Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

زقوم اور طوبی ۔ جنت کی نعمتوں کا بیان فرما کر فرماتا ہے کہ اب لوگ خود فیصلہ کرلیں کہ وہ جگہ اور وہ نعمتیں بہتر ہیں؟ یا زقوم کا درخت جو دوزخیوں کا کھانا ہے ۔ ممکن ہے اس سے مراد خاص ایک ہی درخت ہو اور وہ تمام جہنم میں پھیلا ہوا ہو ، جیسے طوبیٰ کا ایک درخت ہے جو جنت کے ایک ایک محل میں پہنچا ہوا ہے ۔ اور ممکن ہے کہ مراد زقوم کے درخت کی جنس ہو اس کی تائید آیت ( لَاٰكِلُوْنَ مِنْ شَجَرٍ مِّنْ زَقُّوْمٍ 52۝ۙ ) 56- الواقعة:52 ) ، سے بھی ہوتی ہے ۔ ہم نے اسے ظالموں کے لیے فتنہ بنایا ہے ۔ حضرت فتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں شجرہ زقوم کا ذکر گمراہوں کے لیے فتنہ ہوگیا وہ کہنے لگے لو اور سنو آگ میں اور درخت؟ آگ تو درخت جلا دینے والی ہے ۔ یہ نبی کہتے ہیں جہنم میں درخت اگے گا ۔ تو اللہ نے فرمایا ہاں یہ درخت آگ ہی سے پیدا ہوگا اور اس کی غذا بھی آگ ہی ہو گی ۔ ابو جہل ملعون اسی پر ہنسی اڑاتا تھا اور کہتا تھا میں تو خوب مزے سے کھجور مکھن کھاؤں گا اسی کا نام زقوم ہے ۔ الغرض یہ بھی ایک امتحان ہے بھلے لوگ تو اس سے ڈر گئے اور بروں نے اس کا مذاق اڑایا ۔ جیسے فرمان ہے ( وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْيَا الَّتِيْٓ اَرَيْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِي الْقُرْاٰنِ ۭ وَنُخَوِّفُهُمْ ۙ فَمَا يَزِيْدُهُمْ اِلَّا طُغْيَانًا كَبِيْرًا 60۝ۧ ) 17- الإسراء:60 ) ، جو منظر ہم نے تجھے دکھایا تھا وہ صرف اس لیے ہے کہ لوگوں کی آزمائش ہو جائے اور اسی طرح اس نامبارک درخت کا ذکر بھی ۔ ہم تو انہیں دھمکا رہے ہیں مگر یہ نافرمانی میں بڑھتے ہی جا رہے ہیں ۔ اس درخت کی اصل جڑ جہنم میں ہے ۔ اس کے خوشے اور شاخیں بھیانک ڈراؤنی لمبی چوڑی دور دور شیطانوں کے سروں کی طرح پھیلی ہوئی ہیں ۔ گوشیطان کو بھی کسی نے دیکھا نہیں لیکن اس کا نام سنتے ہی اس کی بد صورتی اور خباثت کا منظر سامنے آجاتا ہے ، یہی حال اس درخت کا ہے کہ دیکھنے اور چکھنے میں ظاہر اور باطن میں بری چیز ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ سانپوں کی ایک قسم ہے جو بدترین بھیانک اور خوفناک شکل کے ہوتے ہیں ۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ نبات کی ایک قسم ہے جو بہت بری طرح پھیل جاتی ہے ۔ لیکن یہ دونوں احتمال درست نہیں ٹھیک بات وہی ہے جسے ہم نے پہلے ذکر کیا ۔ اسی بد منظر بد بو بد ذائقہ بد مزہ بد خصال تھور کو انہیں جبراً کھانا پڑے گا ۔ اور ٹھونس ٹھونس کر انہیں کھلایا جائے گا کہ یہ بجائے خود ایک زبردست عذاب ہے ۔ اور آیت میں ہے ( لَيْسَ لَهُمْ طَعَامٌ اِلَّا مِنْ ضَرِيْعٍ Č۝ۙ ) 88- الغاشية:6 ) ، ان کی خوراک وہاں صرف کانٹوں دار تھور ہوگا جو نہ انہیں فربہ کرسکے نہ بھوک مٹاسکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آیت ( اتقوا اللہ حق تقاتہ ) کی تلاوت کرکے فرمایا اگر زقوم کا ایک قطرہ دنیا کے سمندروں میں پڑ جائے توروئے زمین کے تمام لوگوں کی خوراکیں خراب ہوجائیں ۔ اس کا کیا حال ہوگا جس کی خوراک ہی یہی ہو گا ( ترمذی وغیرہ ) پھر اس زقوم کے کھانے کے ساتھ ہی انہیں اوپر سے جہنم کا کھولتا گرم پانی پلایا جائے گا ۔ یا یہ مطلب کہ اس جہنمی درخت کو جہنمی پانی کے ساتھ ملا کر انہیں کھلایا پلایا جائے گا ۔ اور یہ گرم پانی وہ ہوگا جو جہنمیوں کے زخموں سے لہو پیپ وغیرہ کی شکل میں نکلا ہو گا اور جو ان کی آنکھوں سے اور پوشیدہ راستوں سے نکلا ہوا ہوگا ۔ حدیث میں ہے کہ جب یہ پانی ان کے سامنے لایا جائے گا ۔ انہیں سخت ایذاء ہوگی بڑی کراہیت آئے گی پھر جب وہ ان کے منہ کے پاس لایا جائے گا تو اس کی بھاپ سے اس کے چہرے کی کھال جھلس کر جھڑ جائے گی اور جب اس کا گھونٹ پیٹ میں جائے گا تو ان کی آنتیں کٹ کر پاخانے کے راستے سے باہر آجائیں گی ( ابن ابی حاتم ) حضرت سعید بن جیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب جہنمی بھوک کی شکایت کریں گے تو زقوم کھلایا جائے گا جس سے ان کے چہر کی کھالیں بالکل الگ ہو کر پڑیں گی ۔ اس طرح انہیں پہچاننے والا اس میں ان کے منہ کی پوری کھال دیکھ کر پہچان سکتا ہے کہ یہ فلاں ہے ۔ پھر پیاس کی شدت سے بیتاب ہو کر وہ ہائے وائے پکاریں گے تو انہیں پگھلے ہوئے تانبے جیسا گرم پانی دیا جائے گا جو چہرے کے سامنے آتے ہی چہرے کے گوشت کو جھلس دے گا اور تمام گوشت گر پڑے گا اور پیٹ میں جاکر آنتوں کو کاٹ دے گا ۔ اوپر سے لوہے کے ہتھوڑے مارے جائیں گے اور ایک ایک عضو بدن الگ الگ جھڑ جائے گا ، بری طرح چیختے پیٹتے ہوں گے ۔ فیصلہ ہوتے ہی ان کا ٹھکانا جہنم ہو جائے گا جہاں طرح طرح کے عذاب ہوتے رہیں گے جیسے اور آیت میں ہے ( يَطُوْفُوْنَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ حَمِيْمٍ اٰنٍ 44۝ۚ ) 55- الرحمن:44 ) جہنم اور آگ جیسے گرم پانی کے درمیان چکر کھاتے رہیں گے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی قرأت ( ثم ان مقیلھم لا الی الجحیم ) ہے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ واللہ آدھے دن سے پہلے ہی پہلے دونوں گروہ اپنی اپنی جگہ پہنچ جائیں گے اور وہیں قیلولہ یعنی دوپہر کا آرام کریں گے ، قرآن فرماتا ہے ( اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ يَوْمَىِٕذٍ خَيْرٌ مُّسْتَــقَرًّا وَّاَحْسَنُ مَقِيْلًا 24؀ ) 25- الفرقان:24 ) جنتی با عتبار جائے قیام کے بہت اچھے ہوں گے اور باعتبار آرام گاہ کے بھی بہت اچھے ہوں گے ۔ الغرض قیلولے کا وقت دونوں کا اپنی اپنی جگہ ہوگا آدھے دن سے پہلے پہلے اپنی اپنی جگہ پہنچ جائیں گے ۔ اس بنا پر یہاں ثم کا لفظ خبر پر خبر کے عطف کے لیے ہوگا ۔ یہ اس کا بدلہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنے باپ دادوں کو گمراہ پایا ۔ لیکن پھر بھی انہی کے نقش قدم پر چلتے رہے ۔ مجبوروں اور بیوقوفوں کی طرح ان کے پیچھے ہولئے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

62۔ 1 زَ قوْم تَزَقْم سے نکلا ہے، جس کے معنی بدبودار اور کر یہ چیز کے نکلنے کے ہیں۔ اس درخت کا پھل بھی کھانا اہل جہنم کے کے لئے سخت ناگوار ہوگا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٦] ایسی مہمانی سے مراد اہل جنت کی مہمانی ہے۔ جیسا کہ سابقہ آیات میں ان کی لذیذ خوراک، صاف اور پاکیزہ مشروب اور نہایت خوبصورت عورتوں کا ذکر کیا گیا ہے اور کفار مکہ سے پوچھا یہ جارہا ہے کہ آیا اہل جنت کی ایسی مہمانی بہتر ہے یا اہل دوزخ کی جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔- [٣٧] اہل جنت کی خوراک لذید پھل تھے اور اہل دوزخ کی خوراک تھوہر کا درخت ہوگا، جس کے پتے چوڑے اور خاردار ہوتے ہیں۔ بوناگوار اور ذائقہ کڑوا ہوتا ہے۔ اور اس میں سے جو سفید قسم کا سیال مادہ یا دودھ نکلتا ہے وہ اگر انسان کے جسم پر لگ جائے تو ورم ہوجاتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَذٰلِكَ خَيْرٌ نُّزُلًا اَمْ شَجَرَةُ الزَّقُّوْمِ : ” نُّزُلًا “ کھانے پینے کی چیزیں اور آرام کی جگہ جو مہمان کے آنے کے وقت کے لیے تیار کی جائیں۔ ” الزَّقُّوْمِ “ اسی سے ” تَزَقُّمٌ“ ہے، جس کا معنی کسی ناگوار چیز کو نہایت مشکل سے نگلنا ہے۔ اس درخت کا دنیا میں وجود نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ اسے آگ میں پیدا فرمائے گا۔ صرف لفظی مشابہت کی حد تک ایک زہریلا پودا ہے جو ” زقوم “ کہلاتا ہے، جس کا دودھ جسم کو لگ جائے تو جسم سوج جاتا ہے اور آدمی مرجاتا ہے۔ صحرا کے قریب کی خشک زمینوں میں پایا جاتا ہے۔ (الوسیط) اہل جنت کے لیے ” رِزْقٌ مَّعْلُوْمٌ 41؀ۙفَوَاكِهُ ۚ وَهُمْ مُّكْـرَمُوْنَ 42؀ۙفِيْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ “ کی مہمانی کے ذکر کے بعد اہل جہنم کی مہمانی کا ذکر فرمایا۔ اگرچہ بہتری میں دونوں کا کوئی مقابلہ نہیں، مگر کفار اپنے اعمال کو مسلمانوں کے اعمال سے بہتر سمجھتے تھے، اس لیے ان کا نتیجہ ذکر کر کے فرمایا کہ بتاؤ، دونوں میں سے بہتر کیا ہے ؟ علاوہ ازیں اس میں کفار پر طنز بھی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - (عذاب اور ثواب دونوں کا موازنہ کر کے اب اہل ایمان کو ترغیب اور کفار کو ترہیب فرماتے ہیں کہ بتلاؤ) بھلا یہ دعوت (جنت کی نعمتوں کی) بہتر ہے (جو اہل ایمان کے لئے ہے) یا زقوم کا درخت (جو کفار کے لئے ہے) ہم نے اس درخت کو (آخرت کی سزا بنانے کے علاوہ دنیا میں بھی ان) ظالموں کے لئے موجب امتحان بنایا ہے (کہ اس کو سن کر تصدیق کرتے ہیں، یا تکذیب و استہزاء کرتے ہیں، چناچہ کفار تکذیب و استہزاء سے پیش آئے، کہنے لگے کہ زقوم تو مسکہ اور خرما کو کہتے ہیں، وہ تو خوب لذیذ چیز ہے۔ اور کہنے لگے کہ زقوم اگر درخت ہے تو دوزخ میں جو آگ ہی آگ ہے درخت کیسے ہوسکتا ہے ؟ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ) وہ ایک درخت ہے جو قعر دوزخ میں سے نکلتا ہے (یعنی مسکہ اور خرما نہیں ہے، اور چونکہ وہ خود آگ ہی میں پیدا ہوتا ہے اس لئے وہاں رہنا بعید نہیں، جیسے سمندر نامی جانور آگ میں پیدا ہوتا ہے، اور آگ ہی میں رہتا ہے) اس سے دونوں باتوں کا جواب ہوگیا۔ آگے زقوم کی ایک کیفیت مذکور ہے، کہ) اس کے پھل ایسے (کریہہ المنظر) ہیں جیسے سانپ کے پھن (پس ایسے درخت سے ظالموں کی دعوت ہوگی) تو وہ لوگ (بھوک کی شدت میں جب اور کچھ نہ ملے گا تو) اس سے کھاویں گے اور (چونکہ بھوک سے بےچین ہوں گے) اسی سے پیٹ بھریں گے، پھر (جب پیاس سے بےقرار ہو کر پانی مانگیں گے تو) ان کو کھولتا ہوا پانی (غساق یعنی پیپ میں) ملا کردیا جائے گا اور (یہ نہیں کہ اس مصیبت کا خاتمہ ہوجاوے بلکہ اس کے بعد) پھر اخیر ٹھکانا ان کا دوزخ ہی کی طرف ہوگا (یعنی اس کے بعد بھی وہیں ہمیشہ کے لئے رہنا ہوگا، اور انہیں یہ سزا اس لئے دی گئی کہ) انہوں نے (ہدایت آلٰہیہ کا اتباع نہیں کیا تھا بلکہ) اپنے بڑوں کو گمراہی کی حالت میں پایا تھا، پھر یہ بھی انہی کے قدم بقدم تیزی کے ساتھ چلتے تھے (یعنی شوق اور رغبت سے ان کی بےراہی پر چلتے تھے) اور ان (موجودہ کفار) سے پہلے بھی اگلے لوگوں میں اکثر گمراہ ہوچکے ہیں اور ہم نے ان میں بھی ڈرانے والے (پیغمبر) بھیجے تھے سو دیکھ لیجئے ان لوگوں کو کیسا (برا) انجام ہوا جن کو ڈرایا گیا تھا (اور انہوں نے نہ مانا تھا، کہ ان پر دنیا ہی میں کیا کیا عذاب نازل ہوا) ہاں مگر جو اللہ کے خاص کئے ہوئے (یعنی ایمان والے) بندے تھے (وہ اس دنیوی عذاب سے بھی محفوظ رہے) ۔- معارف ومسائل - دوزخ اور جنت دونوں کے تھوڑے تھوڑے حالات بیان فرمانے کے بعد باری تعالیٰ نے ہر انسان کو موازنہ کرنے کی دعوت دی ہے کہ غور کرو ان میں سے کون سی حالت بہتر ہے ؟ چناچہ فرمایا : اذلک خیر نزلاً ام شجرة الزقوم ؟ جنت کی جن نعمتوں کا تذکرہ کیا گیا وہ بہتر ہیں یا زقوم کا درخت جو دوزخیوں کو کھلایا جائے گا ؟- زقوم کی حقیقت :- زقوم نام کا ایک درخت جزیرہ عرب کے علاقہ تہامہ میں پایا جاتا ہے، اور علامہ آلوسی نے لکھا ہے کہ یہ دوسرے بنجر صحراؤں میں بھی ہوتا ہے۔ بعض حضرات نے فرمایا ہے یہ وہی درخت ہے جسے اردو میں ” تھوہڑ “ کہتے ہیں، اسی کے قریب قریب کا ایک اور درخت ہندوستان میں ” ناگ پھن “ کے نام سے معروف ہے۔ بعض حضرات نے اس کو زقوم قرار دیا ہے اور یہ زیادہ قرین قیاس ہے۔ اب حضرات مفسرین کی رائیں اس میں مختلف ہیں کہ جہنمیوں کو جو درخت کھلایا جائے گا وہ یہی دنیا کا زقوم ہے، یا کوئی اور درخت ہے ؟ بعض حضرات نے فرمایا کہ یہی دنیا کا زقوم مراد ہے، اور بعض نے کہا کہ دوزخ کا زقوم بالکل الگ چیز ہے، دنیا کے زقوم سے اس کا کوئی تعلق نہیں، بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح سانپ بچھو وغیرہ دنیا میں بھی ہوتے ہیں اسی طرح دوزخ میں بھی ہوتے ہیں، لیکن دوزخ کے سانپ بچھو یہاں کے سانپ بچھوؤں سے کہیں زیادہ خوفناک ہوں گے، اسی طرح دوزخ کا زقوم بھی اپنی جنس کے لحاظ سے تو دنیا ہی کے زقوم کی طرح ہوگا، لیکن یہاں کے زقوم سے کہیں زیادہ کریہہ المنظر اور کھانے میں کہیں زیادہ تکلیف دہ ہوگا۔ واللہ سبحانہ، وتعالیٰ اعلم۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَذٰلِكَ خَيْرٌ نُّزُلًا اَمْ شَجَرَۃُ الزَّقُّوْمِ۝ ٦٢- خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- نزل ( ضيافت)- النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- والنُّزُلُ : ما يُعَدُّ للنَّازل من الزَّاد، قال : فَلَهُمْ جَنَّاتُ الْمَأْوى نُزُلًا - [ السجدة 19] وأَنْزَلْتُ فلانا : أَضَفْتُهُ.- ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں - النزل - ( طعام مہمانی ) وہ کھان جو آنے والے مہمان کے لئے تیار کیا جائے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلَهُمْ جَنَّاتُ الْمَأْوى نُزُلًا[ السجدة 19] ان کے رہنے کے لئے باغ میں یہ مہمانی ۔- انزلت - فلانا کے معنی کسی کی مہمانی کرنے کے ہیں - شجر - الشَّجَرُ من النّبات : ما له ساق، يقال : شَجَرَةٌ وشَجَرٌ ، نحو : ثمرة وثمر . قال تعالی: إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح 18] ، وقال : أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها [ الواقعة 72] ، وقال : وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ [ الرحمن 6] ، لَآكِلُونَ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ [ الواقعة 52] ، إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ [ الدخان 43] . وواد شَجِيرٌ: كثير الشّجر، وهذا الوادي أَشْجَرُ من ذلك، والشَّجَارُ الْمُشَاجَرَةُ ، والتَّشَاجُرُ : المنازعة . قال تعالی: حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ [ النساء 65] . وشَجَرَنِي عنه : صرفني عنه بالشّجار، وفي الحدیث : «فإن اشْتَجَرُوا فالسّلطان وليّ من لا وليّ له» «1» . والشِّجَارُ : خشب الهودج، والْمِشْجَرُ : ما يلقی عليه الثّوب، وشَجَرَهُ بالرّمح أي : طعنه بالرّمح، وذلک أن يطعنه به فيتركه فيه .- ( ش ج ر ) الشجر - ( درخت وہ نبات جس کا تنہ ہو ۔ واحد شجرۃ جیسے ثمر و ثمرۃ ۔ قرآن میں ہے : إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح 18] جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے ۔ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها [ الواقعة 72] کیا تم نے اس کے درخت کو پیدا کیا ۔ وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ [ الرحمن 6] اور بوٹیاں اور درخت سجدہ کررہے ہیں ۔ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ [ الواقعة 52] ، تھوہر کے درخت سے إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ [ الدخان 43] بلاشبہ تھوہر کا درخت گنجان درختوں والی وادی ۔ بہت درختوں والی جگہ ۔ ھذا الوادی اشجر من ذالک اس وادی میں اس سے زیادہ درخت ہیں ۔ الشجار والمشاجرۃ والتشاجر باہم جھگڑنا اور اختلاف کرنا ۔ قرآن میں ہے ۔ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ [ النساء 65] اپنے تنازعات میں ۔ شجرنی عنہ مجھے اس سے جھگڑا کرکے دور ہٹا دیا یا روک دیا حدیث میں ہے ۔ (189) فان اشتجروا فالسلطان ولی من لا ولی لہ اگر تنازع ہوجائے تو جس عورت کا ولی نہ ہو بادشاہ اس کا ولی ہے الشجار ۔ ہودہ کی لکڑی چھوٹی پالکی ۔ المشجر لکڑی کا اسٹینڈ جس پر کپڑے رکھے یا پھیلائے جاتے ہیں ۔ شجرہ بالرمح اسے نیزہ مارا یعنی نیزہ مار کر اس میں چھوڑ دیا ۔- زقم - إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان 43- 44] ، عبارة عن أطعمة كريهة في النار، ومنه استعیر : زَقَمَ فلان وتَزَقَّمَ : إذا ابتلع شيئا كريها .- ( ز ق م ) الزقوم تھوہر کا درخت ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان 43- 44] بیشک سینڈھ کا درخت ۔ میں زقوم سے دوزخ کے کریہہ کھانے مراد ہیں اور اس سے استعارہ کے طور پر کہا جاتا ہے ۔ زقم فلان وتزقم اس نے کوئی کریہہ چیز نگل لی ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٢ اَذٰلِکَ خَیْرٌ نُّزُلًا اَمْ شَجَرَۃُ الزَّقُّوْمِ ۔ ” بھلا مہمانی کے طور پر یہ بہتر ہے یا زقوم کا درخت ؟ “- جنت کی مذکورہ نعمتوں کے مقابلے میں اہل جہنم کی ابتدائی مہمان نوازی زقوم (تھوہر) کے درخت سے کی جائے گی۔ اس ابتدائی مہمان نوازی کی نوعیت سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس کے بعد اہل جہنم کو کن حالات کا سامنا کرنا ہوگا۔ اب اختیار انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ وہ چاہے تو جنت کی دائمی نعمتوں کے حصول کو اپنا ہدف بنا لے یا جہنم اور اس کے خوفناک عذابوں کے ساتھ اپنی عاقبت کو وابستہ کرلے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :34 زَقّوم ایک قسم کا درخت ہے جو تہامہ کے علاقے میں ہوتا ہے ۔ مزہ اس کا تلخ ہوتا ہے ، بو ناگوار ہوتی ہے ، اور توڑنے پر اس میں سے دودھ کا سا رس نکلتا ہے جو اگر جسم کو لگ جائے تو ورم ہو جاتا ہے ۔ غالباً یہ وہی چیز ہے جسے ہمارے ملک میں تھوہر کہتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani