59۔ 1 جو دنیا میں آچکی۔ اب ہمارے لئے موت ہے نہ عذاب۔
اِلَّا مَوْتَتَنَا الْاُوْلٰى وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِيْنَ ٥٩- عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا
آیت ٥٩ اِلَّا مَوْتَتَنَا الْاُوْلٰی وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِیْنَ ” سوائے ہماری اس پہلی موت کے ‘ اور اب ہمیں کوئی عذاب بھی نہیں دیا جائے گا۔ “- یہ اہل جنت کی آپس کی گفتگو کا حوالہ ہے۔ وہ ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہوں گے کہ کیا اس کے بعد ہماری کوئی پکڑ تو نہیں ہوگی ؟ کیا اب مزید کسی چھانٹی کے لیے کوئی چھلنی تو نہیں لگے گی ؟ اور کیا اب ہم مطمئن ہوجائیں کہ آئندہ ہمیں کسی قسم کے عذاب کا کوئی کھٹکا نہیں ہوگا ؟ اہل جنت کی ان باتوں سے ان کی سادہ لوحی ‘ تواضع اور انکساری کا اظہار ہوتا ہے۔ جنت میں ٹھکانہ ملنے پر وہ لوگ فخر و تعلی ّکا اظہار نہیں کریں گے اور یوں نہیں سمجھیں گے کہ ہم نے اپنی محنت کا پھل پایا ہے اور اب ہم یہاں ہمیشہ ہمیش دھڑلے سے رہیں گے ‘ بلکہ اپنی اس کامیابی کو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا نتیجہ قرار دیں گے اور اس حوالے سے بار بار اس کے حضور شکر کا اظہار کریں گے۔
سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :33 انداز کلام صاف بتا رہا ہے کہ اپنے اس دوزخی یار سے کلام کرتے کرتے یکایک یہ جنتی شخص اپنے آپ سے کلام کرنے لگتا ہے اور یہ تین فقرے اس کی زبان سے اس طرح ادا ہوتے ہیں جیسے کوئی شخص اپنے آپ کو ہر توقع اور ہر اندازے سے برتر حالت میں پا کر انتہائی حیرت و استعجاب اور وفور مسرت کے ساتھ آپ ہی آپ بول رہا ہو ۔ اس طرح کے کلام میں کوئی خاص شخص مخاطب نہیں ہوتا ، اور نہ اس کلام میں جو سوالات آدمی کرتا ہے ان سے درحقیقت کوئی بات کسی سے پوچھنا مقصود ہوتا ہے ۔ بلکہ اس میں آدمی کے اپنے ہی احساسات کا اظہار اس کی زبان سے ہونے لگتا ہے ۔ وہ جنتی شخص اس دوزخی سے کلام کرتے کرتے یکایک یہ محسوس کرتا ہے کہ میری خوش قسمتی مجھے کہاں لے آئی ہے ۔ اب نہ موت ہے نہ عذاب ہے ۔ ساری کلفتوں کا خاتمہ ہو چکا ہے اور مجھے حیات جاوداں نصیب ہو چکی ہے ۔ اسی احساس کی بنا پر وہ بے ساختہ بول اٹھتا ہے کیا اب ہم اس مرتبے کو پہنچ گئے ہیں ؟