Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

22۔ 1 یعنی جنہوں نے کفر و شرک اور معاصی کا ارتکاب کیا۔ یہ اللہ کی طرف سے حکم ہوگا۔ 22۔ 2 اس سے مراد کفر و شرک اور تکذیب رسل کے ساتھ یا بعض کے نزدیک جنات و شیاطین ہیں۔ اور بعض کہتے ہیں کہ وہ بیویاں ہیں جو کفر و شرک میں ان کی ہمنوا تھیں۔ 22۔ 3 وہ مورتیاں ہوں یا اللہ کے نیک بندے، سب کو ان کی تذلیل کے لئے جمع کیا جائیے گا۔ تاہم نیک لوگوں کو اللہ جہنم سے دور ہی رکھے گا، اور دوسرے معبودوں کو ان کے ساتھ جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ تاہم وہ دیکھ لیں کہ یہ کسی کو نقصان پہنچانے پر قادر نہیں ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٣] زوج کے تینوں معانی اکٹھے مراد ہیں :۔ ازواج کا لفظ تین معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور اس مقام پر تینوں معنی دے رہا ہے۔ ایک معنی یہ ہے کہ مرد بیوی کا اور بیوی مرد کی زوج ہے۔ اس لحاظ سے معنی یہ ہوگا کہ فرشتوں کو حکم ہوگا کہ ظالموں اور ان کی بیویوں کو جو بغاوت میں ان کی شریک تھیں سب کو گھیر لاؤ۔ زوج کا دوسرا معنی اس کے مماثل ہوتا ہے۔ جیسے ایک جوتا دوسرے کا زوج ہے۔ اس لحاظ سے معنی یہ ہوگا ظالموں کی جتنی اقسام ہیں ان سب کو گھیر کرلے آؤ۔ اور زوج کا تیسرا معنی اس کی ضد ہے جیسے رات دن کا زوج ہے اور دن رات کا، یا تاریکی روشنی کا زوج ہے۔ اور روشنی تاریکی کا۔ اس لحاظ سے معنی یہ ہوگا۔ معبودوں اور ان کے عبادت گزاروں سب کو گھیر گھار کر ہمارے سامنے لا حاضر کرو۔ - [١٤] معبودان باطل کی تین اقسام :۔ اللہ کے سوا معبودوں کی بڑی قسمیں دو ہیں۔ ایک غیر ذوی العقول، ان میں بت، ستارے، شجر و حجر اور حیوانات وغیرہ مثلاً گائے، بیل اور سانپ وغیرہ سب کچھ آجاتا ہے۔ دوسرے ذوی العقول جسے انبیائ، فرشتے، اولیاء اور بزرگ۔ پھر انسانوں اور جنوں میں سے کچھ ایسے معبود ہیں جو خود بھی چاہتے تھے کہ اللہ کے مقابلہ میں ان کی اطاعت کی جائے یا ان کی خدائی اور خدائی اختیارات تسلیم کئے جائیں۔ ان سب میں سے صرف فرشتے، انبیاء اور وہ بزرگ جہنم میں نہیں جائیں گے جو خود شرک سے منع کرتے رہے۔ باقی سب معبودوں کو اکٹھا کرکے جہنم میں پھینک دیا جائے گا اور اس کی وجہ پہلے کئی جگہ درج کی جاچکی ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اُحْشُرُوا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَهُمْ : یہاں ” الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا “ سے مراد کفار و مشرکین ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ انھیں اور ان کے ” من دون اللہ “ معبودوں کو جہنم کی طرف لے جانے کا حکم ہوگا اور ظاہر ہے موحد مسلمان اللہ کے سوا کسی معبود کی پرستش نہیں کرتے۔ نیز دیکھیے سورة انعام (٨٢) اور لقمان (١٣) ” وَاَزْوَاجَهُمْ “ طبری میں علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس (رض) سے مروی ہے : ” أَزْوَاجٌ“ (جوڑوں) سے مراد ان جیسے دوسرے لوگ ہیں۔ “ بیویاں بھی مراد ہوسکتی ہیں، جو کفرو شرک میں ان کی ہم نوا تھیں۔ یعنی قیامت قائم ہونے کے ساتھ فرشتوں کو حکم ہوگا کہ کفار و مشرکین کو مومنوں سے الگ کرو اور ان میں سے ہر ہر قسم کو الگ الگ اکٹھا کرو، مثلاً زانیوں کو زانیوں کے ساتھ، سود خوروں کو سود خوروں کے ساتھ، چوروں کو چوروں کے ساتھ، اسی طرح مشرک خاوندوں کو ان کی مشرک بیویوں کے ساتھ اکٹھا کرنے کا حکم ہوگا، جیسا کہ ایمان والے اپنی بیویوں کے ساتھ ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (جَنّٰتُ عَدْنٍ يَّدْخُلُوْنَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَاۗىِٕهِمْ وَاَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيّٰــتِهِمْ ) [ الرعد : ٢٣ ] ” ہمیشگی کے باغات، جن میں وہ داخل ہوں گے اور ان کے باپ دادوں اور ان کی بیویوں اور ان کی اولادوں میں سے جو نیک ہوئے۔ “ ان کے ساتھ ان کے بتوں اور دوسرے باطل معبودوں کو بھی اکٹھا کر کے جہنم کے راستے کی طرف لے جانے کا حکم ہوگا، جن کی وہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر عبادت کرتے رہے تھے۔ جن میں شیاطین اور وہ جنّ اور انسان بھی شامل ہوں گے جو اپنی عبادت کروانے پر خوش تھے۔ مقصد انھیں ذلیل کرنا ہوگا کہ اب اپنے خداؤں سے کہو کہ تمہاری مدد کریں۔ البتہ فرشتے، انبیاء اور صلحاء، جنھیں وہ پوجتے رہے تھے، وہ اس سے مستثنیٰ ہوں گے۔ دیکھیے سورة انبیاء (٩٨ تا ١٠٣) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

احشر والذین ظلموا و ازواجھہم (یعنی ان ظالموں کو جنہوں نے شرک کے ظلم عظیم کا ارتکاب کیا اور ان کے ہم مشربوں کو جمع کرلو) یہاں ہم مشربوں کے لئے ازواج کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے لفظی معنی ہیں ” جوڑ “ اور یہ لفظ شوہر اور بیوی کے معنی میں بھی بکثرت استعمال ہوتا ہے۔ اسی لئے بعض مفسرین نے اس کے معنی بیان کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ اس سے مشرکین کی وہ بیویاں مراد ہیں جو خود بھی مشرک تھیں۔ لیکن اکثر مفسرین کے نزدیک یہاں ” ازواج “ سے مراد ہم مشرب ہی ہے، اور اس کی تائید حضرت عمر کے ایک ارشاد سے بھی ہوتی ہے۔ امام بیہقی اور عبدالرزاق وغیرہ نے اس آیت کی تفسیر میں حضرت عمر کا یہ قول نقل کیا ہے، کہ یہاں ازواجہم سے مراد ہیں ان جیسے دوسرے لوگ، چناچہ سود خور سود خوروں کے ساتھ، زنا کار دوسرے زانیوں کے ساتھ، اور شراب پینے والے دوسرے شراب پینے والوں کے ساتھ جمع کئے جائیں گے۔ (روح المعانی و مظہری)- اس کے علاوہ و ما کانوا یعبدون کے الفاظ سے بتادیا گیا کہ مشرکین کے ساتھ ان کے وہ باطل معبود یعنی بت اور شیاطین بھی جمع کئے جائیں گے، جنہیں یہ لوگ دنیا میں اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتے تھے، تاکہ اس وقت ان باطل معبودوں کی بےبسی کا اچھی طرح نظارہ کرایا جائے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

رکوع نمبر 6- اُحْشُرُوا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَہُمْ وَمَا كَانُوْا يَعْبُدُوْنَ۝ ٢٢ۙ- حشر - ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة .- ( ح ش ر ) الحشر ( ن )- اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - زوج - يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی: فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة 39] ، وقال : وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ- [ البقرة 35] ، وزَوْجَةٌ لغة رديئة، وجمعها زَوْجَاتٌ ، قال الشاعر : فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتي وجمع الزّوج أَزْوَاجٌ. وقوله : هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس 56] ، احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] ، أي : أقرانهم المقتدین بهم في أفعالهم، وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر 88] ، أي : أشباها وأقرانا . وقوله : سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس 36] ، وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات 49] ، فتنبيه أنّ الأشياء کلّها مركّبة من جو هر وعرض، ومادّة وصورة، وأن لا شيء يتعرّى من تركيب يقتضي كونه مصنوعا، وأنه لا بدّ له من صانع تنبيها أنه تعالیٰ هو الفرد، وقوله : خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات 49] ، فبيّن أنّ كلّ ما في العالم زوج من حيث إنّ له ضدّا، أو مثلا ما، أو تركيبا مّا، بل لا ينفكّ بوجه من تركيب، وإنما ذکر هاهنا زوجین تنبيها أنّ الشیء۔ وإن لم يكن له ضدّ ، ولا مثل۔ فإنه لا ينفكّ من تركيب جو هر وعرض، وذلک زوجان، وقوله : أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه 53] ، أي : أنواعا متشابهة، وکذلک قوله : مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] ، ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام 143] ، أي : أصناف . وقوله : وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة 7] ، أي : قرناء ثلاثا، وهم الذین فسّرهم بما بعد وقوله : وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير 7] ، فقد قيل : معناه : قرن کلّ شيعة بمن شایعهم في الجنّة والنار، نحو : احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] ، وقیل : قرنت الأرواح بأجسادها حسبما نبّه عليه قوله في أحد التّفسیرین : يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر 27- 28] ، أي : صاحبک . وقیل : قرنت النّفوس بأعمالها حسبما نبّه قوله : يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران 30] ، وقوله : وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان 54] ، أي : قرنّاهم بهنّ ، ولم يجئ في القرآن زوّجناهم حورا، كما يقال زوّجته امرأة، تنبيها أن ذلک لا يكون علی حسب المتعارف فيما بيننا من المناکحة .- ( ز و ج ) الزوج جن حیوانات میں نر اور مادہ پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نر اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علاوہ دوسری اشیاء میں جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مماثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى [ القیامة 39] اور ( آخر کار ) اس کی دو قسمیں کیں ( یعنی ) مرد اور عورت ۔ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ [ البقرة 35] اور تیری بی بی جنت میں رہو ۔ اور بیوی کو زوجۃ ( تا کے ساتھ ) کہنا عامی لغت ہے اس کی جمع زوجات آتی ہے شاعر نے کہا ہے فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتیتو میری بیوی اور بیٹیاں غم سے رونے لگیں ۔ اور زوج کی جمع ازواج آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس 56] وہ اور ان کے جوڑے اور آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] جو لوگ ( دنیا میں ) نا فرمانیاں کرتے رہے ہیں ان کو اور ان کے ساتھیوں کو ( ایک جگہ ) اکٹھا کرو ۔ میں ازواج سے ان کے وہ ساتھی مراد ہیں جو فعل میں ان کی اقتدا کیا کرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر 88] اس کی طرف جو مختلف قسم کے لوگوں کو ہم نے ( دنیاوی سامان ) دے رکھے ہیں ۔ اشباہ و اقران یعنی ایک دوسرے سے ملتے جلتے لوگ مراد ہیں اور آیت : ۔ سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس 36] پاک ہے وہ ذات جس نے ( ہر قسم کی ) چیزیں پیدا کیں ۔ نیز : ۔ وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات 49] اور تمام چیزیں ہم نے دو قسم کی بنائیں ۔ میں اس بات پر تنبیہ کی ہے ۔ کہ تمام چیزیں جوہر ہوں یا عرض مادہ و صورت سے مرکب ہیں اور ہر چیز اپنی ہیئت ترکیبی کے لحا ظ سے بتا رہی ہے کہ اسے کسی نے بنایا ہے اور اس کے لئے صائع ( بنانے والا ) کا ہونا ضروری ہے نیز تنبیہ کی ہے کہ ذات باری تعالیٰ ہی فرد مطلق ہے اور اس ( خلقنا زوجین ) لفظ سے واضح ہوتا ہے کہ روئے عالم کی تمام چیزیں زوج ہیں اس حیثیت سے کہ ان میں سے ہر ایک چیز کی ہم مثل یا مقابل پائی جاتی ہے یا یہ کہ اس میں ترکیب پائی جاتی ہے بلکہ نفس ترکیب سے تو کوئی چیز بھی منفک نہیں ہے ۔ پھر ہر چیز کو زوجین کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ اگر کسی چیز کی ضد یا مثل نہیں ہے تو وہ کم از کم جوہر اور عرض سے ضرور مرکب ہے لہذا ہر چیز اپنی اپنی جگہ پر زوجین ہے ۔ اور آیت أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه 53] طرح طرح کی مختلف روئیدگیاں ۔ میں ازواج سے مختلف انواع مراد ہیں جو ایک دوسری سے ملتی جلتی ہوں اور یہی معنی آیت : ۔ مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] ہر قسم کی عمدہ چیزیں ( اگائیں ) اور آیت کریمہ : ۔ ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام 143]( نر اور مادہ ) آٹھ قسم کے پیدا کئے ہیں ۔ میں مراد ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة 7] میں ازواج کے معنی ہیں قرناء یعنی امثال ونظائر یعنی تم تین گروہ ہو جو ایک دوسرے کے قرین ہو چناچہ اس کے بعد اصحاب المیمنۃ سے اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير 7] اور جب لوگ باہم ملا دیئے جائیں گے ۔ میں بعض نے زوجت کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ ہر پیروکار کو اس پیشوا کے ساتھ جنت یا دوزخ میں اکٹھا کردیا جائیگا ۔ جیسا کہ آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] میں مذکور ہوچکا ہے اور بعض نے آیت کے معنی یہ کئے ہیں کہ اس روز روحوں کو ان کے جسموں کے ساتھ ملا دیا جائیگا جیسا کہ آیت يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر 27- 28] اے اطمینان پانے والی جان اپنے رب کی طرف لوٹ آ ۔ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ۔ میں بعض نے ربک کے معنی صاحبک یعنی بدن ہی کئے ہیں اور بعض کے نزدیک زوجت سے مراد یہ ہے کہ نفوس کو ان کے اعمال کے ساتھ جمع کردیا جائیگا جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران 30] جب کہ ہر شخص اپنے اچھے اور برے عملوں کو اپنے سامنے حاضر اور موجود پائیگا ۔ میں بھی اس معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان 54] اور ہم انہیں حورعین کا ساتھی بنا دیں گے ۔ میں زوجنا کے معنی باہم ساتھی اور رفیق اور رفیق بنا دینا ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جہاں بھی حور کے ساتھ اس فعل ( زوجنا ) کا ذکر کیا ہے وہاں اس کے بعد باء لائی گئی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ حوروں کے ساتھ محض رفاقت ہوگی جنسی میل جول اور ازواجی تعلقات نہیں ہوں گے کیونکہ اگر یہ مفہوم مراد ہوتا تو قرآن بحور کی بجائے زوجناھم حورا کہتا جیسا کہ زوجتہ امرءۃ کا محاورہ ہے یعنی میں نے اس عورت سے اس کا نکاح کردیا ۔- عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٢۔ ٢٤) پھر اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دے گا کہ مشرکین کو اور جن و انس اور شیطاطین میں سے سب ان کے ہم مسلکوں کو اور ان کے بتوں جو جمع کرلو پھر ان سب کو دوزخ کے درمیان لے جاؤ۔ پھر فرشتوں کو حکم ہوگا کہ ان کو ذرا دوزخ کے قریب ٹھہراؤ۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢ اُحْشُرُوا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَہُمْ وَمَا کَانُوْا یَعْبُدُوْنَ ’ (پھر حکم دیا جائے گا) جمع کرو ان سب ظالموں کو اور ان کے ساتھیوں کو اور ان کو بھی جن کی یہ لوگ پوجا کیا کرتے تھے ‘- پھر فرشتوں کو حکم ہوگا کہ ان کافروں ‘ مشرکوں اور ہر طرح کے مجرموں کو ‘ چاہے وہ انسانوں میں سے ہوں یا ِجنوں میں سے ‘ سب کو ایک جگہ جمع کرلو اور ان کے جھوٹے معبودوں کو بھی ساتھ ہی لے آئو۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :14 ظالم سے مراد صرف وہی لوگ نہیں ہیں جنہوں نے دوسروں پر ظلم کیا ہو ، بلکہ قرآن کی اصطلاح میں ہر وہ شخص ظالم ہے جس نے اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں بغاوت و سرکشی اور نافرمانی کی راہ اختیار کی ہو ۔ سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :15 اصل میں لفظ ازواج استعمال کیا گیا ہے جس سے مراد ان کی وہ بیویاں بھی ہو سکتی ہیں جو اس بغاوت میں ان کی رفیق تھیں ، اور وہ سب لوگ بھی ہو سکتے ہیں جو انہی کی طرح باغی و سرکش اور نافرمان تھے ۔ علاوہ بریں اس کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ ایک ایک قسم کے مجرم الگ الگ جتھوں کی شکل میں جمع کیے جائیں گے ۔ سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :16 اس جگہ معبودوں سے مراد دو قسم کے معبود ہیں ۔ ایک وہ انسان اور شیاطین جن کی اپنی خواہش اور کوشش یہ تھی کہ لوگ خدا کو چھوڑ کر ان کی بندگی کریں ۔ دوسرے وہ اصنام اور شجر و حجر وغیرہ جن کی پرستش دنیا میں کی جاتی رہی ہے ۔ ان میں سے پہلی قسم کے معبود تو خود مجرمین میں شامل ہوں گے اور انہیں سزا کے طور پر جہنم کا راستہ دکھایا جائے گا ۔ اور دوسری قسم کے معبود اپنے پرستاروں کے ساتھ اس لیے جہنم میں ڈالے جائیں گے کہ وہ انہیں دیکھ کر ہر وقت شرمندگی محسوس کریں اور اپنی حماقتوں کا ماتم کرتے رہیں ۔ ان کے علاوہ ایک تیسری قسم کے معبود وہ بھی ہیں جنہیں دنیا میں پوجا تو گیا ہے مگر خود ان کا اپنا ایما ہرگز یہ نہ تھا کہ ان کی پرستش کی جائے ، بلکہ اس کے برعکس وہ ہمیشہ انسانوں کو غیر اللہ کی پرستش سے منع کرتے رہے ، مثلاً فرشتے ، انبیا اور اولیاء ۔ اس قسم کے معبود ظاہر ہے کہ ان معبودوں میں شامل نہ ہوں گے جنہیں اپنے پرستاروں کے ساتھ جہنم کی طرف دھکیلا جائے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani