78۔ 1 یعنی قیامت تک آنے والے اہل ایمان میں ہم نے نوح (علیہ السلام) کا ذکر خیر باقی چھوڑ دیا ہے اور وہ سب نوح (علیہ السلام) پر سلام بھیجتے ہیں اور بھیجتے رہیں گے۔
[٤٦] یعنی رہتی دنیا تک سیدنا نوح کا نام بھلائی سے لیا جاتا رہے گا۔ چناچہ اس وقت دنیا میں جتنی بھی قومیں آباد ہیں۔ سب اپنا سلسلہ نسب سیدنا نوح سے ملاتی اور اس میں فخر محسوس کرتی ہیں۔ نیز اکثر اقوام انہیں اپنا مذہبی قائد تسلیم کرتی ہیں۔ حتیٰ کہ ایران کے مجوسی اور صابی بھی انہیں اپنا نبی تسلیم کرتے ہیں۔
وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْاٰخِرِيْنَ : یعنی بعد میں آنے والی تمام اقوام نوح (علیہ السلام) پر سلام بھیجتی رہیں گی۔
وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْاٰخِرِيْنَ ، سَلٰمٌ عَلٰي نُوْحٍ فِي الْعٰلَمِيْنَ (اور ہم نے ان کے لئے پیچھے آنے والے لوگوں میں یہ بات رہنے دی کہ نوح (علیہ السلام) پر سلام ہو عالم والوں میں) اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بعد جو لوگ پیدا ہوئے ان کی نظر میں حضرت نوح (علیہ السلام) کو ایسا معزز و مکرم بنادیا کہ وہ قیامت تک حضرت نوح (علیہ السلام) کے لئے سلامتی کی دعا کرتے رہیں گے چناچہ واقعہ بھی یہی ہے کہ تمام وہ مذاہب جو اپنے آپ کو آسمانی کتابوں سے منسوب کرتے ہیں سب کے سب حضرت نوح (علیہ السلام) کی نبوت اور تقدس کے قائل ہیں، مسلمانوں کے علاوہ یہودی اور نصرانی بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنا پیشوا مانتے ہیں۔
وَتَرَكْنَا عَلَيْہِ فِي الْاٰخِرِيْنَ ٧٨ۡۖ- ترك - تَرْكُ الشیء : رفضه قصدا واختیارا، أو قهرا واضطرارا، فمن الأول : وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] ، وقوله :- وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] ، ومن الثاني : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] - ( ت ر ک) ترک - الشیئء کے معنی کسی چیز کو چھوڑ دینا کے ہیں خواہ وہ چھوڑنا ارادہ اختیار سے ہو اور خواہ مجبورا چناچہ ارادۃ اور اختیار کے ساتھ چھوڑنے کے متعلق فرمایا : ۔ وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] اس روز ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ ور وئے زمین پر پھل کر ( ایک دوسری میں گھسن جائیں وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] اور دریا سے ( کہ ) خشک ( ہورہا ہوگا ) پاور ہوجاؤ ۔ اور بحالت مجبوری چھوڑ نے کے متعلق فرمایا : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] وہ لوگ بہت سے جب باغ چھوڑ گئے ۔
آیت ٧٨ وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الْاٰخِرِیْنَ ” اور ہم نے اسی (کے طریقے) پر بعد میں آنے والوں میں سے بھی (کچھ لوگوں کو) چھوڑا۔ “- یعنی بعد میں آپ ( علیہ السلام) کی نسل میں سے بھی لوگ آپ ( علیہ السلام) کے راستے پر چلتے رہے۔ آپ ( علیہ السلام) کے بیٹوں کی اولادیں کچھ عرصہ تک تو یقینا دین حق اور دین توحید پر چلتی رہی ہوں گی ‘ لیکن بالآخر شیطان نے انہیں بھی گمراہ کردیا اور مختلف قسم کے توہمات اور شرک میں مبتلا کردیا۔