" ذبیح اللہ کی بحث اور یہودی روایات ۔ خلیل اللہ جب اپنی قوم کی ہدایت سے مایوس ہو گئے ۔ بڑی بڑی قدرتی نشانیاں دیکھ کر بھی جب انہیں ایمان نصیب نہ ہوا تو آپ نے ان سے ہٹ جانا پسند فرمایا اور اعلان کردیا کہ میں اب تم میں سے ہجرت کرجاؤں گا میرا رہنما میرا رب ہے ۔ ساتھ ہی اپنے رب سے اپنے ہاں اولاد ہونے کی دعا مانگی تاکہ وہی توحید میں آپ کا ساتھ دے ۔ اسی وقت دعا قبول ہوتی ہے اور ایک بردبار بچے کی بشارت دی جاتی ۔ یہ حضرت اسماعیل علیہ السلام تھے یہی آپ کے لیے صاحبزادے تھے اور حضرت اسحاق سے بڑے تھے ۔ اسے تو اہل کتاب بھی مانتے ہیں بلکہ ان کی کتب میں موجود ہے کہ حضرت اسماعیل کی پیدائش کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر چھیاسی سال کی تھی اور جس وقت حضرت اسحاق علیہ السلام تولد ہوتے ہیں اس وقت آپ کی عمر ننانوے برس کی تھی ۔ بلکہ ان کی اپنی کتاب میں تو یہ بھی ہے کہ جناب ابراہیم کو اپنے اکلوتے فرزند کو ذبح کرنے کا حکم ہوا تھا ۔ لیکن صرف اس لیے کہ یہ لوگ خود تو نبی اللہ حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اور نبی اللہ و ذبیح اللہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے عرب ہیں ۔ انہیں نے واقعہ کی اصلیت بدل دی اور اس فضیلت کو حضرت اسماعیل علیہ السلام سے ہٹاکر حضرت اسحاق کو دے دیا اور بےجاتاویلیں کرتے اللہ کے کلام کو بدل ڈالا ۔ اور کہا ہماری کتاب میں لفظ وحیدک ہے اس سے مراد اکلوتا نہیں بلکہ جو تیرے پاس اس وقت اکیلا ہے وہ ہے ۔ یہ اس لیے کہ حضرت اسماعیل تو اپنی والدہ کے ساتھ مکے میں تھے یہاں خلیل اللہ کے ساتھ صرف حضرت اسحاق تھے ۔ لیکن یہ بالکل غلط ہے ۔ وحید اسی کو کہا جاتا ہے جو اکلوتا ہو اس کا اور کوئی بھائی نہ ہو ۔ پھر یہاں ایک بات اور بھی ہے کہ اکلوتے اور پہلوٹھی کے بچے کے ساتھ جو محبت ہوتی اور اس کے جو لاڈ پیار ہوتے ہیں عموماً دوسری اولاد کے ہونے پر پھر وہ باقی نہیں رہتے ۔ اس لیے اس کے ذبیحہ کا حکم امتحان اور آزمائش کی زبردست کڑی ہے ۔ ہم اسے مانتے ہیں کہ بعض سلف بھی اس کے قائل ہوئے ہیں کہ ذبیح اللہ حضرت اسحاق تھے یہاں تک کہ بعض صحابہ سے بھی یہ مروی ہے لیکن یہ چیز کتاب و سنت سے ثابت نہیں ہوتی ۔ بلکہ خیال یہ ہے کہ بنو اسرائیل کی ایک شہرت دی ہوئی بات کو ان حضرات نے بھی بےدلیل اپنے ہاں لے لیا دور کیوں جائیں کتاب اللہ کے الفاظ میں ہی غور کر لیجیے کہ حضرت اسمٰعیل کی بشارت کا غلام حلیم کہہ کر ذکر ہوا اور پھر اللہ کی راہ میں ذبح کے لیے تیار ہونے کا ذکر ہوا ۔ اس تمام بیان کو ختم کرکے پھر نبی صالح حضرت اسحاق کے تولد کی بشارت کا بیان ہوا ۔ اور فرشتوں نے بشارت اسحاق کے موقع پر غلام علیم فرمایا تھا ۔ اسی طرح قرآن میں ہے بشارت اسحاق کے ساتھ ہی ہے ( وَمِنْ وَّرَاۗءِ اِسْحٰقَ يَعْقُوْبَ 71 ) 11-ھود:71 ) یعنی حضرت ابراہیم کی حیات میں ہی حضرت اسحاق کے ہاں حضرت یعقوب پیدا ہوں گے یعنی ان کی تو نسل جاری رہنے کا پہلے ہی علم کرایا جاچکا تھا اب انہیں ذبح کرنے کا حکم کیسے دیا جاتا ؟ اسے ہم پہلے بھی بیان کر چکے ۔ البتہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کا وصف یہاں پر بردباری کا بیان کیا گیا ہے ۔ جو ذبیح کے لیے نہایت مناسب ہے ۔ اب حضرت اسماعیل بڑے ہو گئے اپنے والد کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہوگئے ۔ آپ اس وقت مع اپنی والدہ محترمہ کے فاران میں تھے حضرت ابراہیم عموماً وہاں جاتے آتے رہتے تھے یہ مذکور ہے کہ براق پر جاتے تھے اور اس جملے کے یہ معنی بھی ہیں کہ جوانی کے لگ بھگ ہوگئے لڑکپن کا زمانہ نکل گیا اور باپ کی طرح چلنے پھرنے کام کاج کرنے کے قابل بن گئے تو حضرت ابراہیم نے خواب دیکھا کہ گویا آپ اپنے پیارے بچے کو ذبح کررہے ہیں انبیاء کے خواب وحی ہوتے ہیں اور اس کی دلیل یہی آیت ہے ۔ ایک مرفوع روایت میں بھی یہ ہے ۔ پس اللہ کے رسول نے اپنے لخت جگر کی آزمائش کے لیے کہ اچانک وہ گھبرانہ اٹھے ، اپنا ارادہ ان کے سامنے ظاہر کیا ۔ وہاں کیا تھا ۔ وہ بھی اسی درخت کے پھل تھے نبی ابن نبی تھے جواب دیتے ہیں اب پھر دیر کیوں لگا رہے ہو یہ باتیں بھی پوچھنے کی ہوتی ہیں جو حکم ہوا ہے اسے فوراً کر ڈالیے اور اگر میری نسبت کھٹکا ہو تو زبانی اطمینانی کیا کروں چھری رکھئے خود معلوم ہو جائے گا کہ میں کیسا کچھ صابر ہوں ۔ ان شاء اللہ میرا صبر آپ کا جی خوش کردے گا ۔ سبحان اللہ جو کہا تھا وہی کرکے دکھایا اور صادق الوعد ہونے کا سرٹیفیکیٹ اللہ کی طرف سے حاصل کر ہی لیا ۔ آخر باپ بیٹا دونوں حکم اللہ کی اطاعت کے لیے جان بکف تیار ہوجاتے ہیں باپ بچے کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے ۔ اور باپ اپنے نور چشم لخت جگر کو منہ کے بل زمین پر گراتے ہیں تاکہ ذبح کے وقت منہ دیکھ کر محبت نہ آجائے اور ہاتھ سست نہ پڑ جائے ۔ مسند احمد میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی نور نظر کو ذبح کرنے کے لیے بحکم اللہ لے چلے تو سعی کے وقت شیطان سامنے آیا لیکن حضرت ابراہیم اس سے آگے بڑھ گئے ، پھر حضرت جبرائیل کے ساتھ آپ جمرہ عقبہ پر پہنچے تو پھر شیطان سامنے آیا آپ نے اسے سات کنکریاں ماریں ۔ پھر جمرہ وسطی پاس آیا پھر وہاں سات کنکریاں ماریں ۔ پھر آگے بڑھ کر اپنے پیارے بچے کو اللہ کے نام پر ذبح کرنے کے لیے نیچے پچھاڑا ، ذبیح اللہ کے پاک جسم پر اس وقت سفید چادر تھی کہنے لگے ابا جی اسے اتار لیجیے تاکہ اس میں آپ مجھے کفنا سکیں ۔ اس وقت بیٹے کو ننگا کرتے وقت باپ کا عجب حال تھا کہ آواز آئی بس ابراہیم خواب کو سچا کر چکے ۔ مڑ کر دیکھا تو ایک مینڈا سفید رنگ کا بڑے بڑے سینگوں اور صاف آنکھوں والا نظر پڑا ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اسی لیے ہم اس قسم کے مینڈے ( چھترے ) چن چن کر قربانی کے لیے لیتے تھے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ ہی سے دوسری روایت میں حضرت اسحاق کا نام مروی ہے ۔ تو گو دونوں نام آپ سے مروی ہیں لیکن اول ہی اولیٰ ہے اور اسکی دلیلیں آرہی ہیں ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ اس کے بدلے بڑا ذبیحہ اللہ نے عطا فرمایا اس کی بابت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہ جنتی چھترا تھا جو وہاں چالیس سال سے کھاپی رہا تھا ۔ اسے دیکھ کر آپ اپنے بچے کو چھوڑ کر اس کے پیچھے ہولیے ۔ جمرہ اولی پر آکر سات کنکریاں پھنکیں پھر وہ بھاگ کر جمرہ وسطی پر آگیا ۔ سات کنکریاں ماریں اور وہاں سے ملخر میں لاکر ذبح کیا اس کے سینگ سر سمیت ابتداء اسلام کے زمانہ تک کعبے کے پرنالے کے پاس لٹکتے رہے تھے پھر سوکھ گئے ۔ ایک مرتبہ حضرت کعب رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے باتیں کررہے تھے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ تو حدیثیں بیان کررہے تھے اور حضرت کعب کتاب کے قصے بیان کررہے تھے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ہر نبی کے لیے ایک دعا قبول شدہ ہے اور میں نے اپنی اس مقبول دعا کو پوشیدہ کرکے رکھ چھوڑا ہے اپنی امت کی شفاعت کے ۔ اور فرمانے لگے تم پر میرے ماں باپ فدا ہوں یا فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر میرے ماں باپ صدقے جائیں پھر حضرت کعب نے حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام کا قصہ سنایا کہ جب آپ اپنے لڑکے حضرت اسمٰعیل کو ذبح کرنے کے لیے مستعد ہوگئے تو شیطان نے کہا اگر میں اس وقت انہیں نہ بہکا سکا تو مجھے ان سے عمر بھر کے لیے مایوس ہوجانا چاہیے ۔ پہلے تو یہ حضرت سارہ کے پاس آیا اور پوچھا کہ ابراہیم تمہارے لڑکے کو کہاں لے گئے ہیں؟ مائی صاحبہ نے جواب دیا اپنے کسی کام پر لے گئے ہیں اس نے کہا نہیں بلکہ وہ ذبح کرنے کے لیے لے گئے ہیں مائی صاحبہ نے فرمایا وہ اسے کیوں ذبح کرنے لگے؟ لعین نے کہا وہ کہتے ہیں اللہ کی طرف سے یہی حکم ہے جواب ملا پھر تو یہی بہتر ہے کہ وہ جلدی سے اللہ کے حکم کی بجا آوری سے فارغ ہو لیں ۔ یہاں سے نامراد ہو کر بچے کے پاس آیا اور کہا تمہارے ابا تمہیں کہا لے جاتے ہیں ۔ ؟ فرمایا اپنے کام کے لیے کہا نہیں بلکہ وہ تجھے ذبح کرنے کے لیے لے جا رہے ہیں ، فرمایا یہ کیوں؟ کہا اس لیے کہ وہ سمجھتے ہیں اللہ کا انہیں حکم ہے ۔ کہا پھر تو واللہ انہیں اس کام میں بہت جلدی کرنی چاہیے ۔ ان سے بھی مایوس ہو کر یہ ملعون خلیل اللہ کے پاس پہنچا ۔ ان سے کہا بچے کو کہاں لے جا رہے ہو؟ جواب دیا اپنے کام کے لیے ملعون نے کہا نہیں بلکہ تم تو اسے ذبح کرنے کے لیے جا رہے ہو؟ آپ نے فرمایا یہ کیوں؟ بولا اس لیے کہ تمہارا خیال ہے کہ اللہ کا حکم تمہیں یونہی ہے ، آپ نے فرمایا اللہ کی قسم پھر تو میں ضرور ہی اسے ذبح کر ڈالوں گا ۔ اب ابلیس مایوس ہو گیا ۔ دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ اس تمام واقعے کے بعد جناب باری تعالیٰ نے حضرت اسحاق سے فرمایا کہ ایک دعا تم مجھ سے مانگو جو مانگو گے ملے گا حضرت اسحاق نے کہا پھر میری دعا یہ ہے کہ جس نے تیرے ساتھ شریک نہ کیا ہو اسے تو ضرور جنت میں لے جانا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا کہ میں دو باتوں میں سے ایک کو اختیار کرلوں یا تو یہ کہ میری آدھوں آدھ امت بخشی جائے یا یہ کہ میں شفاعت کروں اور اسے اللہ تعالیٰ قبول فرما لے تو میں نے شفاعت کرنے کو ترجیح دی اس پر کہ وہ عام ہوگی ہاں ایک دعا تھی کہ میں وہی کرتا لیکن اللہ کا ایک نیک بندہ مجھ سے پہلے اس دعا کو مانگ چکا تھا ۔ واقعہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت اسحاق سے ذبح ہونے کی تکلیف دور کردی تو ان سے فرمایا گیا کہ تو مانگ جو مانگے گا دیا جائے گا ۔ تو حضرت اسحاق نے فرمایا واللہ شیطان کے بہکانے سے پہلے ہی میں اسے مانگ لوں گا اللہ جو شخص اس حالت میں مرا ہو کہ اس نے تیرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو تو اسے بخش دے اور جنت میں پہنچا دے یہ حدیث ابن ابی حاتم میں ہے لیکن سند اً غریب اور منکر ہے اور اس کے ایک راوی عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم ضعیف ہیں اور مجھے تو یہ بھی ڈر ہے کہ یہ الفاظ کہ ( جب اللہ تعالیٰ نے حضرت اسحاق سے ) آخر تک راوی اپنے نہ ہوں جنہیں انہوں نے حدیث میں داخل کردئیے ہیں ۔ ذبیح اللہ تو حضرت اسماعیل علیہ السلام ہیں ، محل ذبح منیٰ ہے اور وہ مکے میں ہے اور حضرت اسماعیل یہیں تھے نہ کہ حضرت اسحاق وہ تو شہر کنعان میں تھے جو شام ہے ۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے پیارے بچے کو ذبح کرنے کے لیے لٹا دیتے ہیں جناب باری سے ندا آتی ہے کہ بس ابراہیم تم اپنے خواب کو پورا کرچکے ۔ سدی سے روایت ہے کہ جب خلیل اللہ نے ذبیح اللہ کے حلق پر چھری پھیری تو گردن تانبے کی ہوگئے اور نہ کٹی اور یہ آواز آئی ۔ ہم اسی طرح نیک کاروں کو بدلہ دیتے ہیں ۔ یعنی سختیوں سے بچالیتے ہیں اور چھٹکارا کردیتے ہیں ۔ جیسے فرمایا اللہ سے ڈرتے رہنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ چھٹکارے کی صورت نکال ہی دیتا ہے اور اسے ایسی طرح روزی پہنچاتا ہے کہ اس کے گمان و وہم میں بھی نہ ہو ۔ اللہ پر بھروسہ کرنے والوں کو اللہ ہی کافی ہے اللہ اپنے کاموں کو مکمل کرکے چھوڑتا ہے ہر چیز کا اس نے ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے ۔ اس آیت سے اس پر استدلال کیا گیا ہے کہ فعل پر قدرت پانے سے پہلے ہی حکم منسوخ ہو سکتا ہے ہاں معتزلہ اسے نہیں مانتے ۔ وجہ استدلال بہت ظاہر ہے اس لیے کہ خلیل اللہ کو اپنے بیٹے کے ذبح کرنے کا حکم ہوتا ہے اور پھر ذبح سے پہلے ہی فدئیے کے ساتھ منسوخ کردیا جاتا ہے ۔ مقصود اس سے یہ تھا کہ صبر کا اور بجا آوری حکم پر مستعدی کا ثواب مرحمت فرما دیا جائے ۔ اسی لیے ارشاد ہوا یہ تو صرف ایک آزمائش تھی کھلا امتحان تھا کہ ادھر حکم ہوا ادھر تیاری ہوئی ۔ اسی لیے جناب خلیل اللہ علیہ السلام کی تعریف میں قرآن میں ہے ابراہیم بڑا ہی وفادار تھا ۔ بڑے ذبیح کے ساتھ ان کا فدیہ ہم نے دیا ۔ سفید رنگ بڑی آنکھوں اور بڑے سینگوں والا عمدہ خوراک سے پلا ہوا منیڈھا فدئیے میں دیا گیا جو ژیر ببول کے درخت سے بندھا ہوا ملا ۔ جو جنت میں چالیس سال چرتا رہا ۔ منیٰ میں ژیر کے پاس جو چٹان ہے اس پر یہ جانور ذبح کیا گیا یہ چیختا ہوا اوپر سے اترا تھا ۔ یہی وہ مینڈھا ہے جسے ہابیل نے اللہ کی راہ میں قربان کیا تھا ۔ اس کی اون قدرے سرخی مائل تھی اسکا نام جریر تھا ۔ بعض کہتے ہیں مقام ابراہیم پر اسے ذبح کیا ۔ کوئی کہتا ہے مٹی میں نحر پر ۔ ایک شخص نے اپنے تئیں راہ اللہ میں ذبح کرنے کی منت مانی تھی تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اسے ایک سو اونٹ ذبح کرنے کا فتویٰ دیا تھا لیکن پھر فرماتے تھے کہ اگر میں اسے ایک بھیڑ ذبح کرنے کو کہتا تب بھی کافی تھا کیونکہ کتاب اللہ میں ہے کہ حضرت ذبیح اللہ کا فدیہ اسی سے دیا گیا تھا ۔ اکثر لوگوں کا یہی قول ہے بعض کہتے ہیں یہ پہاڑی بکرا تھا ۔ کوئی کہتا ہے نر ہرن تھا ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بلا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے بھیڑ کے سینگ بیت اللہ شریف میں داخلے کے وقت اندر دیکھے تھے اور مجھے یاد نہ رہا کہ میں تجھے ان کے ڈھانک دینے کا حکم دوں جاؤ اسے ڈھک دو بیت اللہ میں کوئی ایسی چیز نہ ہونی چاہئے جو نمازی کو اپنی طرف متوجہ کر لے ۔ حضرت سفیان فرماتے ہیں اس بھیڑ کے سینگ بیت اللہ میں ہی رہے یہاں تک کہ ایک مرتبہ بیت اللہ میں آگ لگی اس میں وہ جل گئے ، یہ واقعہ بھی اس امر کی دلیل ہے کہ ذبیح اللہ حضرت اسماعیل تھے اسی وجہ سے ان کی اولاد قریش تک یہ سینگ برابر اور مسلسل چلے آئے یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے مبعوث فرمایا ۔ واللہ اعلم ۔ ان آثار کا بیان جن میں ذبیح اللہ کا نام ہے ابو میسرہ فرماتے ہیں حضرت یوسف علیہ السلام نے بادشاہ سے فرمایا کیا تو میرے ساتھ کھانا چاتا ہے میں یوسف بن یعقوب نبی اللہ بن اسحاق ذبیح اللہ بن ابراہیم خلیل اللہ ہوں ( عبید بن عمیر ) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جناب باری میں عرض کی کہ اے اللہ کیا وجہ ہے جو لوگوں کی زبانوں پر یہ چڑھا ہوا ہے کہ ابراہیم اسمعیل اور یعقوب کے اللہ کی قسم ، تو جواب ملا اس لئے ابراہیم نے تو ہر ہر چیز پر مجھی کو ترجیح دی اور اسحاق علیہ السلام نے اپنے تئیں میری راہ میں ذبح ہونے کے لئے سپرد کر دیا پھر بھلا اور چیزیں اسے پیش کر دینا کیا مشکل تھیں اور یعقوب کو میں جوں جوں بلاؤں میں ڈالتا گیا اس کے حسن ظنی میرے ساتھ بڑھتی ہی رہی ۔ ابن مسعود کے سامنے ایک مرتبہ کسی نے فخراً اپنے باپ دادوں کا نام لیا تو آپ نے فرمایا قابل فخر باپ دادا تو حضرت یوسف کے تھے جو یعقوب بن اسحاق اور ذبیح اللہ بن ابراہیم خلیل اللہ تھے ۔ عکرمہ ، ابن عباس ، خود عباس ، علی سعید بن جبیر ، مجاہد ، شعبی ، عبید بن عمر ، ابو میسرہ ، زید بن اسلم ، عبداللہ بن شفیق ، زہری ، قاسم بن ابو برزہ ، محکول ، عثمان بن ابی عاص ، سدی ، حسن ، قتادہ ، ابو الہذیل ، ابن سابط ، کعب احبار رحمہم اللہ اجمعین ، ان سب کا یہی قول ہے اور ابن جریر بھی اسی کو اختیار کرتے ہیں کہ ذبیح اللہ حضرت اسحاق علیہ السلام تھے ۔ صحیح علم تو اللہ کو ہی ہے مگر بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان سب بزرگوں کے استاد حضرت کعب احبار ہیں ۔ یہ خلافت فاروقی میں مسلمان ہوئے تھے اور کبھی کبھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو قدیمی کتابوں کی باتیں سناتے تھے ، لوگوں نے اسے رخصت سمجھ کر پھر ان سے ہر ایک بات بیان کرنی شروع کر دی اور صحیح غلط کی تمیز اٹھ گئی حق تو یہ ہے کہ اس امت کو اگلی کتابوں کی ایک بات کی بھی حاجت نہیں ۔ بغوی نے کچھ اور نام بھی صحابہ تابعین کے بتلائے ہیں جنہوں نے کہا ہے کہ ذبیح اللہ حضرت اسحاق ہیں ۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی یہ آیا ہے اگر وہ حدیث صحیح ہوتی تو جھگڑے کا فیصلہ تھا مگر وہ حدیث صحیح نہیں اس میں دو راوی ضعیف ہیں ۔ حسن بن دینار متروک ہیں اور علی بن زید بن جدعان منکر الحدیث ہیں اور زیادہ صحیح یہ ہے کہ ہے یہ بھی موقف ، چنانچہ ایک سند سے یہ مقولہ حضرت ابن عباس کا مروی ہے اور یہی زیادہ ٹھیک ہے ۔ واللہ اعلم ۔ اب ان آثار کو سنئے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ذبیح اللہ حضرت اسماعیل ہی تھے اور یہی ٹھیک اور بالکل درست بھی ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ یہی فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہودی حضرت اسحاق کا نام جھوٹ موٹ لیتے ہیں ابن عمر مجاہد شعبی حسن بصری محمد بن کعب قرظی ، خلیفہ المسلمین حضرت عمر ابن عبدالعزیز رحمتہ اللہ کے سامنے جب محمد بن قرظی نے یہ فرمایا اور ساتھ ہی اس کی دلیل بھی دی کہ ذبح کے ذکر کے بعد قرآن میں خلیل اللہ کو حضرت اسحاق کے پیدا ہونے کی بشارت کا ذکر ہے اور ساتھ ہی بیان ہے کہ ان کے ہاں بھی لڑکا ہو گا یعقوب نامی جب ان کے ہاں لڑکا ہونے کی بشارت دی گی تھی پھر باوجود ان کے ہاں لڑکا نہ ہوں کے اس سے پہلے ہی ان کے ذبح کرنے کا حکم کیسے دیا جاتا ہے؟ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ بہت صاف دلیل ہے میرا ذہن یہاں نہیں پہنچا تھا گو یہ میں بھی جانتا تھا کہ ذبیح اللہ حضرت اسماعیل ہی ہیں پھر شاہ اسلام نے شام کے ایک یہودی عالم سے پوچھا جو مسلمان ہوگئے تھے کہ تم اس بارے میں کیا علم رکھتے ہو انہوں نے فرمایا امیر المسلمین سچ تو یہی ہے کہ جن کے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا وہ حضرت اسماعیل ہی تھے لیکن چونکہ عرب ان کی اولاد میں سے ہیں تو یہ بزرگی ان کی طرف لوٹتی ہے اس حسد کے بارے میں یہودیوں نے اسے بدل دیا اور حضرت اسحاق کا نام لے دیا ۔ حقیقی علم اللہ ہی کو ہے ہمارا ایمان ہے کہ حضرت اسماعیل حضرت اسحاق دونوں ہی طاہر و طیب اور اللہ کے سچے فرمانبردار تھے ۔ کتاب الزہد میں ہے کہ حضرت امام احمد بن حنبل کے صاحبزادے حضرت عبداللہ نے اپنے والد سے جب یہ مسئلہ پوچھا تو آپ نے جواب دیا کہ ذبح ہونے والے حضرت اسماعیل ہی تھے ۔ حضرت علی حضرت ابن عمر ابو الطفیل ، سعید بن مسیب ، سعید بن جبیر ، حسن ، مجاہد ، شعبی ، محمد بن کعب ، ابو جعفر محمد بن علی ابو صالح رضی اللہ عنہم سے بھی یہی مروی ہے ۔ امام بغوی نے اور بھی صحابہ اور تابعین کے نام گنوائے ہیں ۔ ایک غریب حدیث بھی اسی کی تائید میں مروی ہے اس میں ہے کہ شام میں امیر معاویہ کے سامنے یہ بحث چھڑی کہ ذبیح اللہ کون ہیں؟ تو آپ نے فرمایا خوب ہوا جو یہ معاملہ مجھ جیسے باخبر شخص کے پاس آیا سنو ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے جب ایک شخص آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا اے اللہ کی راہ میں دو ذبح ہونے والوں کی نسل کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے بھی مال غنیمت میں سے کچھ دلوایئے اس پر آپ ہنس دیئے ۔ ایک تو ذبح اللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والد عبداللہ تھے دوسرے حضرت اسمعیل جن کی نسل میں سے آپ ہیں ۔ عبداللہ کے ذبیح اللہ ہونے کا واقعہ یہ ہے کہ آپ کے دادا عبدالمطلب نے جب چاہ زمزم کھودا تو نذر مانی تھی کی اگر یہ کام آسانی سے پورا ہو گیا تو اپنے ایک لڑکے کو راہ اللہ میں ذبح کروں گا جب کام ہو گیا اور قرعہ اندازی کی گئی کہ کس بیٹے کو اللہ کے نام پر ذبح کریں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والد عبداللہ کا نام نکلا ۔ ان کے ننھیال والوں نے کہا آپ ان کی طرف سے ایک سو اونٹ راہ اللہ ذبح کر دیں چنانچہ وہ ذبح کر دیئے گئے اور اسماعیل کے ذبیح اللہ ہونے کا واقعہ تو مشہور ہی ہے ابن جریر میں یہ روایت موجود ہے اور مغازی امویہ میں بھی امام ابن جریر نے حضرت اسحاق کے ذبیح اللہ ہونے کی ایک دلیل تو یہ پیش کی یہ کہ جس علیم بچے کی بشارت کا ذکر ہے اس سے مراد حضرت اسحاق ہیں قرآن میں اور جگہ ہے وبشر و بغلام علیم اور حضرت یعقوب کی بشارت کا یہ جواب دیا ہے کہ وہ آپ کے ساتھ چلنے پھرنے کی عمر کو پہنچ گئے تھے اور ممکن ہے کہ یعقوب کے ساتھ ہی کوئی اور اولاد بھی ہوئی ہو اور کعبتہ اللہ میں سینگوں کی موجودگی کے بارے میں فرماتے ہیں بہت ممکن ہے کہ یہ بلادکنعان سے لا کر یہاں رکھے گئے ہوں اور بعض لوگں سے حضرت اسحاق کے نام کی صراحت بھی آئی ہے ، لیکن یہ سب باتیں حقیقت سے بہت دور ہیں ۔ ہاں حضرت اسماعیل کے ذبیح اللہ ہونے پر محمد بن کعب قرظی کا استدلال بہت صاف اور قوی ہے ۔ واللہ اعلم ۔ پہلے ذبیح اللہ حضرت اسمعیل علیہ السلام کے تولد ہونے کی بشارت دی گئی تھی یہاں اس کے بعد ان کے بھائی حضرت اسحاق کی بشارت دی جا رہی ہے ۔ سورہ ہود اور سورہ حجر میں بھی اس کا ذکر گذر چکا ہے ۔ نبیاً حال مقدرہ ہے یعنی وہ نبی صالح ہو گا ۔ ابن عباس فرماتے ہیں ذبیح اللہ اسحاق تھے اور یہاں نبوت حضرت اسحاق کو بشارت ہے ۔ جیسے حضرت موسیٰ کے بارے میں فرمان ہے کہ ہم نے انہیں اپنی رحمت سے ان کے بھائی ہارون کو نبی بنا دیا ۔ حالانکہ حضرت ہارون حضرت موسیٰ سے بڑے تھے تو یہاں بھی ان کی نبوت کی بشارت ہے ۔ پس یہ بشارت اس وقت دی گئی جبکہ امتحان ذبح میں وہ صابر ثابت ہوئے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ یہ بشارت دو مرتبہ دی گئی پیدائش سے کچھ قبل اور نبوت سے کچھ قبل ۔ حضرت قتادہ سے بھی یہی مروی ہے ۔ ان پر اور اسحاق پر ہماری برکتیں ہم نے نازل فرمائیں ، ان کی اولاد میں ہر قسم کے لوگ ہیں نیک بھی بد بھی ۔ جیسے حضرت نوح علیہ السلام سے فرمان ہوا تھا کہ اے نوح ہماری سلام اور برکت کے ساتھ تواتر ۔ تو بھی اور تیرے ساتھ والے بھی اور ایسے بھی لوگ ہیں جنہیں ہم فائدے پہنچائیں گے پھر انہیں ہماری طرف سے درد ناک عذاب پہنچیں گے ۔ "
99۔ 1 حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ واقعہ بابل (عراق) میں پیش آیا، بالآخر یہاں سے ہجرت کی اور شام چلے گئے اور وہاں جا کر اولاد کے لئے دعا کی (فتح القدیر)
[٥٤] شام کی طرف ہجرت :۔ جب آپ کا باپ اور آپ کی ساری قوم آپ کی جانی دشمن بن گئی تو آپ نے ترک وطن کا فیصلہ کرلیا کہ اب یہاں سے نکل جانا ہی بہتر ہے۔ نکلتے وقت یہ بھی معلوم نہ تھا کہ کہاں جانا ہے۔ فقط اتنا کہا کہ میں اللہ کی خاطر ہجرت پر روانہ ہوا ہوں۔ مجھے کہاں جانا چاہئے یہ بات میرا پروردگار مجھے خود ہی بتائے گا اور میری رہنمائی فرمائے گا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو شام کی طرف جانے کا حکم ہوا اور آپ اپنی بیوی اور بھتیجا یا چچا زاد بھائی سیدنا لوط سمیت شام کی طرف چلے گئے اس وقت تک صرف سیدنا لوط ہی آپ پر ایمان لائے تھے۔ اور آپ کی اس وقت تک کوئی اولاد بھی نہ تھی۔
وَقَالَ اِنِّىْ ذَاهِبٌ اِلٰى رَبِّيْ : قرطبی نے فرمایا : ” یہ آیت ہجرت اور کفار سے علیحدگی اختیار کرنے میں اصل ہے۔ “ آگ سے سلامتی کے ساتھ نکلنے کے عظیم معجزے کے بعد بھی جب لوط (علیہ السلام) کے سوا کوئی شخص ایمان نہ لایا تو ابراہیم (علیہ السلام) نے وہاں سے ہجرت کا فیصلہ فرمایا اور کہنے لگے، میں اپنی قوم اور اپنے وطن سے، جہاں کفر کا تسلط ہے، اپنے رب کی طرف جاتا ہوں، جہاں آزادی سے اپنے رب کی عبادت کرسکوں اور اس کے دین کی دعوت دے سکوں۔ ان کے ساتھ ان کی بیوی سارہ اور بھتیجے لوط (علیہ السلام) تھے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ آدمی جب کسی جگہ اپنے دین پر پوری طرح عمل نہ کرسکے تو اسے وہاں سے ہجرت کرنی چاہیے۔- سَيَهْدِيْنِ : یہ اصل میں ” سَیَھْدِیْنِيْ “ ہے، یہاں ” سین “ تاکید کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ” وہ مجھے ضرور راستہ دکھائے گا “ کیا گیا ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) جب اپنے وطن سے نکلے تو انھیں معلوم نہ تھا کہ کہاں جانا ہے، مگر انھیں اپنے رب پر بھروسے کی وجہ سے یقین تھا کہ وہ ضرور ان کی راہ نمائی فرمائے گا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اِحْفَظِ اللّٰہَ یَحْفَظْکَ ) [ ترمذي، صفۃ القیامۃ والرقائق، باب : ٢٥١٦ ] ” تو اللہ تعالیٰ کا دھیان رکھ وہ تیرا دھیان رکھے گا۔ “ اور یہ بات یقینی ہے کہ جو شخص اللہ کی خاطر کوئی چیز چھوڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اس سے بہتر چیز عطا فرماتا ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی راہ نمائی مبارک سرزمین شام کی طرف فرمائی۔
خلاصہ تفسیر - اور ابراہیم (علیہ السلام جب ان لوگوں کے ایمان سے مایوس ہوگئے تو) کہنے لگے کہ میں تو (تم سے ہجرت کر کے) اپنے رب کی (راہ میں کسی) طرف چلا جاتا ہوں، وہ مجھ کو (اچھی جگہ) پہنچا ہی دے گا، (چنانچہ ملک شام میں جا پہنچے اور یہ دعا کی کہ) اے میرے رب مجھ کو ایک نیک فرزند دے، سو ہم نے ان کو ایک حلیم المزاج فرزند کی بشارت دی (اور وہ فرزند پیدا ہوا اور ہشیار ہوا) سو جب وہ لڑکا ایسی عمر کو پہنچا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ چلنے پھرنے لگا، تو ابراہیم (علیہ السلام) نے (ایک خواب دیکھا کہ میں اس فرزند کو خدا کے حکم سے ذبح کر رہا ہوں، اور یہ ثابت نہیں کہ حلقوم کٹا ہوا بھی دیکھا یا نہیں، غرض آنکھ کھلی تو اسے اللہ کا حکم سمجھے، کیونکہ انبیاء کا خواب بھی وحی ہوتا ہے اور اس حکم کی تعمیل پر آمادہ ہوگئے۔ پھر یہ سوچ کر کہ خدا جانے میرے فرزند کی اس بارے میں کیا رائے ہو، اس کو اطلاع کرنا ضروری سمجھا، اس لئے اس سے) فرمایا کہ برخوردار میں دیکھتا ہوں کہ میں تم کو (بامر الٰہی) ذبح کر رہا ہوں، سو تم بھی سوچ لو تمہاری کیا رائے ہے ؟ وہ بولے ابا جان (اس میں مجھ سے پوچھنے کی کیا بات ہے، جب آپ کو خدا کی طرف سے حکم کیا گیا ہے تو) آپ کو جو حکم ہوا ہے آپ (بلاتامل) کیجئے، انشاء اللہ تعالیٰ آپ مجھ کو سہار کرنے والوں میں سے دیکھیں گے، غرض جب دونوں نے (خدا کے حکم کو) تسلیم کرلیا، اور باپ نے بیٹے کو (ذبح کرنے کے لئے) کروٹ پر لٹایا اور (چاہتے تھے کہ گلا کاٹ ڈالیں اور اس وقت) ہم نے ان کو آواز دی کہ ابراہیم (شاباش ہے) تم نے خواب کو خوب سچ کر دکھایا (یعنی خواب میں جو حکم ہوا تھا اپنی طرف سے اس پر پورا عمل کیا اب ہم اس حکم کو منسوخ کرتے ہیں بس ان کو چھوڑ دو ۔ غرض ان کو چھوڑ دیا، جان کی جان بچ گئی، اور بلند درجات مزید برآں عطا ہوئے) ہم مخلصین کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں (کہ دونوں جہاں کی راحت انہیں عطا کرتے ہیں) حقیقت میں یہ تھا بھی بڑا امتحان (جس کو بجز مخلص کامل کے دوسرا برداشت نہیں کرسکتا تو ہم نے ایسے امتحان میں پورا اترنے پر صلہ بھی بڑا بھاری دیا، اور اس میں جیسا امتحان ابراہیم (علیہ السلام) کا تھا، اسی طرح اسماعیل (علیہ السلام) کا بھی تھا، تو وہ صلہ میں شریک ہوں گے) اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے عوض میں دیا (کہ ابراہیم (علیہ السلام) سے وہ ذبح کرایا گیا) اور ہم نے پیچھے آنے والوں میں یہ بات ان کے لئے رہنے دی کہ ابراہیم پر سلام ہو (چنانچہ ان کے نام کے ساتھ اب تک ” (علیہ السلام) “ کہا جا رہا ہے) ہم مخلصین کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں، (کہ انہیں لوگوں کی دعاؤں اور سلامتی کی بشارتوں کا مرکز بنا دیتے ہیں) بیشک وہ ہمارے ایمان دار بندوں میں سے تھے اور ہم نے (ایک انعام ان پر یہ کیا کہ) ان کو اسحاق (علیہ السلام) کی بشارت دی کہ نبی اور نیک بختوں میں ہوں گے اور ہم نے ابراہیم پر اور اسحاق پر برکتیں نازل کیں (ان برکتوں میں سے ایک یہ ہے کہ ان کی نسل بہت پھیلی اور اس نسل میں کثرت سے انبیاء پیدا ہوئے) اور (پھر آگے) ان دونوں کی نسل میں بعضے اچھے بھی ہیں اور بعضے ایسے بھی جو (بدیاں کر کے) صریح اپنا نقصان کر رہے ہیں۔- معارف ومسائل - بیٹے کی قربانی کا واقعہ :- ان آیات میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی حیات طیبہ کا ایک دوسرا اہم واقعہ بیان کیا گیا ہے، جس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ کے لئے اپنے اکلوتے فرزند کی قربانی پیش کی، واقعہ کے بنیادی اجزاء خلاصہ تفسیر سے واضح ہوجاتے ہیں، بعض تاریخی تفصیلات آیتوں کی تفسیر کے ذیل میں آجائیں گی :- وَقَالَ اِنِّىْ ذَاهِبٌ اِلٰى رَبِّيْ (اور ابراہیم (علیہ السلام) کہنے لگے کہ میں تو اپنے رب کی طرف چلا جاتا ہوں) یہ بات حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس وقت ارشاد فرمائی جبکہ آپ اپنے اہل وطن سے بالکل مایوس ہوگئے، اور وہاں آپ کے بھانجے حضرت لوط (علیہ السلام) کے سوا کوئی آپ پر ایمان نہیں لایا۔ ” رب کی طرف چلے جانے “ سے مراد یہ ہے کہ میں دارالکفر کو چھوڑ کر کسی ایسی جگہ چلا جاؤں گا جہاں کا مجھے اپنے رب کی طرف سے حکم ہوا ہے، اور جہاں میں اپنے پروردگار کی عبادت کرسکوں گا، چناچہ آپ اپنی زوجہ مطہرہ حضرت سارہ اور اپنے بھانجے حضرت لوط (علیہ السلام) کو لے کر سفر پر روانہ ہوئے، اور عراق کے مختلف حصوں سے ہوتے ہوئے بالاخر شام تشریف لے آئے۔ اس تمام عرصہ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی، اس لئے آپ نے وہ دعا فرمائی جس کا اگلی آیت میں ذکر ہے
وَقَالَ اِنِّىْ ذَاہِبٌ اِلٰى رَبِّيْ سَيَہْدِيْنِ ٩٩- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- ذهب - الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ويستعمل ذلک في الأعيان والمعاني، قال اللہ تعالی: وَقالَ إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] ،- ( ذ ھ ب ) الذھب - ذھب ( ف) بالشیء واذھبتہ لے جانا ۔ یہ اعیان ومعانی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں ۔ - هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔
حضرت ابراہیم نے ان لوگوں سے مایوس ہو کر لوط سے فرمایا کہ میں اپنے پروردگار کی عبادت کے لیے کسی طرف چلا جاتا ہوں وہ مجھے اچھی جگہ پہنچا ہی دے گ اور ان لوگوں سے نجات دے گا۔
آیت ٩٩ وَقَالَ اِنِّیْ ذَاہِبٌ اِلٰی رَبِّیْ سَیَہْدِیْنِ ” اور اب اس نے کہا کہ میں اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں ‘ وہ ضرور میری راہنمائی کرے گا۔ “- یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ہجرت کی طرف اشارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ جب کوئی قوم اپنے نبی یا رسول کے قتل پر آمادہ ہوجائے تو پھر وہ نبی یا رسول مزید اس قوم کے درمیان نہیں رہتے۔ آپ ( علیہ السلام) کی قوم نے تو آپ ( علیہ السلام) کے قتل کی صرف منصوبہ بندی ہی نہیں کی تھی بلکہ آپ ( علیہ السلام) کو بالفعل آگ میں ڈال دیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اللہ نے آپ ( علیہ السلام) کو معجزانہ طور پر بچا لیا۔ اسی طرح یہودیوں نے بھی اپنے طور پر حضرت مسیح (علیہ السلام) کو سولی پر چڑھا دیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی تدبیر کو ناکام بنایا اور آپ ( علیہ السلام) کو اپنی طرف اٹھا لیا۔ اسی طرح مشرکین مکہ نے بھی جب محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل کا ارادہ کیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنے کے لیے جمع ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مدینہ منورہ پہنچا دیا۔- چناچہ اللہ تعالیٰ کے اس قانون کے تحت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے عراق سے ہجرت کا ارادہ فرمایا۔ اس وقت تک آپ ( علیہ السلام) کو شاید ہجرت کی منزل کے بارے میں معلوم نہیں تھا ‘ اس لیے آپ ( علیہ السلام) نے فرمایا کہ میرا پروردگار خود میری راہنمائی فرمائے گا کہ مجھے کدھر جانا ہے۔ چناچہ آپ ( علیہ السلام) نے عراق سے فلسطین کی طرف ہجرت کی ‘ جس کے لیے آپ ( علیہ السلام) کو بہت لمبا راستہ اختیار کرنا پڑا۔ عراق ‘ شام اور فلسطین کے درمیان شرق اردن کا پورا علاقہ لق و دق صحرا پر مشتمل ہے ‘ جسے عبور کرنا بالکل ناممکن تھا۔ چناچہ آپ ( علیہ السلام) دریائے فرات کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہوئے اوپر شام کے شمالی علاقے ” باران “ پہنچے اور وہاں سے نیچے فلسطین کے علاقے میں داخل ہوئے۔
سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :54 یعنی آگ سے بسلامت نکل آنے کے بعد جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ملک سے نکل جانے کا فیصلہ کیا تو چلتے وقت یہ الفاظ کہے ۔ سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :55 اس کا مطلب یہ ہے کہ میں اللہ کی خاطر نکل رہا ہوں کیونکہ اسی کا ہو جانے کی وجہ سے میری قوم میری دشمن ہو گئی ہے ورنہ کوئی دنیوی جھگڑا میرے اور اس کے درمیان نہ تھا کہ اس کی بنا پر مجھے اپنا وطن چھوڑنا پڑ رہا ہو ۔ نیز یہ کہ میرا دنیا میں کوئی ٹھکانا نہیں ہے جس کا رخ کروں ۔ تن بتقدیر بس اللہ کے بھروسے پر نکل رہا ہوں ۔ جدھر وہ لے جائے گا اسی طرف چلا چاؤں گا ۔
18: حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اصل وطن عراق تھا، اس واقعے کے بعد آپ شام کی طرف ہجرت فرما گئے تھے۔