11۔ 1 یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد اور کفار کی شکست کا وعدہ ہے۔ یعنی کفار کا یہ لشکر جو باطل لشکروں میں سے ایک لشکر ہے، بڑا ہے، یا حقیر، اس کی قطعًا پروا نہ کریں نہ اس سے خوف کھائیں، شکست ان کا مقدر ہے، ھُنَالِکَ مکان بعید کی طرف اشارہ ہے جو جنگ بدر اور یوم فتح مکہ کی طرف بھی ہوسکتا ہے۔ جہاں کافر عبرت ناک شکست سے دوچار ہوئے۔
[١٣] اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے والے گروہوں میں سے یہ کوئی اتنا بڑا جتھا نہیں ان سے بڑے بڑے جتھے پہلے گزر چکے اور مات کھاچکے ہیں۔ یہ کفار مکہ کی تو ایک معمولی سی جمعیت ہے جو اسی مقام پر یعنی مکہ میں ہی جہاں یہ بیٹھے باتیں بنا رہے ہیں، اپنی مکمل شکست دیکھ لیں گے۔ یہ گویا کفار مکہ کے حق میں ایک پیشین گوئی تھی جو چند ہی سال بعد حرف بحرف پوری ہو کے رہی۔
جُنْدٌ مَّا هُنَالِكَ مَهْزُوْمٌ مِّنَ الْاَحْزَابِ : ” جُنْدٌ“ پر تنوین تقلیل و تحقیر کے لیے ہے اور ” مَّا “ اس کی مزید تاکید کے لیے ہے، جیسے کہا جاتا ہے : ” أَکَلْتُ شَیْءًا مَا، أَيْ شَیْءًا قَلِیْلًا “ ” میں نے تھوڑی سی چیز کھائی۔ “ ” جُنْدٌ مَّا “ ایک حقیر سا لشکر۔ ” هُنَالِكَ “ وہاں، اس جگہ، یعنی اللہ تعالیٰ کے رسول کے مقابلے میں۔ ” الْاَحْزَابِ “ ” حِزْبٌ“ کی جمع ہے، یعنی مختلف لشکر، جماعتیں۔ یعنی خدائی اختیارات کی ڈینگیں مارنے والے اور مختلف جماعتوں اور لشکروں سے جمع ہونے والے اس حقیر سے لشکر کی بساط ہی کیا ہے۔ یہ تو جب بھی میدان میں آیا شکست کھانے والا ہے، جیسا کہ سورة قمر میں فرمایا : (سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ ) [ القمر : ٤٥ ] ” عنقریب یہ جماعت شکست کھائے گی اور یہ لوگ پیٹھیں پھیر کر بھاگیں گے۔ “ بدر کے دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ “ کہتے ہوئے میدان کی طرف بڑھے، پھر احد، خندق، فتح مکہ ہر موقع پر ایسا ہی ہوا کہ لشکر کفار نے منہ کی کھائی۔
جُنْدٌ مَّا ہُنَالِكَ مَہْزُوْمٌ مِّنَ الْاَحْزَابِ ١١- جند - يقال للعسکر الجُنْد اعتبارا بالغلظة، من الجند، أي : الأرض الغلیظة التي فيها حجارة ثم يقال لكلّ مجتمع جند، نحو : «الأرواح جُنُودٌ مُجَنَّدَة» «2» . قال تعالی: إِنَّ جُنْدَنا لَهُمُ الْغالِبُونَ [ الصافات 173] - ( ج ن د ) الجند - کے اصل معنی سنگستان کے ہیں معنی غفلت اور شدت کے اعتبار سے لشکر کو جند کہا جانے لگا ہے ۔ اور مجازا ہر گروہ اور جماعت پر جند پر لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے ( حدیث میں ہے ) کہ ارواح کئ بھی گروہ اور جماعتیں ہیں قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ جُنْدَنا لَهُمُ الْغالِبُونَ [ الصافات 173] اور ہمارا لشکر غالب رہے گا ۔- هزم - أصل الهَزْمِ : غمز الشیء الیابس حتی ينحطم، كَهَزْمِ الشّنّ ، وهَزْمِ القثّاء والبطّيخ، ومنه : الهَزِيمَةُ لأنه كما يعبّر عنه بذلک يعبّر عنه بالحطم والکسر . قال تعالی: فَهَزَمُوهُمْ بِإِذْنِ اللَّهِ- [ البقرة 251] ، جُنْدٌ ما هُنالِكَ مَهْزُومٌ مِنَ الْأَحْزابِ- [ ص 11] وأصابته هَازِمَةُ الدّهر . أي : کا سرة کقولهم : فاقرة، وهَزَمَ الرّعد : تكسّر صوته، والْمِهْزَامُ : عود يجعل الصّبيان في رأسه نارا فيلعبون به، كأنّهم يَهْزِمُونَ به الصّبيان . ويقولون للرّجل الطّبع : هَزَمَ واهْتَزَمَ.- ( ھ ز م ) الھزم کے اصل معنی کسی خشک چیز کو دبا کر توڑ دینے کے ہیں ۔ خشک اور پرانے مشکیزے کو دبا کر توڑڈالنے یا تربوز ککڑی وغیرہ کے توڑنے پر ھزم کا لفظ بولاجاتا ہے اور اسی سے ہزیمت ( بمعنی شکست ) ہے جس طرح حطم ماکسر کا لفظ مجازا شکست کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اسی طرح ھزم کا لفظ بھی اس معنی میں بو لاجاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَهَزَمُوهُمْ بِإِذْنِ اللَّهِ [ البقرة 251] تو طالوت کی فوج نے خدا کے حکم سے ان کو ہزیمت دی جُنْدٌ ما هُنالِكَ مَهْزُومٌ مِنَ الْأَحْزابِ [ ص 11] یہاں شکست کھائے ہوئے گروہوں میں سے بھی ایک لشکر ہے ۔ اور فاقرۃ کی طرح ھازمتہ بھی بڑی مصیبت کو کہتے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ اصابتہ ھازمتہ الدمرات بڑی مصیبت پہنچی ۔ ھزمالرعد گرج کی آواز کا شکستہ ہونا المھزام ایک لکڑی جس کے سرے پر آگ لگا کر بچے کھیلتے ہیں ۔ گویا وہ اس سے دوسرے لڑکوں کو ہزیمیت دیتے ہیں اور کمینے ( وفی ) شخص کے متعلق ھزم واھتزم کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔- حزب - الحزب : جماعة فيها غلظ، قال عزّ وجلّ : أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف 12] - ( ح ز ب ) الحزب - وہ جماعت جس میں سختی اور شدت پائی جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف 12] دونوں جماعتوں میں سے اس کی مقدار کسی کو خوب یاد ہے
(١١۔ ١٢) اور وہاں جاکر دیکھیں کہ کیا آپ کو نبوت ملی ہے یا نہیں اور کیا آپ پر قرآن کریم نازل کیا گیا ہے یا نہیں مقام بدر پر جہاں انہوں نے رسول اکرم کے خلاف سازش کی تھی محض ان لوگوں کی ایک بھیڑ ہے اور منجملہ اور کافروں کے یہ کفار مکہ بھی ہیں جو بہت جلد شکست دیے جائیں گے۔ چناچہ سب کے سب بدر کے دن مارے گئے۔
آیت ١١ جُنْدٌ مَّا ہُنَالِکَ مَہْزُوْمٌ مِّنَ الْاَحْزَابِ ” یہ بھی ایک لشکر ہے (پہلے ہلاک کیے گئے) لشکروں میں سے ‘ جواَب یہاں ہلاک ہوگا۔ “- اگلی آیات میں قوم نوح ( علیہ السلام) ‘ قوم ہود ( علیہ السلام) ‘ قوم لوط ( علیہ السلام) ‘ قوم شعیب (علیہ السلام) اور آلِ فرعون کے عبرتناک انجام کا ذکر ہے۔ مطلب یہ کہ جو روش اختیار کر کے ماضی کی یہ اقوام ہلاکت سے دو چار ہوئیں ‘ وہی روش اب قریش ِمکہ ّبھی اپنائے ہوئے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ بھی مذکورہ اقوام جیسے انجام سے دو چار ہونے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔
سورة صٓ حاشیہ نمبر :12 اسی جگہ کا اشارہ مکہ معظمہ کی طرف ہے ۔ یعنی جہان یہ لوگ یہ باتیں بنا رہے ہیں ، اسی جگہ ایک دن یہ شکست کھانے والے ہیں اور یہیں وہ وقت آنے والا ہے جب یہ منہ لٹکائے اسی شخص کے سامنے کھڑے ہوں گے جسے آج یہ حقیر سمجھ کر نبی تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہیں ۔
6: مقصد یہ ہے کہ جو بڑی بڑی قومیں پہلے گذری ہیں، ان کے مقابلے میں یہ لوگ ایک چھوٹا سا لشکر ہیں جو خود اپنے وطن میں شکست کھا جائے گا۔ یہ فتح مکہ کی پیشین گوئی ہے، اور واقعہ بھی یہی ہوا کہ یہ سارے بڑے بول بولنے والے فتح مکہ کے موقع پر ایسی شکست کھا گئے کہ مکہ مکرمہ پر ان کا کوئی اقتدار باقی نہیں رہا۔