اَفَبِعَذَابِنَا يَسْتَعْــجِلُوْنَ : قرآن مجید میں کفار کو جب بھی عذاب کی دھمکی دی جاتی وہ جھٹلانے کے لیے اسے فوراً لانے کا مطالبہ کرتے، جیسا کہ سورة یونس میں ہے : (وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ) [ یونس : ٤٨ ] ” یہ وعدہ کب پورا ہوگا، اگر تم سچے ہو ؟ “ بلکہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے لگے کہ اگر اسلام واقعی اس کی طرف سے حق ہے تو وہ ان پر پتھر برسائے یا عذاب الیم لے آئے۔ (دیکھیے سورة انفال : ٣٣) اس لیے فرمایا کہ پھر کیا یہ لوگ سرکشی اور جہالت میں اس حد تک پہنچ گئے اور اس قدر بےخوف ہوگئے ہیں کہ ہمارا عذاب جلدی لانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
اَفَبِعَذَابِنَا يَسْتَعْــجِلُوْنَ ١٧٦- عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - عجل - العَجَلَةُ : طلب الشیء وتحرّيه قبل أوانه، وهو من مقتضی الشّهوة، فلذلک صارت مذمومة في عامّة القرآن حتی قيل : «العَجَلَةُ من الشّيطان» «2» . قال تعالی: سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء 37] ،- ( ع ج ل ) العجلۃ - کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا تعلق چونکہ خواہش نفسانی سے ہوتا ہے اس لئے عام طور پر قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا العجلۃ من الشیطان ( کہ جلد بازی شیطان سے ہے قرآن میں ہے : سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء 37] میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤ نگا لہذا اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔
(١٧٦۔ ١٧٩) کیا یہ ہمارے عذاب کا وقت آنے سے پہلے ہی اس کا تقاضا کر رہے ہیں سو وہ عذاب جب ان کے قریب ہی آپہنچے گا تو وہ دن ان لوگوں کا جن کو انبیاء کرام نے ڈرایا تھا اور پھر وہ ایمان نہیں لائے تھے بہت ہی برا ہوگا۔- آپ ان کی ہلاکت کے وقت تک صبر کیجیے اور ذرا ان کو دیکھتے رہیے بہت جلد یہ خود بھی دیکھ لیں گے۔- شان نزول : اَفَبِعَذَابِنَا يَسْتَعْــجِلُوْنَ (الخ)- اور ابن منذر نے ابن جریح سے اسی طرح روایت نقل کی ہے اور جبیر نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ کفار بولے محمد جس عذاب سے آپ ہمیں ڈراتے ہیں وہ ہمیں دکھائیں اور اس کو جلدی لے آئیں اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔ یہ روایت شرط شیخین پر صحیح ہے۔
آیت ١٧٦ اَفَبِعَذَابِنَا یَسْتَعْجِلُوْنَ ” تو کیا یہ لوگ ہمارے عذاب کے بارے میں جلدی مچا رہے ہیں ؟ “
33: کفار آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مذاق اڑانے کے انداز میں کہا کرتے تھے کہ آپ جس عذاب سے ہمیں ڈراتے ہیں، وہ ابھی جلدی کیوں نہیں آجاتا؟