65۔ 1 اسے قباحت میں شیطانوں کے سروں سے تشبیہ دی، جس طرح اچھی چیز کے بارے میں کہتے ہیں گویا کہ وہ فرشتہ ہے۔
[٣٩] شیطان کے مختلف مفہوم :۔ شیطان دراصل ہر بد روح کو کہتے ہیں جو اپنی سرکشی اور نافرمانی کی بنا پر حق سے دور ہوچکا ہو۔ اور جنوں میں سے جو خبیث، موذی اور بدکردار قسم کے جن ہوں انہیں ہی شیطان کہا جاتا ہے۔ پھر اس کا اطلاق ہر ایسی صفات رکھنے والی چیز پر ہونے لگا۔ خواہ وہ جن ہو یا انسان ہو یا کوئی جانور ہو۔ اور سانپ کو اس کی ایذا ہی کی وجہ سے شیطان کہتے ہیں۔ (منجد) اور اس معنی کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ جب تم گھر میں کوئی سانپ دیکھو تو اسے مارنے سے پہلے یہ کہہ دو کہ اگر وہ کوئی جن یا شیطان ہے تو چلا جائے۔ اگر پھر بھی نہ جائے تو اسے مار ڈالو۔ (مسلم۔ باب قتل الحیات، بخاری۔ کتاب بدء الخلق۔ باب قول اللّٰہ تعالیٰ و بث فیھا من کل دابۃ)- گویا اس آیت میں شیطان کے سر سے مراد سانپوں کے سر یا ناگ پھن ہیں۔ اور اس پودے کے شگوفے ایسے ہی ہوں گے اور یہ بھی ممکن ہے یہ تشبیہ محض بدصورتی کی بنا پر ہو جیسے ہم اپنی زبان میں بعض ان دیکھی چیزوں سے تشبیہ دے دیتے ہیں۔ جیسے وہ عورت ایسی خوبصورت ہے جیسے پری یا وہ ایسی بدصورت ہے جیسے چڑیل یا بھتنی یا ڈائن۔ حالانکہ پری، چڑیل، بھتنی یا ڈائن کو کسی نے بھی دیکھا نہیں ہوتا۔
طَلْعُهَا كَاَنَّهٗ رُءُوْسُ الشَّيٰطِيْنِ : قاموس میں ہے ” طَلْعٌ“ دو ملے ہوئے جوتوں جیسی چیز ہے (جو کھجور کے درخت کے سرے پر نکلتی ہے) جس کے درمیان تہ بہ تہ پھل ہوتا ہے۔ ” رُءُوْسُ الشَّيٰطِيْنِ “ میں شیاطین سے مراد اگر ابلیس کی اولاد ہو تو وہ کسی نے نہیں دیکھی، نہ ان کے سر دیکھے ہیں، مگر یہ تشبیہ اس لیے دی گئی ہے کہ تمام دماغوں میں شیطان کا تصور سب سے بری اور مکروہ شخصیت کا ہے، جو ہر قسم کی خیر سے خالی ہے، جیسا کہ کسی بدصورت عورت یا مرد کو بدصورتی میں تشبیہ دینی ہو تو اسے بھوتنی یا بھوت کہا جاتا ہے، حالانکہ بھوت کسی نے نہیں دیکھا۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ سانپوں کی ایک قسم کو بھی شیاطین کہتے ہیں، ان کے سروں سے مراد ان کے ” پھن “ ہیں۔
(آیت) طلعھا کانہ رءوس الشیاطین، اس آیت میں زقوم کے پھل کو ” شیاطین کے سروں “ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ بعض مفسرین نے تو یہاں ” شیاطین “ کا ترجمہ ” سانپوں “ سے کیا ہے، یعنی زقوم کا پھل ایسی شکل کا ہوتا ہے جیسے سانپ کا پھن، اردو میں اسے ” ناگ پھن “ اسی لئے کہتے ہیں۔ لیکن اکثر مفسرین نے فرمایا کہ یہاں ” شیاطین “ سے اس کے معروف معنی ہی مراد ہیں۔ اور مطلب یہ ہے کہ زقوم کا پھل اپنی بدصورتی میں شیطانوں کے سر کی طرح ہوتا ہے۔ اب یہاں یہ شبہ نہ ہونا چاہئے کہ شیطان کو تو کسی نے دیکھا نہیں، پھر اس کے ساتھ تشبیہ کیوں دی گئی ؟ اس لئے کہ یہ ایک تخیلی تشبیہ ہے، محاورہ میں بدصورت اور بدہئیت اشیاء کو شیطان اور جن بھوت سے تشبیہ دے دی جاتی ہے، اس کا منشاء محض انتہا درجے کی بدصورتی بیان کرنا ہوتا ہے، یہاں بھی تشبیہ اسی نوعیت کی ہے۔ (روح المعانی وغیرہ)- باقی آیات کا مفہوم خلاصہ تفسیر سے واضح ہے۔
طَلْعُہَا كَاَنَّہٗ رُءُوْسُ الشَّيٰطِيْنِ ٦٥- طَلَعَ- طَلَعَ الشمسُ طُلُوعاً ومَطْلَعاً. قال تعالی: وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ [ طه 130] ، حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] ، والمَطْلِعُ : موضعُ الطُّلُوعِ ، حَتَّى إِذا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَطْلُعُ عَلى قَوْمٍ [ الكهف 90] ، وعنه استعیر : طَلَعَ علینا فلانٌ ، واطَّلَعَ. قال تعالی: هَلْ أَنْتُمْ مُطَّلِعُونَ [ الصافات 54] ، فَاطَّلَعَ [ الصافات 55] ، قال : فَأَطَّلِعَ إِلى إِلهِ مُوسی[ غافر 37] ، وقال : أَطَّلَعَ الْغَيْبَ [ مریم 78] ، لَعَلِّي أَطَّلِعُ إِلى إِلهِ مُوسی[ القصص 38] ، واسْتَطْلَعْتُ رأيَهُ ، وأَطْلَعْتُكَ علی كذا، وطَلَعْتُ عنه : غبت، والطِّلاعُ : ما طَلَعَتْ عليه الشمسُ والإنسان، وطَلِيعَةُ الجیشِ : أوّل من يَطْلُعُ ، وامرأةٌ طُلَعَةٌ قُبَعَةٌ «1» : تُظْهِرُ رأسَها مرّةً وتستر أخری، وتشبيها بالطُّلُوعِ قيل : طَلْعُ النَّخْلِ. لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق 10] ، طَلْعُها كَأَنَّهُ رُؤُسُ الشَّياطِينِ [ الصافات 65] ، أي : ما طَلَعَ منها، وَنَخْلٍ طَلْعُها هَضِيمٌ [ الشعراء 148] ، وقد أَطْلَعَتِ النّخلُ ، وقوسٌ طِلَاعُ الكفِّ : ملءُ الكفِّ.- ( ط ل ع ) طلع - ( ن ) الشمس طلوعا ومطلعا کے معنی آفتاب طلوع ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ [ طه 130] اور سورج کے نکلنے سے پہلے ۔۔۔۔۔ تسبیح وتحمید کیا کرو ۔ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] طلوع صبح تک ۔ اور مطلع کے معنی ہیں طلوع ہونیکی جگہ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى إِذا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَطْلُعُ عَلى قَوْمٍ [ الكهف 90] یہاں تک کہ سورج کے طلوع ہونے کے مقام پر پہنچا تو دیکھا کہ وہ ایسے لوگوں پر طلوع کرتا ہے ۔۔۔۔۔ اسی سے استعارہ کے طور طلع علینا فلان واطلع کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی ہیں کسی کے سامنے ظاہر ہونا اور اوپر پہنچ کر نیچے کی طرف جھانکنا قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَنْتُمْ مُطَّلِعُونَ [ الصافات 54] بھلا تم اسے جھانک کر دیکھنا چاہتے ہو اتنے میں وہ خود جھانکے گا ۔ فَاطَّلَعَ [ الصافات 55] پھر اوپر جاکر موسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کو دیکھ لوں ۔ أَطَّلَعَ الْغَيْبَ [ مریم 78] کیا اس نے غیب کی خبر پالی ۔ لَعَلِّي أَطَّلِعُ إِلى إِلهِ مُوسی[ القصص 38] تاکہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کی طرف چڑھ جاؤں ۔ استطعت ( میں نے اس کی رائے معلوم کی ۔ اطلعت علٰی کذا میں نے تمہیں فلان معاملہ سے آگاہ کردیا طلعت عنہ میں اس سے پنہاں ہوگیا ( اضداد الطلاع ہر وہ چیز جس پر سورج طلوع کرتا ہو یا ( 2 ) انسان اس پر اطلاع پائے طلعیۃ الجیش ہر اول دستہ امرء ۃ طلعۃ قبعۃ وہ عورت جو بار بار ظاہر اور پوشیدہ ہو اور طلوع آفتاب کی مناسبت سے طلع النخل کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اور اس کے معنی درخت خرما کے غلاف کے ہیں جس کے اندر اس کا خوشہ ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق 10] جن کا گا بھاتہ بتہ ہوتا ہے طَلْعُها كَأَنَّهُ رُؤُسُ الشَّياطِينِ [ الصافات 65] ان کے شگوفے ایسے ہوں گے جیسے شیطانوں کے سر ۔ وَنَخْلٍ طَلْعُها هَضِيمٌ [ الشعراء 148] اور کھجوریں جن کے شگوفے لطیف ونازک ہوتے ہیں ۔ الطلعت النخل کھجور کا شگوفے دار ہونا ۔ قو س طلاع الکھف کمان جس سے مٹھی بھر جائے ۔- رأس - الرَّأْسُ معروف، وجمعه رُؤُوسٌ ، قال : وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم 4] ، وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة 196] ، ويعبّر بِالرَّأْسِ عن الرَّئِيسِ ، والْأَرْأَسُ : العظیم الرّأس، وشاة رَأْسَاءُ : اسودّ رأسها . ورِيَاسُ السّيف : مقبضه .- ( ر ء س ) الراس - سر کو کہتے ہیں اور اس کی جمع رؤوس آتی ہے ۔ قرآم میں ہے : وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم 4] اور سر بڑاھاپے ( کی آگ ) سے بھڑک اٹھا ہے ۔ وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة 196] اپنے سر نہ منڈاؤ اور کبھی راس بمعنی رئیس بھی آتا ہے اور ارء س ( اسم تفصیل ) کے معنی بڑے سر والا کے ہیں اور سیاہ سر والی بکری کو شاۃ راساء کہتے ہیں اور ریاس السیف کے معنی دستہ شمشیر کے ہیں ۔- شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو
آیت ٦٥ طَلْعُہَا کَاَنَّہٗ رُئُ وْسُ الشَّیٰطِیْنِ ” اس کے خوشے ایسے ہوں گے جیسے شیاطین کے سر۔ “- یعنی جسامت میں غیر معمولی طور پر بڑے ‘ جبکہ دیکھنے میں بہت ہی بھدے ّاور بد نما۔
سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :36 کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ شیطان کا سر کس نے دیکھا ہے جو زقوم کے شگوفوں کو اس سے تشبیہ دی گئی ۔ دراصل یہ تخییلی نوعیت کی تشبیہ ہے اور عام طور پر زبان کے ادب میں اس سے کام لیا جاتا ہے ۔ مثلاً ہم ایک عورت کی انتہائی خوبصورتی کا تصور دلانے کے لیے کہتے ہیں وہ پری ہے ۔ اور انتہائی بدصورتی بیان کرنے کے لیے کہتے ہیں ، وہ چڑیل ہے یا بھتنی ہے ۔ کسی شخص کی نورانی شکل کی تعریف میں کہا جاتا ہے ، وہ فرشتہ صورت ہے ۔ اور کوئی نہایت بھیانک ہیئت کذائی میں سامنے آئے تو دیکھنے والے کہتے ہیں کہ وہ شیطان بنا چلا آ رہا ہے ۔
11: اس کا ایک ترجمہ سانپوں کے سر سے بھی کیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اردو میں جس درخت کو ناگ پھنی کا درخت کہا جاتا ہے، وہی زقوم ہے۔