہیم کو آگ کی آزمائش میں ڈالا وہ وہاں سے سلامت نکال بھی لائے اور ان کا مرتبہ بھی بلند کیا اسی طرح بیٹے کی قربانی کی آزمائش میں ان کے بیٹے کو بھی بچا لیا اور درجات بھی بلند کئے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ (ہم مخلصین کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں) یعنی جب کوئی اللہ کا بندہ اللہ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کر کے اپنے تمام جذبات کو قربان کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے، تو ہم بالآخر اسے دنیوی تکلیف سے بھی بچا لیتے ہیں، اور آخرت کا اجر وثواب بھی اس کے نامہ اعمال میں لکھ دیتے ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْيَا۝ ٠ ۚ اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِـنِيْنَ۝ ١٠٥- صدق - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔- یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ - رُّؤْيَا :- ما يرى في المنام، وهو فعلی، وقد يخفّف فيه الهمزة فيقال بالواو، وروي : «لم يبق من مبشّرات النّبوّة إلّا الرّؤيا» . قال : لَقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيا بِالْحَقِ- [ الفتح 27] ، وَما جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْناكَ [ الإسراء 60] ، وقوله : فَلَمَّا تَراءَا الْجَمْعانِ- [ الشعراء 61] ، أي : تقاربا وتقابلا حتی صار کلّ واحد منهما بحیث يتمكّن من رؤية الآخر، ويتمكّن الآخر من رؤيته . ومنه قوله : «لا تَتَرَاءَى نارهما» . ومنازلهم رِئَاءٌ ، أي : متقابلة . وفعل ذلک رِئَاءُ الناس، أي : مُرَاءَاةً وتشيّعا . والْمِرْآةُ ما يرى فيه صورة الأشياء، وهي مفعلة من : رأيت، نحو : المصحف من صحفت، وجمعها مَرَائِي، والرِّئَةُ : العضو المنتشر عن القلب، وجمعه من لفظه رِؤُونَ ، وأنشد (أبو زيد) : فغظناهمو حتی أتى الغیظ منهمو ... قلوبا وأکبادا لهم ورئينا ورِئْتُهُ : إذا ضربت رِئَتَهُ.- الرؤیا بمعنی خواب کے ہیں اور یہ ہمزہ کے ساتھ بروزن فعلیٰ ہے اور کبھی ہمزہ کو حذف کرکے واؤ کے ساتھ الرؤیا کہہ دیتے ہیں ۔ ایک حدیث میں ہے (165) لم یبق من مبشرات النبوۃ الا الرؤیا ۔ کہ مبشرات نبوت سے صرف خواب رہ گئے ہیں ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيا بِالْحَقِ [ الفتح 27] بیشک اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو واقعی سچا خواب دکھا یا تھا ۔ وَما جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْناكَ [ الإسراء 60] اور خواب جو ہم نے تم کو دکھایا تھا تو بس اس کو لوگوں ( کے ایمان ) کی آزمائش ( کا ذریعہ ) ٹھہرایا ۔ فَلَمَّا تَراءَا الْجَمْعانِ [ الشعراء 61] پھر جب دونوں فوجیں آمنے سامنے آئیں ۔ یعنی جب وہ باہم اس طرح آمنے سامنے ہوئے کہ ایک دوسرے کو دیکھ سکیں اور اسی سے وہ حدیث ہے جس میں فرمایا لایترای نارھما کہ ایک دوسرے کی آگ نظر نہ آئے محاورہ ہے ۔ ومنازلهم رِئَاءٌ ، کہ ان کے مکانات باہم متقابل ہیں ۔ وفعل ذلک رِئَاءُ الناساس نے نمود اور دکھاوے کے لئے یہ کام کیا ۔ المرءۃ آئینہ جس میں اشیاء کا عکس نظر آئے ۔ یہ رایت سے مفعلۃ کے وزن پر ہے جیسے صفحت سے مصحفۃ اور اس کے جمع مرائی آتی ہے ۔ الرئۃ ۔ پھیپھڑا ۔ اس کی جمع من لفظہ رؤون آتی ہے ۔ اس پر ابو زید نے اس شعر سے استشہاد کیا ہے ۔ فغظناهمو حتی أتى الغیظ منهمو ... قلوبا وأکبادا لهم ورئيناہم نے انہیں غصہ دلایا حتی کے غیظ وغضب ان کے دل و جگر اور پھیپھڑوں میں سرایت کر گیا ۔ اور اسی سے رئتہ ہے جسکے معنی پھیپھڑے سے پر مارنے کے ہیں ۔- جزا - الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، - ( ج ز ی ) الجزاء ( ض )- کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ - احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] .- ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٥ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّئْ یَاج اِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ ” تم نے خواب سچ کر دکھایا ‘ یقینا ہم اسی طرح بدلہ دیتے ہیں محسنین کو۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :63 یعنی ہم نے تمہیں یہ تو نہیں دکھایا تھا کہ تم نے بیٹے کو ذبح کر دیا ہے اور اس کی جان نکل گئی ہے ، بلکہ یہ دکھایا تھا کہ تم ذبح کر رہے ہو ۔ تو وہ خواب تم نے پورا کر دکھایا ۔ اب ہمیں تمہارے بچے کی جان لینی مطلوب نہیں ہے ۔ اصل مدعا جو کچھ تھا وہ تمہاری اس آمادگی اور تیاری سے حاصل ہو گیا ہے ۔ سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :64 یعنی جو لوگ احسان کی روش اختیار کرتے ہیں ان کے اوپر آزمائشیں ہم اس لیے نہیں ڈالا کر تے کہ انہیں خواہ مخواہ تکلیفوں میں ڈالیں اور رنج و غم میں مبتلا کریں ۔ بلکہ یہ آزمائشیں ان کی فضیلتوں کو ابھارنے کے لیے اور انہیں بڑے مرتبے عطا کرنے کے لیے ان پر ڈالی جاتی ہیں ، اور پھر آزمائش کی خاطر جس مخمصے میں ہم انہیں ڈالتے ہیں اس سے بخیریت ان کو نکلوا بھی دیتے ہیں ۔ چنانچہ دیکھو ، بیٹے کی قربانی کے لیے تمہاری آمادگی و تیاری ہی بس اس کے لیے کافی ہو گئی کہ تمہیں وہ مرتبہ عطا کر دیا جائے جو ہماری خوشنودی پر واقعی بیٹا قربان کر دینے والے کو مل سکتا تھا ۔ اس طرح ہم نے تمہارے بچے کی جان بچا دی اور تمہیں یہ مرتبۂ بلند بھی عطا کر دیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani