12۔ 1 یعنی آپ کو تو منکرین آخرت کے انکار پر تعجب ہو رہا ہے کہ اس کے امکان بلکہ وضاحت کے اتنے واضح دلائل کے باوجود وہ اسے مان کر نہیں دے رہے اور وہ آپ کے دعوائے قیامت کا مذاق اڑا رہے ہیں کہ یہ کیوں کر ممکن ہے ؟
[٨] یعنی آپ کو اللہ کے ایسے عظیم تخلیقی کارنامے سن کر تعجب ہوتا ہے مگر یہ لوگ نہایت بےفکری اور لاپروائی سے ایسی محیرا لعقول نشانیوں کا مذاق اڑا دیتے ہیں یا آپ کو اس بات پر تعجب ہوتا ہے کہ یہ کس قدر بےحس اور ناانصاف لوگ ہیں کہ اللہ کی ایسی واضح قدرتیں بھی ان پر کچھ اثر نہیں کرتیں۔
بَلْ عَجِبْتَ : یہاں ایک سوال ہے کہ یہاں ” بَلْ “ لانے کا کیا فائدہ ہے ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ” فَاسْتَفْتِهِمْ “ (ان سے پوچھ) کہ تمہیں دوبارہ پیدا کرنا زیادہ مشکل ہے یا جو کچھ ہم پیدا کرچکے ؟ جواب اس کا اس کے سوا ہو ہی نہیں سکتا کہ یقیناً وہ سب کچھ انسان کے دوبارہ پیدا کرنے سے زیادہ مشکل ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے شروع میں بیان فرمایا ہے۔ چناچہ اس سوال کا مقصد انھیں لاجواب کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔ اتنے واضح دلائل کے باوجود یہ لوگ قیامت سے انکار کیوں کرتے ہیں، یہ بات انسان کی سمجھ میں نہیں آسکتی، بلکہ اے نبی یا اے مخاطب اس پر تجھے تعجب ہوتا ہے اور تعجب ہونا بھی چاہیے، کیونکہ بات ہی تعجب کی ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَاِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ ءَاِذَا كُنَّا تُرٰبًا ءَاِنَّا لَفِيْ خَلْقٍ جَدِيْدٍ ڛ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ الْاَغْلٰلُ فِيْٓ اَعْنَاقِهِمْ ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ ) [ الرعد : ٥ ] ” اور اگر تو تعجب کرے تو ان کا یہ کہنا بہت عجیب ہے کہ کیا جب ہم مٹی ہوجائیں گے تو کیا واقعی ہم یقیناً ایک نئی پیدائش میں ہوں گے۔ یہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب کا انکار کیا اور یہی ہیں جن کی گردنوں میں طوق ہوں گے اور یہی آگ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ “- وَيَسْخَرُوْنَ : یعنی تجھے ان پر تعجب ہوتا ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ جب دلائل سے لاجواب ہوتے ہیں تو مذاق اڑاتے ہیں۔
(آیت) بل عجبت ویسخرون، و اذا ذکروا لا یذکرون، یعنی آپ کو تو ان لوگوں پر یہ تعجب ہوتا ہے کہ کیسے واضح دلائل سامنے آنے کے باوجود یہ لوگ نہیں مان رہے، لیکن یہ الٹا آپ کے دلائل و عقائد کا مذاق اڑاتے ہیں، اور انہیں کتنا ہی سمجھا لو سمجھ کر نہیں دیتے، رہے نقلی دلائل، سو اس کے بارے میں ان کا ردعمل یہ ہے کہ :
بَلْ عَجِبْتَ وَيَسْخَرُوْنَ ١٢۠- عجب - العَجَبُ والتَّعَجُّبُ : حالةٌ تعرض للإنسان عند الجهل بسبب الشیء، ولهذا قال بعض الحکماء : العَجَبُ ما لا يُعرف سببه، ولهذا قيل : لا يصحّ علی اللہ التَّعَجُّبُ ، إذ هو علّام الغیوب لا تخفی عليه خافية . يقال : عَجِبْتُ عَجَباً ، ويقال للشیء الذي يُتَعَجَّبُ منه : عَجَبٌ ، ولما لم يعهد مثله عَجِيبٌ. قال تعالی: أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا - [يونس 2] ، تنبيها أنهم قد عهدوا مثل ذلک قبله، وقوله : بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ- [ ق 2] ، وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد 5] ،- ( ع ج ب ) العجب اور التعجب - اس حیرت کو کہتے ہیں جو کسی چیز کا سبب معلوم نہ ہونے کی وجہ سے انسان کو لاحق ہوجاتی ہے اسی بنا پر حکماء نے کہا ہے کہ عجب اس حیرت کو کہتے ہیں جس کا سبب معلوم نہ ہو اس لئے اللہ تعالیٰ پر تعجب کا اطلاق جائز نہیں ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ تو علام الغیوب ہے اس بنا پر کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے عجبت عجبا ( س ) میں نے تعجب کیا عجب ہر وہ بات جس سے تعجب پیدا ہوا اور جس جیسی چیز عام طور نہ دیکھی جاتی ہوا ہے عجیب کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا[يونس 2] کیا لوگوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ ہم نے وحی بھیجی ۔ میں تنبیہ کی ہے کہ آنحضرت کی طرف وحی بھیجنا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ پہلے سے سلسلہ وحی کو جانتے ہیں نیز فرمایا : ۔ بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ [ ق 2] بلکہ ان لوگوں نے تعجب کیا ہے کہ انہی میں سے ایک ہدایت کرنے والا ان کے پاس آیا ۔ وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد 5] اور اگر تم عجیب بات سننی چاہو تو کافروں کا یہ کہنا عجیب ہے ۔ - سخر - التَّسْخِيرُ : سياقة إلى الغرض المختصّ قهرا، قال تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية 13] - ( س خ ر ) التسخیر - ( تفعیل ) کے معنی کسی کو کسی خاص مقصد کی طرف زبر دستی لیجانا کے ہیں قرآن میں ہے وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية 13] اور جو کچھ آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اس نے ( اپنے کرم سے ) ان سب کو تمہارے کام میں لگا رکھا ہے ۔
آپ تو ان کے جھٹلانے پر تعجب کرتے ہیں اور یہ منکر آپ کی اور آپ کی کتاب کے ساتھ مذاق کرتے ہیں۔
آیت ١٢ بَلْ عَجِبْتَ وَیَسْخَرُوْنَ ” بلکہ (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ تعجب کرتے ہیں اور یہ لوگ تمسخر کرتے ہیں “- آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بجا طور پر ان کے رویے ّپر تعجب ہوتا ہے یہ سوچتے ہوئے کہ میں تو انہیں اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دیتا ہوں ‘ انہیں توحید کی طرف بلاتا ہوں ‘ اس توحید کی طرف جس کا ایک واضح تصور ہر انسان کی فطرت کے اندر پیدائشی طور پر بھی موجود ہے ‘ جبکہ یہ لوگ میری ان باتوں پر غور کرنے اور میری اس دعوت کو قبول کرنے کے بجائے اُلٹا اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔