Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٠] سیدنا یونس کی بلا اذن الہٰی ہجرت :۔ اَبَقَ کا لفظ بالخصوص ایک غلام کا اپنے آقا کے ہاں سے بھاگ کھڑا ہونے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ سیدنا یونس بھی چونکہ اللہ کے حکم ہجرت کے بغیر اپنی قوم کے لوگوں سے بھاگ آئے تھے اس لئے یہ لفظ استعمال کیا گیا اس میں لطیف اشارہ یہ ہے کہ ہر شخص حتیٰ کہ ہر نبی بھی اپنے پروردگار کا ہمہ وقتی غلام اور بندہ ہوتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِذْ اَبَقَ : ” أَبَقَ (ض، ن، س) إِبَاقًا وَ أَبْقًا وَ أَبَقًا، الْعَبْدُ “ غلام کے اپنے مالک کے پاس سے بھاگ جانے کو کہتے ہیں۔ یونس (علیہ السلام) چونکہ اپنے مالک (اللہ تعالیٰ ) کے حکم کا انتظار کیے بغیر اپنی قوم کو چھوڑ کر چلے گئے تھے، اس لیے ان کے جانے کے لیے ” اَبَقَ “ کا لفظ استعمال کیا گیا۔ یونس (علیہ السلام) اپنی قوم کو کب اور کیوں چھوڑ کر چلے گئے تھے ؟ اس کے لیے دیکھیے سورة یونس (٩٨) اور سورة انبیاء (٨٧) ۔- اِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ : بھری ہوئی کشتی سے مراد سامان اور مسافروں سے بھری ہوئی کشتی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اِذْ اَبَقَ اِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ (جب کہ وہ بھاگے بھری ہوئی کشتی کی طرف) لفظ ابق اباق سے نکلا ہے، جس کے معنی ہیں کسی غلام کا اپنے آقا کے پاس سے بھاگ جانا۔ یہ لفظ اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس (علیہ السلام) کے لئے اس وجہ سے استعمال فرمایا کہ وہ اپنے پروردگار کی طرف سے وحی کا انتظار کئے بغیر روانہ ہوگئے تھے۔ انبیاء (علیہم السلام) اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے ہوتے ہیں اور ان کی معمولی سی لغزش بھی بڑی گرفت کا سبب بن جاتی ہے، اس لئے یہ سخت لفظ استعمال کیا گیا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِذْ اَبَقَ اِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ۝ ١٤٠ۙ- أبق - قال اللہ تعالی: إِذْ أَبَقَ إِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ [ الصافات 140] . يقال : أَبَقَ العبد يَأْبِقُ إباقاً ، وأَبَقَ يَأْبَقُ : إذا هرب وعبد آبق وجمعه أُبَّاق، وتأبّق الرجل : تشبّه به في الاستتار، وقول الشاعر : قد أحكمت حکمات القدّ والأبقا قيل : هو القنّب .- ( اب ق ) ابق ( س ص ) العبد اباقا۔ غلام بھاگ گیا ۔ قرآن میں ہے :۔ إِذْ أَبَقَ إِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ [ الصافات : 140] جب بھاگ کر بھری ہوئی کشتی میں پہنچے آبق ( صفت فاعلی) بھاگا ہو اغلام و وجمعه أُبَّاق۔ تأبّق الرجل) ۔ وہ بھاگے ہوئے غلام کی طرح چھپ گیا اور شاعر کے قول (3) قداحکمت حکمات القد والابقا ( ان گھوڑوں کے چمڑے کے تسمے اور جوٹ کی کی کپٹیاں کسی ہوئی ہیں ) میں بعض نے کہا ہے کہ آبق کے معنی جوٹ یا اس کی رسی کے ہیں ۔ - فلك - الْفُلْكُ : السّفينة، ويستعمل ذلک للواحد والجمع، وتقدیراهما مختلفان، فإنّ الفُلْكَ إن کان واحدا کان کبناء قفل، وإن کان جمعا فکبناء حمر .- قال تعالی: حَتَّى إِذا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ [يونس 22] ، وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ [ البقرة 164] ، وَتَرَى الْفُلْكَ فِيهِ مَواخِرَ [ فاطر 12] ، وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف 12] . والفَلَكُ : مجری الکواكب، وتسمیته بذلک لکونه کالفلک، قال : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [يس 40] . وفَلْكَةُ المِغْزَلِ ، ومنه اشتقّ : فَلَّكَ ثديُ المرأة «1» ، وفَلَكْتُ الجديَ : إذا جعلت في لسانه مثل فَلْكَةٍ يمنعه عن الرّضاع .- ( ف ل ک ) الفلک - کے معنی سفینہ یعنی کشتی کے ہیں اور یہ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن دونوں میں اصل کے لحاظ سے اختلاف ہ فلک اگر مفرد کے لئے ہو تو یہ بروزن تفل ہوگا ۔ اور اگر بمعنی جمع ہو تو حمر کی طرح ہوگا ۔ قرآن میں ہے : حَتَّى إِذا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ [يونس 22] یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں سوار ہوتے ہو۔ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ [ البقرة 164] اور کشتیوں ( اور جہازوں ) میں جو دریا میں ۔۔ رواں ہیں ۔ وَتَرَى الْفُلْكَ فِيهِ مَواخِرَ [ فاطر 12] اور تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں دریا میں پانی کو پھاڑتی چلی جاتی ہیں ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف 12] اور تمہارے لئے کشتیاں اور چار پائے بنائے جن پر تم سوار ہوتے ہو۔ اور فلک کے معنی ستاروں کا مدار ( مجرٰی) کے ہیں اور اس فلک یعنی کشتی نما ہونے کی وجہ سے فلک کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [يس 40] سب اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں ۔ اور نلکتہ المغزل کے معنی چرخے کا دم کرہ کے ہیں اور اسی سے فلک ثدی المرءۃ کا محاورہ ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں عورت کی چھاتی کے دم کزہ طرح ابھر آنے کے ہیں اور فلقت الجدی کے معنی بکری کے بچے کی زبان پھاڑ کر اس میں پھر کی سی ڈال دینے کے ہیں ۔ تاکہ وہ اپنی ماں کے پستانوں سے دودھ نہ چوس سکے ۔- شحن - قال تعالی: فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ [ الشعراء 119] ، أي : المملوء، والشَّحْنَاءُ :- عداوة امتلأت منها النّفس . يقال : عدوّ مُشَاحِنٍ ، وأَشْحَنَ للبکاء : امتلأت نفسه لتهيّئه له .- ( ش ح ن ) الشحن ۔ کشتی یا جہاز میں سامان لادنا بھرنا قرآن میں ہے : فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ [ الشعراء 119] بھری ہوئی کشتی میں ( سوار ) تھے ۔ الشحناء کینہ و عداوت جس سے نفس پر اور بھر ہوا ہو عدو مشاحن بہت سخت دشمن گویا وہ دشمنی سے پر ہے ۔ اشحن للبکاء غم سے بھر کر رونے کیلئے آمادہ ہونا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٤٠ اِذْ اَبَقَ اِلَی الْفُلْکِ الْمَشْحُوْنِ ” جب وہ بھاگ کر پہنچا اس کشتی کی طرف جو ( پہلے سے ہی) بھری ہوئی تھی۔ “- لفظ ” اَبَقَ “ کسی غلام کا اپنے آقا کے ہاں سے بھاگ جانے پر بولا جاتا ہے۔ اس واقعے کا ذکر سورة یونس اور سورة الانبیاء میں بھی آچکا ہے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کی قوم نے آپ ( علیہ السلام) کو جھٹلا دیا اور ان کے مسلسل انکار اور کفر کے باعث اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو تباہ کرنے کا فیصلہ فرما لیا۔ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا قانون اور طریقہ یہی رہا ہے کہ کسی قوم پر عذاب سے قبل رسول کو وہاں سے نکل جانے کا حکم دیا جاتا اور رسول کے ہجرت کر جانے کے بعد متعلقہ قوم کو نیست و نابود کردیا جاتا۔ حضرت یونس (علیہ السلام) سے اس ضمن میں یہ لغزش ہوگئی کہ آپ ( علیہ السلام) حمیت ِحق کے جوش میں غضبناک ہو کر (سورۃ الانبیاء کی آیت ٨٧ میں اس حوالے سے اِذْ ذَّھَبَ مُغَاضِبًا کے الفاظ آئے ہیں) اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح اجازت ملنے سے قبل ہی اپنی قوم کو چھوڑ کر نکل آئے اور دجلہ یا فرات میں سے کسی دریا کو پار کرنے کے لیے کشتی پر سوار ہوگئے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :78 اصل میں لفظ اَبَقَ استعمال ہوا ہے جو عربی زبان میں صرف اس وقت بولا جاتا ہے جبکہ غلام اپنے آقا کے ہاں سے بھاگ جائے ۔ الاباق ھرب العبد من سیدہ ۔ اِباق کے معنی ہیں غلام کا اپنے آقا سے فرار ہو جانا ( لسان العرب )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

26: حضرت یونس علیہ السلام کا واقعہ اِختصار کے ساتھ سورۂ یونس (۱۰:۹۸) میں بھی گذر چکا ہے، اور سورۂ انبیاء (۲۱:۸۷) میں بھی۔ وہ عراق کے شہر نینوا میں بھیجے گئے تھے، اور اُنہوں نے ایک عرصے تک اپنی قوم کو ایمان لانے کی دعوت دی، اور جب وہ نہ مانی تو اُنہیں متنبہ کردیا کہ اب تم پر تین دن کے اندر اندر عذاب آکر رہے گا، قوم کے لوگوں نے آپس میں یہ طے کیا کہ حضرت یونس علیہ السلام چونکہ کبھی جُھوٹ نہیں بولتے، اِس لئے اگر وہ بستی سے چلے جاتے ہیں تو یہ اس بات کی علامت ہوگی کہ وہ ٹھیک کہہ رہے تھے، اس کے بعد حضرت یونس علیہ السلام اﷲ تعالیٰ کے حکم سے بستی چھوڑ کر باہر چلے گئے، اِدھر بستی کے لوگوں نے جب دیکھا کہ آپ بستی میں نہیں ہیں، اور کچھ عذاب کے آثار بھی محسوس کئے تو اُنہوں نے اﷲ تعالیٰ سے عاجزی کے ساتھ توبہ کی جس کے نتیجے میں اُن سے عذاب ٹل گیا، حضرت یونس علیہ السلام کو اُن کی توبہ کا حال معلوم نہیں تھا، اور جب اُنہوں نے یہ دیکھا کہ تین دن گزرگئے اور عداب نہیں آیا تو اُنہیں ڈرہوا کہ اگر میں بستی میں واپس جاؤں گا تو بستی والے مجھے جھوٹا بنائیں گے، اور اندیشہ یہ بھی تھا کہ جُھوٹا سمجھ کر قتل نہ کردیں، اس لئے اس خوف کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ کا حکم آنے سے پہلے ہی وہ اپنی بستی میں جانے کے بجائے سمندر کی طرف نکل کھڑے ہوئے، اور ایک کشتی میں سوار ہوگئے جو آدمیوں سے بھری ہوئی تھی۔ اﷲ تعالیٰ کے ایک جلیل القدر پیغمبر ہونے کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ کو آپ کی یہ بات پسند نہیں آئی کہ آپ اﷲ تعالیٰ کا حکم آنے سے پہلے بستی کو چھوڑکر کیوں چلے گئے۔ بڑے لوگوں کی معمولی چُوک پر بھی گرفت ہوتی ہے، اس لئے اﷲ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ کشتی وزن زیادہ ہونے کی وجہ سے ڈُدبنے کے قریب آگئی، اور قرعہ اندازی کی گئی کہ ایک شخص کو کشتی سے باہر پانی میں اتارا جائے، کئی مرتبہ قرعہ ڈالا گیا اور ہر بار قرعے میں انہی کا نام نکلا، چنانچہ اُنہیں پانی میں پھینک دیا گیا، جہاں اﷲ تعالیٰ کے حکم سے ایک بڑی مچھلی آپ کی منتظر تھی، اُس نے آپ کو نگل لیا، اور آپ کچھ عرصے مچھلی کے پیٹ میں رہے۔ بعض روایتوں میں ہے کہ تین دن اس میں گذرے، اور بعض میں ہے کہ چند گھنٹے مچھلی کے پیٹ میں رہے، جیسا کہ سورۃ انبیاء میں گزرا ہے، وہاں آپ یہ تسبیح پڑھتے رہے کہ :’’ لَآ اِلٰہَ اِلآَّ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ‘‘۔