Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

98۔ 1 یعنی آگ کو گلزار بنا کر ان کے مکر و حیلے کو ناکام بنادیا، پس پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندوں کی چارہ سازی فرماتا ہے اور آزمائش کو عطا میں اور شر کو خیر میں بدل دیتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٣] سیدنا ابراہیم کو آگ کے الاؤ میں پھینکنا :۔ سیدنا ابراہیم کے دلائل کا جواب تو کسی کے پاس تھا نہیں۔ لہذا وہ اوچھے ہتھیاروں پر اتر آئے اور کہنے لگے، اپنے معبودوں کے گستاخ کو ایسی قرار واقعی سزا دو جس سے دوسروں کو عبرت حاصل ہو۔ چناچہ بالاتفاق طے ہوا کہ ایک بہت بڑا الاؤ تیار کیا جائے اور اس میں سیدنا ابراہیم کو پھینک کر زندہ جلا دیا جائے۔ چناچہ ان لوگوں نے حسب تجویز بہت بڑا الاؤ تیار کیا اور سیدنا ابراہیم کو اس میں پھینک دیا۔ اللہ نے آگ کو حکم دیا کہ ابراہیم کو کسی قسم کا گزند نہ پہنچنے پائے۔ چناچہ آپ صحیح سلامت اس آگ سے باہر نکل آئے۔ اس طرح آپ تو اس بھاری آزمائش میں پوری طرح کامیاب ہوگئے اور قوم کو پہلے سے بھی زیادہ رسوا ہونا پڑا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَاَرَادُوْا بِهٖ كَيْدًا : اس کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة انبیاء (٧٠) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاَرَادُوْا بِہٖ كَيْدًا فَجَعَلْنٰہُمُ الْاَسْفَلِيْنَ۝ ٩٨- رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - كيد - الْكَيْدُ : ضرب من الاحتیال، وقد يكون مذموما وممدوحا، وإن کان يستعمل في المذموم أكثر، وکذلک الاستدراج والمکر، ويكون بعض ذلک محمودا، قال : كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف 76]- ( ک ی د ) الکید - ( خفیہ تدبیر ) کے معنی ایک قسم کی حیلہ جوئی کے ہیں یہ اچھے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور برے معنوں میں بھی مگر عام طور پر برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اسی طرح لفظ استد راج اور مکر بھی کبھی اچھے معنوں میں فرمایا : ۔ كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف 76] اسی طرح ہم نے یوسف کے لئے تدبیر کردی ۔ - جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- سفل - السُّفْلُ : ضدّ العلو، وسَفُلَ فهو سَافِلٌ ، قال تعالی: فَجَعَلْنا عالِيَها سافِلَها [ الحجر 74] ، وأَسْفَل ضدّ أعلی،- ( س ف ل ) السفل - یہ علو کی ضد ہے اور سفل ( سفولا ) فھوا سافل کے معنی پست اور حقیر ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے فَجَعَلْنا عالِيَها سافِلَها [ الحجر 74]

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٩٨ فَاَرَادُوْا بِہٖ کَیْدًا فَجَعَلْنٰہُمُ الْاَسْفَلِیْنَ ” تو اس طرح انہوں نے اس کے ساتھ ایک دائو آزمایا ‘ لیکن ہم نے ان کو ہی نیچا دکھادیا۔ “- انہوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کے خلاف کون سا دائو آزمایا تھا ‘ اس کی وضاحت قبل ازیں سورة الانبیاء کی آیت ٧٠ کی تشریح کے ضمن میں ہوچکی ہے۔ دراصل وہ لوگ آپ ( علیہ السلام) کو آگ میں جلانا نہیں چاہتے تھے بلکہ محض ڈرانا چاہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ جب آپ ( علیہ السلام) دیکھیں گے کہ ان کے لیے آگ کا اتنا بڑا الائو دہکایا جا رہا ہے تو سارا نشہ ہرن ہوجائے گا ‘ اور پھر جب انہیں آگ کے دہانے پر لاکر کھڑا کیا جائے گا تو ہوش ٹھکانے آجائیں گے اور آپ ( علیہ السلام) تائب ہو کر اپنے عقائد سے رجوع کرلیں گے۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح یہ ” فتنہ “ دب جائے گا۔ لیکن یہاں تو معاملہ بالکل ہی الٹ ہوگیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو الائو کے دہانے پر لایا گیا تو بقول اقبالؔ: ؎- بے خطر کود پڑا آتش ِنمرود میں عشق عقل ہے محو ِتماشائے لب ِبام ابھی - بہر حال جب ابراہیم (علیہ السلام) نے بھرپور استقامت کا مظاہرہ کیا تو پھر اللہ تعالیٰ نے آپ ( علیہ السلام) کے لیے آگ کو گل و گلزار بنا دیا۔ اس طرح وہ لوگ اپنے ارادوں اور منصوبوں سمیت خائب و خاسر ہوگئے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :53 سورہ انبیا ( آیت 69 ) میں الفاظ یہ ہیں ۔ قُلْنَا یٰنَارُکُوْنِیْ بَرْداً وَّ سَلَاماً عَلیٓ اِبْرَاہیم ( ہم نے کہا ، اے آگ ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی بن جا ابراہیم کے لیے ) ۔ اور سورہ عنکبوت ( آیت 24 ) میں ارشاد ہوا ہے فَاَنْجٰہُ اللہُ مِنَ النَّارِ ، ( پھر اللہ نے اس کو آگ سے بچا لیا ) ۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینک دیا تھا ، اور پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں اس سے بسلامت نکال دیا ۔ آیت کے یہ الفاظ کہ انہوں نے اس کے خلاف ایک کارروائی کرنی چاہی تھی مگر ہم نے انہیں نیچا دکھا دیا اس معنی میں نہیں لیے جا سکتے کہ انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینکنا چاہا تھا مگر نہ پھینک سکے ۔ بلکہ مذکورہ بالا آیات کے ساتھ ملا کر دیکھنے سے ان کا صاف مطلب یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ آگ میں پھینک کر انہیں ہلاک کر دینا چاہتے تھے مگر نہ کر سکے ، اور ان کے معجزانہ طریقہ سے بچ جانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ابراہیم علیہ السلام کی برتری ثابت ہو گئی اور مشرکین کو اللہ نے نیچا دکھا دیا ۔ اس واقعہ کو بیان کرنے سے اصل مقصود قریش کے لوگوں کو اس بات پر متنبہ کرنا ہے کہ جن ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ہونے پر تم فخر کرتے ہو ان کا طریقہ وہ نہ تھا جو تم نے اختیار کر رکھا ہے ، بلکہ وہ تھا جسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیش کر رہے ہیں ۔ اب اگر تم ان کو نیچا دکھانے کے لیے وہ چالیں چلو گے جو حضرت ابراہیم کی قوم نے ان کے ساتھ چلی تھیں تو آخر کار نیچا تم ہی دیکھو گے ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نیچا تم نہیں دکھا سکتے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

17: یعنی جو آگ دہکائی گئی تھی، اللہ تعالیٰ نے اسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے ٹھنڈا کردیا۔ یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ سورۃ انبیاء :32 میں گذر چکا ہے۔ وہیں اس کی تشریح بھی گذری ہے۔