Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٧] اللہ تعالیٰ نے آپ کو اسی قوم کے ہاں جانے کا حکم دیا۔ جس سے آپ بھاگ آئے تھے۔ ان کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔ انہوں نے جس آہ وزاری سے توبہ کی تھی اللہ نے ان کی توبہ قبول کرکے ان سے عذاب کو ٹال دیا تھا اور وہ کسی رہنمائی کرنے والے کے منتظر تھے۔ سیدنا یونس کو تلاش کرتے رہے۔ مگر وہ کہیں نہ ملے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاَرْسَلْنٰهُ اِلٰى مِائَةِ اَلْفٍ اَوْ يَزِيْدُوْنَ : تندرست ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے انھیں پھر ایک لاکھ یا اس سے زیادہ افراد پر مشتمل آبادی کی طرف پیغام حق پہنچانے کے لیے بھیج دیا۔ اکثر مفسرین کا کہنا ہے کہ یہ وہی آبادی تھی جہاں سے وہ ناراض ہو کر گئے تھے اور جن کی توبہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو عذاب سے محفوظ رکھا تھا۔ یہاں ایک سوال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں جو لفظ ” اَوْ “ استعمال فرمایا ہے کہ ہم نے اسے ایک لاکھ کی طرف بھیجا ” یا “ وہ زیادہ ہوں گے، یہ لفظ تو شک کے لیے استعمال ہوتا ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ کے لیے شک کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ یہ دیکھنے والوں کے لحاظ سے ہے کہ اگر کوئی انھیں دیکھے تو کہے گا کہ ایک لاکھ ہیں یا اس سے زیادہ ہیں۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ یہاں ” اَوْ “ بمعنی ” بَلْ “ ہے، اور اسی کے مطابق ترجمہ کیا گیا ہے ” بلکہ وہ زیادہ ہوں گے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) وَاَرْسَلْنٰهُ اِلٰى مِائَةِ اَلْفٍ اَوْ يَزِيْدُوْنَ (اور ہم نے ان کو ایک لاکھ یا اس سے بھی زیادہ آدمیوں کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا تھا) یہاں یہ اشکال ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو علیم و خیبر ہیں، ان کو اس شک کے اظہار کی کیا ضرورت ہے کہ ایک لاکھ یا اس سے زیادہ آدمی تھے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ جملہ عام لوگوں کی مناسبت سے کہا گیا ہے، یعنی ایک عام آدمی انہیں دیکھتا تو یہ کہتا کہ ان کی تعداد ایک لاکھ یا اس سے کچھ اوپر ہے (مظہری) اور حضرت تھانوی نے فرمایا کہ یہاں شک کا اظہار مقصود ہی نہیں ہے، انہیں ایک لاکھ بھی کہا جاسکتا ہے، اور اس سے زیادہ بھی، اور وہ اس طرح کہ اگر کسر کا لحاظ نہ کیا جائے تو ان کی تعداد ایک لاکھ تھی اور اگر کسر بھی شمار کیا جائے تو ایک لاکھ سے زیادہ (بیان القرآن)- یہ جملہ چونکہ مچھلی کے واقعہ کے بعد آیا ہے اس لئے اس سے بعض مفسرین نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ حضرت یونس (علیہ السلام) کی بعثت اس واقعہ کے بعد ہوئی تھی۔ اور علامہ بغوی نے یہاں تک فرما دیا کہ اس آیت میں نینوا کی طرف بعثت کا ذکر نہیں ہے، بلکہ مچھلی کے واقعہ کے بعد انہیں ایک دوسری امت کی طرف بھیجا گیا، جس کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی، لیکن قرآن کریم اور روایات سے ان کے اس قول کی تائید نہیں ہوتی، یہاں حضرت یونس (علیہ السلام) کے واقعہ کے شروع ہی میں آپ کی رسالت کا تذکرہ صاف بتارہا ہے کہ مچھلی کا واقعہ رسول بننے کے بعد پیش آیا ہے، اس کے بعد یہاں اس جملے کو دوبارہ اس لئے لایا گیا کہ حضرت یونس (علیہ السلام) کی تندرستی کے بعد انہیں دوبارہ وہیں بھیجا گیا تھا یہاں یہ واضح کردیا کہ وہ لوگ معدودے چند افراد نہیں تھے بلکہ ان کی تعداد لاکھ سے بھی اوپر تھی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاَرْسَلْنٰہُ اِلٰى مِائَۃِ اَلْفٍ اَوْ يَزِيْدُوْنَ۝ ١٤٧ۚ- رسل ( ارسال)- والْإِرْسَالُ يقال في الإنسان، وفي الأشياء المحبوبة، والمکروهة، وقد يكون ذلک بالتّسخیر، كإرسال الریح، والمطر، نحو : وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام 6] ، وقد يكون ببعث من له اختیار، نحو إِرْسَالِ الرّسل، قال تعالی: وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام 61] ، فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 53] ، وقد يكون ذلک بالتّخلية، وترک المنع، نحو قوله : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم 83] ، والْإِرْسَالُ يقابل الإمساک . قال تعالی: ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر 2] - ( ر س ل ) الرسل - الارسال ( افعال ) کے معنی بھیجنے کے ہیں اور اس کا اطلاق انسان پر بھی ہوتا ہے اور دوسری محبوب یا مکروہ چیزوں کے لئے بھی آتا ہے ۔ کبھی ( 1) یہ تسخیر کے طور پر استعمال ہوتا ہے جیسے ہوا بارش وغیرہ کا بھیجنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام 6] اور ( اوپر سے ) ان پر موسلادھار مینہ برسایا ۔ اور کبھی ( 2) کسی بااختیار وار وہ شخص کے بھیجنے پر بولا جاتا ہے جیسے پیغمبر بھیجنا چناچہ قرآن میں ہے : وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام 61] اور تم لوگوں پر نگہبان ( فرشتے ) تعنیات رکھتا ہے ۔ فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 53] اس پر فرعون نے ( لوگوں کی بھیڑ ) جمع کرنے کے لئے شہروں میں ہر کارے دوڑائے ۔ اور کبھی ( 3) یہ لفظ کسی کو اس کی اپنی حالت پر چھوڑے دینے اور اس سے کسی قسم کا تعرض نہ کرنے پر بولاجاتا ہے ہے جیسے فرمایا : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم 83]( اے پیغمبر ) کیا تم نے ( اس باٹ پر ) غور نہیں کیا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے کہ وہ انہیں انگینت کر کے اکساتے رہتے ہیں ۔ اور کبھی ( 4) یہ لفظ امساک ( روکنا ) کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر 2] تو اللہ جو اپنی رحمت دے لنگر لوگوں کے لئے ) کھول دے تو کوئی اس کا بند کرنے والا نہیں اور بندے کرے تو اس کے ( بند کئے ) پیچھے کوئی اس کا جاری کرنے والا نہیں ۔- مئة- المِائَة : الثالثةُ من أصول الأَعداد، وذلک أنّ أصول الأعداد أربعةٌ: آحادٌ ، وعَشَرَاتٌ ، ومِئَاتٌ ، وأُلُوفٌ. قال تعالی: فَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ صابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ [ الأنفال 66] ، وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفاً مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 65] ومائة آخِرُها محذوفٌ ، يقال :- أَمْأَيْتُ الدَّراهِمَ فَأَمَّأَتْ هي، أي : صارتْ ذاتَ مِائَةٍ.- م ی ء ) المائۃ - ( سو ) یہ اصول میں تیسری اکائی کا نام ہے کیونکہ اصول اعداد چار ہیں آحا د عشرت مئات اور الوف ۔۔۔ قرآن پاک میں ہے :۔ فَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ صابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ [ الأنفال 66] پس اگر تم میں ایک سو ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب رہیں گے ۔ وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفاً مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 65] اور اگر سو ( ایسے ) ہوں گے تو ہزاروں پر غالب رہیں گے ۔ اور مائۃ کا آخر ی حرف یعنی لام کلمہ مخذوف ہے ۔ اما یت الدرھم فا ماتھی یعنی میں نے دراہم کو سو کیا تو وہ سو ہوگئے ۔ - زاد - الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] - ( زی د ) الزیادۃ - اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

او جب اللہ کی طرف منسوب ہو تو شک کے بجائے بلکہ کے معنی میں ہوگا - قول باری ہے (وارسلناہ الی مائۃ الف اویزیدون۔ اور ہم نے ان کو ایک لاکھ (آبادی) یا اس سے زائد کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا گیا تھا) حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے ” بلکہ وہ ایک لاکھ سے زیادہ تھے۔ “ ایک قول کے مطابق یہاں حرف آئو کے معنی ایہام کے ہیں گویا یوں فرمایا گیا ” ہم نے انہیں ان دو میں سے ایک تعداد کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا تھا۔ “- ایک قول کے مطابق اس شک کا تعلق مخاطبین سے ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف شک کی نسبت جائز نہیں ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور ہم نے ان کو ایک لاکھ بلکہ اس سے بھی بیس ہزار زائد آدمیوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا تھا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٤٧ وَاَرْسَلْنٰـہُ اِلٰی مِائَۃِ اَلْفٍ اَوْ یَزِیْدُوْنَ ” پھر ہم نے اس کو بھیج دیا ایک لاکھ یا اس سے زیادہ لوگوں کی طرف۔ “- یعنی صحت یاب ہوجانے کے بعد آپ ( علیہ السلام) کو دوبارہ رسالت کی ذمہ داریاں سونپ دی گئیں۔ قرآن میں اس حوالے سے کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ دوبارہ آپ ( علیہ السلام) کو اپنی ہی قوم کی طرف بھیجا گیا تھا یا کسی اور قوم کی طرف۔ لیکن گمان غالب یہی ہے کہ آپ ( علیہ السلام) دوبارہ اپنی ہی قوم میں مبعوث ہوئے اور اس آیت میں آپ ( علیہ السلام) ہی کی قوم کی تعداد کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ بہر حال سورة یونس میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ آپ ( علیہ السلام) کی قوم کی توبہ قبول کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ان سے عذاب کو ٹال دیا تھا۔ سورة یونس کی آیت ٩٨ میں یہ وضاحت بھی ملتی ہے کہ یہ استثناء صرف قوم یونس ہی کو حاصل ہے۔ یعنی پوری انسانی تاریخ میں واحد مثال ہے کہ عذاب کے آثار ظاہر ہوجانے کے بعد آپ ( علیہ السلام) کی قوم کی توبہ قبول کرلی گئی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :84 ایک لاکھ یا اس سے زائد کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ان کی تعداد میں شک تھا ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی ان کی بستی کو دیکھتا تو یہی اندازہ کرتا کہ اس شہر کی آبادی ایک لاکھ سے زائد ہی ہو گی ، کم نہ ہو گی ۔ اغلب یہ ہے کہ یہ وہی بستی تھی جس کو چھوڑ کر حضرت یونس بھاگے تھے ۔ ان کے جانے کے بعد عذاب آتا دیکھ کر جو ایمان اس بستی کے لوگ لے آئے تھے اس کی حیثیت صرف توبہ کی تھی جسے قبول کر کے عذاب ان پر سے ٹال دیا گیا تھا ۔ اب حضرت یونس علیہ السلام دوبارہ ان کی طرف بھیجے گئے تاکہ وہ نبی پر ایمان لا کر باقاعدہ مسلمان ہو جائیں ۔ اس مضمون کو سمجھنے کے لیے سورہ یونس ، آیت 98 نگاہ میں رہنی چاہیے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani