63۔ 1 آزمائش اس لئے کہ اس کا پھل کھانا بجائے خود ایک بہت بڑی آزمائش ہے۔ بعض نے اسے اس اعتبار سے آزمائش کہا کہ اس کے وجود کا انہوں نے انکار کیا کہ جہنم میں جب ہر طرف آگ ہی آگ ہوگی تو وہاں درخت کس طرح موجود رہ سکتا ہے ؟ یہاں ظالمین سے مراد اہل جہنم ہیں جن پر جہنم واجب ہوگی۔
اِنَّا جَعَلْنٰهَا فِتْنَةً لِّلظّٰلِمِيْنَ : یہاں ” اَلظَّالِمِیْنَ “ سے مراد کفارو مشرکین ہیں اور ” زقوم “ انھی کے لیے آزمائش ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سنایا : (اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّوْمِ ۔ طَعَامُ الْاَثِيْمِ ۔ كَالْمُهْلِ ڔ يَغْلِيْ فِي الْبُطُوْنِ ۔ كَغَلْيِ الْحَمِيْمِ ) [ الدخان : ٤٣ تا ٤٦ ] ” بیشک زقوم کا درخت گناہ گار کا کھانا ہے۔ پگھلے ہوئے تانبے کی طرح، پیٹوں میں کھولتا ہے۔ گرم پانی کے کھولنے کی طرح۔ “ اور یہ فرمان : (ثُمَّ اِنَّكُمْ اَيُّهَا الضَّاۗلُّوْنَ الْمُكَذِّبُوْنَ ۔ لَاٰكِلُوْنَ مِنْ شَجَرٍ مِّنْ زَقُّوْمٍ ) [ الواقعۃ : ٥١، ٥٢ ] ” پھر بیشک تم اے گمراہو جھٹلانے والو یقیناً تھوہر کے پودے میں سے کھانے والے ہو۔ “ تو ایمان والوں کو اسے ماننے میں کوئی الجھن نہیں ہوئی، کیونکہ انھیں یقین تھا کہ اللہ اور اس کا رسول جو فرماتے ہیں وہ حق ہے۔ وہ کفار ہی تھے جنھوں نے کہا، آگ میں درخت کیسے ہوسکتا ہے ؟ مزید دیکھیے سورة بنی اسرائیل (٦٠) ۔
(آیت) انا جعلنا ھافتنةً للظلمین، یعنی ” ہم نے اس (زقوم کے درخت) کو ان ظالموں کے لئے فتنہ بنایا ہے “ اس میں فتنہ سے بعض مفسرین کے نزدیک عذاب مراد ہے، یعنی اس درخت کو عذاب کا ذریعہ بنادیا ہے۔ لیکن اکثر حضرات کا کہنا یہ ہے کہ یہاں ” فتنہ “ کا ترجمہ ” آزمائش “ اور ” امتحان “ کرنا زیادہ موزوں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس درخت کا تذکرہ کر کے ہم یہ امتحان لینا چاہتے ہیں کہ کون اس پر ایمان لاتا ہے ؟ اور کون اس کا مذاق اڑاتا ہے ؟ چناچہ کفار عرب اس امتحان میں ناکام رہے، انہوں نے بجائے اس کے کہ اس عذاب سے ڈر کر ایمان لاتے تمسخر و استہزاء کا طریقہ اختیار کیا۔ روایات میں ہے کہ جب قرآن کریم کی وہ آیات نازل ہوئیں جن میں کافروں کو زقوم کھلانے کا تذکرہ ہے، تو ابوجہل نے اپنے ساتھیوں سے کہا : ” تمہارا دوست (حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہتا ہے کہ آگ میں ایک درخت ہے، حالانکہ آگ تو درخت کو کھاتی ہے، اور خدا کی قسم ہم تو یہ جانتے ہیں کہ زقوم کھجور اور مکھن کو کہتے ہیں، تو آؤ اور یہ کھجور مکھن کھاؤ۔ “ (درمنثور، ص ٧٧٢، ج ٥) دراصل زقوم بربری زبان میں کھجور اور مکھن کو کہتے تھے، اس لئے اس نے استہزاء کا یہ طریقہ اختیار کیا۔ باری تعالیٰ نے ایک ہی جملے میں اس کی دونوں باتوں کا جواب دے دیا کہ :
اِنَّا جَعَلْنٰہَا فِتْنَۃً لِّلظّٰلِمِيْنَ ٦٣- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- فتن - أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] - ( ف ت ن ) الفتن - دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں
آیت ٦٣ اِنَّا جَعَلْنٰہَا فِتْنَۃً لِّلظّٰلِمِیْنَ ” ہم نے اس (درخت) کو فتنہ بنا دیا ہے ظالموں کے لیے۔ “
سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :35 یعنی منکرین یہ بات سن کر قرآن پر طعن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر استہزاء کا ایک نیا موقع پالیتے ہیں ۔ وہ اس پر ٹھٹھا مار کر کہتے ہیں ، لو اب نئی سنو ، جہنم کی دہکتی ہوئی آگ میں درخت اگے گا ۔
10: جب قرآن کریم نے یہ بتایا کہ دوزخ میں زقوم کا درخت ہوگا جو دوزخیوں کی خوراک بنے گا، تو کافروں نے مذاق اڑایا کہ بھلا آگ میں کوئی درخت کیسے ہوسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ زقوم کا ذکر کرکے ان کافروں کو ایک اور آزمائش میں ڈالا گیا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی بات کی تصدیق کرتے ہیں، یا اس کا انکار کرتے ہیں۔