Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٠] قوم ابراہیم اور جشن نوروز :۔ جب سورج برج حمل میں داخل ہوتا تو اس دن یہ قوم جشن نوروز مناتی تھی۔ اس پکنک کے لئے زور شور سے تیاریاں شروع ہوگئیں۔ علی الصبح لوگوں نے اچھے اچھے کھانے پکائے کچھ کھائے کچھ مندروں میں بتوں کے سامنے نیاز کے طور پر رکھ دیئے۔ اور نور کے تڑکے میلہ میں شمولیت کے لئے روانہ ہونے لگے تو سیدنا ابراہیم کو اس میں شمولیت کی دعوت دی بلکہ ساتھ لے جانے پر اصرار کیا۔ سیدنا ابراہیم ان کی بےہودگیوں میں قطعا شامل نہ ہونا چاہتے تھے۔ آپ کو فوراً ایک ترکیب سوجھی جو قوم کے مزاج کے موافق تھی۔ آپ نے ستاروں میں نظر ڈالی پھر کہنے لگے کہ میں تو آج بیمار ہونے والا ہوں۔ قوم نے اپنے اعتقاد کے مطابق اس عذر کو معقول سمجھا اور انہیں چھوڑنے پر رضا مند ہوگئے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَتَوَلَّوْا عَنْهُ مُدْبِرِيْنَ : تو وہ لوگ انھیں وہیں چھوڑ کر چلے گئے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَتَوَلَّوْا عَنْہُ مُدْبِرِيْنَ۝ ٩٠- ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - دبر ( پيٹھ)- دُبُرُ الشّيء : خلاف القُبُل «3» ، وكنّي بهما عن، العضوین المخصوصین، ويقال : دُبْرٌ ودُبُرٌ ، وجمعه أَدْبَار، قال تعالی: وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ- دُبُرَهُ [ الأنفال 16] ، وقال : يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال 50] ، أي :- قدّامهم وخلفهم، وقال : فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال 15] ، وذلک نهي عن الانهزام، وقوله : وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق 40] : أواخر الصلوات، وقرئ : وَإِدْبارَ النُّجُومِ- «1» ( وأَدْبَار النّجوم) «2» ، فإدبار مصدر مجعول ظرفا،- ( د ب ر ) دبر ۔- بشت ، مقعد یہ قبل کی ضد ہے اور یہ دونوں لفظ بطور کنایہ جائے مخصوص کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور اس میں دبر ا اور دبر دولغات ہیں اس کی جمع ادبار آتی ہے قرآن میں ہے :َ وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال 16] اور جو شخص جنگ کے روز ان سے پیٹھ پھیرے گا ۔ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال 50] ان کے مونہوں اور پیٹھوں پر ( کوڑے و ہیتھوڑے وغیرہ ) مارتے ہیں ۔ فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال 15] تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا ۔ یعنی ہزیمت خوردہ ہوکر مت بھاگو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق 40] اور نماز کے بعد ( بھی ) میں ادبار کے معنی نمازوں کے آخری حصے ( یا نمازوں کے بعد ) کے ہیں . وَإِدْبارَ النُّجُومِ«1»میں ایک قرات ادبارالنجوم بھی ہے ۔ اس صورت میں یہ مصدر بمعنی ظرف ہوگا یعنی ستاروں کے ڈوبنے کا وقت جیسا کہ مقدم الجام اور خفوق النجم میں ہے ۔ اور ادبار ( بفتح الحمزہ ) ہونے کی صورت میں جمع ہوگی ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٩٠ فَتَوَلَّوْا عَنْہُ مُدْبِرِیْنَ ” تو وہ اس سے ِپھرگئے پیٹھ پھیرتے ہوئے۔ “- یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو چھوڑ کر وہ لوگ اپنی پوجا پاٹ کے لیے چلے گئے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :50 یہ فقرہ خود بخود یہ ظاہر کر رہا ہے کہ صورت معاملہ دراصل کیا تھی ۔ معلوم ہوتا ہے کہ قوم کے لوگ اپنے کسی میلے میں جا رہے ہوں گے ۔ حضرت ابراہیم کے خاندان والوں نے ان سے بھی ساتھ چلنے کو کہا ہو گا ۔ انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کر دی ہو گی کہ میری طبیعت خراب ہے ، میں نہیں چل سکتا ۔ اب اگر یہ بات بالکل ہی خلاف واقعہ ہوتی تو ضرور گھر کے لوگ ان سے کہتے کہ اچھے خاصے بھلے چنگے ہو ، بلا وجہ بہانہ بنا رہے ہو ۔ لیکن جب وہ عذر کو قبول کر کے انہیں پیچھے چھوڑ گئے تو اس سے خود ہی یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ضرور اس وقت حضرت ابراہیم کو نزلہ ، کھانسی ، یا کوئی اور ایسی ہی نمایاں تکلیف ہو گی جس کی وجہ سے گھر والے انہیں چھوڑ جانے پر راضی ہو گئے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani