Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

دوزخیوں کا اپنے بزرگوں سے شکوہ ۔ کافر لوگ جس طرح جہنم کے طبقوں میں جلتے ہوئے آپس میں جھگڑے کریں گے اسی طرح قیامت کے میدان میں وہ ایک دوسرے پر الزام لگائیں گے کمزور لوگ زور آوروں سے کہیں گے کہ ہم تو تمہارے تابع فرمان تھے کیا آج ہمیں تم تھوڑے بہت عذاب سے بچالو گے ؟ وہ کہیں گے کہ ہم تو خود تمہارے ساتھ ہی اسی جہنم میں جل رہے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلے فرما چکا ۔ اور جیسے اور جگہ ان کی یہ بات چیت اس طرح منقول ہے کہ ضعیف لوگ متکبروں سے کہیں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم ضرور ایماندار بن جاتے ۔ وہ جواب دیں گے کیا ہم نے تمہیں ہدایت سے روک دیا ؟ نہیں بلکہ تم تو خود ہی بدکار تھے ۔ یہ کہیں گے بلکہ دن رات کا مکر جبکہ تم ہمیں حکم کرتے تھے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کریں اور اس کے شریک مقرر کریں ۔ عذاب کو دیکھتے ہی یہ سب کے سب بےطرح نادام و پیشمان ہوں گے لیکن اپنی ندامت کو چھپائیں گے ۔ ان تمام کفار کی گردنوں میں طوق ڈال دئیے جائیں گے ہاں یہ یقینی بات ہے کہ ہر ایک کو صرف اس کی کرنی بھرنی پڑے گی پس یہاں بھی یہی بیان ہو رہا ہے کہ وہ اپنے بڑوں اور سرداروں سے کہیں گے تم ہماری دائیں جانب سے آتے تھے یعنی چونکہ ہم کمزور کم حیثیت تھے اور تمہیں ہم پر ترجیح تھی اس لیے تم ہمیں دبادبو کر حق سے ناحق کی طرف پھیر دیتے تھے ، یہ کافروں کا مقولہ ہوگا جو وہ شیطانوں سے کہیں گے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ انسان یہ بات جنات سے کہیں گے کہ تم ہمیں بھلائی سے روک کر برائی پر آمادہ کرتے تھے گناہ کو مزین اور شیریں دکھاتے تھے اور نیکی کو بری اور مشکل جتاتے تھے ، حق سے روکتے تھے باطل پر جما دیتے تھے ، جب کبھی نیکی کا خیال ہمارے دل میں آتا تھا تم کسی نہ کسی فریب سے اس سے روک دیتے تھے ، اسلام ، ایمان ، خیرو خوبی ، نیکی اور سعادت مندی سے تم نے ہمیں محروم کردیا ۔ توحید سے دور ڈال دیا ۔ ہم تمہیں اپنا خیر خواہ سمجھتے رہے ، راز دار بنائے رہے ، تمہاری باتیں مانتے رہے تمہیں بھلا آدمی سمجھتے رہے ۔ اس کے جواب میں جنات اور انسان جتنے بھی سردار ذی عزت اور بڑے لوگ تھے ان کمزوروں کو جواب دیں گے کہ اس میں ہمارا تو کوئی قصور نہیں تم تو خود ہی ایسے ہی تھے تمہارے دل ایمان سے بھاگتے تھے اور کفر کی طرف دوڑ کر جاتے تھے ۔ ہم نے تمیں جس چیز کی طرف بلایا وہ کوئی حق بات نہ تھی نہ اس کی بھلائی پر کوئی دلیل تھی لیکن چونکہ تم طبعاً برائی کی طرف مائل تھے خود تمہارے دلوں میں سرکشی اور برائی تھی اس لیے تم نے ہمارا کہا مان لیا ۔ اب تو ہم سب پر اللہ کا قول ثابت ہوگیا کہ ہم یقینا عذابوں کا مزہ چکھنے والے ہیں ۔ یہ بڑے لوگ چھوٹوں سے یہ متبوع لوگ اپنے تابعداروں سے کہیں گے کہ ہم تو خود ہی بہکے ہوئے تھے ہم نے تمہیں بھی اپنی ضلالت کی طرف بلایا تم دوڑے ہوئے آگئے ۔ بتاؤ تم نے ہماری بات مان لی ؟ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے پس آج کے دن سب لوگ جہنم کے عذابوں میں شریک ہیں ہر ایک اپنے اپنے اعمال کی سزا بھگت رہا ہے ۔ مجرموں کے ساتھ ہم اسی طرح کیا کرتے ہیں ۔ یہ مومنوں کی طرح اللہ کی توحید کے قائل نہ تھے بلکہ توحید کی آواز سے تکبر نفرت کرتے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جہاد کروں جب تک کہ وہ لا الہ الا اللہ نہ کہہ لیں جو اسے کہہ لے اس نے اپنا مال اور اپنی جان بچالی مگر اسلامی فرمان سے ۔ اور اس کا باطنی حساب اللہ کے ذمے ہے ۔ اللہ کی کتاب میں بھی یہی مضمون ہے ۔ اور ایک متکبر قوم کا ذکر ہے کہ وہ اس کلمہ سے روگردانی کرتے تھے ۔ ابن ابی حاتم میں ابو العلاء سے مروی ہے کہ یہودیوں کو قیامت کے دن لایا جائے گا اور ان سے سوال ہوگا کہ تم دنیا میں کس کی عبادت کرتے تھے؟ وہ کہیں گے اللہ کی اور عزیر کی ۔ ان سے کہا جائے گا اچھا بائیں طرف آؤ ۔ پھر نصرانیوں سے یہی سوال ہوگا وہ کہیں گے اللہ کی اور مسیح کی تو ان سے بھی یہی کہا جائے گا پھر مشرکین کو لایا جائے گا اور ان سے لا الہ الا اللہ کہا جائے گا وہ تکبر کریں گے تین مرتبہ ایسا ہی ہوگاپھر حکم ہوگا انہیں بھی بائیں طرف لے چلو فرشتے انہیں پرندوں سے بھی جلدی پہنچادیں گے ۔ پھر مسلمانوں کو لایا جائے گا اور ان سے پوچھا جائیگا کہ تم کس کی عبادت کرتے رہے ؟ یہ کہیں گے صرف اللہ تعالیٰ کی ۔ تو ان سے کہا جائے گا کیا تم اسے دیکھ کر پہچان سکتے ہو؟ یہ کہیں گے ہاں ۔ پوچھا جائے گا تم کیسے پہچان لو گے؟ حالانکہ تم نے کبھی اسے دیکھا نہیں یہ جواب دیں گے ہاں یہ توٹھیک ہے ہم جانتے ہیں کہ اس کے برابر کا کوئی نہیں پس اللہ تعالیٰ اپنے تئیں انہیں پہچنوائے گا اور ان کو نجات دے گا ۔ یہ کلمہ توحید اور رد شرک سن کر جواب دیتے تھے کہ کیا اس شاعر و مجنوں کے کہنے سے ہم اپنی معبودوں سے دست بردار ہوجائیں گے؟ ماننا تو ایک طرف الٹے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شاعر اور دیوانہ بتاتے تھے ۔ پس اللہ تعالیٰ ان کی تکذیب کرتا ہے اور ان کے رد میں فرماتا ہے کہ یہ تو بالکل سچے ہیں سچ لے کر آئے ہیں ساری شریعت سراسر حق ہے خبریں ہوں تو اور حکم ہوں تو ۔ یہ رسولوں کو بھی سچا جانتا ہے ان رسولوں نے جو صفتیں اور پاکیزگیاں آپکی بیان کی تھیں ۔ انکے صحیح مصدق آپ ہی ہیں ۔ یہ بھی وہی احکام بیان کرتے ہیں جو اگلے انبیاء نے کئے جیسے اور آیت میں ہے ( مَا يُقَالُ لَكَ اِلَّا مَا قَدْ قِيْلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَبْلِكَ ۭ اِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ مَغْفِرَةٍ وَّذُوْ عِقَابٍ اَلِيْمٍ 43؀ ) 41- فصلت:43 ) ، یعنی تجھ سے وہی کہا جاتا ہے جو تجھ سے پہلے کے نبیوں سے کہا جاتا رہا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰي بَعْضٍ يَّتَسَاۗءَلُوْنَ : یعنی گمراہ لوگ اور انھیں گمراہ کرنے والے، کمزور اور قوت والے ایک دوسرے سے مخاطب ہو کر یہ گفتگو کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل جہنم کی باہمی گفتگو، ان کا ایک دوسرے کو ملامت کرنا اور گمراہ کرنے والوں کا اپنی پیروی کرنے والوں سے بری ہونے کے اعلان کا ذکر کئی مقامات پر فرمایا ہے۔ دیکھیے سورة بقرہ (١٦٦، ١٦٧) ، ابراہیم (٢١، ٢٢) ، اعراف (٣٨، ٣٩) ، سبا (٣١ تا ٣٣) اور مومن (٤٧، ٤٨) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - (بجائے اس کے کہ مشرکین ایک دوسرے کی مدد کرسکیں ان میں اس وقت الٹا جھگڑا ہوگا) اور وہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر جواب سوال (یعنی اختلاف) کرنے لگیں گے (چنانچہ) تابعین (اپنے سرداروں سے) کہیں گے کہ (ہم کو تم نے گمراہ کیا، کیونکہ) ہم پر تمہاری آمد بڑے زور کی ہوا کرتی تھی (یعنی تم ہم پر خوب زور ڈال کر ہمیں گمراہ کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے) تبوعین یہ کہیں گے کہ نہیں بلکہ تم خود ہی ایمان نہیں لائے تھے، اور (ہم پر ناحق الزام لگاتے ہو، کیونکہ) ہمارا تم پر کوئی زور تو تھا ہی نہیں، بلکہ تم خود ہی سرکشی کیا کرتے تھے سو (جب کفر کے مرتکب ہم بھی تھے اور تم بھی، تو معلوم ہوا کہ) ہم سب پر ہی ہمارے رب کی یہ (ازلی) بات محقق ہوچکی تھی کہ ہم سب کو (عذاب کا) مزہ چکھنا ہے، تو (اس کا سامان یہ ہوگیا کہ) ہم نے تم کو بہکایا (جس سے تم ہمارے جبر واکراہ کے بغیر خود اپنے اختیار سے گمراہ ہوئے اور ادھر) ہم خود بھی (اپنے اختیار سے) گمراہ تھے (پس دونوں کی گمراہی کے اسباب جمع ہوگئے، جس میں تمہارا اپنا اختیار بھی اپنی گمراہی کا بڑا سبب ہے، پھر اپنے آپ کو بری کیسے کرنا چاہتے ہو ؟ آگے حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جب دونوں فریق کا کفر میں مشترک ہونا ثابت ہے، تو وہ سب کے سب اس روز عذاب میں (بھی) شریک رہیں گے (اور) ہم ایسے مجرموں کے ساتھ ایسا ہی کیا کرتے ہیں (آگے ان کے کفر و جرم کا بیان ہے کہ) وہ لوگ ایسے تھے کہ (توحید کے بھی منکر تھے اور رسالت کے بھی چنانچہ) جب ان سے (بواسطہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہا جاتا تھا کہ خدا کے سوا کوئی معبود برحق نہیں تو (اس کے ماننے سے) تکبر کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ کیا ہم اپنے معبودوں کو ایک شاعر دیوانہ (کے کہنے) کی وجہ سے چھوڑ دیں گے ؟ (پس اس میں توحید اور رسالت دونوں کا انکار ہوگیا حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ پیغمبر نہ شاعر ہیں نہ مجنون) بلکہ (پیغمبر ہیں کہ) ایک سچا دین لے کر آئے ہیں اور (اصول توحید وغیرہ میں) دوسرے پیغمبروں کی تصدیق (اور موافقت) کرتے ہیں (یعنی ایسے اصول بتلاتے ہیں جس میں سب رسول متفق ہیں۔ پس وہ اصول بیشمار دلائل کی روشنی میں حق ہیں، خیال بندی نہیں، اور حق بات کا کہنا جنون نہیں۔ دوسری امتوں نے بھی اپنے انبیاء کے ساتھ اسی قسم کا برتاؤ کیا۔ یہاں چونکہ براہ راست کفار عرب مخاطب ہیں، اس لئے صرف اسی امت کے کافروں کا ذکر کیا گیا ہے، آگے اس بات کا بیان ہے کہ انہیں مشافہتہ اس مشترک عذاب کی وعید سنائی جائے گی کہ) تم سب (تابع اور متبوع) کو دردناک عذاب چکھنا پڑے گا اور (اس حکم میں تم پر کوئی ظلم نہیں ہوا، کیونکہ) تم کو اسی کا بدلہ ملے گا جو کچھ تم (کفر وغیرہ) کیا کرتے تھے، ہاں مگر جو اللہ کے خاص کئے ہوئے بندے ہیں (اس سے مراد وہ اہل ایمان ہیں جنہوں نے حق کا اتباع کیا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں مقبول اور مخصوص فرما لیا ایسے لوگ عذاب سے محفوظ رہیں گے) ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاَقْبَلَ بَعْضُہُمْ عَلٰي بَعْضٍ يَّتَسَاۗءَلُوْنَ۝ ٢٧- إِقْبَالُ- التّوجّه نحو الْقُبُلِ ، كَالاسْتِقْبَالِ. قال تعالی: فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ [ الصافات 50] ، وَأَقْبَلُوا عَلَيْهِمْ [يوسف 71] ، فَأَقْبَلَتِ امْرَأَتُهُ [ الذاریات 29]- اقبال - اور استقبال کی طرح اقبال کے معنی بھی کسی کے رو برو اور اس کی طرف متوجہ ہو نیکے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ [ الصافات 50] پھر لگے ایک دوسرے کو رو ور ود ملا مت کرنے ۔ - وَأَقْبَلُوا عَلَيْهِمْ [يوسف 71] ، اور وہ ان کی طرف متوجہ ہوکر - بعض - بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] - ( ب ع ض ) بعض - الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٧ وَاَقْبَلَ بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ یَّتَسَآئَ لُوْنَ ” اور پھر وہ ایک دوسرے کی طرف رخ کرکے پوچھنے لگیں گے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani