Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

واقعہ حضرت یونس علیہ السلام ۔ حضرت یونس علیہ السلام کا قصہ سورہ یونس میں بیان ہو چکا ہے ۔ بخاری مسلم میں حدیث ہے کہ کسی بندے کو یہ لائق نہیں کہ وہ کہے میں یونس بن متی سے افضل ہوں ۔ یہ نام ممکن ہے آپ کی والدہ کا ہو اور ممکن ہے والد کا ہو ۔ یہ بھاگ کر مال و اسباب سے لدی ہوئی کشتی پر سوار ہوگئے ۔ وہاں قرعہ اندازی ہوئی اور یہ مغلوب ہوگئے کشتی کے چلتے ہی چاروں طرف سے موجیں اٹھیں اور سخت طوفان آیا ۔ یہاں تک کہ سب کو اپنی موت کا اور کشتی کے ڈوب جانے کا یقین ہو گیا ۔ سب آپس میں کہنے لگے کہ قرعہ ڈالو جس کے نام کا قرعہ نکلے اسے سمندر میں ڈال دو تاکہ سب بچ جائیں اور کشتی اس طوفان سے چھوٹ جائے ۔ تین دفعہ قرعہ اندازی ہوئی اور تینوں مرتبہ اللہ کے پیارے پیغبمر حضرت یونس علیہ السلام کا ہی نام نکلا ۔ اہل کشتی آپ کو پانی میں بہانا نہیں چاہتے تھے لیکن کیا کرتے بار بار کی قرعہ اندازی پر بھی آپ کا نام نکلتا رہا اور خود آپ کپڑے اتار کر باوجود ان لوگں کے روکنے کے سمندر میں کود پڑے ۔ اس وقت بحر اخضر کی ایک بہت بڑی مچھلی کو جناب باری کا فرمان سرزد ہوا کہ وہ دریاؤں کو چیرتی پھاڑتی جائے اور حضرت یونس کو نگل لے لیکن نہ تو ان کا جسم زخمی ہو نہ کوئی ہڈی ٹوٹے ۔ چنانچہ اس مچھلی نے پیغمبر اللہ کو نگل لیا اور سمندروں میں چلنے پھرنے لگی ۔ جب حضرت یونس پوری طرح مچھلی کے پیٹ میں جا چکے تو آپ کو خیال گذرا کہ میں مر چکا ہوں لیکن جب ہاتھ پیروں کو حرکت دی اور ہلے جلے تو زندگی کا یقین کر کے وہیں کھڑے ہو کر نماز شروع کر دی اور اللہ تعالیٰ سے عرض کی کہ اے پروردگار میں نے تیرے لئے اس جگہ مسجد بنائی ہے جہاں کوئی نہ پہنچا ہو گا ۔ تین دن یا سات دن یا چالیس دن ایک ایک دن سے بھی کم یا صرف ایک رات تک مچھلی کے پیٹ میں رہے ۔ اگر یہ ہماری پاکیزگی بیان کرنے والوں میں سے نہ ہوتے ، یعنی جبکہ فراخی اور کشادگی اور امن و امان کی حالت میں تھے اس وقت ان کی نیکیاں اگر نہ ہوتیں ایک حدیث بھی اس قسم کی ہے جو عنقریب بیان ہو گی ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ ابن عباس کی حدیث میں ہے آرام اور راحت کے وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو تو وہ سختی اور بےچینی کے وقت تمہاری مدد کرے گا ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر یہ پابند نماز نہ ہوتے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر مچھلی کے پیٹ میں نماز نہ پڑھتے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر یہ ( لَّآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَكَ ڰ اِنِّىْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ 87؀ښ ) 21- الأنبياء:87 ) کے ساتھ ہماری تسبیح نہ کرتے چنانچہ قرآن کریم کی اور آیتوں میں ہے کہ اس نے اندھیروں میں یہی کلمات کہے اور ہم نے اس کی دعا قبول فرما کر اسے غم سے نجات دی اور اسی طرح ہم مومنوں کو نجات دیتے ہیں ۔ ابن ابی حاتم کی ایک حدیث میں ہے کہ حضرت یونس نے جب مچھلی کے پیٹ میں ان کلمات کو کہا تو یہ دعا عرش اللہ کے اردگرد منڈلانے لگی اور فرشتوں نے کہا اللہ یہ آواز تو کہیں بہت ہی دور کی ہے لیکن اس آواز سے ہمارے کان آشنا ضرور ہیں ۔ اللہ نے فرمایا اب بھی پہچان لیا یہ کس کی آواز ہے؟ انہوں نے کہا نہیں پہچانا فرمایا یہ میرے بندے یونس کی آواز ہے فرشتوں نے کہا وہی یونس جس کے نیک اعمال اور مقبول دعائیں ہمیشہ آسمان پر چڑھتی رہتی تھیں؟ اللہ اس پر تو ضرور رحم فرما اس کی دعا قبول کر وہ تو آسانیوں میں بھی تیرا نام لیا کرتا تھا ۔ اسے بلا سے نجات دے ۔ اللہ نے فرمایا ہاں میں اسے نجات دوں گا ۔ چنانچہ مچھلی کو حکم ہوا کہ میدان میں حضرت یونس کو اگل دے اور اس نے اگل دیا اور وہیں اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کی نحیفی کمزوری اور بیماری کی وجہ سے چھاؤں کے لئے کدو کی بیل اگا دی اور ایک جنگلی بکری کو مقرر کر دیا جو صبح شام ان کے پاس آ جاتی تھی اور یہ اس کا دودھ پی لیا کرتے تھے ۔ حضرت ابو ہریرہ کی روایت سے یہ واقعات مرفوع احادیث سے سورہ انبیاء کی تفسیر میں بیان ہو چکے ہیں ۔ ہم نے انہیں اس زمین میں ڈال دیا جہاں سبزہ روئیدگی گھاس کچھ نہ تھا ۔ دجلہ کے کنارے یا یمن کی سر زمین پر یہ لادے گئے تھے ۔ وہ اس وقت کمزور تھے جیسے پرندوں کے بچے ہوتے ہیں ۔ یا بچہ جس وقت پیدا ہوتا ہے ۔ یعنی صرف سانس چل رہا تھا اور طاقت ہلنے جلنے کی بھی نہ تھی ۔ یقطین کدو کے درخت کو بھی کہتے ہیں اور ہر اس درخت کو جس کا تنہ نہ ہو یعنی بیل ہو اور اس درخت کو بھی جس کی عمر ایک سال سے زیادہ نہیں ہوتی ۔ کدو میں بہت سے فوائد ہیں یہ بہت جلد اگتا اور بھڑتا ہے اس کے پتوں کا سایہ گھنا اور فرحت بخش ہوتا ہے کیونکہ وہ بڑے بڑے ہوتے ہیں اور اس کے پاس مکھیاں نہیں آتیں ۔ یہ غذا کا کام دے جاتا ہے اور چھلکے اور گودے سمیت کھایا جاتا ہے ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کدو یعنی گھیا بہت پسند تھا اور برتن میں سے چن چن کر اسے کھاتے تھے ۔ پھر انہیں ایک لاکھ بلکہ زیادہ آدمیوں کی طرف رسالت کے ساتھ بھیجا گیا ۔ ابن عباس فرماتے ہیں اس سے پہلے آپ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہ تھے ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں مچھلی کے پیٹ میں جانے سے پہلے ہی آپ اس قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے ۔ دونوں قولوں سے اس طرح تضاد اٹھ سکتا ہے کہ پہلے بھی ان کی طرف بھیجے گئے تھے اب دوبارہ بھی ان ہی کی طرف بھیجے گئے اور وہ سب ایمان لائے اور آپ کی تصدیق کی ۔ بغوی کہتے ہیں مچھلی کے پیٹ سے نجات پانے کے بعد دوسری قوم کی طرف بھیجے گئے تھے ۔ یہاں او معنی میں بلکہ کے ہے اور وہ ایک لاکھ تیس ہزار یا اس سے بھی کچھ اوپر ۔ یا ایک لاکھ چالیس ہزار سے بھی زیادہ یا ستر ہزار سے بھی زیادہ یا ایک لاکھ دس ہزار اور ایک غریب مرفوع حدیث کی رو سے ایک لاکھ بیس ہزار تھے ۔ یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ انسانی اندازہ ایک لاکھ سے زیادہ ہی کا تھا ۔ ابن جریر کا یہی مسلک ہے اور یہی مسلک ان کا آیت ( اَوْ اَشَدُّ قَسْوَةً 74؀ ) 2- البقرة:74 ) اور آیت ( اَوْ اَشَدَّ خَشْـيَةً 77؀ ) 4- النسآء:77 ) اور آیت ( اَوْ اَدْنٰى Ḍ۝ۚ ) 53- النجم:9 ) میں ہے یعنی اس سے کم نہیں اس سے زائد ہے ۔ پس قوم یونس سب کی سب مسلمان ہو گئی حضرت یونس کی تصدیق کی اور اللہ پر ایمان لے آئے ہم نے بھی ان کے مقررہ وقت یعنی موت کی گھڑی تک دنیوی فائدے دئے اور آیت میں ہے کسی بستی کے ایمان نے انہیں ( عذاب آ چکنے کے بعد ) نفع نہیں دیا سوائے قوم یونس کے وہ جب ایمان لائے تو ہم نے ان پر سے عذاب ہٹا لئے اور انہیں ایک معیاد معین تک بہرہ مند کیا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاِنَّ يُوْنُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ : ان کا نام حدیث میں یونس بن مَتّٰی آیا ہے۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لاَ یَنْبَغِيْ لِعَبْدٍ أَنْ یَّقُوْلَ أَنَا خَیْرٌ مِنْ یُوْنُسَ بْنِ مَتّٰی ) [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ : ( و إن یونس لمن المرسلین ) : ٣٤١٦ ] ” کسی بندے کے لائق نہیں کہ وہ کہے کہ میں یونس بن مَتّٰی سے بہتر ہوں۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور بیشک یونس (علیہ السلام) بھی پیغمبروں میں سے تھے (ان کا اس وقت کا قصہ یاد کیجئے) جبکہ (انہوں نے اپنی قوم سے ایمان نہ لانے پر بحکم الٰہی عذاب کی پیشنگوئی کی، اور خود وہاں سے چلے گئے اور جب متعین وقت پر عذاب کے آثار نمودار ہونے لگے تو قوم کو ایمان لانے کی غرض سے یونس (علیہ السلام) کی تلاش ہوئی، جب وہ نہ ملے تو سب نے متفق ہو کر حق تعالیٰ کے سامنے گریہ وزاری کی اور اجمالی طور پر ایمان لے آئے، اور وہ عذاب ٹل گیا، یونس (علیہ السلام) کو کسی ذریعہ سے یہ خبر معلوم ہوئی تو شرمندگی کی وجہ سے اپنے اجتہاد سے اللہ تعالیٰ کی صریح اجازت کے بغیر کہیں دور چلے جانے کا ارادہ کر کے اپنی جگہ سے) بھاگ کر (چلے، راہ میں دریا تھا، اس میں مسافروں سے بھری ہوئی کشتی تھی، اس) بھری ہوئی کشتی کے پاس پہنچے (کشتی چلی تو طوفان آیا، کشتی والے کہنے لگے کہ ہم میں کوئی نیا قصور وار ہے، اس کو کشتی سے علیحدہ کرنا چاہئے، اس شخص کو متعین کرنے کے لئے سب کا اتفاق اس پر ہوا کہ قرعہ ڈالا جائے) سو یونس (علیہ السلام) بھی شریک قرعہ ہوئے تو (قرعہ میں) یہی ملزم ٹھہرے (یعنی انہی کا نام نکلا، پس انہوں نے اپنے کو دریا میں ڈال دیا۔ شاید کنارہ قریب ہوگا، شن اوری کر کے کنارہ پر جا پہنچنے کا ارادہ ہوگا، پس شبہ خودکشی کا لازم نہیں آتا) پھر (جب دریا میں گرے تو ہمارے حکم سے) ان کو مچھلی نے (ثابت) نگل لیا اور یہ (اس وقت) اپنے کو (اس اجتہادی غلطی پر) ملامت کر رہے تھے (یہ تو دل سے توبہ ہوئی اور زبان سے بھی توحید و تسبیح کے ساتھ استغفار کر رہے تھے، جیسا دوسری آیت میں ہے (آیت) لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظلمین سو اگر وہ (اس وقت) تسبیح (و استغفار) کرنے والوں میں سے نہ ہوتے تو قیامت تک اسی کے پیٹ میں رہتے (مطلب یہ کہ پیٹ سے نکلنا میسر نہ ہوتا، بلکہ اس کی غذا بنا دیئے جاتے) سو (چونکہ انہوں نے تسبیح اور توبہ کی اس لئے) ہم نے (ان کو اس سے محفوظ رکھا اور مچھلی کے پیٹ سے نکال کر) ان کو ایک میدان میں ڈال دیا (یعنی مچھلی کو حکم دیا کہ کنارے پر اگل دے) اور وہ اس وقت مضمحل تھے (کیونکہ مچھلی کے پیٹ میں کافی ہوا اور غذا نہ پہنچتی تھی) اور ہم نے (دھوپ سے بچانے کے لئے) ان پر ایک بیلدار درخت بھی اگا دیا تھا (اور کوئی پہاڑی بکری انہیں دودھ پلا جاتی تھی) اور ہم نے ان کو ایک لاکھ یا اس سے بھی زیادہ آدمیوں کی طرف (شہر نینوا میں موصل کے قریب) پیغمبر بنا کر بھیجا تھا، پھر وہ لوگ ایمان لے آئے تھے (آثار عذاب دیکھ کر اجمالاً اور مچھلی کے واقعہ کے بعد حضرت یونس (علیہ السلام) وہاں دوبارہ تشریف لے گئے اس وقت تفصیلاً ) تو (ایمان کی برکت سے) ہم نے ان کو ایک زمانہ تک (یعنی مدت عمر تک خیر و خوبی سے) عیش دیا۔- معارف ومسائل - اس سورة میں آخری واقعہ حضرت یونس (علیہ السلام) کا بیان کیا گیا ہے۔ یہ واقعہ اور اس کی متعلقہ تفصیلات سورة یونس کے آخر میں گزر چکی ہیں (دیکھئے معارف القرآن، ص ٥٧ ٥، ج ٤) اور ان کا خلاصہ اوپر خلاصہ تفسیر میں بھی آ گیا ہے، اس لئے یہاں اعادہ کی ضرورت نہیں ہے، البتہ خاص ان آیتوں کے بارے میں چند ضروری باتیں درج ذیل ہیں :۔- وَاِنَّ يُوْنُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ ، بعض مفسرین اور مورخین نے اس پر بحث کی ہے کہ حضرت یونس (علیہ السلام) مچھلی کے واقعہ سے پہلے ہی رسول بنا دیئے گئے تھے یا بعد میں بنائے گئے ؟ بعض حضرات کا خیال ہے کہ مچھلی کے واقعہ کے بعد انہیں رسول بنایا گیا، لیکن قرآن کریم کے ظاہری اسلوب اور بیشتر روایات سے یہی راجح ہے کہ آپ کو پہلے ہی منصب رسالت پر فائز کردیا گیا تھا، مچھلی کا واقعہ بعد میں پیش آیا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِنَّ يُوْنُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ۝ ١٣٩ۭ- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٣٩۔ ١٤٠) یونس بھی پیغبروں میں سے تھے جبکہ وہ اپنی قوم کے پاس سے چل کر یا یہ کہ بھاگ کر ایک بھری ہوئی تیار کشتی کے پاس پہنچے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٣٩ وَاِنَّ یُوْنُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ ” اور یقینا یونس (علیہ السلام) بھی رسولوں میں سے تھا۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :77 یہ تیسرا موقع ہے جہاں حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے ۔ اس سے پہلے سورہ یونس اور سورہ انبیاء میں ان کا ذکر گزر چکا ہے اور ہم اس کی تشریح کر چکے ہیں ( ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ، صفحہ 312 ۔ 313 ۔ جلد سوم ، صفحہ 182 ۔ 183 )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani