Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

107۔ 1 یہ بڑا ذبیحہ ایک مینڈھا تھا جو اللہ تعالیٰ نے جنت سے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے ذریعے سے بھیجا (ابن کثیر) اسماعیل (علیہ السلام) کی جگہ اسے ذبح کیا گیا اور پھر سنت ابراہیمی کو قیامت تک قرب الٰہی کے حصول کا ایک ذریعہ اور عید الاضحٰی کا سب سے پسندیدہ عمل قرار دے دیا گیا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٤] بیٹے کی قربانی کا فدیہ :۔ یہ ذبح عظیم ایک سینگ دار مینڈھا تھا جسے فرشتوں نے عین موقع پر لاکر حاضر کردیا اور کہا تھا کہ بیٹے کی جگہ اسے قربان کردو۔ یہی جانثار بیٹے کا فدیہ تھا جسے اللہ نے بھیجا تھا۔ اس لحاظ سے یہ عظیم قربانی تھی اور اس کے عظیم ہونے کی دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ قیامت تک کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ سنت جاری کردی کہ اسی تاریخ کو دنیا بھر کے اہل ایمان جانور قربان کریں۔ اور وفاداری اور جان نثاری کے اس عظیم واقعہ کی یاد تازہ کرتے رہیں۔- خ ذبیح اللہ سیدنا اسماعیل تھے یا سیدنا اسحاق (علیہما السلام) :۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ذبیح اللہ سیدنا اسماعیل نہیں بلکہ سیدنا اسحاق تھے۔ ان کا نظریہ درج ذیل وجوہ کی رو سے درست معلوم نہیں ہوتا۔- ١۔ اسی سورة میں پہلے سیدنا ابراہیم کے اس بیٹے کا ذکر آیا جو فی الواقع ذبیح اللہ تھے اور اس کے بعد سیدنا اسحاق (علیہ السلام) کا ذکر اسی سورة کی آیت نمبر ١١٢ میں آرہا ہے۔- ٢۔ جب سیدنا اسماعیل کی بشارت دی گئی تو اس کے ساتھ حلیم کی صفت مذکور ہے۔ اور اس کا تعلق قربانی سے ہے۔ اور جب سیدنا اسحاق کی بشارت دی گئی تو اس کے ساتھ صفت علیم ذکر کی گئی (١٥: ٥٣، ٥١: ٢٨) اور اس صفت کا قربانی سے کچھ تعلق نہیں۔ نیز جب سیدنا اسحاق کی بشارت دی گئی تو ساتھ ہی یہ بتادیا گیا کہ اسحاق کے بعد ان کا بیٹا یعقوب بھی پیدا ہوگا۔ (١١: ٧١) اور ظاہر ہے جس بیٹے کے پوتے کی بھی بذریعہ وحی بشارت دی جاچکی ہو اس کے متعلق نوجوانی میں ہی قربانی کی وحی آنا محال ہے۔ کیونکہ پوتے کی بشارت پہلے دی جاچکی تھی۔- ٣۔ تورات میں یہ تصریح موجود ہے کہ سیدنا ابراہیم کو اپنے اکلوتے اور محبوب بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور یہ بھی مسلم ہے کہ سیدنا اسمٰعیل، سیدنا اسحاق سے عمر میں بڑے تھے پھر سیدنا اسحاق سیدنا اسماعیل کی موجودگی میں اکلوتے کیسے ہوسکتے ہیں ؟- ٤۔ قربانی کی یادگار اور اس سے متعلقہ رسوم بنی اسرائیل میں بطور وراثت مسلسل منتقل ہوتی چلی آئی ہیں حتیٰ کہ دور نبوی میں بھی موجود تھیں۔ یہ بات بھی اس بات کی قوی دلیل ہے کہ ذبیح اللہ سیدنا اسماعیل تھے نہ کہ سیدنا اسحاق علیہ السلام۔- ٥۔ احسان کا وسیع مفہوم :۔ قربانی اور اس سے متعلقہ رسوم مثلاً سعی صفا ومروہ وغیرہ کا تعلق مکہ سے ہے۔ اور یہ سیدنا اسماعیل کا وطن تھا۔ سیدنا اسحاق کا اصل وطن ملک شام تھا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَفَدَيْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِيْمٍ : ” ذِبْحٌ“ (ذال کے کسرہ کے ساتھ) بمعنی ” مَذْبُوْحٌ“ یعنی ہم نے اسماعیل (علیہ السلام) - کے فدیے اور بدلے میں ایک عظیم ذبیحہ دیا۔ یہ ایک مینڈھا تھا جو ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے قربان کردیا۔ اسے عظیم اس لیے فرمایا کہ وہ اسماعیل (علیہ السلام) جیسے عظیم شخص کا فدیہ تھا اور اس لیے کہ اس کی قربانی عظیم عبادت تھی، جو قیامت تک کے مسلمانوں کے لیے سنت قرار پائی۔ تفسیری روایات میں اس مینڈھے کا جنت سے آنے کا ذکر ہے اور یہ بھی کہ یہ وہی مینڈھا تھا جو آدم (علیہ السلام) کے بیٹے نے بطور قربانی دیا تھا۔ وہ جنت میں پلتا رہا اور اس موقع پر ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے اتارا گیا۔ بعض نے کہا کہ یہ ایک پہاڑی بکرا تھا جو پہاڑ سے اتارا گیا تھا۔ مگر یہ تمام روایات اسرائیلی ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک بھی ثابت نہیں۔ ہاں یہ ثابت ہے کہ وہ سینگوں والا مینڈھا تھا، جیسا کہ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (کعبہ کے چابی بردار) عثمان بن طلحہ (رض) کو بلایا اور فرمایا : ( إِنِّيْ کُنْتُ رَأَیْتُ قَرْنَيِ الْکَبْشِ حِیْنَ دَخَلْتُ الْبَیْتَ ، فَنَسِیْتُ أَنْ آمُرَکَ أَنْ تُخَمِّرَہُمَا، فَخَمِّرْہُمَا فَإِنَّہُ لاَ یَنْبَغِيْ أَنْ یَکُوْنَ فِي الْبَیْتِ شَيْءٌ یَشْغَلُ الْمُصَلِّيَ ، قَالَ سُفْیَانُ لَمْ تَزَلْ قَرْنَا الْکَبْشِ فِي الْبَیْتِ حَتَّی احْتَرَقَ الْبَیْتُ فَاحْتَرَقَا ) [ مسند أحمد : ٤؍٦٨، ح : ١٦٦٣٧۔ مسند احمد کے محققین نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے ] ” میں جب بیت اللہ میں داخل ہوا تو میں نے اس مینڈھے کے سینگ دیکھے تھے، تو میں تمہیں ان کو ڈھانپنے کا حکم دینا بھول گیا۔ سو انھیں ڈھانپ دو ، کیونکہ یہ مناسب نہیں کہ بیت اللہ میں کوئی ایسی چیز ہو جو نمازی کو مشغول کرے۔ “ سفیان نے فرمایا : ” وہ سینگ بیت اللہ میں رہے، حتیٰ کہ بیت اللہ کو آگ لگ گئی تو وہ بھی جل گئے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَفَدَيْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِيْمٍ (اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے عوض میں دیا) روایات میں ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ آسمانی آواز سن کر اوپر کی طرف دیکھا تو حضرت جبرئیل (علیہ السلام) ایک مینڈھا لئے کھڑے تھے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہی مینڈھا تھا جس کی قربانی حضرت آدم (علیہ السلام) کے صاحبزادے حضرت ہابیل نے پیش کی تھی۔ واللہ اعلم۔- بہرحال یہ جنتی مینڈھا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو عطا ہوا اور انہوں نے اللہ کے حکم سے اپنے بیٹے کے بجائے اس کو قربان کیا۔ اس ذبیحہ کو ” عظیم “ اس لئے کہا گیا کہ یہ اللہ کی طرف سے آیا تھا اور اس کی قربانی کے مقبول ہونے میں کسی کو کوئی شک نہیں ہو سکتا۔ (تفسیر مظہری وغیرہ)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَفَدَيْنٰہُ بِذِبْحٍ عَظِيْمٍ۝ ١٠٧- فدی - الفِدَى والفِدَاءُ : حفظ الإنسان عن النّائبة بما يبذله عنه، قال تعالی: فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِداءً- [ محمد 4] ، يقال : فَدَيْتُهُ بمال، وفدیته بنفسي، وفَادَيْتُهُ بکذا، قال تعالی: إِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ [ البقرة 85] ، وتَفَادَى فلان من فلان، أي : تحامی من شيء بذله . وقال :- وَفَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [ الصافات 107] ، وافْتَدى: إذا بذل ذلک عن نفسه، قال تعالی:- فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ [ البقرة 229] ، وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ [ البقرة 85] ، والمُفَادَاةُ : هو أن يردّ أسر العدی ويسترجع منهم من في أيديهم، قال : وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ [ الرعد 18] ، لَافْتَدَتْ بِهِ [يونس 54] ، ولِيَفْتَدُوا بِهِ [ المائدة 36] ، وَلَوِ افْتَدى بِهِ [ آل عمران 91] ، لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ [ المعارج 11] ، وما يقي به الإنسان نفسه من مال يبذله في عبادة قصّر فيها يقال له : فِدْيَةٌ ، ككفّارة الیمین، وكفّارة الصّوم .- نحو قوله : فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ [ البقرة 196] ، فِدْيَةٌ طَعامُ مِسْكِينٍ [ البقرة 184]- ( ف د ی ) الفدٰی والفداء - کے معنی کسی کی جانب سے کچھ دیگر اسے مصیبت سے بچالینا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِداءً [ محمد 4] پھر اس کے بعد یا تو احسان رکھ کر چھوڑ دینا چاہئے ۔ یا کچھ مال لے لر ۔ چناچہ محاورہ فدیتہ بمال میں نے کچھ خرچ کر کے اسے مسیبت سے بچالیا فدیتہ منفسی میں نے اپنی جان کے عوض اسے چھڑالیا فاواہُ بکذا ۔ اس نے کچھ دے کت اسے چھڑا لیا قرآن میں ہے ۔ إِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ [ البقرة 85] اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہوکر آئیں تو بدلہ دے کر انہیں چھڑا بھی لیتے ہو ۔ تفادیٰ فلان من فلان کسی کا فدیہ دے کر اس کو چھڑالینا ۔ وَفَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [ الصافات 107] اور ہم نے ایک بڑی قربانی کو ان کا فدیہ دیا ۔ افتدیٰ کے معنی خواہ اپنے کو مال کے عوض چھڑانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ [ البقرة 229] رہائی پانے کے بدلے میں وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ [ الرعد 18]( تو وہ سب کے سب ) اور ان کے ساتھ ہی اتنے اور ( نجات کے ) بدلے میں صرف کر ڈالیں ۔ لَافْتَدَتْ بِهِ [يونس 54] تو ( عذاب سے بچنے کے لئے ( سب ) دے ڈالے ۔ ولِيَفْتَدُوا بِهِ [ المائدة 36] تاکہ بدلہ دیں۔ وَلَوِ افْتَدى بِهِ [ آل عمران 91] اگر بدلے میں دیں لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ [ المعارج 11] کہ کسی طرح اس دن کے عذاب کے بدلے میں ( سب کچھادے ڈالے یعنی بیٹے اور جو مال کسی عبادت میں کوتاہی کرنے کی وجہ سے - خرچ کر کے انسان خود اپنے کو گناہ سے بچاتا ہے اسے بھی فدیتہ کہا جاتا ہے جیسا کہ کفار یمین اور صوم کے متعلق فرمایا ۔ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ [ البقرة 196] تو اس کے بدلے روزے رکھے یا صدقے دے یا قربانی کرے ۔ فِدْيَةٌ طَعامُ مِسْكِينٍ [ البقرة 184] روزے کے بدلے محتاج کو کھانا کھلادیں ۔- ذبح - أصل الذَّبْح : شقّ حلق الحیوانات . والذِّبْح : المذبوح، قال تعالی: وَفَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [ الصافات 107] ، وقال : إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً [ البقرة 67] ، وذَبَحْتُ الفارة - شققتها، تشبيها بذبح الحیوان، وکذلك : ذبح الدّنّ «3» ، وقوله : يُذَبِّحُونَ أَبْناءَكُمْ- [ البقرة 49] ، علی التّكثير، أي : يذبح بعضهم إثر بعض . وسعد الذّابح اسم نجم، وتسمّى الأخادید من السّيل مذابح .- ( ذ ب ح ) الذبح - ( ف ) اصل میں اس کے معنی حیوانات کے حلق کو قطع کرنے کے ہیں اور ذبح بمعنی مذبوح آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَفَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [ الصافات 107] اور ہم نے ایک بڑی قربانی کو ان کا فدیہ دیا إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً [ البقرة 67] کہ خدا تم کو حکم دیتا ہے کہ ایک بیل ذبح کرو ۔ ذبحت الفارۃ ۔ میں نے نافہ مشک کو کو چیرا ۔ یہ حیوان کے ذبح کے ساتھ تشبیہ کے طور پر بولا جاتا ہے ۔ اسی طرح ذبح الدن کا محاورہ ہے جس کے معنی مٹکے میں شگاف کرنے کسے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يُذَبِّحُونَ أَبْناءَكُمْ [ البقرة 49] تمہارے بیٹوں کو تو قتل کر ڈالتے تھے ۔ میں صیغہ تفعیل برائے تکثیر ہے یعنی وہ کثرت کے ساتھ یکے بعد دیگرے تمہارے لڑکوں کو ذبح کررہے تھے ۔ سعد الدابح ( برج جدی کے ایک ) ستارے کا نام ہے اور سیلاب کے گڑھوں کو مذابح کہا جاتا ہے ۔ - عظیم - وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] ، - ( ع ظ م ) العظم - عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا معنو ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٧ وَفَدَیْنٰـہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ ” اور ہم نے ایک ذبح عظیم اس کا فدیہ دیا۔ “- اللہ کے حکم سے جنت سے ایک مینڈھا لایا گیا جو حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی جگہ ذبح ہوا۔ مسلمانوں کے ہاں عید الاضحی کے موقع پر ہر سال جانوروں کی قربانی پیش کر کے اسی قربانی کی یاد منائی جاتی ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :66 بڑی قربانی سے مراد ، جیسا کہ بائیبل اور اسلامی روایات میں بیان ہوا ہے ، ایک مینڈھا ہے جو اس وقت اللہ تعالیٰ کے فرشتے نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سامنے پیش کیا ، تاکہ بیٹے کے بدلے اس کو ذبح کر دیں ۔ اسے بڑی قربانی کے لفظ سے اس لیے تعبیر کیا گیا کہ وہ ابراہیم علیہ السلام جیسے وفادار بندے کے لیے فرزند ابراہیم علیہ السلام جیسے صابر و جاں نثار لڑکے کا فدیہ تھا ، اور اسے اللہ تعالیٰ نے ایک بے نظیر قربانی کی نیت پوری کرنے کا وسیلہ بنایا تھا ۔ اس کے علاوہ اسے بڑی قربانی قرار دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قیامت تک کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ سنت جاری کر دی کہ اسی تاریخ کو تمام اہل ایمان دنیا بھر میں جانور قربان کریں اور وفاداری و جاں نثاری کے اس عظیم الشان واقعہ کی یاد تازہ کرتے رہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

22: چونکہ باپ بیٹے دونوں اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں اپنے اختیار کا ہر کام کرچکے تھے، اس لیے امتحان پورا ہوگیا تھا۔ اب اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا کرشمہ دکھایا کہ چھری حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بجائے ایک مینڈھے پر چلی جو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے وہاں بھیج دیا، اور حضرت اسماعیل علیہ زندہ سلامت رہے۔