اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ ان منکرین قیامت سے پوچھو کہ تمہارا پیدا کرنا ہم پر مشکل ہے ؟ یا آسمان و زمین فرشتے جن وغیرہ کا ، ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت ام من عددنا ہے مطلب یہ ہے کہ اس کا اقرار تو انہیں بھی ہے کہ پھر مر کر جینے کا انکار کیوں کر رہے ہیں؟ چنانچہ اور آیت میں ہے کہ انسانوں کی پیدائش سے تو بہت بڑی اور بہت بھاری پیدائش آسمان و زمین کی ہے لیکن اکثر لوگ بےعلمی برتتے ہیں ۔ پھر انسان کی پیدائشی کمزوری بیان فرماتا ہے کہ یہ چکنی مٹی سے پیدا کیا گیا ہے جس میں لیس تھا جو ہاتھوں پر چپکتی تھی ۔ تو چونکہ حقیقت کو پہنچ گیا ہے ان کے انکار پر تعجب کر رہا ہے کیونکہ اللہ کی قدرتیں تیرے سامنے ہیں اور اس کے فرمان بھی ۔ لیکن یہ تو اسے سن کر ہنسی اڑاتے ہیں ۔ اور جب کبھی کوئی واضح دلیل سامنے آجاتی ہے تو مسخرا پن کرنے لگتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں کہ یہ تو جادو ہے ۔ ہم کسی طرح اسے نہیں ماننے کے کہ مر کر مٹی ہو کر پھر جی اٹھیں بلکہ ہمارے باپ دادا بھی دوسری زندگی میں آجائیں ہم تو اس کے قائل نہیں ۔ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم ان سے کہدو کہ ہاں تم یقینا دوبارہ پیدا کئے جاؤ گے ۔ تم ہو کیا چیز اللہ کی قدرت اور مشیت کے ماتحت ہو ، اس کی وہ ذات ہے کہ کسی کی اس کے سامنے کوئی ہستی نہیں ۔ فرماتا ہے ( کل اتوہ داخرین ) ہر شخص اس کے سامنے عاجزی اور لاچاری سے حاضر ہونے والا ہے ۔ ایک آیت میں ہے ( وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ 60ۧ ) 40-غافر:60 ) میری عبادت سے سرکشی کرنے والے ذلیل و خوار ہو کر جنہم میں جائیں گے ۔ پھر اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ جسے تم مشکل سمجھتے ہو ، وہ مجھ پر تو بالکل ہی آسان ہے صرف ایک آواز لگتے ہی ہر ایک زمین سے نکل کر دہشت ناکی کے ساتھ اہوال و احوال قیامت کو دیکھنے لگے گا ۔ واللہ اعلم
11۔ 1 یعنی ہم نے جو زمین ملائکہ اور آسمان جیسی چیزیں بنائی ہیں جو اپنے حجم اور وسعت کے لحاظ سے نہایت انوکھی ہیں۔ کیا ان لوگوں کی پیدائش اور دوبارہ زندہ کرنا، ان چیزوں کی تخلیق سے زیادہ سخت اور مشکل ہے ؟ یقینا نہیں۔ 11۔ 2 یعنی ان کے باپ آدم (علیہ السلام) کو تو ہم نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ انسان آخرت کی زندگی کو اتنا بعید کیوں سمجھتے ہیں درآں حالیکہ ان کی پیدائش ایک نہایت ہی حقیر اور کمزور چیز سے ہوئی ہے۔ جبکہ خلقت میں ان سے زیادہ قوی، عظیم اور کامل و اتم چیزوں کی پیدائش کا ان کو انکار نہیں۔ (فتح القدیر)
[٧] مٹی کی مختلف حالتیں جن سے آدم کا پتلا بنایا گیا ڈارون کے نظریہ کا ابطال :۔ مٹی کو جن سات مختلف حالتوں سے گزار کر انسان کو پیدا کیا گیا ان کی تفصیل یہ ہے (١) تراب بمعنی خشک مٹی (٤٠: ٦٧) (٢) ارض بمعنی عام مٹی یا زمین (٧١: ١٧) (٣) طین بمعنی گیلی مٹی یا گارا (٦: ٢) (٤) طین لازب معنی لیسدار یا چپکدار مٹی (٣٧: ١١) (٥) حماٍ مسنون بمعنی بدبودار کیچڑ (١٥: ٢٦) (٦) صلصال بمعنی ٹھیکرا یعنی حرارت سے پکائی ہوئی مٹی (١٥: ٢٦) (٧) صلصال کا لفخار بمعنی ٹن سے بجنے والی ٹھیکری (٥٥: ١٤) یہ مٹی یا زمین کی مختلف شکلیں ہیں۔ کسی وقت مٹی میں پانی کی آمیزش کی گئی تو بعد میں حرارت کے ذریعہ پانی کو خشک کردیا گیا۔ قرآن نے مختلف مقامات پر ان مختلف حالتوں میں سے کسی بھی ایک یا دو حالتوں کا ذکر کردیا ہے۔ اور جس حالت کا بھی نام لیا جائے وہ سب درست ہے۔ اس بیان سے ڈارون کا نظریہ ارتقاء کا رد ہوجاتا ہے جس کی رو سے انسان نباتات اور حیوانات کی منزلوں سے گزر کر وجود میں آیا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے جو سات مختلف حالتیں بیان کی ہیں وہ سب کی سب جمادات یا مٹی میں ہی پوری ہوجاتی ہیں۔- اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دو مزید باتیں ارشاد فرمائیں ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ جو عظیم الجثہ اور محیرالعقول مخلوقات پیدا کرچکا ہے اس کے مقابلہ میں انسان کی حیثیت ہی کیا ہے کہ اس کی تخلیق اس کے لئے کچھ مشکل ہو اور دوسری یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مٹی ہی کی سات مختلف حالتوں سے گزار کر پیدا کیا ہے۔ پھر وہ مر کر مٹی میں مل کر مٹی ہی بن جائے گا۔ تو کیا جس نے مٹی کی اتنی حالتوں سے گزار کر انسان کو پہلے پیدا کیا تھا اب دوبارہ مختلف حالتوں سے گزار کر پیدا نہ کرسکے گا ؟ (ڈارون کے نظریہ ارتقاء کی تفصیل کے لئے دیکھئے ١٥: ٢٩، حاشیہ ١٩)
فَاسْتَفْتِهِمْ اَهُمْ اَشَدُّ خَلْقًا : کفار آخرت کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھے، ان کا کہنا تھا کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا ممکن ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں ان کے جواب میں دو دلیلیں ذکر فرمائی ہیں، پہلی یہ کہ اس سے پہلے ہم جو کچھ پیدا کرچکے ہیں، جن کا اس سورت میں ذکر ہے، یعنی آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی مخلوق، صافات، زاجرات، تالیات، فرشتے، شیاطین اور ستارے وغیرہ، انھیں پیدا کرنا مشکل ہے یا ان لوگوں کو دوبارہ پیدا کرنا ؟ ظاہر ہے اتنی عظیم مخلوقات کے مقابلے میں انسان بےچارے کی حیثیت ہی کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے دوبارہ زندہ نہ کرسکے، جیسا کہ فرمایا : (لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ ) [ المؤمن : ٥٧ ] ” یقیناً آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا لوگوں کے پیدا کرنے سے زیادہ بڑا (کام) ہے اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ “ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورة یٰس (٨١) ۔- دوسری دلیل یہ ہے کہ ہم نے انھیں ایک چپکتے ہوئے گارے سے پیدا کیا ہے (جو مٹی اور پانی کے ملنے سے بنتا ہے) اور یہ مر کر پھر مٹی ہوجائیں گے۔ تو جب پہلی دفعہ ہم نے انھیں مٹی سے پیدا کرلیا تو اسی مٹی سے ہم انھیں دوبارہ کیوں پیدا نہیں کرسکتے، جب کہ اس سے پہلے ہم ایک مرتبہ انھیں پیدا کر بھی چکے ہیں ؟ (دیکھیے حج : ٥) اور ہر عقل مند جانتا ہے کہ دوسری مرتبہ بنانا پہلی مرتبہ سے آسان ہوتا ہے، یہی حقیقت اللہ تعالیٰ نے سورة روم میں بیان کرتے ہوئے فرمایا : (وَهُوَ الَّذِيْ يَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ وَهُوَ اَهْوَنُ عَلَيْهِ ) [ الروم : ٢٧ ] ” اور وہی ہے جو خلق کو پہلی بار پیدا کرتا ہے، پھر اسے دوبارہ پیدا کرے گا اور وہ اسے زیادہ آسان ہے۔ “
خلاصہ تفسیر - (جب دلائل توحید سے معلوم ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ ان عظیم الشان مخلوقات میں ایسے ایسے عظیم تصرفات پر قادر ہیں اور یہ ساری عظیم مخلوقات اس کے قبضہ قدرت میں ہیں) تو آپ ان (آخرت کا انکار کرنے والوں) سے پوچھئے کہ یہ لوگ بناوٹ میں زیادہ سخت ہیں یا ہماری پیدا کی ہوئی یہ چیزیں (جن کا ابھی ذکر ہوا ؟ حقیقت یہی ہے کہ یہی چیزیں زیادہ سخت ہیں، کیونکہ) ہم نے ان لوگوں کو (تو آدم کی تخلیق کے وقت اسی معمولی، چکنی مٹی سے پیدا کیا ہے، (جس میں نہ کچھ قوت ہے نہ سختی اور انسان جو اس سے بنا ہے وہ بھی زیادہ قوی اور سخت نہیں ہے اب سوچنے کی بات ہے کہ جب ہم ایسی قوی اور سخت مخلوقات کو عدم سے وجود میں لانے پر قادر ہیں تو انسان جیسی ضعیف مخلوق کو ایک بار موت دے کر دوبارہ زندہ کرنے پر کیوں قدرت نہ ہوگی ؟ مگر ایسی واضح دلیل کے باوجود یہ لوگ آخرت کے امکان کے قائل نہیں ہوئے) بلکہ (اس سے بڑھ کر بات یہ ہے کہ) آپ تو (ان کے انکار سے) تعجب کرتے ہیں اور یہ لوگ (انکار سے بڑھ کر آخرت کے عقیدے سے) تمسخر کرتے ہیں اور جب ان کو (دلائل عقلیہ سے) سمجھایا جاتا ہے تو یہ سمجھتے نہیں اور جب یہ کوئی معجزہ دیکھتے ہیں (جو آپ کی نبوت ثابت کرنے کے لئے ان کو دکھایا جاتا ہے جس سے عقیدہ آخرت ثابت کیا جائے) تو (خود) اس کی ہنسی اڑاتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ یہ تو صریح جادو ہے۔ (کیونکہ اگر یہ معجزہ ہو تو اس سے آپ کی نبوت ثابت ہوجائے گی اور آپ کو نبی ماننے کے بعد آپ کا بیان کردہ عقیدہ آخرت بھی ماننا پڑے گا، حالانکہ ہم آخرت کا عقیدہ نہیں مان سکتے، کیونکہ) بھلا جب ہم مر گئے اور مٹی اور ہڈیاں ہوگئے، تو کیا ہم (پھر) زندہ کئے جائیں گے، اور کیا ہمارے اگلے باپ دادا بھی (زندہ ہوں گے) آپ کہہ دیجئے کہ ہاں (ضرور زندہ ہوں گے) اور تم ذلیل بھی ہوگے۔- معارف ومسائل - عقیدہ توحید کو ثابت کرنے کے بعد ان آٹھ آیتوں میں عقیدہ آخرت کا بیان ہے، اور اسی سے متعلق مشرکین کے شبہات کا جواب دیا گیا ہے۔ سب سے پہلی آیت میں انسانوں کے دوبارہ زندہ ہونے کے امکان پر عقلی دلیل پیش کی گئی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کائنات کے جن عظیم اجسام کا ذکر پچھلی آیتوں میں کیا گیا ہے، انسان تو ان کے مقابلہ میں بہت کمزور مخلوق ہے جب تم یہ تسلیم کرتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتے، چاند، ستارے، سورج اور شہاب ثاقب جیسی مخلوقات اپنی قدرت سے پیدا فرمائی ہیں، تو اس کے لئے انسان جیسی کمزور مخلوق کو موت دے کر دوبارہ زندہ کردینا کیا مشکل ہے ؟ جس طرح تمہیں ابتداء میں چپکتی ہوئی مٹی سے بنا کر تم میں روح پھونک دی تھی، اسی طرح جب تم مر کر دوبارہ خاک ہوجاؤ گے اس وقت پھر اللہ تعالیٰ تمہیں زندگی عطا کر دے گا۔- اور یہ جو ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ” ہم نے انہیں چپکتی مٹی سے پیدا کیا “ اس سے مطلب یا تو یہ ہے کہ ان کے جد امجد حضرت آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا گیا تھا، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد ہر انسان ہو۔ اس لئے اگر غور سے دیکھا جائے تو ہر انسان کی اصل پانی ملی ہوئی مٹی ہوتی ہے، وہ اس طرح کہ انسان نطفہ سے پیدا ہوتا ہے، نطفہ خون سے بنتا ہے، خون غذا سے پیدا ہوتا ہے اور غذا خواہ کسی شکل میں ہو اس کی اصل نباتات ہیں اور نباتات مٹی اور پانی سے پیدا ہوتے ہیں۔- بہر صورت پہلی آیت عقیدہ آخرت کی عقلی دلیل پر مشتمل ہے، اور اسے خود انہی سے یہ سوال کر کے شروع کیا گیا ہے کہ تم زیادہ سخت مخلوق ہو یا جن مخلوقات کا ذکر ہم نے کیا ہے، وہ زیادہ سخت ہیں ؟ جواب ظاہر تھا کہ وہی مخلوقات زیادہ سخت ہیں، اس لئے اس کی تصریح کرنے کی بجائے اس کی طرف یہ کہہ کر اشارہ کردیا گیا ہے کہ ” ہم نے تو انہیں چپکتی مٹی سے پیدا کیا ہے “- اس کے بعد کی پانچ آیتوں میں اس ردعمل کا بیان کیا گیا ہے جو آخرت کے دلائل سن کر مشرکین ظاہر کرتے ہیں۔ مشرکین کے سامنے عقیدہ آخرت کے جو دلائل بیان کئے جاتے تھے وہ دو قسم کے تھے۔ ایک تو عقلی دلائل، جیسے پہلی آیت میں بیان کیا گیا، دوسرے نقلی دلائل یعنی ان کو معجزے دکھا کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت و رسالت کا بیان کیا جاتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ آپ اللہ کے نبی ہیں، نبی کبھی جھوٹ نہیں بول سکتا، اس کے پاس آسمانی خبریں آتی ہیں، جب آپ یہ خبر دے رہے ہیں کہ قیامت آئے گی، حشر ونشر و گا، انسانوں سے حساب و کتاب لیا جائے گا تو یہ خبر یقینا سچی ہے، اسے مان لینا چاہئے جہاں تک عقلی دلائل پر مشرکین کے ردعمل کا تعلق ہے، اس کے بارے میں ارشاد ہے :
فَاسْتَفْتِہِمْ اَہُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمْ مَّنْ خَلَقْنَا ٠ ۭ اِنَّا خَلَقْنٰہُمْ مِّنْ طِيْنٍ لَّازِبٍ ١١- استفتا - الجواب عمّا يشكل من الأحكام، ويقال : اسْتَفْتَيْتُهُ فَأَفْتَانِي بکذا . قال : وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّساءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ [ النساء 127] ، فَاسْتَفْتِهِمْ [ الصافات 11] ، - استفتا - اور کسی مشکل مسلہ کے جواب کو فتیا وفتوی کہا جاتا ہے ۔- استفتاہ - کے معنی فتوی طلب کرنے اور افتاہ ( افعال ) کے معنی فتی دینے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّساءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ [ النساء 127]( اے پیغمبر ) لوگ تم سے ( یتیم ) عورتوں کے بارے میں فتوی طلب کرتے ہیں کہدو کہ خدا تم کو ان کے ( ساتھ نکاح کرنے کے ) معاملے میں فتوی اجازت دیتا ہے فَاسْتَفْتِهِمْ [ الصافات 11] تو ان سے پوچھو۔- شد - الشَّدُّ : العقد القويّ. يقال : شَدَدْتُ الشّيء :- قوّيت عقده، قال اللہ : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] ،- ( ش دد ) الشد - یہ شدد ت الشئی ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی مضبوط گرہ لگانے کے ہیں ۔ قرآں میں ہے - : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] اور ان کے مفاصل کو مضبوط بنایا ۔ - خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - طين - الطِّينُ : التّراب والماء المختلط، وقد يسمّى بذلک وإن زال عنه قوّة الماء قال تعالی: مِنْ طِينٍ لازِبٍ [ الصافات 11] ، يقال : طِنْتُ كذا، وطَيَّنْتُهُ. قال تعالی: خَلَقْتَنِي مِنْ نارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ [ ص 76] ، وقوله تعالی: فَأَوْقِدْ لِي يا هامانُ عَلَى الطِّينِ [ القصص 38] .- ( ط ی ن ) الطین - ۔ پانی میں ملی ہوئی مٹی کو کہتے ہیں گو اس سے پانی کا اثر زائل ہی کیوں نہ ہوجائے اور طنت کذا وطینتہ کے معنی دیوار وغیرہ کو گارے سے لینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ مِنْ طِينٍ لازِبٍ [ الصافات 11] چپکنے والی مٹی سے ۔ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ [ ص 76] اور اسے مٹی سے بنایا ۔ فَأَوْقِدْ لِي يا هامانُ عَلَى الطِّينِ [ القصص 38] ہامان امیر لئے گارے کو آگ لگو اکر اینٹیں تیار کرواؤ - لزب - اللَّازِبُ : الثابت الشّديد الثّبوت . قال تعالی: مِنْ طِينٍ لازِبٍ [ الصافات 11] ، ويعبّر باللّازب عن الواجب، فيقال : ضربة لازب، واللَّزْبَةُ السّنة الجدبة الشّديدة، وجمعها : اللَّزَبَاتُ.- ( ل ز ب ) اللازب ۔ اس چیز کو کہتے ہیں جو کسی مقام پر شدت سے ثبت ہوجائے اور چمٹ جائے قرآن میں ہے : مِنْ طِينٍ لازِبٍ [ الصافات 11] چپکتے گارے س ( بنایا ) اور کبھی لازب بمعنی واجب بھی آتا ہے جیسا کہ کسی چیز کے لازم اور ضروری ہونے کو بیان کرنے کے لئے ضربۃ لازب کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ اللزیۃ ۔ سخت قحط سالی اس کی جمع لذیات آتی ہے ۔
تو آپ ان مکہ والوں سے پوچھیے کہ یہ لوگ بناوٹ میں زیادہ سخت ہیں یا ہماری پیدا کی ہوئی چیزیں یعنی فرشتے ہم نے ان لوگوں کو تو ابتدا خلق آدم میں چکنی مٹی سے پیدا کیا ہے۔
آیت ١١ فَاسْتَفْتِہِمْ اَہُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمْ مَّنْ خَلَقْنَا ” تو (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ان سے پوچھئے کہ کیا ان کی تخلیق زیادہ مشکل ہے یا وہ کچھ جو ہم نے پیدا کیا ہے “- یہ کفار و مشرکین کہتے ہیں کہ مرجانے کے بعد ان کا پھر سے زندہ ہوجانا کیسے ممکن ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے پوچھیں کہ تم جیسے انسانوں کو پیدا کرنا زیادہ مشکل ہے یا اس وسیع و عریض کائنات کو بنانا ؟ اور یہ کہ جس اللہ نے یہ کائنات پیدا کی ہے ‘ اس کے اندر سورج اور چاند کا نظام بنایا ہے ‘ سیاروں ‘ ستاروں اور کہکشائوں کی دنیائیں آباد کی ہیں ‘ کیا تم اس اللہ کے بارے میں خیال کرتے ہو کہ وہ تمہیں پھر سے پیدا نہیں کرسکے گا - اِنَّا خَلَقْنٰہُمْ مِّنْ طِیْنٍ لَّازِبٍ ” ان کو تو ہم نے پیدا کیا ہے ایک لیس دار گارے سے۔ “- یعنی وہ ایسا گارا تھا جس میں عمل تخمیر ( ) کی وجہ سے چپچپاہٹ اور لیس پیدا ہوچکی تھی۔ واضح رہے کہ انسان کے مادہ تخلیق کے بارے میں قرآن نے مختلف مقامات پر تُراب (مٹی) ‘ طِین (گارا) ‘ طِینٍ لاَّزِب (لیس دار گارا) ‘ صَلصالٍ مِّن حماٍ مسنون (سڑاند والا گارا) اور صلصالٍ کا لفخّار (ٹھیکری جیسی کھنکھناتی ہوئی مٹی) کے الفاظ کا ذکر کیا ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : الحجر : ٢٦ کی تشریح) ۔
سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :8 یہ کفار مکہ کے اس شبہ کا جواب ہے جو وہ آخرت کے بارے میں پیش کرتے تھے ۔ ان کا خیال یہ تھا کہ آخرت ممکن نہیں ہے ، کیونکہ مرے ہوئے انسانوں کا دوبارہ پیدا ہونا محال ہے ۔ اس کے جواب میں امکان آخرت کے دلائل پیش کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سب سے پہلے ان کے سامنے یہ سوال رکھتا ہے کہ اگر تمہارے نزدیک مرے ہوئے انسانوں کو دو بارہ پیدا کرنا بڑا سخت کام ہے جس کی قدرت تمہارے خیال میں ہم کو حاصل نہیں ہے تو بتاؤ کہ یہ زمین و آسمان ، اور یہ بے شمار اشیاء جو آسمانوں اور زمین میں ہیں ، ان کا پیدا کرنا کوئی آسان کام ہے ؟ آخر تمہاری عقل کہاں ماری گئی ہے کہ خدا کے لیے یہ عظیم کائنات پیدا کرنا مشکل نہ تھا ، اور جو خود تم کو ایک دفعہ پیدا کر چکا ہے ، اس کے متعلق تم یہ سمجھتے ہو کہ تمہاری دوبارہ تخلیق سے وہ عاجز ہے ۔ سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :9 یعنی یہ انسان کوئی بڑی چیز تو نہیں ہے ۔ مٹی سے بنایا گیا ہے اور پھر اسی مٹی سے بنایا جا سکتا ہے ۔ لیس دار گارے سے انسان کی پیدائش کا مطلب یہ بھی ہے کہ انسان اول کی پیدائش مٹی سے ہوئی تھی اور پھر آگے نسل انسانی اسی پہلے انسان کے نطفے سے وجود میں آئی ۔ اور یہ بھی ہے کہ ہر انسان لیس دار گارے سے بنا ہے ۔ اس لیے کہ انسان کا سارا مادہ وجود زمین ہی سے حاصل ہوتا ہے ۔ جس نطفے سے وہ پیدا ہوا ہے وہ غذا ہی سے بنتا ہے ، اور استقرار حمل کے وقت سے مرتے دم تک اس کی پوری ہستی جن اجزاء سے مرکب ہوتی ہے وہ سب بھی غذا ہی سے فراہم ہوتے ہیں ۔ یہ غذا خواہ حیوانی ہو یا نباتی ، آخر کار اس کا ماخذ وہ مٹی ہے جو پانی کے ساتھ مل کر اس قابل ہوتی ہے کہ انسان کی خوراک کے لیے غلے اور ترکاریاں اور پھل نکالے ، اور ان حیوانات کو پرورش کرے جن کا دودھ اور گوشت انسان کھاتا ہے ۔ پس بنائے استدلال یہ ہے کہ یہ مٹی اگر حیات قبول کرنے کے لائق نہ تھی تو تم آج کیسے زندہ موجود ہو؟ اگر اس میں زندگی پیدا کیے جانے کا آج امکان ہے ، جیسا کہ تمہارا موجود ہونا خود اس کے امکان کو صریح طور پر ثابت کر رہا ہے ، تو کل دوبارہ اسی مٹی سے تمہاری پیدائش کیوں ممکن نہ ہو گی ؟
6: یعنی آسمان، زمین اور چاند ستاروں کی تخلیق انسان کی تخلیق سے زیادہ مشکل ہے، جب اﷲ تعالیٰ ان مشکل مخلوقات کو عدم سے وجود میں لے آئے، تو گارے سے بنے ہوئے اِنسان کو ایک مرتبہ موت دے کر دوبارہ پیدا کردینا اُس کے لئے کیا مشکل ہے؟