61۔ 1 یعنی اس جیسی نعمت اور اس جیسے فضل عظیم ہی کے لئے محنت کرنے والوں کو محنت کرنی چاہئے، اس لئے کہ یہی سب نفع بخش تجارت ہے۔ نہ کہ دنیا کے لئے جو عارضی ہے، اور خسارے کا سودا ہے۔
[٣٥] افضل اعمال کونسے ہیں ؟ درج ذیل دو احادیث میں ان اعمال کا ذکر ہے جنہیں رسول اللہ نے افضل الا عمال بتایا ہے :- ١۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ صحابہ نے آپ سے پوچھا : کون سا عمل افضل ہے ؟ فرمایا : اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا صحابہ نے پوچھا : پھر کونسا ؟ فرمایا : اللہ کی راہ میں جہاد کرنا پھر پوچھا : اس کے بعد کون سا ؟ فرمایا : حج مبرور (بخاری۔ کتاب الایمان۔ باب من قال ان الایمان ھوالعمل)- ٢۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے آپ سے پوچھا : اللہ تعالیٰ کو کون سا کام سب سے زیادہ پسند ہے ؟ فرمایا : نماز کو اپنے وقت پر ادا کرنا میں نے پوچھا پھر کون سا کام ؟ فرمایا : ماں باپ سے اچھا سلوک کرنا میں نے پوچھا : پھر کون سا ؟ فرمایا : اللہ کی راہ میں جہاد کرنا آپ نے یہ تین باتیں بیان کیں اگر میں اور پوچھتا تو آپ اور زیادہ بیان فرماتے (بخاری۔ کتاب مواقیت الصلوٰۃ۔ باب فضل الصلٰوۃ لوقتھا)
موت کے خاتمہ پر تعجب :- یہاں جس شخص کا یہ واقعہ ذکر کیا گیا ہے کہ وہ اپنے کافر ساتھی کو دیکھنے کے لئے جہنم میں جھانکے گا، اسی کے بارے میں آگے یہ مذکور ہے کہ وہ جنت کی نعمتوں کو حاصل کر کے فرط مسرت سے یہ کہے گا ” کیا اب ہم کبھی نہیں مریں گے “ ؟ اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ جنت کی جادوائی زندگی کا یقین نہیں ہوگا، بلکہ جس شخص کو مسرتوں کا انتہائی درجہ حاصل ہوجائے وہ بسا اوقات ایسی باتیں کرتا ہے، جیسے اسے یقین نہیں ہے کہ یہ مسرتیں اسے حاصل ہوگئی ہیں، یہ جملے بھی اسی نوعیت کے ہیں۔- آخر میں قرآن کریم اس واقعہ کے اصل سبق کی طرف متوجہ کر کے فرماتا ہے، لیمثل ھذا فلیعمل العملون (ایسی ہی کامیابی کے لئے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہئے) ۔
لِــمِثْلِ ھٰذَا فَلْيَعْمَلِ الْعٰمِلُوْنَ ٦١- مثل - والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] .- ( م ث ل ) مثل ( ک )- المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے
(٦٢۔ ٦٩) پھر اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کہ ایسی ہی کامیابی حاصل کرنے کے لیے پیش قدمی کرنے والوں کو نیک اعمال میں پیش قدمی کرنی چاہیے اور خرچ کرنے والوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اور کوشش کرنے والوں کو علم و عبادت میں کوشش کرنی چاہیے۔- بھلا یہ بتاؤ کہ اہل جنت کی جو نعمتیں بیان کی گئیں جو مومنین کے لیے تیار کی گئی ہیں وہ بہتر ہیں یا زقوم کا درخت جو کفار کے لیے ہے ہم نے اس درخت کو ابوجہل اور اس کے ساتھیوں کے لیے ایک امتحان بنایا ہے جو کہتے ہیں زقوم کھجور اور مکھن ہے۔- وہ ایک درخت ہے جو دوزخ کی گہرائی میں سے نکلتا ہے اس کے پھل ایسے ہیں جیسے سانپ کے پھن ایسے خطرناک قسم کے سانپ یمن کی طرف ہوتے ہیں۔ مکہ والے اور تمام کفار اسی درخت میں سے کھائیں گے اور زقوم ہی سے اپنا پیٹ بھریں گے پھر اس کے بعد ان کو کھولتا ہوا پانی ملا کردیا جائے گا اور پھر آخری ٹھکانا ان کا جہنم ہی ہوگا۔
آیت ٦١ لِمِثْلِ ہٰذَا فَلْیَعْمَلِ الْعٰمِلُوْنَ ” ایسی ہی چیز کے لیے عمل کرنا چاہیے عمل کرنے والوں کو “- ایسی ہی کامیابی کو ہدف بنا کر ہر کسی کو دنیا میں محنت اور بھاگ دوڑ کرنی چاہیے۔ بھاگ دوڑ تو سب ہی کرتے ہیں مگر اکثر و بیشتر سب کے پیش نظر دنیا اور اس کا مال و متاع ہے۔ ہر کوئی اسی کے حصول کے لیے رات دن سرگرداں ہے اور اپنا خون پسینہ ایک کر رہا ہے (الا ما شاء اللہ) ۔ لیکن غور کیا جائے تو چار دن کا یہ عیش و آرام حاصل کرلینا کوئی بہت بڑی کامیابی تو نہیں ‘ اور اس قسم کا عارضی ہدف کوئی قابل ذکر ہدف بھی نہیں۔ بہر حال انسان کا وقت اور خون پسینہ اتنی ارزاں چیز نہیں کہ اسے عارضی اور وقتی کامیابی کے لیے ضائع کردیا جائے۔ ایسی قیمتی پونجی کو تو کسی بڑے ہدف کے حصول کے لیے کام میں لانا چاہیے ‘ اور وہ بڑا ہدف ہے جنت اور اس کی نعمتوں کا حصول چناچہ تمام بھاگ دوڑ کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ اس ہدف کے حصول کے لیے بھاگ دوڑ کریں۔