89۔ 1 آسمان پر غور و فکر کے لئے دیکھا جیسا کہ بعض لوگ ایسا کرتے ہیں۔ یا اپنی ہی قوم کے لوگوں کو مغالطے میں ڈالنے کے لئے ایسا کیا، جو کہ ستاروں کی گردش کو حوادث زمانہ میں مؤثر مانتے تھے۔ یہ واقعہ اس وقت کا ہے کہ جب ان کی قوم کا وہ دن آیا، جسے وہ باہر جا کر بطور عید اور قومی تہوار منایا کرتی تھی۔ قوم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی ساتھ چلنے کی دعوت دی۔ لیکن ابراہیم (علیہ السلام) تنہائی اور موقعے کی تلاش میں تھے، تاکہ ان کے بتوں کا تیاپانچہ (یعنی توڑ پھوڑ دیا جاسکے) ۔ چناچہ انہوں نے یہ موقع غنیمت جانا کہ کل ساری قوم باہر میلے میں چلی جائیگی تو میں اپنا منصوبہ بروئے کار لے آؤں گا۔ اور کہہ دیا کہ میں بیمار ہوں یا آسمانوں کی گردش بتاتی ہے کہ میں بیمار ہونے والا ہوں۔ یہ بات بالکل جھوٹی نہیں تھی، ہر انسان کچھ نہ کچھ بیمار ہوتا ہی ہے، علاوہ ازیں قوم کا شرک ابراہیم (علیہ السلام) کے دل کا ایک مستقل روگ تھا جسے دیکھ وہ کڑتے رہتے تھے، جیسا کہ اس کی ضروری تفصیل سورة انبیاء۔ 63 میں گزر چکی ہے۔
فَقَالَ اِنِّىْ سَقِيْمٌ : یہ ایسی بات تھی جو درحقیقت سچی تھی، کیونکہ عموماً آدمی کی طبیعت کچھ نہ کچھ خراب ہوتی ہے، مگر قوم نے اس کا مطلب کچھ اور سمجھا (کہ وہ جانے کے قابل نہیں ہیں) جس سے ابراہیم (علیہ السلام) اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ایسی باتوں کو جن میں کہنے والے کی نیت کچھ ہو اور سننے والا کچھ اور سمجھے ” معاریض “ کہتے ہیں، جن کے ساتھ آدمی صریح جھوٹ سے بچ جاتا ہے۔ صحیح بخاری (٣٣٥٨) میں ابراہیم (علیہ السلام) کی ” ثَلَاثَ کَذِبَاتٍ “ والی حدیث پر مفصل بحث کے لیے دیکھیے سورة انبیاء کی آیت (٦٢، ٦٣) کی تفسیر۔
فَقَالَ اِنِّىْ سَقِيْمٌ ٨٩- سقم - السَّقَمُ والسُّقْمُ : المرض المختصّ بالبدن والمرض قد يكون في البدن وفي النّفس، نحو :- فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ [ البقرة 10] ، وقوله تعالی: إِنِّي سَقِيمٌ [ الصافات 89] فمن التّعریض، أو الإشارة إلى ماض، وإمّا إلى مستقبل، وإمّا إلى قلیل ممّا هو موجود في الحال، إذ کان الإنسان لا ينفكّ من خلل يعتريه وإن کان لا يحسّ به، ويقال : مکان سَقِيمٌ ، إذا کان فيه خوف .- ( س ق م ) السقم والسقم خاص کر جسمانی بیماری کو کہتے ہیں بخلاف مرض کے کہ وہ جسمانی اور قلبی دونوں قسم کی بیماریوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ [ البقرة 10] ان کے دلوں میں ( کفر کا ) مرض تھا ۔ اور آیت : ۔ إِنِّي سَقِيمٌ [ الصافات 89] اور کہا میں تو بیمار ہوں ۔ میں سقیم کا لفظ یا تو تعریض کے طور پر استعمال ہوا ہے اور یا زمانہ ماضی یا مستقبل کی طرف اشارہ کے لئے اور یہ بھی ہوسکتا ہے اس ہلکی سی بدنی تکلیف کی طرف اشارہ ہو جو اس وقت ان کو عارض تھی ۔ کیونکہ انسان بہر حال کسی نہ کسی عارضہ میں مبتلا رہتا ہے اگر چہ وہ اسے محسوس نہ کرے اور خوف ناک جگہ کو مکان سقیم کہا جاتا ہے ۔
آیت ٨٩ فَقَالَ اِنِّیْ سَقِیْمٌ ” پھر کہا کہ میں تو بیمار ہوں۔ “- میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے ‘ یا یہ کہ میں بیمار ہونے والا ہوں۔ مجھے خدشہ ہے کہ مجھ پر بیماری آنے والی ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم میں بت پرستی بھی عام تھی اور ستارہ پرستی بھی۔ ان کے ہاں ہندوئوں کے جنم اشٹمی کے میلے کی طرز پر سالانہ ایک جشن منایا جاتا تھا۔ اس موقع پر شہر کے تمام لوگ باہر کھلے میدان میں جا کر کسی ستارے کی پرستش کیا کرتے تھے۔ چناچہ جب جشن کا دن آیا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ میری تو طبیعت خراب ہے ‘ میں آپ لوگوں کے ساتھ نہیں جاسکتا۔ اس طرح آپ ( علیہ السلام) پیچھے رہ گئے۔
سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :49 یہ ان تین باتوں میں سے ایک ہے جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی زندگی میں یہ تین جھوٹ بولے تھے ۔ حالانکہ اس بات کو جھوٹ ، یا خلاف واقعہ کہنے کے لیے پہلے کسی ذریعہ سے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ تھی اور انہوں نے محض بہانے کے طور پر یہ بات بنا دی تھی ۔ اگر اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے تو خواہ مخواہ اسے جھوٹ آخر کس بنا پر قرار دے دیا جائے ۔ اس مسئلے پر تفصیلی بحث ہم تفہیم القرآن جلد سوم ( صفحہ 167 ۔ 168 ) میں کر چکے ہیں ، اور مزید بحث رسائل و مسائل ، جلد دوم ( صفحہ 35 تا 39 ) میں کی گئی ہے ۔
16: ان کی قوم کے لوگ انہیں اپنے ایک میلے میں لے جانا چاہتے تھے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ایک تو میلے میں شریک نہیں ہونا چاہتے تھے، دوسرے ان کے دل میں یہ ارادہ تھا کہ جب یہ سارے لوگ میلے میں چلے جائیں گے، اور مندر خالی ہوگا تو وہ وہاں جا کر بتوں کو توڑ پھوڑ دیں گے، تاکہ یہ لوگ آنکھوں سے ان بتوں کی بے بسی کا منظر دیکھیں جنہیں انہوں نے خدا بنا رکھا ہے۔ اس لیے انہوں نے عذر کیا کہ میری طبیعت خراب ہے۔ اب یہ بھی ممکن ہے کہ واقعی ان کے مزاج ناساز ہوں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کا اصل مطلب یہ ہے کہ تمہارے کفر و شرک کی حرکتیں دیکھ کر میری طبیعت روحانی طور پر خراب ہوتی ہے۔