وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْاٰخِرِيْنَ : ان آیات کی تفسیر کے لیے دیکھیے اسی سورت کی آیات (٧٨ تا ٨١) ۔
وَتَرَكْنَا عَلَيْہِ فِي الْاٰخِرِيْنَ ١٠٨ۖ- ترك - تَرْكُ الشیء : رفضه قصدا واختیارا، أو قهرا واضطرارا، فمن الأول : وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] ، وقوله :- وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] ، ومن الثاني : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] - ( ت ر ک) ترک - الشیئء کے معنی کسی چیز کو چھوڑ دینا کے ہیں خواہ وہ چھوڑنا ارادہ اختیار سے ہو اور خواہ مجبورا چناچہ ارادۃ اور اختیار کے ساتھ چھوڑنے کے متعلق فرمایا : ۔ وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] اس روز ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ ور وئے زمین پر پھل کر ( ایک دوسری میں گھسن جائیں وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] اور دریا سے ( کہ ) خشک ( ہورہا ہوگا ) پاور ہوجاؤ ۔ اور بحالت مجبوری چھوڑ نے کے متعلق فرمایا : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] وہ لوگ بہت سے جب باغ چھوڑ گئے ۔
آیت ١٠٨ وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الْاٰخِرِیْنَ ” اور اسی (کے طریقے) پر ہم نے باقی رکھا بعد میں آنے والوں میں سے بھی (کچھ لوگوں کو) ۔ “- اس سے پوری ملت ابراہیم (علیہ السلام) بھی مراد ہوسکتی ہے۔ جیسے قبل ازیں آیت ٧٨ میں حضرت نوح (علیہ السلام) کے بارے میں بھی فرمایا گیا کہ ان کی ملت پر بعد میں ہم نے کچھ لوگوں کو قائم رکھا ‘ جن میں خود ابراہیم (علیہ السلام) بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ آیت کا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ قربانی کی اس سنت کو اللہ تعالیٰ نے بعد میں آنے والے لوگوں میں زندہ اور قائم رکھا۔ اس کا ایک مفہوم یہ بھی لیا گیا ہے کہ ہم نے بعد میں آنے والوں میں اس کا ذکر ِخیر باقی رکھا۔