Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

15۔ 1 یعنی یہ ان کا شیوہ ہے کہ نصیحت قبول نہیں کرتے اور کوئی واضح دلیل یا معجزہ پیش کیا جائے تو مذاق کرتے اور انہیں جادو باور کراتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩] بلکہ عجیب باتیں تو یہ لوگ بناتے ہیں جو اللہ کی ان آیات کو کسی طلسماتی دنیا کی باتیں سمجھتے ہیں کہ جب ہم مرجائیں گے تو پھر دوبارہ جی اٹھیں گے۔ پھر ہم سب کے سب اللہ کی عدالت میں پیش ہوں گے پھر لوگوں کے اعمال کے فیصلے ہوں گے۔ پھر ایک طرف جہنم ہوگی جس کے یہ اور یہ اوصاف ہونگے۔ اور ایک طرف جنت ہوگی جس کے یہ اور یہ اوصاف ہوں گے۔ ایسی باتیں کسی خیالی دنیا کے متعلق تو کی جاسکتی ہیں۔ بھلا ایک بھلا چنگا اور درست عقل والا آدمی ایسی باتیں کیسے کہہ سکتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس پر کسی نے جادو کردیا ہے جو یہ یک لخت ایسی تصوراتی اور بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَقَالُوْٓا اِنْ ھٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِيْنٌ: یعنی ہر معجزے کو جادو قرار دے کر ایمان لانے سے انکار کردیتے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معجزات کا ثبوت :- (آیت) واذاراو ایة الخ میں ” آیة “ کے لغوی معنی نشانی کے ہیں، اور اس سے یہاں مراد معجزہ ہے۔ لہٰذا یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے علاوہ بھی کچھ معجزات عطا فرمائے تھے، اور اس سے ان ملحدین کی تردید ہوجاتی ہے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معجزات کو حسی اسباب کے تابع قرار دے کر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آپ کے دست مبارک پر قرآن کریم کے سوا کوئی معجزہ ظاہر نہیں کیا گیا۔- چوتھی آیت میں اللہ تعالیٰ نے صاف ارشاد فرمایا ہے : واذا راو آیة یستسخرون (جب یہ کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو اس کا ٹھٹھا اڑاتے ہیں) بعض منکرین معجزات کہتے ہیں کہ یہاں ” آیة “ سے مراد معجزہ نہیں بلکہ عقلی دلائل ہیں۔ لیکن یہ بات اس لئے غلط ہے کہ اگلی آیت میں ہے (آیت) وقالوا ان ھذا الا سحر مبین، ” یعنی وہ کہتے ہیں کہ یہ تو کھلا جادو ہے “۔ ظاہر ہے کہ کسی دلیل کو کھلا جادو قرار دینے کا کوئی تک نہیں ہے، یہ بات وہ معجزہ دیکھ کر ہی کہہ سکتے ہیں۔- بعض منکرین معجزات یہ بھی کہتے ہیں کہ ” آیة “ سے مراد قرآن کریم کی آیات ہیں کہ یہ لوگ انہیں جادو قرار دیتے ہیں۔ لیکن قرآن کریم کا لفظ ” راوا “ (دیکھتے ہیں) اس کی صاف تردید کر رہا ہے۔ آیات قرآنی کو دیکھا نہیں، سنا جاتا تھا۔ چناچہ قرآن کریم میں جہاں کہیں آیات قرآنی کا ذکر ہے وہاں اس کے ساتھ سننے کے الفاظ آئے ہیں دیکھنے کے نہیں، اور قرآن کریم میں جگہ جگہ ” آیة “ کا لفظ معجزہ کے معنی میں آیا ہے۔ مثلاً حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے فرعون کا مطالبہ نقل کرتے ہوئے ارشاد ہے :- ” ان کنت جئت بایة فات بھا ان کنت من الصادقین “- ” اگر تم کوئی معجزہ لے کر آئے ہو تو لاؤ، اگر سچے ہو “- اسی کے جواب میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے لاٹھی کو سانپ بنانے کا معجزہ دکھلایا تھا۔- رہیں قرآن کریم کی وہ آیات جن میں مذکور ہے کہ آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معجزہ دکھانے کے مطالبہ کو نہیں مانا۔ سو درحقیقت وہاں بار بار معجزات دکھائے جا چکے تھے لیکن وہ ہر روز اپنی مرضی کا ایک نیا معجزہ طلب کرتے تھے، اس کے جواب میں معجزہ دکھانے سے انکار کیا گیا۔ اس لئے کہ اللہ کا نبی اللہ کے حکم سے معجزات دکھاتا ہے، اگر کوئی پھر بھی اس کی بات نہ مانے تو ہر روز ایک نیا معجزہ ظاہر کرنا نبی کے وقار کے بھی خلاف ہے، اور اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بھی۔- اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کا دستور یہ رہا ہے کہ جب کسی قوم کو اس کا مطلوبہ معجزہ عطا کردیا گیا اور اس کے بعد بھی وہ ایمان نہیں لائی، تو عذاب عام کے ذریعہ اس کو ہلاک کیا گیا امت محمدیہ کو چونکہ باقی رکھنا اور عذاب عام سے بچانا پیش نظر تھا اس لئے اسے مطلوبہ معجزہ نہیں دکھایا گیا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَقَالُوْٓا اِنْ ھٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِيْنٌ۝ ١٥ۚۖ- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- سحر - والسِّحْرُ يقال علی معان :- الأوّل : الخداع وتخييلات لا حقیقة لها، نحو ما يفعله المشعبذ بصرف الأبصار عمّا يفعله لخفّة يد، وما يفعله النمّام بقول مزخرف عائق للأسماع، وعلی ذلک قوله تعالی:- سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] - والثاني :- استجلاب معاونة الشّيطان بضرب من التّقرّب إليه، کقوله تعالی:- هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء 221- 222] ، - والثالث :- ما يذهب إليه الأغتام «1» ، وهو اسم لفعل يزعمون أنه من قوّته يغيّر الصّور والطّبائع، فيجعل الإنسان حمارا، ولا حقیقة لذلک عند المحصّلين . وقد تصوّر من السّحر تارة حسنه، فقیل : «إنّ من البیان لسحرا» «2» ، وتارة دقّة فعله حتی قالت الأطباء : الطّبيعية ساحرة، وسمّوا الغذاء سِحْراً من حيث إنه يدقّ ويلطف تأثيره، قال تعالی: بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر 15] ، - ( س ح ر) السحر - اور سحر کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے اول دھوکا اور بےحقیقت تخیلات پر بولاجاتا ہے - جیسا کہ شعبدہ باز اپنے ہاتھ کی صفائی سے نظرون کو حقیقت سے پھیر دیتا ہے یانمام ملمع سازی کی باتین کرکے کانو کو صحیح بات سننے سے روک دیتا ہے چناچہ آیات :۔ سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] تو انہوں نے جادو کے زور سے لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان سب کو دہشت میں ڈال دیا ۔ - دوم شیطان سے کسی طرح کا تقرب حاصل کرکے اس سے مدد چاہنا - جیسا کہ قرآن میں ہے : هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء 221- 222] ( کہ ) کیا تمہیں بتاؤں گس پر شیطان اترا کرتے ہیں ( ہاں تو وہ اترا کرتے ہیں ہر جھوٹے بدکردار پر ۔- اور اس کے تیسرے معنی وہ ہیں جو عوام مراد لیتے ہیں - یعنی سحر وہ علم ہے جس کی قوت سے صور اور طبائع کو بدلا جاسکتا ہے ( مثلا ) انسان کو گدھا بنا دیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت شناس علماء کے نزدیک ایسے علم کی کچھ حقیقت نہیں ہے ۔ پھر کسی چیز کو سحر کہنے سے کبھی اس شے کی تعریف مقصود ہوتی ہے جیسے کہا گیا ہے (174)- ان من البیان لسحرا ( کہ بعض بیان جادو اثر ہوتا ہے ) اور کبھی اس کے عمل کی لطافت مراد ہوتی ہے چناچہ اطباء طبیعت کو ، ، ساحرۃ کہتے ہیں اور غذا کو سحر سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ اس کی تاثیر نہایت ہی لطیف ادرباریک ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر 15]( یا ) یہ تو نہیں کہ ہم پر کسی نے جادو کردیا ہے ۔ یعنی سحر کے ذریعہ ہمیں اس کی معرفت سے پھیر دیا گیا ہے ۔- مبینبَيَان - والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : - البیان يكون علی ضربین :- أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة .- والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم 10] .- وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 43- 44] ، وسمّي الکلام بيانا لکشفه عن المعنی المقصود إظهاره نحو : هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران 138] .- وسمي ما يشرح به المجمل والمبهم من الکلام بيانا، نحو قوله : ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة 19] ، ويقال : بَيَّنْتُهُ وأَبَنْتُهُ : إذا جعلت له بيانا تکشفه، نحو : لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] ، وقال : نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص 70] ، وإِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات 106] ، وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف 52] ، أي : يبيّن، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] .- البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر ( بھیجا تھا ۔ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 43- 44] اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادات ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ اور کلام کو بیان کہا جاتا ہے کیونکہ انسان اس کے ذریعہ اپنے مافی الضمیر کو ظاہر کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران 138] ( قرآن لوگوں کے لئے بیان صریح ہو ۔ اور مجمل مہیم کلام کی تشریح کو بھی بیان کہا جاتا ہے جیسے ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة 19] پھر اس ( کے معافی ) کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے ۔ بینہ وابنتہ کسی چیز کی شروع کرنا ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] تاکہ جو ارشادت لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص 70] کھول کر ڈرانے والا ہوں ۔إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات 106] شیہ یہ صریح آزمائش تھی ۔ وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف 52] اور صاف گفتگو بھی نہیں کرسکتا ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] . اور جگڑے کے وقت بات نہ کرسکے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٥ وَقَالُوْٓا اِنْ ہٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ ” اور کہتے ہیں کہ یہ تو کچھ نہیں مگر ایک کھلا جادو۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :10 یعنی عالم طلسمات کی باتیں ہیں ۔ کوئی جادو کی دنیا ہے جس کا یہ شخص ذکر کر رہا ہے ، جس میں مردے اٹھیں گے ، عدالت ہو گی ، جنت بسائی جائے گی اور دوزخ کے عذاب ہوں گے ۔ یا پھر یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ یہ شخص دل چلوں کی سی باتیں کر رہا ہے ، اس کی یہ باتیں ہی اس بات کا صریح ثبوت ہیں کہ کسی نے اس پر جادو کر دیا ہے جس کی وجہ سے بھلا چنگا آدمی یہ باتیں کرنے لگا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani