175۔ 1 کہ کب ان پر اللہ کا عذاب آتا ہے ؟
وَّاَبْصِرْہُمْ فَسَوْفَ يُبْصِرُوْنَ ١٧٥- بصر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔- وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔
آیت ١٧٥ وَّاَبْصِرْہُمْ فَسَوْفَ یُبْصِرُوْنَ ” اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں دیکھتے رہیے ‘ پس عنقریب وہ بھی دیکھ لیں گے۔ “- یعنی آپ ذرا انتظار کیجیے ‘ یہ لوگ اپنی شکست اور آپ کی فتح خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔
سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :94 یعنی کچھ زیادہ مدت نہ گزرے گی کہ اپنی شکست اور تمہاری فتح کو یہ لوگ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے ۔ یہ بات جس طرح فرمائی گئی تھی اسی طرح پوری ہوئی ۔ ان آیات کے نزول پر بمشکل 14 ۔ 15 سال گزرے تھے کہ کفار مکہ نے اپنی آنکھوں سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فاتحانہ داخلہ اپنے شہر میں دیکھ لیا ، اور پھر اس کے چند سال بعد انہی لوگوں نے یہ بھی دیکھ لیا کہ اسلام نہ صرف عرب پر ، بلکہ روم و ایران کی عظیم سلطنتوں پر بھی غالب آگیا ۔