مشرکین کا اللہ تعالیٰ کے لئے دوہرا معیار ۔ اللہ تعالیٰ مشرکوں کی بیوقوفی بیان فرما رہا ہے کہ اپنے لئے تو لڑکے پسند کرتے ہیں اور اللہ کے لئے لڑکیاں مقرر کرتے ہیں ۔ اگر لڑکی ہونے کی خبر یہ پائیں تو چہرے سیاہ پڑ جاتے ہیں اور اللہ کی لڑکیاں ثابت کرتے ہیں ۔ پس فرماتا ہے ان سے پوچھ تو سہی کہ یہ تقسیم کیسی ہے؟ کہ تمہارے تو لڑکے ہوں اور اللہ کے لئے لڑکیاں ہوں؟ پھر فرماتا ہے کہ یہ فرشتوں کو لڑکیاں کس ثبوت پر کہتے ہیں؟ کیا ان کی پیدائش کے وقت وہ موجود تھے ۔ قرآن کی اور آیت ( وَجَعَلُوا الْمَلٰۗىِٕكَةَ الَّذِيْنَ هُمْ عِبٰدُ الرَّحْمٰنِ اِنَاثًا ۭاَشَهِدُوْا خَلْقَهُمْ ۭ سَـتُكْتَبُ شَهَادَتُهُمْ وَيُسْــَٔــلُوْنَ 19 ) 43- الزخرف:19 ) ، میں بھی یہی بیان ہے ۔ دراصل یہ قول ان کا محض جھوٹ ہے ۔ کہ اللہ کے ہاں اولاد ہے ۔ وہ اولاد سے پاک ہے ۔ پس ان لوگوں کے تین جھوٹ اور تین کفر ہوئے اول تو یہ کہ فرشتے اللہ کی اولاد ہیں دوسرے یہ کہ اولاد بھی لڑکیاں تیسرے یہ کہ خود فرشتوں کی عبادت شروع کر دی ۔ پھر فرماتا ہے کہ آخر کس چیز نے اللہ کو مجبور کیا کہ اس نے لڑکے تو لئے نہیں اور لڑکیاں اپنی ذات کے لئے پسند فرمائیں؟ جیسے اور آیت میں ہے کہ تمہیں تو لڑکوں سے نوازے اور فرشتوں کو اپنی لڑکیاں بنائے یہ تو تمہاری نہایت درجہ کی لغویات ہے ۔ یہاں فرمایا کیا تمہیں عقل نہیں جو ایسی دور از قیاس باتیں بناتے ہو تم سمجھتے نہیں ہو ڈرو کہ اللہ پر جھوٹ باندھنا کیسا برا ہے؟ اچھا گر کوئی دلیل تمہارے پاس ہو تو لاؤ اسی کو پیش کرو ۔ یا اگر کسی آسمانی کتاب سے تمہارے اس قول کی سند ہو اور تم سچے ہو تو لاؤ اسی کو سامنے لے آؤ ۔ یہ تو ایسی لچر اور فضول بات ہے جس کی کوئی عقلی یا نقلی دلیل ہو ہی نہیں سکتی ۔ اتنے ہی پر بس نہ کی ، جنات میں اور اللہ میں بھی رشتے داری قائم کی ۔ مشرکوں کے اس قول پر کہ فرشتے اللہ کی لڑکیاں ہیں حضرت صدیق اکبر نے سوال کیا کہ پھر ان کی مائیں کون ہیں؟ تو انہوں نے کہا جن سرداروں کی لڑکیاں ۔ حالانکہ خود جنات کو اس کا یقین و علم ہے کہ اس قول کے قائل قیامت کے دن عذابوں میں مبتلا کئے جائیں گے ۔ ان میں بعض دشمنان اللہ تو یہاں تک کم عقلی کرتے تھے کہ شیطان بھی اللہ کا بھائی ہے ۔ نعوذ باللہ ۔ اللہ تعالیٰ اس سے بہت پاک منزہ اور بالکل دور ہے جو یہ مشرک اس کی ذات پر الزام لگاتے ہیں اور جھوٹے بہتان باندھتے ہیں ۔ اس کے بعد استثناء منقطع ہے اور بےمثبت مگر اس صورت میں کہ یعفون کی ضمیر کا مرجع تمام لوگ قرار دیئے جائیں ۔ پس ان میں سے ان لوگوں کو الگ کر لیا جو حق کے ماتحت ہیں اور تمام نبیوں رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ یہ استثناء ( انھم لمحضرون ) سے ہے یعنی سب کے سب عذاب میں پھانس لئے جائیں گے مگر وہ بندگان جو اخلاص والے تھے ۔ یہ قول ذرا تامل طلب ہے واللہ اعلم ۔
فَاسْتَفْتِهِمْ اَلِرَبِّكَ الْبَنَاتُ : پچھلی آیات کے ساتھ ان آیات کی مناسبت یہ ہے کہ مشرکین کے بد ترین عقائد میں سے ایک قیامت کا انکار تھا اور ایک شرک تھا، جس کی ایک صورت فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دے کر ان کے بت بنا کر ان کی پرستش کرنا تھی۔ قرآن میں متعدد مقامات پر ان کے اس عقیدے کا ذکر کر کے اس کی تردید کی گئی ہے۔ دیکھیے سورة نساء (١١٧) ، نحل (٥٧، ٥٨) ، بنی اسرائیل (٤٠) ، زخرف (١٦ تا ١٩) اور نجم (٢١ تا ٢٧) یہاں سورت کے شروع میں ان کے انکار قیامت پر فرمایا : (فَاسْتَفْتِهِمْ اَهُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمْ مَّنْ خَلَقْنَا ۭ اِنَّا خَلَقْنٰهُمْ مِّنْ طِيْنٍ لَّازِبٍ ) [ الصافات : ١١ ] ” سو ان سے پوچھ کیا یہ پیدا کرنے کے اعتبار سے زیادہ مشکل ہیں، یا وہ جنھیں ہم نے پیدا کیا ؟ بیشک ہم نے انھیں ایک چپکتے ہوئے گارے سے پیدا کیا ہے۔ “- اب دوسرے عقیدے کی تردید کرتے ہوئے فرماما : (فَاسْتَفْتِهِمْ اَلِرَبِّكَ الْبَنَاتُ وَلَهُمُ الْبَنُوْنَ ) ” پس ان سے پوچھ کیا تیرے رب کے لیے بیٹیاں ہیں اور ان کے لیے بیٹے ؟ “ زمخشری نے فرمایا : ” اس کا عطف سورت کے شروع میں ” فَاسْتَفْتِهِمْ اَهُمْ اَشَدُّ خَلْقًا “ پر ہے، اگرچہ ان کے درمیان بہت فاصلہ ہے۔ “ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے ہوئے وہ تین ظلم کر رہے تھے، ایک یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دے رہے تھے، حالانکہ وہ اس سے پاک ہے، کیونکہ یہ عجز اور محتاجی کی دلیل ہے۔ دوسرا یہ کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے لیے بیٹیاں قرار دیں، جب کہ اپنے لیے بیٹے پسند کرتے ہیں۔ تیسرا یہ کہ انھوں نے اللہ کے مقرب فرشتوں کو مؤنث قرار دیا، حالانکہ وہ مذکر و مؤنث کی تفریق سے پاک ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب باتوں پر ان کا رد فرمایا اور سخت غصے کا اظہار فرمایا، چناچہ فرمایا : ” ان سے پوچھو کہ کیا تیرے رب کے لیے بیٹیاں اور ان کے لیے بیٹے ہیں ؟ “ ان کا اپنا حال یہ ہے کہ بیٹی کی خبر پر ان کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے اور اسے زندہ درگور کرنے کی فکر کرنے لگتے ہیں اور اپنے لیے اتنی ناگوار بات کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرتے ہیں۔
خلاصہ تفسیر - (توحید کے دلائل تو اوپر بیان ہوچکے) سو (اب اس کے بعد) ان لوگوں سے (جو ملائکہ اور جنات کو خدا کا شریک ٹھہراتے ہیں، اس طرح کہ ملائکہ کو نعوذ باللہ خدا کی بیٹیاں اور جنات کے سرداروں کی بیٹیوں کو ان فرشتوں کی مائیں قرار دیتے ہیں جس سے یہ لازم آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرشتوں سے نسبی رشتہ ہے، اور جنات سے زوجیت کا تعلق ہے، سو ان سب سے) پوچھئے کہ کیا خدا کے لئے تو بیٹیاں (ہوں) اور تمہارے لئے بیٹے (ہوں، یعنی جب اپنے لئے بیٹے پسند کرتے ہو تو عقیدہ مذکور میں خدا کے لئے بیٹیاں تجویز کرتے ہو، پس اس عقیدے میں ایک خرابی تو یہ ہے اور) ہاں (دوسری بات سنو کہ) کیا ہم نے فرشتوں کو عورت بنایا ہے اور وہ (ان کے بننے کے وقت) دیکھ رہے تھے (یعنی ایک دوسری برائی یہ ہے کہ فرشتوں پر بلا دلیل مونث ہونے کی تہمت رکھتے ہیں) خوب سن لو کہ وہ لوگ (دلیل کچھ نہیں رکھتے بلکہ محض) سخن تراشی سے کہتے ہیں کہ (نعوذ باللہ) اللہ صاحب اولاد ہے اور وہ یقینا (بالکل) جھوٹے ہیں (پس اس عقیدے میں تیسری برائی یہ ہے کہ حق تعالیٰ کی طرف اولاد کی نسبت لازم آتی ہے، ان میں سے پہلی برائی کا قبح عرف سے، دوسری کا نقل سے اور تیسری کا عقل سے ثابت ہے۔ اور چونکہ جاہلوں کے لئے عرفی برائی کا اثبات زیادہ موثر ہوتا ہے، اس لئے پہلی برائی کو دوسرے عنوان سے مکرر فرماتے ہیں کہ ہاں) کیا اللہ تعالیٰ نے بیٹوں کے مقابلہ میں بیٹیاں زیادہ پسند کیں ؟ تم کو کیا ہوگیا تم کیسا (بیہودہ) حکم لگاتے ہو ؟ (جس کو عرفاً خود بھی برا سمجھتے ہو) پھر (علاوہ عرف کے) کیا تم (عقل اور) سوچ سے کام نہیں لیتے ہو (کہ یہ عقیدہ عقل کے بھی خلاف ہے) ہاں (اگر دلیل عقلی نہیں تو) کیا تمہارے پاس (اس پر) کوئی واضح دلیل موجود ہے (اس سے مراد نقلی دلیل ہے) سو تم اگر (اس میں) سچے ہو تو اپنی وہ کتاب پیش کرو اور (عقیدہ مذکورہ میں ملائکہ کو اولاد قرار دینے کے علاوہ) ان لوگوں نے اللہ میں اور جنات میں (بھی) رشتہ داری قرار دی ہے (جس کا بطلان اور بھی زیادہ ہے۔ کیونکہ بیوی جس کام کے لئے ہوتی ہے اس سے حق تعالیٰ پاک ہے، اور جب زوجیت محال ہے تو سسرالی رشتے جو اسی سے نکلتے ہیں وہ بھی محال ہوں گے) اور (جس جس کو یہ لوگ خدا کا شریک ٹھہرا رہے ہیں ان کی تو یہ کیفیت ہے کہ ان میں جو) جنات (ہیں خود ان) کا یہ عقیدہ ہے کہ (ان میں جو کافر ہیں) وہ (عذاب میں) گرفتار ہوں گے (اور عذاب میں کیوں گرفتار نہ ہوں کہ حق تعالیٰ کی نسبت بری بری باتیں بیان کرتے ہیں، حالانکہ) اللہ ان باتوں سے پاک ہے جو جو یہ بیان کرتے ہیں (پس ان کافرانہ بیانات سے وہ گرفتار عذاب ہوں گے) مگر جو اللہ کے خاص (یعنی ایمان والے) بندے ہیں (وہ اس عذاب سے بچیں گے) سو تم اور تمہارے سارے معبود (سب مل کر بھی) خدا سے کسی کو پھیر نہیں سکتے (جیسی تم کوشش کیا کرتے ہو، مگر اسی کو جو کہ (علم الٰہی میں) جہنم رسید ہونے والا ہے اور (آگے ملائکہ کا ذکر فرماتے ہیں کہ ان میں جو ملائکہ ہیں ان کا یہ مقولہ ہے کہ ہم تو بندہ محض ہیں، چناچہ جو خدمت ہمارے سپرد ہے اس میں) ہم میں سے ہر ایک کا ایک معین درجہ ہے (کہ اسی کی بجا آوری میں لگے رہتے ہیں، اپنی رائے سے کچھ نہیں کرسکتے) اور ہم (خدا کے حضور میں حکم سننے کے وقت یا عبادت کے وقت ادب سے) صف بستہ کھڑے ہوتے ہیں اور ہم (خدا کی) پاکی بیان کرنے میں بھی لگے رہتے ہیں (غرض ہر طرح محکوم اور بندے ہیں۔ سو جب فرشتے خود اپنی بندگی کا اعتراف کر رہے ہیں تو پھر ان پر معبود ہونے کا شبہ کرنا بڑی بےوقوفی ہے، پس جنات اور ملائکہ کے حق میں خدائی کا اعتقاد یا حسن وجوہ باطل ہوگیا) ۔- معارف ومسائل - انبیاء (علیہم السلام) کے واقعات نصیحت و عبرت کے لئے بیان کئے گئے تھے، اب پھر توحید کے اثبات اور شرک کے ابطال کا اصل مضمون بیان کیا جا رہا ہے، اور یہاں شرک کی ایک خاص قسم کا بیان ہے۔ کفار عرب کا یہ عقیدہ تھا کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں، اور جنات کی سردار زادیاں فرشتوں کی مائیں ہیں۔ بقول علامہ واحدی یہ عقیدہ قریش کے علاوہ جہینہ، بنو سلمہ، بنو خزاعہ اور بنو ملیح کے یہاں بھی رائج تھا۔ (تفسیر کبیر، ص ٢١١ ج ٧)- (آیت) فَاسْتَفْتِهِمْ (الی قولہ تعالیٰ ) اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ، ان آیتوں میں کفار عرب کے اسی عقیدے کی تردید کے لئے دلائل پیش کئے گئے ہیں۔ جن کا خلاصہ یہ ہے کہ اول تو تمہارا یہ عقیدہ خود تمہارے عرف اور رسم و رواج کے لحاظ سے بالکل غلط ہے۔ اس لئے کہ تم بیٹیوں کو باعث تنگ سمجھتے ہو، اب جو چیز تمہارے اپنے لئے ننگ وعار ہے وہ اللہ تعالیٰ کے لئے کیسے ثابت ہو سکتی ہے ؟ پھر تم نے جو فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دیا ہے، اس کی تمہارے پاس دلیل کیا ہے ؟ کسی دعوے کو ثابت کرنے کے لئے تین قسم کے دلائل ہو سکتے ہیں۔ ایک مشاہدہ، دوسرے نقلی دلیل، یعنی کسی ایسی ذات کا قول جس کی سچائی مسلم ہو، اور تیسرے عقلی دلیل جہاں تک مشاہدہ کا تعلق ہے ظاہر ہے کہ تم نے اللہ تعالیٰ کو فرشتوں کی تخلیق کرتے ہوئے دیکھا ہی نہیں جس سے فرشتوں کا مونث ہونا معلوم ہو سکتا، لہٰذا مشاہدہ کی کوئی دلیل تو تمہارے پاس ہے نہیں (آیت) (اَمْ خَلَقْنَا الْمَلٰۗىِٕكَةَ اِنَاثًا وَّهُمْ شٰهِدُوْنَ کا یہی مطلب ہے) اب رہی نقلی دلیل سو وہ بھی تمہارے پاس نہیں، اس لئے کہ قول ان لوگوں کا معتبر ہوتا ہے جن کی سچائی مسلم ہو، اس کے برخلاف جو لوگ اس عقیدے کے قائل ہیں وہ جھوٹے لوگ ہیں، ان کی بات کوئی حجت نہیں ہو سکتی (آیت) (اَلَآ اِنَّهُمْ مِّنْ اِفْكِهِمْ لَيَقُوْلُوْنَ الخ کا یہی مطلب ہے) رہی عقلی دلیل، سو وہ بھی تمہاری تائید نہیں کرتی، اس لئے کہ خود تمہارے خیال کے مطابق بیٹیاں بیٹوں کے مقابلے میں کم رتبہ رکھتی ہیں، اب جو ذات تمام کائنات سے افضل ہے وہ اپنے لئے کم رتبہ والی چیز کو کیسے پسند کرسکتی ہے ؟ (آیت) (اَصْطَفَى الْبَنَاتِ عَلَي الْبَنِيْنَ کا یہی مطلب ہے) اب صرف ایک ہی صورت رہ جاتی ہے کہ تمہارے پاس کوئی آسمانی کتاب آئی ہو اور اس میں بذریعہ وحی تمہیں اس عقیدے کی تعلیم دی گئی ہو، سو اگر ایسا ہے تو دکھاؤ وہ وحی اور وہ کتاب کہاں ہے ؟ (اَمْ لَكُمْ سُلْطٰنٌ مُّبِيْنٌ، فَاْتُوْا بِكِتٰبِكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ کا یہی مفہوم ہے)- ہٹ دھرمی کرنے والوں کے لئے الزامی جواب زیادہ مناسب ہے :- ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ جو لوگ ہٹ دھرمی پر تلے ہوئے ہیں ان کو الزامی جواب دینا زیادہ مناسب ہے۔ الزامی جواب کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان کے دعوے کو خود انہی کے کسی دوسرے نظریہ کے ذریعہ باطل کیا جائے اس میں یہ ضروری نہیں ہوتا کہ دوسرا نظریہ ہمیں بھی تسلیم ہے، بلکہ بسا اوقات وہ دوسرا نظریہ بھی غلط ہوتا ہے، لیکن مخالف کو سمجھانے کے لئے اس سے کام لے لیا جاتا ہے۔ یہاں باری تعالیٰ نے ان کے عقیدہ کی تردید کے لئے خود انہی کے اس نظریہ کو استعمال فرمایا ہے کہ بیٹیوں کا وجود باعث ننگ وعار ہے، ظاہر ہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی بیٹیوں کا وجود باعث ننگ ہے، نہ یہ مطلب ہے کہ اگر وہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیوں کے بجائے خدا کے بیٹے کہتے تو یہ درست ہوتا) بلکہ یہ ایک الزامی جواب ہے۔ جس کا مقصد خود انہی کے مزعومات سے ان کے عقیدے کی تردید کرنا ہے، ورنہ اس قسم کے عقائد کا حقیقی جواب وہی ہے جو قرآن کریم ہی میں کئی جگہ مذکور ہے، کہ اللہ تعالیٰ بےنیاز ہے، اور اسے کسی اولاد کی ضرورت نہ ہے اور نہ اس کی رفعت شان کے یہ مناسب ہے کہ اس کی اولاد ہو۔
فَاسْتَفْتِہِمْ اَلِرَبِّكَ الْبَنَاتُ وَلَہُمُ الْبَنُوْنَ ١٤٩ۙ- استفتا - الجواب عمّا يشكل من الأحكام، ويقال : اسْتَفْتَيْتُهُ فَأَفْتَانِي بکذا . قال : وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّساءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ [ النساء 127] ، فَاسْتَفْتِهِمْ [ الصافات 11] ، - استفتا - اور کسی مشکل مسلہ کے جواب کو فتیا وفتوی کہا جاتا ہے ۔- استفتاہ - کے معنی فتوی طلب کرنے اور افتاہ ( افعال ) کے معنی فتی دینے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّساءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ [ النساء 127]( اے پیغمبر ) لوگ تم سے ( یتیم ) عورتوں کے بارے میں فتوی طلب کرتے ہیں کہدو کہ خدا تم کو ان کے ( ساتھ نکاح کرنے کے ) معاملے میں فتوی اجازت دیتا ہے فَاسْتَفْتِهِمْ [ الصافات 11] تو ان سے پوچھو۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- ( ابْنُ )- أصله : بنو، لقولهم في الجمع :- أَبْنَاء، وفي التصغیر : بُنَيّ ، قال تعالی: يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف 5] ، يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات 102] ، يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان 13] ، يا بنيّ لا تعبد الشیطان، وسماه بذلک لکونه بناء للأب، فإنّ الأب هو الذي بناه وجعله اللہ بناء في إيجاده، ويقال لكلّ ما يحصل من جهة شيء أو من تربیته، أو بتفقده أو كثرة خدمته له أو قيامه بأمره : هو ابنه، نحو : فلان ابن الحرب، وابن السبیل للمسافر، وابن اللیل، وابن العلم، قال الشاعر - أولاک بنو خير وشرّ كليهما - وفلان ابن بطنه وابن فرجه : إذا کان همّه مصروفا إليهما، وابن يومه : إذا لم يتفكّر في غده . قال تعالی: وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة 30] - وقال تعالی: إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود 45] ، إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف 81] ، وجمع ابْن : أَبْنَاء وبَنُون، قال عزّ وجل : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل 72] ، وقال عزّ وجلّ : يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف 67] ، يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف 31] ، يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] ، ويقال في مؤنث ابن : ابْنَة وبِنْت، وقوله تعالی: هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود 78] ، وقوله : لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود 79] ، فقد قيل : خاطب بذلک أکابر القوم وعرض عليهم بناته «1» لا أهل قریته كلهم، فإنه محال أن يعرض بنات له قلیلة علی الجمّ الغفیر، وقیل : بل أشار بالبنات إلى نساء أمته، وسماهنّ بنات له لکون کلّ نبيّ بمنزلة الأب لأمته، بل لکونه أكبر وأجل الأبوین لهم كما تقدّم في ذکر الأب، وقوله تعالی: وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل 57] ، هو قولهم عن اللہ : إنّ الملائكة بنات اللہ .- الابن ۔- یہ اصل میں بنو ہے کیونکہ اس کی جمع ابناء اور تصغیر بنی آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف 5] کہ بیٹا اپنے خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا ۔ يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات 102] کہ بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ ( گویا ) تم کو ذبح کررہاہوں ۔ يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان 13] کہ بیٹا خدا کے ساتھ شریک نہ کرنا ۔ يا بنيّ لا تعبد الشیطانبیٹا شیطان کی عبادت نہ کرنا ۔ اور بیٹا بھی چونکہ اپنے باپ کی عمارت ہوتا ہے اس لئے اسے ابن کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ باپ کو اللہ تعالٰٰ نے اس کا بانی بنایا ہے اور بیٹے کی تکلیف میں باپ بمنزلہ معمار کے ہوتا ہے اور ہر وہ چیز جو دوسرے کے سبب اس کی تربیت دیکھ بھال اور نگرانی سے حاصل ہو اسے اس کا ابن کہا جاتا ہے ۔ نیز جسے کسی چیز سے لگاؤ ہوا است بھی اس کا بن کہا جاتا جسے : فلان ابن حرب ۔ فلان جنگ جو ہے ۔ ابن السبیل مسافر ابن اللیل چور ۔ ابن العلم پروردگار وہ علم ۔ شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) یہ لوگ خیر وزر یعنی ہر حالت میں اچھے ہیں ۔ فلان ابن بطنہ پیٹ پرست فلان ابن فرجہ شہوت پرست ۔ ابن یومہ جو کل کی فکر نہ کرے ۔ قرآن میں ہے : وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة 30] اور یہود کہتے ہیں کہ عزیز خدا کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے میں کہ مسیح خدا کے بیٹے ہیں ۔ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود 45] میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں میں ہے ۔ إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف 81] کہ اب آپکے صاحبزادے نے ( وہاں جاکر ) چوری کی ۔ ابن کی جمع ابناء اور بنون آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل 72] اور عورتوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف 67] کہ بیٹا ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا ۔ يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف 31] ( 3 ) اے نبی آدم ہر نماز کے وقت اپنے تیئں مزین کیا کرو ۔ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] اے نبی آدم ( دیکھنا کہیں ) شیطان تمہیں بہکانہ دے ۔ اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع بنات آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود 78] ( جو ) میری ) قوم کی ) لڑکیاں ہیں تمہارے لئے جائز اور ) پاک ہیں ۔ لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود 79] تمہاری ۃ قوم کی ) بیٹیوں کی ہمیں کچھ حاجت نہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اکابر قوم خطاب کیا تھا اور ان کے سامنے اپنی بیٹیاں پیش کی تھیں ۔ مگر یہ ناممکن سی بات ہے کیونکہ نبی کی شان سے بعید ہے کہ وہ اپنی چند لڑکیاں مجمع کثیر کے سامنے پیش کرے اور بعض نے کہا ہے کہ بنات سے ان کی قوم کی عورتیں مراد ہیں اور ان کو بناتی اس لئے کہا ہے کہ ہر نبی اپنی قوم کے لئے بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے بلکہ والدین سے بھی اس کا مرتبہ بڑا ہوتا ہے جیسا کہ اب کی تشریح میں گزر چکا ہے اور آیت کریمہ : وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل 57] اور یہ لوگ خدا کے لئے تو بیٹیاں تجویز کرتے ہیں ۔ کے مونی یہ ہیں کہ وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتی ہیں ۔
سو اب اس کے بعد مکہ والوں میں سے بنو ملیح سے پوچھیے کہ کیا اللہ کے لیے تو بیٹیاں ہوں اور تمہارے بیٹے۔ انہوں نے جواب میں کہا ہاں اس پر رسول اکرم نے ان سے فرمایا کیا اللہ تعالیٰ کے لیے وہ چیز پسند کرتے ہو جو اپنے لیے پسند نہیں کرتے۔
آیت ١٤٩ فَاسْتَفْتِہِمْ اَلِرَبِّکَ الْبَنَاتُ وَلَہُمُ الْبَنُوْنَ ” تو (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ ان سے پوچھیں ‘ کیا تمہارے ربّ کے لیے تو بیٹیاں ہیں اور ان کے لیے بیٹے “- یہاں مشرکین ِمکہ ّکے اس عقیدے پر جرح کی جا رہی ہے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ یعنی یہ لوگ خود اپنے لیے تو بیٹے پسند کرتے ہیں اور بیٹیوں کو ناپسند کرتے ہیں لیکن جب یہ لوگ اللہ سے اولاد منسوب کرتے ہیں تو اس کے لیے بیٹیوں کا انتخاب کرتے ہیں۔
سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :86 یہاں سے ایک دوسرا مضمون شروع ہوتا ہے ۔ پہلا مضمون آیت نمبر 11 سے شروع ہوا تھا جس میں کفار مکہ کے سامنے یہ سوال رکھا گیا تھا ان سے پوچھو ، کیا ان کا پیدا کرنا زیادہ مشکل کام ہے یا ان چیزوں کا جو ہم نے پیدا کر رکھی ہیں ۔ اب انہی کے سامنے یہ دوسرا سوال پیش کیا جا رہا ہے ۔ پہلے سوال کا منشا کفار کو ان کی اس گمراہی پر متنبہ کرنا تھا کہ وہ زندگی بعد موت اور جزا و سزا کو غیر ممکن الوقوع سمجھتے تھے اور اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑاتے تھے ۔ اب یہ دوسرا سوال ان کی اس جہالت پر متنبہ کرنے کے لیے پیش کیا جا رہا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف اولاد منسوب کرتے تھے اور قیاسی گھوڑے دوڑا کر جس کا چاہتے تھے اللہ سے رشتہ جوڑ دیتے تھے ۔ سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :87 روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب میں قریش ، جُہینہ ، بنی سَلِمہ ، خزاعہ ، بن مُلیح اور بعض دوسرے قبائل کا عقیدہ یہ تھا کہ ملائکہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں ۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ان کے اس جاہلانہ عقیدے کا ذکر کیا گیا ہے ۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو النساء ، آیت 117 ۔ النحل آیات 57 ۔ 58 ۔ بنی اسرائیل ، آیت 40 ۔ الزخرف ، آیات 16 تا 19 ۔ النجم ، آیات 21 تا 27 ۔
29: جیسا کہ سورت کے شروع میں عرض کیا گیا، مکہ مکرمہ کے بت پرست، فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں کہا کرتے تھے۔ یہاں سے ان کے اس بے ہودہ عقیدے کی تردید ہورہی ہے۔ یہ بت پرست اپنے لیے بیٹیوں کو پسند نہیں کرتے تھے، بلکہ ان میں سے کچھ لوگ بیٹیوں کو زندہ دفن کردیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ اول تو یہ فرما رہے ہیں کہ یہ کیسے غضب کی بات ہے کہ تم اپنے لیے تو بیٹیوں کو ناپسند کرتے ہو، اور اللہ تعالیٰ کے لیے بیٹیوں کا عقیدہ رکھتے ہو۔ پھر آگے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کسی اولاد کی ضرورت نہیں ہے، نہ بیٹوں کی نہ بیٹیوں کی۔