Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

28۔ 1 اس کا مطلب ہے کہ دین اور حق کے نام سے آتے تھے یعنی باور کراتے تھے کہ یہی اصل دین اور حق ہے اور بعض کے نزدیک مطلب ہے، ہر طرف سے آتے تھے جس طرح شیطان نے کہا میں ان کے آگے، پیچھے سے، ان کے دائیں بائیں سے ہر طرف سے ان کے پاس آؤں گا اور انہیں گمراہ کروں گا (ثُمَّ لَاٰتِيَنَّهُمْ مِّنْۢ بَيْنِ اَيْدِيْهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ اَيْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَاۗىِٕلِهِمْ ۭ وَلَا تَجِدُ اَكْثَرَهُمْ شٰكِرِيْنَ ) 7 ۔ الاعراف :17)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٦] لفظ یمین کے مختلف معنی اور ان سب کا اطلاق :۔ یمین کا لفظ بہت وسیع معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً (١) یمین بمعنی دایاں ہاتھ بھی اور دائیں طرف بھی اور (٢) اصحاب الیمین کے معنی دائیں ہاتھ یا دائیں جانب والے بھی اور اصحاب خیرو برکت بھی (مفردات القرآن) (٣) پھر جس طرح ید کا لفظ قوت اور قبضہ کے معنوں میں آتا ہے یمین اس سے بھی زیادہ وسیع معنوں میں آتا ہے۔ کیونکہ قوت اور کارکردگی کے لحاظ سے دایاں ہاتھ بائیں سے افضل اور بہتر ہے۔ اور ملک یمین اس چیز کو کہتے ہیں جس پر پورا قبضہ اور اختیار ہو اور محاورۃ یہ لفظ لونڈی اور غلام کے معنوں میں آتا ہے۔ (٤) علاوہ ازیں اہل عرب کی عادت تھی کہ اپنے عہد و پیمان اور قسم کو مضبوط تر بنانے کے لئے اپنا ہاتھ مخاطب کے ہاتھ میں دیتے تھے یا مارتے تھے۔ لہذا یہ لفظ قسم کے معنوں میں بھی استعمال ہونے لگا یعنی ایسی قسم جو عہد و پیمان کو پختہ کرنے کے لیے اٹھائی جائے۔- اس آیت میں یمین کا لفظ تقریباً اپنے سب معانی کے لحاظ سے درست ہے۔ مثلاً کمزور یا پیروی کرنے والے لوگ اپنے بڑے بزرگوں سے کہیں گے کہ (١) تم لوگوں نے ہم پر کچھ ایسا دباؤ ڈال رکھا تھا کہ ہم تمہاری باتیں ماننے پر مجبور ہوگئے تھے۔ یا (٢) تم لوگوں نے یہ پروپیگنڈا کر رکھا تھا کہ جو راہ ہم نے اختیار کر رکھی ہے وہی خیر و برکت کا راستہ ہے لہذا ہم تمہارے بھرّے میں آگئے یا (٣) تم لوگوں نے قسمیں کھا کھا کر ہمیں یقین دلایا تھا کہ ہم فی الواقع تمہارے خیر خواہ ہیں۔ اس طرح تم نے ہمیں بھٹکا کر اپنے ساتھ لگا لیا تھا اور ہم تمہاری اطاعت کرنے لگے تھے۔ اور ان سب مطالب کا خلاصہ یہی ہے کہ ہمیں اس انجام بد سے دو چار کرنے والے اور گمراہ کرنے والے تم ہی لوگ ہو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْٓا : یعنی کمزور اور پیروی کرنے والے اپنے سرداروں اور گمراہ کرنے والوں سے کہیں گے۔- اِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَاْتُوْنَنَا عَنِ الْيَمِيْنِ : ” الْيَمِيْنِ “ کا معنی قسم بھی ہے، دایاں ہاتھ بھی اور دائیں جانب بھی۔ اگر اس کا معنی قسم لیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ تم ہی قسم کی راہ سے ہمارے پاس آتے تھے، یعنی قسمیں کھا کھا کر اپنے آپ کو ہمارا خیرخواہ ظاہر کرتے تھے اور اگر اس کا معنی دایاں ہاتھ لیا جائے تو اس سے مراد قوت ہوگی، کیونکہ اہل عرب یمین بول کر قوت مراد لیتے ہیں۔ مطلب یہ ہوگا کہ تم زور اور قوت دکھلا کر ہمیں مرعوب کرتے تھے اور بہکانے کے لیے ہم پر چڑھ دوڑا کرتے تھے اور اگر دائیں جانب معنی ہو تو مراد خیر اور نیکی کی جانب ہوگی اور مطلب یہ ہوگا کہ تم آکر ہمیں خیرخواہی، نیکی اور دین حق کی راہ سے بہکاتے تھے اور کہتے تھے کہ جس چیز کا ہم تمہیں حکم دے رہے ہیں نیکی اور حق وہی ہے۔ آیت کے الفاظ میں بیک وقت تینوں معنوں کی گنجائش ہے اور یہ کلام اللہ کا اعجاز ہے، کیونکہ ان کے سردار گمراہ کرنے کے یہ تینوں طریقے استعمال کرتے تھے۔ کمزور لوگوں کا مقصد اپنی گمراہی کی پوری ذمہ داری سرداروں پر ڈالنا ہوگا، تاکہ عذاب سے کسی طرح بچ سکیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف و مسائل - میدان حشر میں جمع ہوجانے کے بعد کافروں کے بڑے بڑے سردار جنہوں نے اپنے چھوٹوں کو بہکایا تھا، اپنے پیرو وں کے سامنے آئیں گے۔ تو بجائے اس کے کہ ایک دوسرے کی کوئی مدد کرسکیں، آپس میں بحث و تکرار شروع کردیں گے۔ ان آیات میں اسی بحث و تکرار کا کچھ نقشہ کھینچ کر فریقین کا انجام بد بیان کیا گیا ہے۔ آیات کا مفہوم خلاصہ تفسیر سے واضح ہے، صرف چند مختصر باتیں قابل ذکر ہیں :۔- (١) انکم کنتم تاتوننا عن الیمین، میں ” یمین “ کے کئی معنی ہو سکتے ہیں، ان میں سے ایک معنی قوت و طاقت بھی ہیں۔ اوپر اسی معنی کے لحاظ سے تفسیر یہ کی گئی ہے کہ ” ہم پر تمہاری آمد بڑے زور کی ہوا کرتی تھی “ یعنی تم ہم پر خوب زور ڈال کر ہمیں گمراہ کیا کرتے تھے اور یہی تفسیر زیادہ صاف اور بےغبار ہے۔ اس کے علاوہ یمین کے معنی قسم کے بھی آتے ہیں اس لئے بعض حضرات نے اس کی تفسیر اس طرح کی ہے کہ : ” تم ہمارے پاس قسمیں لے کر آیا کرتے تھے “ یعنی قسم کھا کھا کر یہ باور کراتے تھے کہ ہمارا مذہب درست ہے، اور رسول کی تعلیم (معاذ اللہ) باطل ہے۔ الفاظ قرآنی کے لحاظ سے یہ دو نوں تفسیریں بےتکلف ممکن ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالُوْٓا اِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَاْتُوْنَنَا عَنِ الْيَمِيْنِ۝ ٢٨- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ «5» ، وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ «6» .- والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر : أتيت المروءة من بابهافَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم 27] . يقال : أتيته وأتوته - الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو أَتَى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت وَجَاءَ رَبُّكَ [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) " اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔- يمین ( دائیں طرف)- اليَمِينُ : أصله الجارحة، واستعماله في وصف اللہ تعالیٰ في قوله : وَالسَّماواتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ- [ الزمر 67] علی حدّ استعمال الید فيه، و تخصیص اليَمِينِ في هذا المکان، والأرض بالقبضة حيث قال جلّ ذكره : وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 67] «1» يختصّ بما بعد هذا الکتاب . وقوله :إِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَأْتُونَنا عَنِ الْيَمِينِ- [ الصافات 28] أي : عن الناحية التي کان منها الحقّ ، فتصرفوننا عنها، وقوله : لَأَخَذْنا مِنْهُ بِالْيَمِينِ [ الحاقة 45] أي : منعناه ودفعناه . فعبّر عن ذلک الأخذ باليَمِينِ کقولک : خذ بِيَمِينِ فلانٍ عن تعاطي الهجاء، وقیل : معناه بأشرف جو ارحه وأشرف أحواله، وقوله جلّ ذكره : وَأَصْحابُ الْيَمِينِ [ الواقعة 27] أي : أصحاب السّعادات والمَيَامِنِ ، وذلک علی حسب تعارف الناس في العبارة عن المَيَامِنِ باليَمِينِ ، وعن المشائم بالشّمال . واستعیر اليَمِينُ للتَّيَمُّنِ والسعادة، وعلی ذلک وَأَمَّا إِنْ كانَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة 90- 91] ، وعلی هذا حمل :- 477-- إذا ما راية رفعت لمجد ... تلقّاها عرابة باليَمِين - ( ی م ن ) الیمین - کے اصل معنی دایاں ہاتھ یا دائیں جانب کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَالسَّماواتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ [ الزمر 67] اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لیپٹے ہوں گے ۔ میں حق تعالیٰ کی طرف یمن نسبت مجازی ہے ۔ جیسا کہ ید وغیر ہا کے الفاظ باری تعالیٰ کے متعلق استعمال ہوتے ہیں یہاں آسمان کے لئے یمین اور بعد میں آیت : ۔ وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 67] اور قیامت کے دن تمام زمین اس کی مٹھی میں ہوگی ۔ میں ارض کے متعلق قبضۃ کا لفظ لائے میں ایک باریک نکتہ کی طرف اشارہ ہے جو اس کتاب کے بعد بیان ہوگا اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَأْتُونَنا عَنِ الْيَمِينِ [ الصافات 28] تم ہی ہمارے پاس دائیں اور بائیں ) اسے آتے تھے ۔ میں یمین سے مراد جانب حق ہے یعنی تم جانب حق سے ہمیں پھیرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ لَأَخَذْنا مِنْهُ بِالْيَمِينِ [ الحاقة 45] تو ہم ان کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے ۔ میں دایاں ہاتھ پکڑ لینے سے مراد روک دینا ہے جیسے محاورہ ہے : ۔ یعنی فلاں کو ہجو سے روک دو ۔ بعض نے کہا ہے کہ انسان کا دینا ہاتھ چونکہ افضل ہے سمجھاجاتا ہے اسلئے یہ معنی ہو نگے کہ ہم بہتر سے بہتر حال میں بھی اسے با شرف اعضاء سے پکڑ کر منع کردیتے اور آیت کریمہ : ۔ وَأَصْحابُ الْيَمِينِ [ الواقعة 27] اور دہنے ہاتھ والے ۔ میں دہنی سمت والوں سے مراد اہل سعادت ہیں کو ین کہ عرف میں میامن ( با برکت ) ) کو یمین اور مشاے م ( منحوس ) کو شمالی کے لفظ سے یاد کیا جاتا ہے اور استعارہ کے طور پر یمین کا لفظ بر کت وسعادت کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَأَمَّا إِنْ كانَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة 90- 91] اگر وہ دائیں ہاتھ والوں یعنی اصحاب خیر وبر کت سے ہے تو کہا جائیگا تجھ پر داہنے ہاتھ والوں کی طرف سے سلام اور ایس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( 426 ) اذا ما رایۃ رفعت ملجد تلقا ھا عرا بۃ بالیمین جب کبھی فضل ومجد کے کاموں کے لئے جھنڈا بلند کیا جاتا ہے تو عرابۃ اسے خیر و برکت کے ہاتھ سے پکڑ لیتا ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٨ قَالُوْٓا اِنَّکُمْ کُنْتُمْ تَاْتُوْنَنَا عَنِ الْیَمِیْنِ ” کہیں گے کہ تم ہی تو آیا کرتے تھے ہمارے پاس بڑے دبدبے کے ساتھ “- یعنی تم ہمارے سردار تھے اور اپنی اس حیثیت کا رعب جما کر ہمیں اپنی پیروی پر مجبور کیا کرتے تھے۔ تم ہمارے پاس بہت رعب ‘ دبدبے ‘ طاقت اور زور کے ساتھ آیا کرتے تھے۔ لفظ ” یمین “ کے معنی طاقت کے بھی ہیں اور داہنی طرف کے بھی۔ چناچہ آیت کا ترجمہ یوں بھی کیا گیا ہے کہ ” تم آیا کرتے تھے ہمارے پاس دائیں طرف سے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :18 اصل الفاظ ہیں کُنْتُمْ تَاْتُوْنَنَا عَنِ الْیَمِیْنِ ۔ تم ہمارے پاس یمین کی راس سے آتے تھے ۔ یمین کا لفظ عربی زبان میں متعدد مفہومات کے لیے بولا جاتا ہے ۔ اگر اس کو قوت و طاقت کے معنی میں لیا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ ہم کمزور تھے اور تم ہم پر غالب تھے ، اس لیے تم اپنے زور سے ہم کو گمراہی کی طرف کھینچ لے گئے ۔ اگر اس کو خیر اور بھلائی کے معنی میں لیا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ تم نے خیر خواہ بن کر ہمیں دھوکا دیا ۔ تم ہمیں یقین دلاتے رہے کہ جس راہ پر تم ہمیں چلا رہے ہو یہی حق اور بھلائی کی راہ ہے ۔ اس لیے ہم تمہارے فریب میں آ گئے ۔ اور اگر اسے قَسم کے معنی میں لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ تم نے قَسمیں کھا کھا کر ہمیں اطمینان دلایا تھا کہ حق وہی ہے جو تم پیش کر رہے ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

7: یعنی ہم پر زور ڈالتے تھے کہ ہم ایمان نہ لائیں۔