Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

148۔ 1 ان کے ایمان لانے کی کیفیت کا بیان (فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَهَآ اِيْمَانُهَآ اِلَّا قَوْمَ يُوْنُسَ ۭ لَمَّآ اٰمَنُوْا كَشَفْنَا عَنْھُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنٰھُمْ اِلٰى حِيْنٍ ) 10 ۔ یونس :98) میں گزر چکا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٨] سیدنا یونس کا اپنی قوم میں واپس آنا :۔ جب سیدنا یونس اپنی قوم کے پاس پہنچے تو وہ پہلے ہی آپ کے منتظر بیٹھے تھے۔ وہ فوراً آپ پر ایمان لے آئے۔ اور پھر سے ان پر اللہ تعالیٰ کے انعامات و اکرامات ہونے لگے۔ چونکہ اس واقعہ میں سیدنا یونس کے ایک کمزور پہلو کی نشاندہی ہوتی ہے۔ غالباً اسی لئے رسول اللہ نے یہ بتاکید فرما دیا کہ تمام انبیاء نبی ہونے کے لحاظ سے برابر ہیں اور کسی نبی کو دوسرے پر فضیلت نہیں۔ ایک حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ مجھے یونس بن متیٰ پر فضیلت نہ دو اور دوسری حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ جس نے مجھے یونس بن متیٰ پر فضیلت دی اس نے جھوٹ بولا (مسلم۔ کتاب الفضائل۔ باب من فضائل موسیٰ )- دراصل یہ یونس کی ایک اجتہادی غلطی تھی۔ اور یہ ہر انسان حتیٰ کہ انبیاء سے بھی ممکن ہے۔ لیکن مقربین کی چھوٹی سی غلطی اور لغزش بھی اللہ کے ہاں بڑی اور قابل مواخذہ ہوتی ہے۔ اسی بنا پر انبیاء پر بھی اللہ کی طرف سے عتاب نازل ہوتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَاٰمَنُوْا : شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں : ” وہی قوم جس سے بھاگے تھے، ان پر ایمان لا رہی تھی۔ (وہ انھیں) ڈھونڈتی تھی کہ یہ جا پہنچے، (اس سے) ان کو بڑی خوشی ہوئی۔ “ (موضح)- فَمَتَّعْنٰهُمْ اِلٰى حِيْنٍ : یعنی انھیں عذاب سے بیک وقت ہلاک کرنے کے بجائے ہر ایک کو اس کی مقررہ عمر تک فائدہ اٹھانے کا موقع عطا فرمایا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

فَاٰمَنُوْا فَمَتَّعْنٰهُمْ اِلٰى حِيْنٍ (پس وہ ایمان لے آئے، سو ہم نے ان کو ایک زمانہ تک عیش دیا) ” ایک زمانہ تک “ کا مطلب یہ ہے کہ جب تک وہ دوبارہ کفر و شرک میں مبتلا نہیں ہوئے ان پر کوئی عذاب نہیں آیا۔- مرزا قادیانی کی تلبیس کا جواب :- یہ بات سورة یونس کی تفسیر میں بھی واضح کی جا چکی ہے اور اس آیت سے بھی واضح ہوتی ہے کہ حضرت یونس (علیہ السلام) کی قوم پر جو عذاب ٹلایا گیا وہ اس لئے کہ آپ کی قوم بروقت ایمان لے آئی تھی۔ اس سے پنجاب کے جھوٹے نبی مرزا غلام احمد قادیانی کی اس تلبیس کا خاتمہ ہوجاتا ہے کہ جب اس نے اپنے مخالفوں کو یہ چیلنج کیا کہ اگر وہ اس طرح مخالفت کرتے رہے تو خدا کا فیصلہ ہوچکا ہے کہ فلاں وقت تک عذاب الٰہی آجائے گا، لیکن مخالفین کی جدوجہد اور تیز ہوگئی پھر بھی عذاب نہ آیا، تب ناکامی کی ذلت سے بچنے کے لئے قادیانی نے یہ کہنا شروع کردیا کہ چونکہ مخالفین دل میں ڈر گئے ہیں اس لئے ان پر سے عذاب ٹل گیا، جس طرح یونس (علیہ السلام) کی قوم پر سے ٹل گیا تھا، لیکن قرآن کریم کی یہ آیت اس تاویل باطل کو مردود قرار دیتی ہے۔ اس لئے کہ قوم یونس (علیہ السلام) تو ایمان کی وجہ سے عذاب سے بچی تھی، اس کے برعکس مرزا قادیانی کے مخالفین نہ صرف یہ کہ ایمان نہیں لائے بلکہ ان کی مخالفانہ جدوجہد اور تیز ہوگئی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاٰمَنُوْا فَمَتَّعْنٰہُمْ اِلٰى حِيْنٍ۝ ١٤٨ۭ- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - متع - الْمُتُوعُ : الامتداد والارتفاع . يقال : مَتَعَ النهار ومَتَعَ النّبات : إذا ارتفع في أول النّبات، والْمَتَاعُ : انتفاعٌ ممتدُّ الوقت، يقال : مَتَّعَهُ اللهُ بکذا، وأَمْتَعَهُ ، وتَمَتَّعَ به . قال تعالی:- وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس 98] ،- ( م ت ع ) المتوع - کے معنی کیس چیز کا بڑھنا اور بلند ہونا کے ہیں جیسے متع النھار دن بلند ہوگیا ۔ متع النسبات ( پو دا بڑھ کر بلند ہوگیا المتاع عرصہ دراز تک فائدہ اٹھانا محاورہ ہے : ۔ متعہ اللہ بکذا وامتعہ اللہ اسے دیر تک فائدہ اٹھانے کا موقع دے تمتع بہ اس نے عرصہ دراز تک اس سے فائدہ اٹھایا قران میں ہے : ۔ وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس 98] اور ایک مدت تک ( فوائد دینوی سے ) ان کو بہرہ مندر کھا ۔- حين - الحین : وقت بلوغ الشیء وحصوله، وهو مبهم المعنی ويتخصّص بالمضاف إليه، نحو قوله تعالی: وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص 3] - ( ح ی ن ) الحین - ۔ اس وقت کو کہتے ہیں جس میں کوئی چیز پہنچے اور حاصل ہو ۔ یہ ظرف مبہم ہے اور اس کی تعین ہمیشہ مضاف الیہ سے ہوتی ہے جیسے فرمایا : ۔ وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص 3] اور وہ رہائی کا وقت نہ تھا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

سو وہ لوگ ان پر ایمان لے آئے تھے تو ہم نے ان کو مرنے تک بلا کسی تکلیف کے عیش دیا تھا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٤٨ فَاٰمَنُوْا فَمَتَّعْنٰہُمْ اِلٰی حِیْنٍ ” تو وہ ایمان لے آئے اور ہم نے انہیں متاع دنیوی عطا کردی ایک خاص وقت تک۔ “- یعنی ان کی توبہ اور ایمان کے بعد انہیں بقا کی ایک نئی مہلت ( ) دے دی گئی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :85 حضرت یونس کے اس قصے کے متعلق سورہ یونس اور سورہ انبیا کی تفسیریں جو کچھ ہم نے لکھا ہے اس پر بعض لوگوں نے اعتراضات کیے ہیں ، اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں دوسرے مفسرین کے اقوال بھی نقل کر دیے جائیں ۔ مشہور مفسر قَتَادہ سورہ یونس ، آیت 98 کی تفسیر میں فرماتے ہیں : کوئی بستی ایسی نہیں گزری ہے جو کفر کر چکی ہو اور عذاب آ جانے کے بعد ایمان لائی ہو اور پھر اسے چھوڑ دیا گیا ہو ۔ اس سے صرف قوم یونس مستثنیٰ ہے ۔ انہوں نے جب اپنے نبی کو تلاش کیا اور نہ پایا ، اور محسوس کیا کہ عذاب قریب آگیا ہے تو اللہ نے ان کے دلوں میں توبہ ڈال دی ( ابن کثیر ، جلد 2 ، ص 433 ) اسی آیت کی تفسیر علامہ آلوسی لکھتے ہیں : اس قوم کا قصہ یہ ہے کہ یونس علیہ السلام موصل کے علاقے میں نینویٰ کے لوگوں کی طرف بھیجے گئے تھے ۔ یہ کافر و مشرک لوگ تھے ۔ حضرت یونس نے ان کو اللہ وحدہ لا شریک پر ایمان لانے اور بتوں کی پرستش چھوڑ دینے کی دعوت دی ۔ انہوں نے انکار کیا اور جھٹلایا ۔ حضرت یونس نے ان کو خبر دی کہ تیسرے دن ان پر عذاب آجائے گا اور تیسرا دن آنے سے پہلے آدھی رات کو وہ بستی سے نکل گئے ۔ پھر دن کے وقت جب عذاب اس قوم کے سروں پر پہنچ گیاـــــــــ اور انہیں یقین ہو گیا کہ سب ہلاک ہو جائیں گے تو انہوں نے اپنے نبی کو تلاش کیا ، مگر نہ پایا ۔ آخر کار وہ سب اپنے بال بچوں اور جانوروں کو لے کر صحرا میں نکل آئے اور ایمان و توبہ کا اظہار کیا ــــــــ پس اللہ نے ان پر رحم کیا اور ان کی دعا قبول کر لی ( روح المعانی ، جلد 11 ، ص 170 ) سورہ انبیا کی آیت 87 کی تشریح کرتے ہوئے علامہ آلوسی لکھتے ہیں : حضرت یونس کا اپنی قوم سے ناراض ہو کر نکل جانا ہجرت کا فعل تھا ، مگر انہیں اس کا حکم نہیں دیا گیا تھا ( روح المعانی ، ج 17 ، ص 77 ) پھر وہ حضرت یونس علیہ السلام کی دعا کے فقرہ اِنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْن کا مطلب یوں بیان کرتے ہیں : یعنی میں قصور وار تھا کہ انبیاء کے طریقہ کے خلاف ، حکم آنے سے پہلے ، ہجرت کرنے میں جلدی کر بیٹھا ۔ یہ حضرت یونس علیہ السلام کی طرف سے اپنے گناہ کا اعتراف اور توبہ کا اظہار تھا تاکہ اللہ تعالیٰ ان کی اس مصیبت کو دور فرما دے ( روح المعانی ، ج 17 ، ص 78 ) مولانا اشرف علی تھانوی کا حاشیہ اس آیت پر یہ ہے کہ وہ اپنی قوم پر جبکہ وہ ایمان نہ لائی خفا ہوکر چل دیے اور قوم پر سے عذاب ٹل جانے کے بعد بھی خود واپس نہ آئے اور اس سفر کے لیے ہمارے حکم کا انتظار نہ کیا ( بیان القرآن ) اسی آیت پر مولانا شبیر احمد عثمانی حاشیہ میں فرماتے ہیں : قوم کی حرکات سے خفا ہو کر غصے میں بھرے ہوئے شہر سے نکل گئے ، حکم الٰہی کا انتظار نہ کیا اور وعدہ کر گئے کہ تین دن کے بعد تم پر عذاب آئے گا ـــــــ اِنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْن ، اپنے خطا کا اعتراف کیا کہ بے شک میں نے جلدی کی تیرے حکم کا انتظار کیے بدون بستی والوں کو چھوڑ کر نکل کھڑا ہوا ۔ سورہ صافات کی آیات بالا کی تشریح میں امام رازی لکھتے ہیں : حضرت یونس کا تصور یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس قوم کو جس نے انہیں جھٹلایا تھا ، ہلاک کرنے کا وعدہ فرمایا ، یہ سمجھے کہ یہ عذاب لا محالہ نازل ہونے والا ہے ، اس لیے انہوں نے صبر نہ کیا اور قوم کو دعوت دینے کا کام چھوڑ کر نکل گئے ، حالانکہ ان پر واجب تھا کہ دعوت کا کام برابر جاری رکھتے ، کیونکہ اس امر کا امکان باقی تھا کہ اللہ ان لوگوں کو ہلاک نہ کرے ( تفسیر کبیر ، ج 7 ، ص 185 ) علامہ آلوسی اِذْ اَبَقَ اِلَی الْفُلْکِ الْمَشْحُون پر لکھتے ہیں : ابق کے اصل معنی آقا کے ہاں سے غلام کے فرار ہونے کے ہیں ۔ چونکہ حضرت یونس اپنے رب کے اذن کے بغیر اپنی قوم سے بھاگ نکلے تھے اس لیے اس لفظ کا اطلاق ان پر درست ہوا ۔ پھر آگے چل کر لکھتے ہیں : جب تیسرا دن ہوا تو حضرت یونس اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر نکل گئے ۔ اب جو ان کی قوم نے ان کو نہ پایا تو وہ اپنے بڑے اور چھوٹے اور جانوروں ، سب کو لے کر نکلے ، اور نزول عذاب ان سے قریب تھا ، پس انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور زاری کی اور معافی مانگی اور اللہ نے انہیں معاف کر دیا ( روح المعانی ، جلد 23 ، ص ، 13 ) مولانا شبیر احمد صاحب وَھُوَ مُلِیْم کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : الزام یہی تھا کہ خطائے اجتہادی سے حکم الٰہی کا انتظار کیے بغیر بستی سے نکل پڑے اور عذاب کے دن کی تعیین کر دی ۔ پھر سورہ القلم کی آیت فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلَا تَکُنْ کَصَاحِبِ الْحُوْتِ پر مولانا شبیر احمد صاحب کا حاشیہ یہ ہے یعنی مچھلی کے پیٹ میں جانے والے پیغمبر ( حضرت یونس علیہ السلام ) کی طرح مکذبین کے معاملہ میں تنگ دلی اور گھبراہٹ کا اظہار نہ کیجیے ۔ اور اسی آیت کے فقرہ وَھُوَ مَکْظُوْم پر حاشیہ تحریر کرتے ہوئے مولانا فرماتے ہیں : یعنی قوم کی طرف سے غصے میں بھرے ہوئے تھے ۔ جھنجھلا کر شتابی عذاب کی دعا ، بلکہ پیشن کر بیٹھے ۔ مفسرین کے ان بیانات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تین قصور تھے جن کی وجہ سے حضرت یونس پر عتاب ہوا ۔ ایک یہ کہ انہوں نے عذاب کے دن کی خود ہی تعیین کر دی حالانکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا کوئی اعلان نہ ہوا تھا ۔ دوسرے یہ کہ وہ دن آنے سے پہلے ہجرت کر کے ملک سے نکل گئے ، حالانکہ نبی کو اس وقت تک اپنی جگہ نہ چھوڑنی چاہیے جب تک اللہ تعالیٰ کا حکم نہ آ جائے ۔ تیسرے یہ کہ جب اس قوم پر سے عذاب ٹل گیا تو واپس نہ گئے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

28: جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا، اور سورۂ یونس : 98 میں بھی گذر چکا ہے، حضرت یونس (علیہ السلام) کی قوم عذاب کے آثار دیکھ کر عذاب آنے سے پہلے ہی ایمان لے آئی تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان سے عذاب کو ہٹا دیا تھا اور وہ ایمان لا کر ایک عرصے تک زندہ رہے۔