عذاب الٰہی آ کر رہے گا ۔ ارشاد باری ہے کہ ہم تو اگلی کتابوں میں بھی لکھ آئے ہیں پہلے نبیوں کی زبانی بھی دنیا کو سنا چکے ہیں کہ دنیا اور آخرت میں ہمارے رسول اور ان کے تابعداروں ہی کا انجام بہتر ہوتا ہے جیسے فرمایا ( كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ قَوِيٌّ عَزِيْزٌ 21 ) 58- المجادلة:21 ) ، اور فرمایا ( اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْهَادُ 51ۙ ) 40-غافر:51 ) یعنی میں میرے رسول اور ایماندار ہی دونوں جہان میں غالب رہیں گے ۔ یہاں بھی یہی فرمایا کہ رسولوں سے ہمارا وعدہ ہو چکا ہے ۔ کہ وہ منصور ہیں ۔ ہم خود ان کی مدد کریں گے ۔ دیکھتے چلے آؤ کہ ان کے دشمن کس طرح خاک میں ملا دیئے گئے؟ یاد رکھو ہمارا لشکر ہی غالب رہے گا ۔ انجام کار انہی کے ہاتھ رہے گا ۔ تو ایک وقت مقررہ تک صبر و استقامت سے معاملہ دیکھتا رہ ان کی ایذاؤں پر صبر کر ہم تجھے ان سب پر غالب کر دیں گے ۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ یہی ہوا بھی تو انہیں دیکھتا رہ کہ کس طرح اللہ کی پکڑ ان پر نازل ہوتی ہے؟ اور کس طرح یہ ذلت و توہین کے ساتھ پکڑ لئے جاتے ہیں؟ یہ خود ان تمام رسوائیوں کو ابھی ابھی دیکھ لیں گے ۔ تعجب سا تعجب ہے کہ یہ طرح طرح کے چھوٹے چھوٹے عذابوں کی گرفت کے باوجود ابھی تک بڑے عذاب کو محال جانتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ کب آئے گا ؟ پس انہیں جواب ملتا ہے کہ جب عذاب ان کے میدانوں میں ، محلوں میں ، انگنائیوں میں آئے گا وہ دن ان پر بڑا ہی بھاری دن ہو گا ۔ یہ ہلاک اور برباد کر دیئے جائیں گے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ خیبر کے میدانوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا لشکر صبح ہی صبح کفار کی بےخبری میں پہنچ گیا وہ لوگ حسب عادت اپنی کھیتیوں کے آلات لے کر شہر سے نکلے اور اس اللہ کی فوج کو دیکھ کر بھاگے اور شہر والوں کو خبر کی اس وقت آپ نے یہی فرمایا کہ اللہ بہت بڑا ہے خیبر خراب ہوا ۔ ہم جب کسی قوم کے میدان میں اتر آتے ہیں اس وقت ان کی درگت ہوتی ہے ۔ پھر دوبارہ پہلے حکم کی تاکید کی کہ تو ان سے ایک مدت معین تک کے لئے بےپرواہ ہو جا اور انہیں چھوڑ دے اور دیکھتا رہ یہ بھی دیکھ لیں گے ۔
وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا : پچھلی آیت میں کفار کو ان کے انکار کا نتیجہ بہت جلدی دیکھ لینے کی دھمکی دی تھی، اب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حوصلہ اور تسلی دینے کے لیے فرمایا کہ ہمارے ان بندوں کے لیے، جنھیں ہم اپنا رسول بنا کر بھیجتے ہیں، ہماری یہ بات پہلے طے ہوچکی ہے کہ انھی کی مدد کی جائے گی اور صرف انھی کی نہیں بلکہ ان کے اور ان کے پیروکاروں کی صورت میں ہمارا جو بھی لشکر ہوگا وہی غالب رہیں گے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے : (كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ قَوِيٌّ عَزِيْزٌ) [ المجادلۃ : ٢١ ] ” اللہ نے لکھ دیا ہے کہ ضرور بالضرور میں غالب رہوں گا اور میرے رسول، یقیناً اللہ بڑی قوت والا، سب پر غالب ہے۔ “ اور فرمایا : ( اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْهَادُ ) [ المؤمن : ٥١ ] ” بیشک ہم اپنے رسولوں کی اور ان لوگوں کی جو ایمان لائے ضرور مدد کرتے ہیں دنیا کی زندگی میں اور اس دن بھی جب گواہ کھڑے ہوں گے۔ “- اِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنْصُوْرُوْنَ : اس آیت میں صرف اللہ کے رسولوں کے منصور ہونے کی تاکید کئی طرح سے فرمائی ہے، پہلے ضمیر ” ھُمْ “ کی تاکید دوبارہ ” ھُمْ “ لا کر فرمائی، پھر اس پر ” لام “ کے ساتھ مزید تاکید فرمائی، پھر خبر پر الف لام لا کر ” الْمَنْصُوْرُوْنَ “ فرمایا، اس سے بھی کلام میں حصر پیدا ہوتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ ہر حال میں انھی کی نصرت ہوگی، ان کے مقابلے میں دوسروں کی نہیں اور ہر حال میں رسول اور ان کے پیروکار ہی غالب رہیں گے۔- یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ بعض اوقات انبیاء اور اہل ایمان پر کفار بھی غالب آجاتے ہیں، جیسا کہ صحیح بخاری میں ابوسفیان سے ہرقل کا سوال مذکور ہے کہ نبوت کا دعویٰ کرنے والے اس آدمی سے کبھی تمہاری جنگ بھی ہوئی ہے، اگر ہوئی ہے تو اس کا نتیجہ کیا رہا ؟ تو اس نے جواب دیا : ( کَانَتْ دُوَلاً وَ سِجَالاً ، یُدَالُ عَلَیْنَا الْمَرَّۃَ وَنُدَالُ عَلَیْہِ الْأُخْرٰی ) ” جنگ باریوں کی صورت میں رہی، کبھی وہ ہم پر غالب رہا اور کبھی ہم اس پر غالب رہے۔ “ اس سوال کا بہترین جواب تو وہ ہے جو ہرقل نے تمام سوالوں کا جواب سننے کے بعد اپنے تبصرے میں دیا، اس نے کہا : ( وَ سَأَلْتُکَ ہَلْ قَاتَلْتُمُوْہُ وَ قَاتَلَکُمْ فَزَعَمْتَ أَنْ قَدْ فَعَلَ ، وَ أَنَّ حَرْبَکُمْ وَ حَرْبَہُ تَکُوْنُ دُوَلاً ، وَ یُدَالُ عَلَیْکُمُ الْمَرَّۃَ وَ تُدَالُوْنَ عَلَیْہِ الْأُخْرٰی، وَکَذٰلِکَ الرُّسُلُ تُبْتَلٰی، وَ تَکُوْنُ لَھَا الْعَاقِبَۃُ ) [ بخاري، الجہاد والسیر، باب دعاء النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إلی الإسلام والنبوۃ۔۔ : ٢٩٤١، ٤٥٥٣، عن ابن عباس (رض) ] ” اور میں نے تم سے پوچھا کہ کیا تم نے اس سے اور اس نے تم سے جنگ کی ہے، تو تم نے بتایا کہ ہاں کی ہے اور تمہاری اور اس کی لڑائی باریوں کی صورت میں رہی، کسی بار وہ تم پر غالب آتا رہا اور کسی دوسری بار تم غالب آتے رہے اور رسولوں کی اسی طرح آزمائش کی جاتی ہے اور آخری نتیجہ انھی کے حق میں ہوتا ہے۔ “- حقیقت یہ ہے کہ نصرت و غلبہ دنیا میں بعض اوقات دلیل اور حجت کے لحاظ سے ہوتا ہے، بعض اوقات فتح اور حکومت ملنے کے ساتھ اور کبھی اپنے موقف پر ثابت اور قائم رہنے کے ساتھ۔ چناچہ اگر مومن بعض اوقات اپنے دنیوی حالات کی کمزوری کی وجہ سے مغلوب ہوجائے تب بھی دلیل میں اور اپنے ایمان پر ثابت رہنے کی وجہ سے غالب وہی ہے اور آخری نتیجہ اسی کے حق میں ہوگا، جیسا کہ ہرقل نے کہا۔ وہ شہید بھی ہوجائے تو ہمیشہ نعمت کی زندگی کے حصول میں کامیاب ہوگیا اور یقیناً ایک وقت آنے والا ہے جب اہل ایمان کی کفار پر برتری سامنے آجائے گی، فرمایا : (فَالْيَوْمَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُوْنَ ۔ عَلَي الْاَرَاۗىِٕكِ ۙ يَنْظُرُوْنَ ۔ هَلْ ثُوِّبَ الْكُفَّارُ مَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ ) [ المطففین : ٣٤ تا ٣٦ ] ” سو آج وہ لوگ جو ایمان لائے، کافروں پر ہنس رہے ہیں۔ تختوں پر (بیٹھے) نظارہ کر رہے ہیں۔ کیا کافروں کو اس کا بدلا دیا گیا جو وہ کیا کرتے تھے ؟ “ اور اللہ تعالیٰ نے بھی دنیا اور آخرت دونوں کا ذکر فرمایا ہے : (اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْهَادُ ) [ المؤمن : ٥١ ] ” بیشک ہم اپنے رسولوں کی اور ان لوگوں کی جو ایمان لائے ضرور مدد کرتے ہیں دنیا کی زندگی میں اور اس دن بھی جب گواہ کھڑے ہوں گے۔ “ رہا دنیا میں مسلمانوں کا بعض اوقات شکست سے دو چار ہونا، تو جیسا کہ ہرقل نے کہا، یہ اللہ تعالیٰ کی ابتلا اور آزمائش کی حکمت کی وجہ سے ہے۔ اگر دنیا میں ہمیشہ مسلمان ہی فتح یاب ہوں تو امتحان کا معاملہ ہی ختم ہوجاتا ہے۔ دیکھیے سورة بقرہ (٢٤ ا) ، آل عمران (١٤٢) اور سورة توبہ (١٦) ۔
اللہ والوں کے غلبہ کا مطلب :- (آیت) وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا (الیٰ قولہ) وَاِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغٰلِبُوْنَ ان آیتوں کا مفہوم یہ ہے کہ ہم نے یہ بات پہلے سے طے کر رکھی ہے کہ ہمارے خاص بندے یعنی پیغمبر ہی غالب ہوتے ہیں۔ اس پر یہ اشکال ہوسکتا ہے کہ بعض پیغمبروں کو دنیا میں غلبہ حاصل نہیں ہوا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ معلوم پیغمبروں میں اکثریت تو ایسے ہی حضرات کی ہے جن کی قومیں انہیں جھٹلا کر عذاب میں مبتلا ہوئیں اور ان حضرات کو عذاب سے محفوظ رکھا گیا صرف چند انبیاء (علیہم السلام) ایسے ہیں جنہیں دنیا میں آخر وقت تک بظاہر مادی طور پر غلبہ نہ مل سکا، لیکن دلیل وحجت کے میدان میں ہمیشہ وہی سربلند رہے، اور نظریاتی فتح ہمیشہ انہی کو حاصل ہوئی، ہاں اس سربلندی کے مادی آثار کسی خاص حکمت مثلاً آزمائش وغیرہ کی وجہ سے آخرت تک موخر کردیئے گئے۔ لہٰذا بقول حضرت تھانوی (رح) اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی ذلیل رہزن کسی بڑے حاکم افسر کے ساتھ سفر کی حالت میں لوٹ مار کرنے لگے، مگر وہ حاکم اپنی خداداد عالی دماغی کی وجہ سے ہرگز اس ذلیل رہزن کی خوشامد نہیں کرے گا، حتیٰ کہ جب وہ حاکم اپنے دارالحکومت میں پہنچے گا اس رہزن کو گرفتار کر کے سزا دے گا۔ لہٰذا اس عارضی غلبہ کی وجہ سے نہ اس رہزن کو حاکم کہہ سکتے ہیں، اور نہ اس افسر کو محکوم، بلکہ اصلی حالت کے اعتبار سے وہ رہزن اس غلبہ میں بھی محکوم ہے، اور وہ افسر اس مغلوبیت میں بھی حاکم ہے۔ اسی بات کو حضرت ابن عباس نے ایک مختصر اور سلیس عنوان سے تعبیر فرمایا ہے، ان لم ینصروا فی الدنیا ینصر وفی الاخرة (بیان القرآن تفسیر سورة مائدہ)- لیکن یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہئے کہ یہ غلبہ، خواہ دنیا میں ہو یا آخرت میں کسی قوم کو محض خصوصیات نسلی یا دین کے ساتھ محض نام کے تعلق سے حاصل نہیں ہوتا، بلکہ یہ اس وقت ہوتا ہے جب انسان اپنے آپ کو ” اللہ کے لشکر “ کا ایک فرد بنا لے۔ جس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ وہ ہر شعبہ زندگی میں اللہ کی اطاعت کو اپنا مقصد حیات بنائے ہوئے ہو۔ یہاں جندنا (ہمارا لشکر) کا لفظ بتارہا ہے کہ جو شخص اسلام قبول کرے اسے اپنی ساری زندگی نفس اور شیطان کی طاقتوں سے جنگ کرنے میں خرچ کرنے کا معاہدہ کرنا ہوگا اور اس کا غلبہ خواہ مادی ہو یا اخلاقی، دنیا میں ہو یا آخرت میں، اسی شرط پر موقوف ہے۔
وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِيْنَ ١٧١ۚۖ- سبق - أصل السَّبْقِ : التّقدّم في السّير، نحو : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات 4] ، والِاسْتِبَاقُ : التَّسَابُقُ. قال : إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف 17] ، وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف 25] ، ثم يتجوّز به في غيره من التّقدّم، قال : ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف 11] ،- ( س ب ق) السبق - اس کے اصل معنی چلنے میں آگے بڑھ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات 4] پھر وہ ( حکم الہی کو سننے کے لئے لپکتے ہیں ۔ الاستباق کے معنی تسابق یعنی ایک دوسرے سے سبقت کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :َ إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف 17] ہم ایک دوسرے سے دوڑ میں مقابلہ کرنے لگ گئے ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف 25] اور دونوں دوڑتے ہوئے دروز سے پر پہنچنے ۔ مجازا ہر شے میں آگے بڑ اجانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف 11] تو یہ ہم سے اس کیطرف سبقت نہ کرجاتے ۔ - كلم - الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها،- ( ک ل م ) الکلم ۔- یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔- عبد - والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب :- الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ- [ البقرة 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] .- الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] .- والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة،- والناس في هذا ضربان :- عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] .- العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے - ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ - ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے - وہ دوقسم پر ہیں - ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔- ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔
(١٧١۔ ١٧٥) اور ہمارے خاص بندوں یعنی رسولوں کے لیے ہمارا کامیابی و مدد کا یہ قول پہلے ہی سے مقرر ہوچکا ہے۔ کہ وہی غالب کیے جائیں گے اور قیامت کے دن ہمارا ہی لشکر یعنی انبیاء کرام اور اہل ایمان غالب رہیں گے۔- آپ بدر تک جو ان کفار مکہ کی ہلاکت کا موقع ہے اعراض کیجیے اور عذاب الہی کو دیکھتے رہیے سو بہت جلد ان کو بھی معلوم ہوجائے گا کہ ان کے ساتھ کیا برتاؤ کیا جاتا ہے۔
آیت ١٧١ وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِیْنَ ” اور ہماری یہ بات پہلے سے طے شدہ ہے اپنے ان بندوں کے لیے جن کو ہم (رسول بنا کر) بھیجتے رہے ہیں۔ “- یہ آیات فلسفہ قرآنی اور اللہ تعالیٰ کے ایک خاص قانون کے اعتبار سے بہت اہم ہیں۔ اس قانون کے تحت مرسلین کے لیے یقینی مدد کا وعدہ ہے ‘ لیکن یہ وعدہ صرف رسولوں کے لیے ہے۔ اس ضمن میں نبیوں اور رسولوں کے مابین فرق ملحوظ رکھنا چاہیے۔ چناچہ ایک نبی (علیہ السلام) کے لیے لازم نہیں تھا کہ اس کے لیے اللہ کی مدد ضرور ہی آتی اور اسے ہر صورت میں غلبہ عطا کیا جاتا ‘ بلکہ نبیوں کو تو قتل بھی کیا جاتا رہا۔ جیسے حضرت زکریا (علیہ السلام) اور حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کو قتل کردیا گیا تھا۔ لیکن رسولوں کے بارے میں یہ بات طے تھی کہ وہ نہ تو قتل ہوں گے اور نہ ہی مغلوب۔ چناچہ جیسے ہی کسی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالفین اس پر غالب آنے کی کوشش کرتے اور رسول (علیہ السلام) کے مغلوب ہونے کا امکان پیدا ہوتا تو اللہ کی فیصلہ کن مدد آجاتی۔ اس کے بعد رسول (علیہ السلام) اور اس کے ساتھیوں کو بچالیا جاتا اور ان کے مخالفین کو نیست و نابود کردیا جاتا۔