58۔ 1 جہنمیوں کا حشر دیکھ کر جنتی کے دل میں رشک کا جذبہ مذید بیدار ہوجائے گا اور کہے گا کہ ہمیں جو جنت کی زندگی اور اس کی نعمتیں ملی ہیں کیا یہ دائمی نہیں ؟ اب ہمیں موت آنے والی نہیں ؟ جنتی ہمیشہ جنت میں رہیں گے اور جہنمی ہمیشہ جہنم میں رہیں گے، نہ انہیں موت آئے گی کہ جہنم کے عذاب سے چھوٹ جائیں، اور نہ ہمیں کہ جنت کی نعمتوں سے محروم ہوجائیں۔ جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ موت کو ایک مینڈھے کی شکل میں دوزخ اور جنت کے درمیان لا کر ذبح کردیا جائے گا کہ اب موت کسی کو نہیں آئے گی۔
اَفَمَا نَحْنُ بِمَيِّتِيْنَ : ان آیات کی دو تفسیریں ہیں، ایک یہ ہے کہ وہ مومن یہ بات اپنے اس کافر دوست کو کہے گا جو قیامت کا منکر تھا اور وہ دنیا میں کہا کرتا تھا : (اِنْ هِىَ اِلَّا مَوْتَـتُنَا الْاُوْلٰى وَمَا نَحْنُ بِمُنْشَرِيْنَ ) [ الدخان : ٣٥ ] ” کہ ہماری اس پہلی موت کے سوا کوئی (موت) نہیں اور نہ ہم کبھی دوبارہ اٹھائے جانے والے ہیں۔ “ مومن اسے مخاطب کر کے کہے گا، اب دیکھ لو کیا تمہاری وہ بات درست نکلی یا غلط کہ : (اَفَمَا نَحْنُ بِمَيِّتِيْنَ 58ۙاِلَّا مَوْتَتَنَا الْاُوْلٰى وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِيْنَ )” تو کیا ہم کبھی مرنے والے نہیں ہیں، مگر ہماری پہلی موت اور نہ ہم کبھی عذاب دیے جانے والے ہیں۔ “ یعنی اب آگ کے وسط میں گرنے پر تمہیں ثابت ہوگیا کہ تمہاری بات غلط تھی ؟- دوسری تفسیر یہ ہے کہ اس مومن کا یہ خطاب اپنے دنیا کے کافر ساتھی کے ساتھ اس سے پہلی آیت ” لَكُنْتُ مِنَ الْمُحْضَرِيْنَ “ پر ختم ہوگیا، اس کے بعد وہ مومن جنت میں عطا کردہ نعمتوں کو دیکھ کر اور یہ جان کر کہ اب ہمیشہ جنت میں رہنا ہے، اب نہ موت آئے گی اور نہ یہاں سے نکالے جائیں گے، خوشی اور تعجب کے ساتھ اپنے جنتی ساتھیوں سے کہے گا کہ کیا واقعی ایسا ہے کہ پہلی موت کے بعد جو آچکی، اب ہم کبھی مرنے والے نہیں، نہ ہی ہمیں کبھی عذاب ہوگا، بلکہ ہم ہمیشہ زندہ رہیں گے اور جنت ہی میں رہیں گے ؟ اگرچہ اکثر مفسرین نے دوسری تفسیر کی ہے، مگر پہلی تفسیر زیادہ ظاہر ہے۔
اَفَمَا نَحْنُ بِمَيِّتِيْنَ ٥٨ۙ- موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے
(٥٨۔ ٥٩) پھر اس کے بعد ایک منادی کی آواز سنائی دے گی کہ جنتیو موت ذبح کردی گئی اب موت نہیں آئے گی اس کے بعد یہ اپنے یاران جنت سے کہے گا کہ کیا ہم سوائے پہلی بار کے مرچکنے کے کہ دنیا میں مرچکے ہیں اب نہیں مریں گے۔- تو اس کے ساتھی کہیں گے ہاں ایسا نہیں مریں گے پھر منادی کی آواز سنائی دے گی کہ دوزخیو دوزخ پر کردی گئی۔ اب اس میں کوئی اور داخل نہ ہوگا اور نہ اس میں سے نکالا جائے گا تو یہ سن کر خوشی میں کہے گا کیا ہمیں عذاب نہیں ہوگا۔
آیت ٥٨ اَفَمَا نَحْنُ بِمَیِّتِیْنَ ” تو کیا اب ہمیں مرنا تو نہیں “