Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

77۔ 1 اکثر مفسرین کے قول کے مطابق حضرت نوح (علیہ السلام) کے تین بیٹے تھے۔ عام، سام، یافث۔ انہی سے بعد کی نسل انسانی چلی۔ اسی لئے حضرت نوح (علیہ السلام) کو آدم ثانی کہا جاتا ہے یعنی آدم (علیہ السلام) کیطرح، آدم (علیہ السلام) کے بعد یہ دوسرے ابو البشر ہیں۔ سام کی نسل سے عرب، فارس، روم اور یہود و نصاریٰ ہیں۔ عام کی نسل سے سوڈان (مشرق سے مغرب تک) یعنی سندھ، ہند، نوب، زنج، حبشہ، قبط اور بربر وغیرہ ہیں اور یافث کی نسل سے صقالہ، ترک، خزر اور یاجوج و ماجوج وغیرہ ہیں (فتح القدیر) واللہ اعلم

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٥] کیا نوح آدم ثانی ہیں ؟ یہاں صرف اتنا ہی مذکور ہے کہ طوفان نوح کے بعد نسل انسانی صرف نوح کے تین بیٹوں (حام۔ سام اور یا فث) سے چلی (اور چوتھا بیٹا یام کافر تھا جو طوفان میں غرق ہوگیا تھا) اور اس کی تائید ترمذی کی درج ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ سیدنا سمرہ سے روایت ہے کہ آپ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ نوح کے تین بیٹے تھے۔ حام سام یافث حام حبش کا باپ سام عرب کا اور یافث روم کا (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) مگر بعض دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ طوفان نوح کے بعد نسل سیدنا نوح کی اولاد اور ان لوگوں کی اولاد سے چلی تھی جو کشتی میں آپ کے ساتھ سوار تھے۔ ( سورة بنی اسرائیل آیت نمبر ٣) اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ پہلی آیت میں اجمال اور دوسری میں تفصیل ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَجَعَلْنَا ذُرِّيَّتَهٗ هُمُ الْبٰقِيْنَ : اس سے صاف ظاہر ہے کہ طوفان کے بعد صرف نوح (علیہ السلام) کی نسل آگے چلی، باقی ایمان والوں کی نسل ختم ہوگئی۔ اس آیت کے مطابق سورة بنی اسرائیل کی آیت (٣) : (ذُرِّيَّــةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ ) (اے ان لوگوں کی اولاد جنھیں ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا ) کا مطلب بھی یہی ہے کہ بعد میں نوح (علیہ السلام) کے بیٹوں اور پوتوں کی نسل ہی چلی جو کشتی میں سوار تھے۔ طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس (رض) کا قول نقل کیا ہے کہ نوح (علیہ السلام) کی اولاد کے سوا کوئی باقی نہیں رہا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَجَعَلْنَا ذُرِّيَّتَهٗ هُمُ الْبٰقِيْنَ (اور ہم نے باقی انہی کی اولاد کو رہنے دیا) اکثر حضرات مفسرین کے نزدیک اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانے میں جو طوفان آیا تھا اس میں دنیا کی اکثر آبادی ہلاک ہوگئی تھی، اور اس کے بعد ساری دنیا کی نسل حضرت نوح (علیہ السلام) ہی کے تین بیٹوں سے چلی۔ ایک بیٹے کا نام سام تھا، اور ان کی اولاد سے اہل عرب اور اہل فارس وغیرہ کی نسل چلی۔ دوسرے بیٹے حام تھے اور ان سے افریقی ممالک کی آبادیاں دنیا میں پھیلیں، بعض حضرات نے ہندوستان کے باشندوں کو بھی اسی نسل میں شامل کیا ہے۔ اور تیسرے بیٹے یافث تھے، ان سے ترک، منگول اور یاجوج وماجوج کی نسلیں نکلی ہیں۔ جو لوگ حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی میں سوار ہو کر طوفان سے بچ گئے تھے ان میں سے حضرت نوع (علیہ السلام) کے ان تین بیٹوں کے سوا کسی اور سے کوئی نسل نہیں چلی۔- البتہ بعض علماء جن کی تعداد بہت کم ہے اس بات کے قائل رہے ہیں کہ طوفان نوح (علیہ السلام) پوری دنیا میں نہیں، بلکہ صرف ارض عرب میں آیا تھا۔ ان کے نزدیک اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ ارض عرب میں صرف حضرت نوح (علیہ السلام) کی اولاد باقی رہی، اور انہی سے اہل عرب کی نسل چلی، دنیا کے دوسرے خطوں میں دوسروں کی نسل چلنے کی اس آیت سے نفی نہیں ہوتی۔ (بیان القرآن)- مفسرین کا ایک تیسرا گروہ یہ کہتا ہے کہ طوفان نوح تو پوری دنیا میں آیا تھا، لیکن دنیا کی نسل صرف حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹوں سے نہیں، بلکہ ان تمام لوگوں سے چلی ہے جو کشتی میں حضرت نوح (علیہ السلام) کے ساتھ سوار تھے۔ یہ گروہ آیت میں حصر کو حصر اضافی قرار دے کر یہ کہتا ہے کہ یہاں اصل مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ ڈوبنے والوں کی نسل نہیں چلی۔ (قرطبی)- قرآن کریم کے سیاق کے لحاظ سے تیسرا قول بہت کم زور ہے اور پہلا قول سب سے بہتر ہے، اس لئے کہ اس کی تائید بعض احادیث سے بھی ہوتی ہے، جو امام ترمذی وغیرہ نے اس آیت کی تفسیر میں براہ راست آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہیں۔ حضرت سمرہ بن جندب سے روایت ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا : ” سام اہل عرب کا باپ ہے، حام اہل حبشہ کا باپ ہے، اور یافث اہل روم کا۔ “ امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن اور امام حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ (روح المعانی، ص ٨٩، ج ٣٢)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَجَعَلْنَا ذُرِّيَّتَہٗ ہُمُ الْبٰقِيْنَ۝ ٧٧ۡۖ- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- ذر - الذّرّيّة، قال تعالی: وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة 124]- ( ذ ر ر) الذریۃ ۔- نسل اولاد ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة 124] اور میری اولاد میں سے بھی - بقي - البَقَاء : ثبات الشیء علی حاله الأولی، وهو يضادّ الفناء،- وعلی هذا قوله : بَقِيَّتُ اللَّهِ خَيْرٌ لَكُمْ [هود 86] - ( ب ق ی ) البقاء - کے معنی کسی چیز کے اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں یہ فناء کی ضد ہے ۔ یہ باب بقی ( س) یبقی بقاء ہے ۔ یہی معنی آیت کریمہ : بَقِيَّتُ اللَّهِ خَيْرٌ لَكُمْ [هود 86] ، میں بقیۃ اللہ کے ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف مضاف ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧٧ وَجَعَلْنَا ذُرِّیَّـتَہٗ ہُمُ الْبٰقِیْنَ ” اور ہم نے اس کی اولاد کو ہی باقی رہنے والابنایا۔ “- یہ آیت فلسفہ قرآنی کے اعتبار سے بہت اہم ہے۔ اس میں اسلوبِ حصر کے ساتھ فرمایا گیا ہے کہ صرف نوح (علیہ السلام) ہی کی اولاد کو ہم نے باقی رہنے والا بنایا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیلاب کے بعد دنیا میں بنی نوع انسان کی نسل صرف حضرت نوح کے بیٹوں سے ہی چلی تھی ۔- آپ ( علیہ السلام) کی قوم کے رویے کے حوالے سے قرآن میں جا بجا جو اشارے ملتے ہیں اس سے تو یہی گمان ہوتا ہے کہ ان لوگوں میں سے شاید کوئی بھی آپ ( علیہ السلام) پر ایمان نہیں لایا تھا۔ بلکہ سورة ہود کے الفاظ : وَمَآاٰمَنَ مَعَہٗٓ اِلاَّ قَلِیْلٌ ۔ سے تو ایسے ہی لگتا ہے جیسے کشتی میں گنتی کے چند افراد تھے جن میں آپ ( علیہ السلام) خود تھے ‘ آپ ( علیہ السلام) کے تین بیٹے اور ان کے اہل و عیال تھے یا ممکن ہے آپ ( علیہ السلام) کی کوئی بیوی بھی آپ ( علیہ السلام) کے ہمراہ ہو۔ اس کے علاوہ کچھ خادمین اور ملازمین ہوں گے اور بس۔ آپ ( علیہ السلام) کی ایک بیوی اور ایک بیٹا تو غرق ہونے والوں میں شامل تھے۔ اگر کوئی ُ خدام ّوغیرہ تھے بھی تو ان کی نسل آگے چلنے کا اہتمام نہیں ہوا ہوگا۔ چناچہ اس کے بعد نسل انسانی آپ ( علیہ السلام) کے تین بیٹوں سام ‘ حام اور یافث سے ہی چلی۔ اسی لیے آپ ( علیہ السلام) کو آدم ثانی بھی کہا جاتا ہے۔ میرے اندازے کے مطابق تقریباً دو ہزار برس کے عرصے میں انسانی آبادی دنیا کے مختلف علاقوں میں پھیلی ہے۔ ورنہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانے تک انسانی آبادی صرف اسی علاقے تک محدود تھی جو سب کی سب سیلاب کی وجہ سے ختم ہوگئی اور صرف وہی چند نفوس زندہ بچے جو آپ ( علیہ السلام) کے ساتھ کشتی میں سوار تھے۔ بہر حال آیت زیر مطالعہ کے الفاظ میں یہ مفہوم بہت واضح ہے کہ سیلاب کے بعد نسل انسانی صرف آپ ( علیہ السلام) کے بیٹوں (ذُرِّیَّتَہٗ ) سے ہی آگے چلی۔ کشتی میں اگر آپ ( علیہ السلام) کے خاندان کے علاوہ کچھ اور لوگ موجود تھے بھی تو ان میں سے کسی کی نسل آگے نہ چل سکی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :42 اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ جو لوگ حضرت نوح کی مخالفت کر رہے تھے ان کی نسل دنیا سے ناپید کر دی گئی اور حضرت نوح علیہ السلام ہی کی نسل باقی رکھی گئی اور آگے صرف حضرت نوح علیہ السلام ہی کی اولاد سے دنیا آباد کی گئی ۔ عام طور پر مفسرین نے اسی دوسرے معنی کو اختیار کیا ہے ، مگر قرآن مجید کے الفاظ اس معنی میں صریح نہیں ہیں اور حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani