166۔ 1 مطلب یہ کہ فرشتے بھی اللہ کی مخلوق اور اس کے خاص بندے ہیں جو ہر وقت اللہ کی عبادت میں اور اس کی تسبیح میں مصروف رہتے ہیں، نہ کہ وہ اللہ کی بیٹیاں ہیں جیسا کہ مشرکین کہتے ہیں۔
[٩٤] اللہ اور جبرئیل کے درمیان نور کے ستر (٧٠) حجاب :۔ مشرکین عرب فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں اور اپنا معبود قرار دیتے تھے۔ ان تین آیات میں فرشتوں کی زبان سے اصل حقیقت بیان کی گئی ہے۔ یعنی تمہارے اس شرکیہ عقیدہ کے مقابلہ میں فرشتوں کا اپنا بیان یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک فرشتہ کا ایک مقررہ درجہ اور مقام ہے جس سے آگے ہم بڑھ نہیں سکتے۔ چناچہ ترمذی کی ایک روایت کے مطابق ایک دفعہ رسول اللہ نے سیدنا جبرئیل سے پوچھا کہ کیا تم نے کبھی اپنے پروردگار کو دیکھا ہے ؟ تو جبرئیل نے جواب دیا کہ میرے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان نور کے ستر (٧٠) حجاب ہیں اگر میں اپنے مقام سے ذرا بھی آگے بڑھنے کی کوشش کروں تو جل جاؤں۔ (ترمذی۔ بحوالہ مشکوٰۃ۔ باب بدء الخلق و ذکر الانبیائ) اور ہمارا تو یہ حال ہے کہ ہم ہر وقت اللہ کی بارگاہ میں صف بستہ کھڑے تسبیح و تہلیل کرتے رہتے ہیں اور ہمہ وقت اس کے حکم کے منتظر رہتے ہیں۔
وَاِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُوْنَ : اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَ لَهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ وَ مَنْ عِنْدَهٗ لَا يَسْـتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَ لَا يَسْتَحْسِرُوْنَ ۔ يُسَبِّحُوْنَ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ لَايَفْتُرُوْنَ ) [ الأنبیاء : ١٩، ٢٠ ] ” اور اسی کا ہے جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہے اور جو اس کے پاس ہیں وہ نہ اس کی عبادت سے تکبر کرتے ہیں اور نہ تھکتے ہیں۔ وہ رات اور دن تسبیح کرتے ہیں، وقفہ نہیں کرتے۔ “
وَاِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُوْنَ ١٦٦- سبح - السَّبْحُ : المرّ السّريع في الماء، وفي الهواء، يقال : سَبَحَ سَبْحاً وسِبَاحَةً ، واستعیر لمرّ النجوم في الفلک نحو : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] ، ولجري الفرس نحو : وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] ، ولسرعة الذّهاب في العمل نحو : إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] ، والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ- [ الصافات 143] ،- ( س ب ح ) السبح - اس کے اصل منعی پانی یا ہوا میں تیز رفتار ری سے گزر جانے کے ہیں سبح ( ف ) سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] سب ( اپنے اپنے ) فلک یعنی دوائر میں تیز ی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اور گھوڑے کی تیز رفتار پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] اور فرشتوں کی قسم جو آسمان و زمین کے درمیان ) تیر تے پھرتے ہیں ۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] اور دن کے وقت کو تم بہت مشغول کا رہے ہو ۔ التسبیح کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر - ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے
آیت ١٦٦ وَاِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُوْنَ ۔ ” اور ہم تو سب کے سب (اپنے ربّ کی) تسبیح کرنے والے ہیں۔ “
31: یعنی خود فرشتے تو اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں نہیں کہتے، بلکہ اپنی بندگی کا اظہار کرتے ہیں۔