وَاِذَا رَاَوْا اٰيَةً يَّسْتَسْخِرُوْنَ : ” سَخِرَ یَسْخَرُ “ (س) مذاق اڑانا اور ” اِسْتَسْخَرَ “ (استفعال) میں حروف زیادہ ہونے کی وجہ سے معنی میں مبالغہ پیدا ہوگیا، اس لیے ترجمہ میں لفظ ” خوب “ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یعنی جب کوئی معجزہ دیکھتے ہیں، مثلاً چاند کا پھٹنا یا آپ کا راتوں رات مسجد اقصیٰ تک سیر کر کے آجانا اور اس کے متعلق ان کے ہر سوال کا درست جواب دینا وغیرہ، تو ایمان لانے کے بجائے خوب مذاق اڑاتے ہیں۔
(آیت) واذاراوا آیة یستسخرون، الخ، یعنی جب کوئی معجزہ دیکھتے ہیں جو آپ کی نبوت اور بالآخر عقیدہ آخرت پر دلالت کرتا ہے، تو یہ اسے بھی ٹھٹھوں میں اڑا کر یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو کھلا جادو ہے۔ اور اس سارے تمسخر و استہزاء کی ان کے پاس ایک ہی دلیل ہے اور وہ یہ کہ : (آیت) ءاذا متنا وکنا تراباً وعظاماً انا لمبعوثون او آباؤنا الاولون، یعنی یہ بات ہمارے تصور میں نہیں آتی کہ ہم یا ہمارے آباء و اجداد خاک ہوجانے اور ہڈیاں بن جانے کے بعد دوبارہ کیسے زندہ کردیئے جائیں گے ؟ اس لئے ہم نہ کوئی عقلی دلیل مانتے ہیں اور نہ کسی معجزے وغیرہ کو تسلیم کرتے ہیں۔ باری تعالیٰ نے اس کے جواب میں صرف ایک جملہ آخر میں ارشاد فرمایا : (آیت) قل نعم وانتم داخرون، ” یعنی آپ کہہ دیجئے کہ ہاں تم ضرور دوبارہ زندہ ہوگے اور ذلیل و خوار ہو کر زندہ ہو گے “- دیکھنے میں تو یہ ایک حاکمانہ جواب ہے، جیسا ہٹ دھرمی کرنے والوں کو دیا جاتا ہے، لیکن تھوڑا سا غور کیا جائے تو یہ ایک پوری دلیل بھی ہے، جس کی تشریح امام رازی نے تفسیر کبیر میں کی ہے۔ اور وہ اس طرح کہ اوپر دوبارہ زندہ ہونے کی عقلی دلیل سے ثابت ہوچکا ہے کہ انسانوں کا مر کر پھر زندہ ہونا کوئی ناممکن بات نہیں، اور یہ قاعدہ ہے کہ جو بات عقلاً ممکن ہو اس کا واقعتا وجود میں آجانا کسی سچے خبر دینے والے کی خبر سے ثابت ہوسکتا ہے۔ جب یہ بات طے ہوگئی کہ دوبارہ زندہ ہونا ممکن ہے تو اس کے بعد کسی سچے نبی کا صرف اتنا کہہ دینا کہ ” ہاں تم ضرور دوبارہ زندہ ہو گے “ اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ یہ واقعہ ضرور پیش آ کر رہے گا۔
وَاِذَا رَاَوْا اٰيَۃً يَّسْتَسْخِرُوْنَ ١٤۠- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- سخر - التَّسْخِيرُ : سياقة إلى الغرض المختصّ قهرا، قال تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية 13] - ( س خ ر ) التسخیر - ( تفعیل ) کے معنی کسی کو کسی خاص مقصد کی طرف زبر دستی لیجانا کے ہیں قرآن میں ہے وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية 13] اور جو کچھ آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اس نے ( اپنے کرم سے ) ان سب کو تمہارے کام میں لگا رکھا ہے ۔
آیت ١٤ وَاِذَا رَاَوْا اٰیَۃً یَّسْتَسْخِرُوْنَ ” اور جب کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو مذاق اڑاتے ہیں۔ “